کون صحیح اور کون غلط؟

کون صحیح اور کون غلط؟

آبیناز جان علی، موریشس

استانی حسنیٰ پہلی جماعت کے بچوں کو ریاضی پڑھا رہی تھیں۔ آپ نے اسمٰعیل سے پوچھا: ”اگر میں تم کو دو آم دوں اور اس کے بعد دو اور آم دوں، تو تمھارے پاس کتنے آم آجائیں گے؟“ اسمٰعیل نے جواب دیا: ”پانچ“
استانی حسنیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ سے دو انگلیوں کی طرف اشارہ کیا اور اپنے بائیں ہاتھ سے بھی دو انگلیوں کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ لاتے ہوئے استانی نے دوبارہ پوچھا: ”اسمٰعیل اگر میں تم کو دو آم دوں اور اس کے بعد دو آم اور دوں، تو تمھارے پاس کتنے آم آجائیں گے؟“
اسمعٰیل نے دوبارہ کہا: ”پانچ۔“
استانی حسنیٰ مایوس ہوگئیں۔ تب انھیں یاد آیا کہ اسمٰعیل کی والدہ نے بتایا تھا کہ اسمٰعیل کو آم پسند نہیں تھا۔ اسے لیچی پسند تھی۔ چنانچہ استانی حسنیٰ نے اپنی مثال بدلی۔
”اسمٰعیل، اگر میں تم کو دو لیچیاں دوں اور اس کے بعد تم کو پھر سے دو لیچیاں دوں تو تمہارے پاس کتنی لیچیاں آجائیں گیں؟
”چار۔“ اسمٰعیل نے جواب دیا۔
استانی حسنیٰ خوش ہوئیں کہ مثال بدلنے کے بعد اسمٰعیل صحیح جواب دے پایا۔ استانی حسنیٰ اس بات کا یقین دلانا چاہتی تھیں کہ اسمٰعیل ریاضی کا یہ سبق پوری طرح سمجھ گیا ہے۔ اس لیے آپ نے ایک بار پھر پوچھا: ”اسمٰعیل، اگر میں تم کو دو آم دوں اور اس کے بعد دو آم اور دوں تو تمھارے پاس کتنے آم آجائیں گے؟“
اسمٰعیل نے جواب دیا: ”پانچ۔“
استانی حسنیٰ کو غصّہ آگیا: ”جب دو اور دو لیچییاں چار ہوتی ہیں تو دو اور دو آم پانچ کیسے ہوسکتے ہیں؟
اسمٰعیل نے جواب دیا: ”استانی میرے بستے میں پہلے سے ایک آم موجود ہے۔“
اب کون صحیح تھا اور کون غلط تھا؟ کیا استانی غلط تھیں؟ نہیں، کیونکہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ کیا اسمٰعیل غلط تھا؟ نہیں، کیونکہ دو اور دو چار ہوتے ہیں اور اس کے بستہ میں ایک زائد آم تھا۔ اس طرح اس کے پاس پانچ آجائیں گے۔
لوگوں میں اکثربحث ہوجاتی ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کا ہی نظریہ صحیح ہے۔ لیکن دونوں اپنی جگہ درست ہیں۔ جب اسمٰعیل نے کہا کہ اس کے پاس پانچ آم ہیں تو وہ غلط نہیں تھا۔ وہ اپنے خیال میں آگے نکل گیا۔ وہ اس چیز کودیکھ رہا تھا جو اس وقت استانی کو نظر نہیں آرہی تھی۔ اکثر جب لوگ بحث کرتے ہیں تو ان میں ایک شخص کو وہ دکھائی نہیں دیتا جو دوسرا اس کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہے۔ کبھی کبھی بچوں کو لگتا ہے کہ ان کے والدین ان کے بھائی یا بہن سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ بچے والدین کے غصّے کے پیچھے چھپے پیار کو پہچان نہیں پاتے۔ والدین کو بھی لگ سکتا ہے کہ بچے ان کی بات نہیں مان رہے ہیں۔ ظاہراً ان کی اولاد ان کی بات نہیں مان رہے ہیں۔ لیکن کیا والدین بچوں کی شرارت کے پیچھے چھپی بات سمجھنے میں کامیاب ہورہے ہیں؟
جب کبھی آپ کو کوئی نظر آئے جو آپ کی توقع کے مطابق بات نہیں کر رہا ہے، جلد بازی میں ان کے بارے میں رائے قائم نہ کریں۔ ان کے رویے کے پیچھے راز کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ شاید آپ کو وہ آم نظر آئے جو پہلے نظر نہیں آیا تھا۔ اس طرح آپ دوسرے کو سمجھ پائیں گے اور آپ اپنے مسئلہ کا حل نکال پائیں گے۔

آبیناز جان علی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: سمندر کی دوستی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے