ہر شخص ملک کی ترقی و سلامتی کا خواہاں ہے

ہر شخص ملک کی ترقی و سلامتی کا خواہاں ہے

(بشرطے کہ اسے مکمل آزادی حاصل ہو)

محمد قاسم ٹانڈؔوی
09319019005

آج ہمارا یہ پیارا ملک اپنی آزادی کی 75/ویں سال گرہ منا رہا ہے، ملک کی فضا مسرت و شادمانی کے نغموں سے سرشار اور مجاہدین آزادی کے کارناموں کو دہرانے سے گونج رہی ہے۔ اس قابل فخر دن میں لوگ اپنے اپنے طور پر جمع ہو کر جشن آزادی مناتے ہیں اور جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنا جان و مال نچھاور کیا تھا؛ انھیں یاد کرتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
آزادی، ہر انسان کا فطری اور پیدائشی حق ہوتا ہے، جسے گنوانا یا چھوڑنا ایک سلیم الفطرت اور ہوش مند آدمی اپنی غیرت و خوداری کے خلاف اور اپنے مذہب کی تعلیمات کے منافی عمل تصور کرتا ہے، اور یہ آزادی اسے اپنے ہر عمل میں محبوب و مطلوب ہوتی ہے، برخلافِ غلامی کہ: وہ اسے ایک ناپسندیدہ شے اور اپنے حقوق کے تئیں گناہ عظیم سے تعبیر کرتا ہے۔
آج سے 75/ سال قبل جب اس ملک کو آزادی نصیب ہوئی تھی تو اس آزادی کے حصول میں سبھی طبقات و خاندان کے لوگوں کی شمولیت رہی تھی اور سبھی نے مل کر ملک آزاد کرایا تھا، یہ الگ بحث ہے کہ کس طبقہ کے افراد نے کتنا حصہ لیا اور اس سلسلے میں کیا اس کا تعاون رہا؟ مگر اتنا ضرور ہے کہ اس دولت و نعمت کو حاصل کرنے میں سبھی یک جٹ و متحد تھے، جنھوں نے اپنے اتحاد و اتفاق کا شان دار مظاہرہ کرتے ہوئے انگریزوں کو سرزمین ہندستان سے بےدخل کیا تھا اور اس کے اس دعوی کو خاک نشیں کیا تھا کہ: "ہماری حکومت کے سورج کو زوال نہیں"۔
ہم سب بڑے خوش قسمت ہیں کہ آج ہم آزاد ہیں اور قید و بند سے پاک فضا میں سانسیں لے رہے ہیں، جس کے لیے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے ان اکابر و بزرگوں کا شکر گزار ہو جنھوں نے ملک کی اس آزادی میں حصہ لیا اور ہر شخص کو اپنے اس ملک اور وطن عزیز کی سلامتی، اس کے تحفظ اور آئین و دستور کے تئیں فکر مند بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ آزادی کا حصول چند ماہ یا سال دو سال کی کہانی نہیں اور نہ ہی ایسا ہے کہ چند اشخاص کے ملنے اور لڑنے سے یہ دولت عظمی ہاتھ آگئی ہو، بل کہ اس کے حصول میں ڈھائی سو سال کی طویل جد و جہد اور وقت کے عظیم ترین اشخاص کے دماغوں کی ایجادات و قربانیاں سے پر سنہری تاریخ پنہاں ہے، جسے آج اکثر و بیش تر فراموش کیے بیٹھے ہیں اور عوام و خواص میں سے کوئی ان کا نام لیوا تک نہیں۔
لیکن آزادی کے اس پر مسرت موقع پر بڑے ہی افسوس کے ساتھ یہ رقم کرنا پڑ رہا ہے کہ: "گذشتہ چند سالوں سے مٹھی بھر شدت پسندوں اور اپنے ملک کی تاریخ سے ناواقف لوگوں نے اس ملک کی فضا کو مکدر اور یہاں کے امن و امان کو آگ لگا رکھی، انسان نما بھیڑیوں کا یہ جتھا موقع پاتا ہے اور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ کہیں مذہب کے نام پر اور کہیں برادری و علاقے کا سہارا لے کر یہ انسانی جانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں، ایک غریب مزدور کے لیے اپنے گھر سے دور اپنے بال بچوں کی روزی روٹی کے واسطے جانا آج خطرہ سے خالی نہیں رہا، اس لیے کہ رکشہ چلانے والا ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہے، مندر سے پانی پینے پر کم سن بچے اور راہ چلتی عورتیں ان کے عتاب کا شکار ہیں۔ آئے دن "لو جہاد اور گو ماتا” کے نام پر مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو مارنا اور دردناک و اذیت ناک سزا دینا، ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا قانون ہے، جسے وہ جب چاہتے ہیں استعمال میں لاتے ہیں"۔
یہ وہ مختصر گفتگو ہے، جو ہمیں حاصل شدہ آج کی آزادی پر نہ صرف ماتم و افسوس کرنے پر مجبور کرتی ہے، بل کہ ہمارے اکابر و بزرگ اور علماے کرام کی طرف سے آزادی کی جنگ میں جو بے لوث قربانیاں دی گئی تھیں، ان کے مقاصد کو سمجھنے میں حجاب بنی ہوئی ہیں۔ کیا اس ملک کی دھرتی ہمارے خون سے کم لال ہوئی ہے؟ کیا ملک کو آزادی دلانے میں ہمارے بزرگوں نے اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش نہیں کیا تھا؟ کیا شاملی کا میدان، دہلی کا چاندنی چوک، ہاوڑہ کا پل اور گنگا کا کنارہ ہمارے اکابرین و مجاہدین کی جد وجہد اور انتھک کوششوں کا گواہ نہیں ہے؟ آزادی کی پوری ڈھائی سو سالہ تاریخ میں کوئی ایک جنگ اور معرکہ ایسا نہیں دکھا سکتے جس میں ہمارے علماے کرام نے حصہ نہ لیا ہو اور اپنی جانوں کو قربان نہ کیا ہو، اس کے برخلاف دکھایا جاسکتا ہے، بل کہ یہ سچ ہے کہ اولین دوسو سالہ جنگ آزادی میں ہمارے اکابرین و مسلمان تن تنہا انگریزوں سے سینہ سپر رہے اور اکیلے اس کو چنے چباتے اور دانت کھٹے کرتے رہے، اس دوران دور دور تک برادران وطن کی شمولیت کا کوئی ثبوت اور حوالہ نہیں ملتا، ہم اس پر بھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتے، اس لیے کہ غلامی کے مقابلے آزادی کے مفہوم کو دنیا میں آباد اگر کوئی قوم صحیح ڈھنگ سے سمجھ سکتی ہے، تو وہ مسلمان قوم ہی ہے، جیسے ایک مسلمان کو اپنے ایمان کی فکر ہوتی ہے، ویسے ہی اس کے نزدیک شخصی و مذہبی آزادی کا مفہوم عیاں ہوتا ہے اور وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی گنوانا پسند نہیں کرتا، اس لیے سب سے پہلے ہمارے اکابر و بزرگ میدان میں اترے اور جہاد کا فتوی صادر فرمایا۔
ایسے میں آج ضرورت ہے کہ ملک کی آزادی، اس کی سلامتی اور وہاں کے باشندوں کو آئین و دستور کی طرف سے ملنے والے حقوق و مراعات کی مکمل فکر کی جائے، اور بلا تفریق مذہب و ملت اس دولت آزادی کا تحفظ کیا جائے، یہ ملک ہمارا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں، آج اگر اس کے تحفظ اور آئین و دستور کی پاس داری نہیں کی گئی اور ملک میں گھومنے والے دنگائی اور افرا تفری مچانے والوں پر وقت رہتے کارروائی نہیں کی گئی تو پھر سمجھ لیجیے کہ نقصان سبھی کا ہوگا۔ آج جو شر پسند عناصر ٹولہ اپنی مذموم حرکتوں سے اس ملک کو توڑنے اور وطن کو تقسیم کرنے کی پلانننگ کر رہے ہیں، وہ اس بات کو اچھے سے ذہن نشیں کر لیں کہ یہ ملک مزید تقسیم کا متحمل نہیں ہے، بل کہ اس ملک کی خوب صورتی آپس کے میل جول اور باہمی پیار و محبت میں پوشیدہ ہے، اس لیے وہ اپنے ناپاک عزائم کو ترک کریں اور قومی اتحاد و اتفاق کے ساتھ ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کی فکر و جستجو کریں۔ اور جس طرح ملک کے آئین نے ہر شخص کو مکمل آزادی کا حق دیا ہے، اسے اسی آزادی کے تحفہ اور سوغات کے ساتھ جینے دیا جائے؛ اس لئے کہ ہر شخص اس بات کا خواہاں ہے کہ اسے بھی ملکی وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار نبھانا چاہیے اور کسی بھی موقع پر اپنے ملک کی آزادی کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ شرط یہ ہے کہ: اسے بھی مکمل آزادی حاصل ہو.
(mdqasimtandvi@gmail.com)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : ملک کے پُر آشوب حالات اور دو اہم سیاست داں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے