بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وبربریت کا طوفان !

بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وبربریت کا طوفان !

✒️سرفراز احمد قاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

ملک بھر میں اس وقت جو حالات ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں، پورے ملک میں افراتفری مچی ہوئی ہے، بے اطمینانی اور غیر یقینی کیفیت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے، شدت پسندی کا عالم یہ ہے کہ ملک کی ہر ریاست اور تقریباً ہر شہر میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیاگیا ہے، ماحول اس حدتک پراگندہ ہوگیاہے کہ لوگ اب اپنے پڑوسیوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں، آج ہمارا ہندستان انتہائی مشکل دور سے گذر رہاہے، ملک میں شاید ہی اب کوئی ایسا دن گذر رہاہے جب فرقہ وارانہ جنونیت کا کہیں نہ کہیں کوئی مظاہرہ نہ کیاجارہا ہو، ایسا محسوس ہوتاہے کہ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کے ذہنوں میں فرقہ پرستی اورشدت پسندی کا ایسا زہر گھول دیاگیاہےکہ اب اس کے علاوہ انھیں کوئی بات ہی سمجھ میں نہیں آتی، اور وہ مسلسل فرقہ واریت کے جنون کا شکار ہوتے جارہے ہیں، گذشتہ چند دنوں کے دوران اس طرح کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ ایسے واقعات پہلے پیش نہیں آئے بلکہ پہلے بھی درجنوں ایسے واقعات رونما ہوئے، جس کے نتیجے میں ہجومی تشدد کے ذریعے بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا، تاہم ان واقعات میں کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت حد تک کمی آگئی تھی، لوگ بحران کی کیفیت سے دوچار اپنے اپنے مسائل کو لے کر پریشان تھے، لیکن جیسے ہی اترپردیش الیکشن کےلیے وقت قریب آنے لگا ہے، ملک بھر میں اس طرح کے واقعات میں تشویشناک حدتک اضافہ ہوگیاہے، کہیں چوڑیاں فروخت کرنے والے کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہیں اسکراپ فروخت کرکے گذر بسر کرنے والے مسلم شخص کو ٹارگیٹ کیاجارہا ہے، اور حیرت اس بات کی ہے کہ ایسے واقعات پر حکومت کی جانب سے کوئی بیانات بھی آرہے اور نا ہی اس کی مذمت کی جارہی ہے، اورنہ اس پرروک لگانے کےلیے کوئی معمولی قدم اٹھایا جارہا ہے،
پھرکیا یہ سمجھنا غلط ہے کہ یہ سب حکومت کے اشارے پر ہورہاہے؟ آخر حکومت اس طرح کے واقعات کی روک تھام کےلیے سنجیدہ کیوں نہیں ہے؟ کیا ایسے واقعات ملک کی پیشانی پر بدنما داغ نہیں ہیں؟ ملک کا میڈیا بھی ایسے واقعات سے چشم پوشی کیوں کررہاہے؟ کیا یہ سنگین مسئلہ نہیں ہے؟مدھیہ پردیش کے اجین کے ایک گاؤں میں، دو نوجوانوں نے اسکراپ کا کاروبار کرنے والے ایک مسلم تاجر کو پکڑ لیا اور پھر اسے زبردستی جے شری رام کے نعرے لگانے کےلیے مجبور کیاگیا، ان دونوں نوجوانوں نے اس مظلوم شخص کے سازوسامان کو بھی راستے میں پھینک دیا،اور کہاکہ اگر یہاں تجارت کرنا ہے تو یہ نعرہ تمہیں ہرحال میں لگانا ہوگا، پولس نے ان دونوں کو گرفتار توکرلیا اورمقدمہ بھی درج کیاہے، لیکن سوال یہ ہےکہ آخر اس حدتک فرقہ واریت کاجنون کیوں پیدا ہوگیاہے؟ وہ کون سے عوامل وعناصر ہیں جن کی وجہ سے نوجوانوں کے ذہنوں میں مستقبل اورترقی کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ وہ ہندو مسلم کی نظر سے سماج کو دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں، ان نوجوانوں کو ملک وقوم کو درپیش مسائل کی کوئی فکر کیوں نہیں ہے؟ وہ ملک کی ترقی میں اپنا رول اداکرنے کی فکر کیوں نہیں کررہےہیں؟ ایسے لوگ فرقہ واریت کی جنون کا شکار کیوں ہوگئے ہیں؟ اجین کے سیکلی نامی گاؤں میں یہ واقعہ دوتین دن قبل پیش آیا، ملک بھر میں ایسا لگتاہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت فرقہ واریت کے جنون کو تھمنے کا موقع نہیں دیاجارہاہے، ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ چل پڑتاہے، لیکن یہ بات بھی غور طلب ہےکہ آخر ایسے واقعات کا تعلق اکثر اترپردیش،مدھیہ پردیش یا پھر انھی ریاستوں سے کیوں ہوتاہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے؟ مدھیہ پردیش کے اس واقعہ سے قبل بریلی اور اندور میں بھی ایک ہفتے کے اندر ایسے واقعات پیش آئے، اندور شہر میں چوڑیاں فروخت کرنے والے ایک مسلم نوجوان کو جنونیت پسندوں نے اپنی بزدلی کانشانہ بنایا اور درجنوں افراد نے مل کر ایک نوجوان پر اپنی بھڑاس نکالی اور اسے زدوکوب کرنے کے علاوہ ان کے پیسے اور موبائیل چھین لیے گئے، اس کے سازوسامان کو تباہ کردیاگیا، بریلی میں بھی ایک ہجوم نے مسلم شخص کو نشانہ بنایا. ان کے ساتھ ظلم وزیادتی اور مارپیٹ کی، ان سے زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے گئے، آپ کو یاد ہوگا کچھ دن قبل اترپردیش کے کانپور میں بھی اسی طرح کا واقعہ ایک رکشہ چلانے والے مسلم نوجوان کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، اس کی چھوٹی معصوم بچی اپنے باپ کو بچانے کےلیے فریاد کرتی رہی، لیکن ہجومیوں نے ایک نہ سنی اور اس مسلم رکشہ راں کو پیٹاگیا، ان پر غلط الزامات عائد کیے گئے، اس طرح کے واقعات پورے ملک میں یکے بعد دیگرے پیش آتے جارہے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مقامی انتظامیہ اورحکومتیں کتنی سنجیدہ ہیں؟ ایسے واقعات کا ظہور ہوتارہے اورسماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھلتارہے، حکمراں طبقے کی سوچ یہ ہے کہ اسی طرح اپنے سیاسی عزائم اور منصوبوں کو پورا کیا جاسکتاہے، عوام کے درمیان ان کے مسائل پر بات کرنے اورحکومت کی کارکردگی پیش کرنے کے لیے تو کوئی لیڈر تیار نہیں ہے، ایسے میں صرف فرقہ پرستی کی آگ بھڑکاتے ہوئے ہی سیاسی روٹیاں سینکی جارہی ہیں، افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ذمہ داران کی جانب سے ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کے بجائے حملہ آوروں اور جنونیت پسندوں کے حق میں جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو حکام اور انتظامیہ کی متعصب ذہنیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، اندور میں ایک نہتے مسلم نوجوان جو اپنی روزی روٹی کمانے میں مصروف ہے، ان کو پیٹا جاتاہے، ان سے رقم چھین لی جاتی ہے، اس کے مال کوتباہ کردیا جاتاہے، اتنا سب ہونے کے باوجود ریاست کے وزیر داخلہ اس پر یہ جواز پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ اس نوجوان نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی، سوال یہ ہے کہ ہجوم کو آخر کس نے یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ کسی کی شناخت پر سوال کرے؟ اگر متاثرہ نوجوان کے تعلق سے کسی کو کوئی شک وشبہ یا اندیشہ تھا تو پولس کو مطلع کیاجاتا، جنونیت پسندوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کس نے دیا؟ راجستھان میں بھیک مانگنے والے مسلم شخص کوصرف اس لیے جی بھرکر پیٹاگیا کہ وہ مسلم تھا، زدوکوب کرنے کے بعد ان سے کہاگیا کہ اگر بھیک مانگناہے تو پاکستان جاؤ، کیااب کسی ضرورت مند اورفقیر کواپنا مذہب ظاہر کرنا پڑےگا تب ہی ان کی مدد کی جائےگی؟
جہاں تک پولس کا سوال ہے تو اب پولس متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے حملہ آوروں اور ظالموں کو بچانے کی بہت حدتک کوشش کرتی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ جن کے زہریلے نعروں کی وجہ سے دہلی میں فساد برپا ہوا، جنتر منتر پر نفرت انگیز نعروں کے ذریعے فضا کو مسموم کی گئی آج تک ان کے خلاف پولس نے کوئی کارروائی نہیں کی، لیکن کوئی معاملہ جب مسلمانوں سے متعلق کردیاجائے تب دیکھیے ملک کی پولس کیسے حرکت میں آجاتی ہے اور فوری کارروائی شروع کردیتی ہے، شاہین باغ، جامعہ ملیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت پورے ملک میں آپ نے دیکھا کہ پولس کتنی تیزی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرتی نظرآئی، دہلی فساد کے موقعے پر بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاگیا، جب کہ اصل مجرم آزادی کے ساتھ آج بھی گھوم رہے ہیں.
بھارت میں بے روزگاری عروج پر ہے، کورونا وبا نے بے شمار مسائل پیدا کردیے ہیں، لاکھوں افراد فوت ہوچکے ہیں، کروڑوں افراد اس وبا سے متاثر ہیں، نہ جانے کتنے خاندان اجڑگئے، ہم نے وہ دور بھی دیکھا کہ کورونا مہاماری کے دوران لوگوں کے پاس اپنوں کی آخری رسومات ادا کرنے تک کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی، ہاسپٹل اور دواخانوں میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے، آکسیجن کےلیے لوگوں نے تڑپ تڑپ کر سانسیں توڑی ہے، ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے، ہر ضروری اور لازمی شے کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں، نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہاہے، جو روزگار موجود ہیں ان کی کوئی ضمانت نہیں رہ گئی ہے، سرکاری اثاثہ جات کو حکومت کی جانب سے مسلسل فروخت کیاجارہا ہے، کئی ایک ایسے ادارے جو عوامی ملکیت تھے اسے پرائیویٹ کمپنیوں کو سونپ دیاگیاہے، پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتیں 70سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ہوگئی ہیں، عوام دووقت کی روٹی کے لیے مجبور ہوگئے ہیں، خواتین کی عزت وآبرو تک محفوظ نہیں رہ گئی ہے، دلت خواتین اور لڑکیوں کی مسلسل اجتماعی عصمت ریزی ہورہی ہے، اور انھیں قتل کیاجارہا ہے، ثبوت مٹائے جارہے ہیں، اپنی بیٹیوں کےلئے جدوجہد کرنے والوں کو پولس تحویل میں موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے، کیا یہ سب نفرت،شدت پسندی،غنڈہ گردی اور ظلم وبربریت نہیں ہے؟ آخر ان چیزوں پر لگام لگانے کےلیے حکومت نے کیااقدام کیا؟ کیا اس طرح بھارت متحد رہ کر مضبوط اور طاقتور بن سکے گا؟ اوپر جو واقعات بیان کیے گئے یہ چند بیان کئےگئے ہیں اور اس میں غریب مزدور وعام مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیاہے لیکن ملک میں مسلم لیڈران اور پڑھے لکھے لوگ بھی ظلم وستم اور جبر و تشدد اور ناانصافیوں سے محفوظ نہیں ہیں، چاہے وہ اعظم خان ہوں، مختار انصاری ہو، شفیق الرحمن برق ہو، مولانا سجاد نعمانی ہوں، ڈاکٹرظفرالاسلام ہوں یا پھر جسٹس عقیل قریشی ہوں. یہ سب کے سب حکومت کی ناانصافی، پولس کی تنگ نظری اور نفرت و تعصب کی وجہ سے ظلم وستم کا شکار ہیں، اورایساصرف ان کے مسلمان ہونے کے سبب ہورہاہے، ایک بیان کو بہانہ بناکر ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اور مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی پر ایف آئی آر درج ہوسکتاہے، لیکن دہلی فساد کے ملزم انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا جیسے لوگوں پرکوئی ایف آئی آر نہیں ہوسکتا، دہلی کے جنترمنتر پر مسلم مخالف اوراشتعال انگیز نعرے بازی حکومت کے نزدیک کوئی جرم نہیں ہے.
اعظم خان اور مختار انصاری وغیرہ انتقامی سیاست کے شکار ہیں، جسٹس عقیل قریشی کے بارے میں سینئر صحافی اور انقلاب کے ایڈیٹر محترم ودود ساجد صاحب لکھتے ہیں کہ”سپریم کورٹ نے پہلی بار اتنی زیادہ تعداد میں ججوں کی تقرری دیکھی ہے لیکن یہ بھی پہلی بار ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 9 نئے ججوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ملک بھر کی ہائی کورٹس میں ایک بھی مسلم جج اس صلاحیت کا نہ ہو کہ جسے سپریم کورٹ کے لیے منتخب کیاجاسکے، لیکن ایک نام ایسا ضرور ہے کہ جس کے ساتھ فرقہ وارانہ بنیاد پر ہی نہیں بلکہ حکومت کی ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر کھلی ناانصافی کی گئی ہے، جسٹس عقیل قریشی اس وقت تری پورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں، بنیادی طور پر انھیں سپریم کورٹ کالجیم نے 2019 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کےلئے منتخب کیاتھا، لیکن مودی حکومت نے اس پر سخت اعتراض کیا اور اس وقت کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کالجیم کی قرارداد میں ترمیم کرکے انھیں تری پورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر پیش کردیا، یہ نکتہ دل چسپی سے خالی نہیں کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں 40 جج ہوتے ہیں جب کہ تری پورہ ہائی کورٹ میں صرف 5 جج، حکومت کو اعتراض تھاکہ جسٹس عقیل قریشی کو اتنی بڑی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کیوں بنایاجارہاہے؟ جسٹس قریشی دراصل بنیادی طور پر گجرات ہائی کورٹ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ 2019 میں گجرات ہائی کورٹ کے سب سے سینئر جج تھے، اس اعتبار سے انھیں گجرات ہائی کورٹ کا ایکٹنگ چیف جسٹس بنایاجانا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی انکا ممبئی ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیاگیا، جس پر گجرات ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن نے سخت اعتراض کیا، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ہڑتال بھی کی گئی، یہاں تک کہ ممبئی ہائی کورٹ کے بار ایسوسی ایشن نے بھی ان کے ساتھ اس سلوک پر اعتراض کیا، واضح رہے کہ جسٹس قریشی ججوں کی آل انڈیا رینکنگ میں دوسرے سب سے سینئر جج ہیں، پہلے نمبر پر کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اے ایس اوکا تھے، جنھیں اب سپریم کورٹ میں جج بنادیاگیا ہے، 9 نئے ججوں میں بھی وہی اس وقت سینئر ہیں، جسٹس اوکا کے ساتھ جسٹس عقیل قریشی کو بھی سپریم کورٹ میں بلایا جانا چاہئے تھا، لیکن باقی 8 ایسے ججوں کو منتخب کیاگیا جو جسٹس قریشی سے بہت جونیئر ہیں، اب سوال یہ ہے کہ جسٹس عقیل قریشی سے مودی حکومت کو ایسی کیا پریشانی، پرخاش اور عداوت ہے کہ وہ گجرات ہائی کورٹ سے ان کا پیچھا کرتی آرہی ہے اور انھیں ایسے ہر موقع پر زک دینا چاہتی ہے کہ جس کے بعد سپریم کورٹ میں ان کا آنا مشکل ہوجائے، اس سوال کا جواب بہت آسان ہے، اس کے لیے دستاویزات کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ جسٹس عقیل قریشی ہی وہ جج تھے جنھوں نے (موجودہ وزیر داخلہ) امیت شاہ کو 2010 میں سہراب الدین شیخ کے انکاؤنٹر کے معاملے میں پولس کی حراست میں بھیج دیاتھا، امت شاہ گجرات میں بھی وزیر داخلہ تھے، ان کے پاس اس کے علاوہ بھی بہت سی وزارتیں تھیں”
سنی آپ نے یہ کہانی؟ یہ ہے جسٹس عقیل قریشی کا اصل جرم جس کی وجہ سے ان کے ساتھ اتنی بڑی ناانصافی کی گئی.
دیکھا آپ نے ایک مسلم اور قابل جج کے ساتھ جب ظلم وزیادتی اور ناانصافی ہورہی ہے تو پھر عام مسلمانوں کے ساتھ اس ملک میں انصاف کیسے ہوگا؟آخر ہمارا ملک کس راستے پر جارہا ہے؟ کیا ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کب تک مسلمانوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا طوفان برپا ہوتارہےگا؟ آخرکب بھارت میں ہمارے ساتھ عدل وانصاف ہوگا؟ کیا یہی دن دیکھنے کےلیے ہم نے اس ملک کو آزاد کرایا اورقربانیاں دیں؟ بھارت کی حالت گذشتہ چند برسوں میں جو ہوئی ہے اس پر امریکہ تک کو تشویش ہے، اسی سال مارچ میں امریکی وزیر خارجہ نے انسانی حقوق سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کیاتھا، اس رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ”ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں، غیر معمولی طور پر وہاں انسانی حقوق کے مسائل سنگین بنتے جارہے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں پر بھی سرکاری حکام اور پولس کی جانب سے ظلم وزیادتیاں کی جارہی ہیں، ان پر تشدد کیا جارہا ہے، پولس ماورائے عدلیہ کارروائی کرتے ہوئے بے قصور اقلیتوں کو ہلاک کررہی ہے، اندھا دھند گرفتاریاں کی جارہی ہیں. اظہار خیال کی آزادی پر پابندی عائد کرتے ہوئے جیل میں ڈالا جارہا ہے، صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، خواتین، مذہب کی بنیاد پر اورسماجی رتبے کے حامل افراد کے بشمول اقلیتی گروپ کے ارکان کو پرتشدد نشانہ بناتے ہوئے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجارہا ہے، ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے گروپوں کو سب سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے، امریکی رپورٹ میں ہندوستانی وزارت داخلہ کی 2016 سے لے کر 2017 تک کی رپورٹ کے اعدادوشمار کا بھی تذکرہ کیاگیا، جس کے مطابق مذکورہ ایک سال کے عرصے میں فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی بنیادوں پر تشدد میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، امریکہ نے دنیا میں انسانی حقوق سے متعلق یہ بھی نوٹ کیاکہ ایران، چین،روس اور شام سمیت کئی ممالک میں اپوزیشن قائدین کو پرتشدد نشانہ بنایا جارہاہے اوران کے خلاف کارروائی کرتےہوئے انھیں جیل میں ڈالا جارہا ہے،کانگریس کو پیش کردہ رپورٹ میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ سے امداد حاصل کرنے والے ممالک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے انسانی حقوق اورشہری آزادیوں کی صورت حال کااحاطہ کیاہے،2020 میں بہت سے بے قصور افراد حکمرانوں کے پیدا کردہ سفاک اور ابتر ماحول میں مصائب کاشکار ہورہے ہیں، رپورٹ میں ہندوستان اور چین کا بطور خاص حوالہ دیاگیاہے"
ملک کی موجودہ صورت حال کو دیکھیے اور اس امریکی رپورٹ کو غور سے پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ اس رپورٹ میں اور بھارت کے موجودہ حالات میں کتنی یکسانیت ہے، جب کہ یہ رپورٹ کئی ماہ قبل پیش کی گئی ہے، اب تو ہرگذرتا دن مسلمانوں کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہاہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے مسلمان،اس متعصب حکومت پر بھروسہ کرنے کے بجائے کوئی قدم اٹھانے کےلئے تیار ہیں؟
(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:قومی اثاثہ جات کی فروخت، مودی حکومت کا ایک اور’ کارنامہ `

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے