اردو کا پہلا بین الاقوامی ادبی جریدہ سہ ماہی ”ورثہ“

اردو کا پہلا بین الاقوامی ادبی جریدہ سہ ماہی ”ورثہ“

مظفر نازنین، کولکاتا، انڈیا
دنیائے اردو کا پہلا بین الاقوامی ادبی جریدہ سہ ماہی ”ورثہ“ کا شمارہ جولائی تا ستمبر 2021 ء نظر نواز ہوا۔ بلا شبہ سہ ماہی ’ورثہ‘ عالمی اردو ادب و ثقافت کا نمائندہ ہے۔ سہ ماہی ’ورثہ‘ کے سر پرست معروف ادیب و محقق گوپی چند نارنگ ہیں۔ اس کے نگراں ڈاکٹر پیر زادہ قاسم اور مدیر اعلیٰ رئیس وارثی صاحب ہیں جب کہ مدیر و ناشر نصیر وارثی صاحب ہیں۔
جریدہ بے حد خوب صورت، نہایت دیدہ زیب ٹائٹل پیج کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ جن میں دنیا بھر کے شعرا و ادبا کی شاہ کار تخلیقات کو یکجا کر کے اس حسین رسالے کو ترتیب دیا گیا ہے۔ مختلف عناوین کے تحت شان دار مضامین بلا شبہ ہم اردو والوں کی ذہنی تشنگی کی تسکین کا بہترین ذریعہ ہیں۔
صبا عالم کا حمد باری تعالیٰ روح کو تازگی ملتی ہے اور  ذیشان حیدر جوادی کی تخلیق کردہ نعت  پڑھ کر مدینے کا روح پرور منظر نظر کے سامنے آجاتاہے۔ مدیر اعلا رئیس وارثی کا اداریہ ”ادبی سرگرمیوں پر کورونا کے اثرات‘‘ نظر سے گذرا جو حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں بہت خوب ہے۔ یوں رقم طراز ہیں: اس عالم گیر مہلک وبا کے باعث اردو ادب میں حزن و وبا کی، رنج و ملال، سراسمیگی کی کیفیت طاری ہے۔ کورونا کے سبب نامور شعرا اور ادبا کی وفات سے اردو برادری غم و اندوہ میں مبتلا ہے۔ اور اکابرین ادب کی رحلت پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

مدیر نصیروارثی صاحب کا مضمون ’کلام اقبال میں ذکر اہل بیت‘ بہت پسند آیا۔ جس میں موصوف نے اقبال کے چند نعتیہ اشعار کا ذکر کیا ہے۔ جو قارئین کی فن شناس نظروں کی نذر ہے۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے 
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا 
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن، وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طحہٰ
اس مضمون کو پڑھ کر مجھ پر حکیم الامت شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی شخصیت کے کچھ اہم پہلو اور رموز آشکار ہوئے۔

فاطمہ حسن کا مضمون ’جدید اردو غزل پر میرؔ کے اثرات‘ بہت ہی جامع مضمون ہے۔ جہاں میرؔ کی برتری کا اعتراف ان کے ہم عصر شعراے کرام نے کیا ہے۔

سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ

ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خان کا مضمون ”فیض کی غزل کا تنقیدی مطالعہ“ پڑھا۔ جہاں موصوف یوں رقم طراز ہیں :
He was a great anthropologist, all his poems based on human friendship sound value. He know the temperment of Ghazal.
ڈاکٹر ارشد اقبال کا مضمون بعنوان ”پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی بحیثیت محقق“ بہت خوب ہے۔ صفحہ 48 پر فردوس احمد بھٹ، ریسرچ اسکالر کا مضمون بعنوان ”نوآبادتی ہندوستان میں تعلیم نسواں کا علم بر دار- ڈپٹی نذیر احمد“ نظر نواز ہوا۔ بلا شبہ ڈپٹی نذیر احمد تعلیم نسواں کے علم بردار تھے۔ ان کے تعلق سے یہ شاہ کار مضمون ہے. ڈاکٹر منور حسین، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، خواجہ معین الدین چشتی لینگوئج یونیورسٹی، لکھنؤ کا مضمون بعنوان ”قائم چاندپوری کی حزینہ تشکیلات کا جائزہ“ بہت خوب ہے۔
تنقیدی مطالعہ کے کالم میں ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کا مضمون بعنوان ”مصر میں اردو زبان و ادب“ ایک نئے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد اشرف کمال کا مضمون بعنوان ”مشرف عالم ذوقی، فکشن اور نئی نسل کے مسائل“ کو پڑھ کر عصر حاضر کے بہترین فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کے حوالے سے اہم معلومات حاصل ہوئے۔
صفحہ 13 پر ”باغ و بہار“ کے حوالے سے ایک خاص کالم ہے۔ جو دراصل فورٹ ولیم کالج کے تعلق سے ہے۔
حنا خراسانی رضوی کا مضمون جو دراصل افتخار حسین عارف صاحب کا انٹرویو ہے، بہت شان دار ہے۔ جہاں افتخار عارف صاحب  ورثہ کو پیغام دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ”جہاں ہم رہ رہے ہیں، ہم کو ان کی حکومتوں کا، ان کے دستور کا احترام کرنا چاہیے۔ ان پر عمل کرنا چاہیے۔ "
راقم الحروف کا مضمون بعنوان ”آہ! ڈاکٹر کلیم عاجز – ایسا شاعر کون ہے، ایسی غزل گائے گا کون“ صفحہ 43 پر شائع ہوا۔ جس کے لیے میں مدیر جناب نصر وارثی صاحب اور پوری ”ورثہ“ ٹیم کی بے حد شکر گذار ہوں کہ انھوں نے ناچیز کے اس مضمون کو بین الاقوامی رسالے میں شائع کیا۔ یہ مضمون دراصل عالمی شہرت یافتہ شاعر پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کے تعلق سے ہے۔
محی الدین ہمدم بنگلہ دیش کا مضمون ”مآل کار“ بہت پسند آیا۔ جس میں چند خوب صورت اشعار ہیں۔ جو میں قارئین کی فن شناس نظروں کے سامنے رکھ رہی ہوں:
نہ کوئی جب ملی منزل لٹا رب کارواں اپنا
بھٹکتا چھوڑ کر ہم کو گیا رہبر کہاں اپنا
وہ گلشن بھی ہمارا ہے، غلط نکلا گماں اپنا
نہ گلشن یہ کوئی حق تھا نہ اب باغباں اپنا
صفحہ 33 پر محمد اشرف کمال کا مضمون ہے۔
ڈاکٹر ارشد میاں، گورنمنٹ کالج، ٹونک راجستھان کا مضمون ”عہد حاضر کا ایک کلاسیکی شاعر بسمل سعیدی“۔ ڈاکٹر محمد وسیم رضا کا مضمون ”فیض غم جاناں سے غم دوراں تک“۔ ڈاکٹر شہناز قادری، صدر شعبۂ اردو، گورنمنٹ مولانا آزاد میموریل پی جی کالج، جموں کا مضمون بعنوان ”تخلیق کی دریافت سے تنقید کے حسن تک“ بہت شان دار ہے۔
یہاں شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے مجموعوں  نام ”گنج سوختہ“، ”چار سمت کا دریا“، ”آسمان محراب میں“۔ بتائے گئے ہیں. 
گوشہ غزل میں ڈاکٹر نزہت شاہ، فاروق انجم، ڈاکٹر اشرف کمال ذکی، طارق بارہ بنکوی کی غزلیں دل کو چھو گئیں۔
کل ملا کر اس رسالے کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوا کہ مدیر اعلا نصیر وارثی صاحب نے اسے شائع کر کے جیسے ایک خوب صورت، رنگ برنگے اور خوش بو دار پھولوں کو یکجا کر دیا ہے۔ جس کی خوش بو پوری اردو دنیا کو معطر کر رہی ہے۔ میں تہہ دل سے ایک بار پھر نصیر وارثی صاحب اور پوری ”ورثہ“ ٹیم کو  مبارک پیش کرتی ہوں۔
سہ ماہی ”ورثہ“ نیویارک سے شائع ہونے والا وہ شان دار رسالہ ہے جو بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ اور قابل داد و تحسین ہیں سہ ماہی ”ورثہ‘ کے مدیران جناب نصیر وارثی اور رئیس وارثی صاحبان جنھوں نے دیارِ غیر میں رہ کر اردو کی بے لوث خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے۔ میں وثوق کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ ان کی یہ پہل قابل ستائش ہے۔ جہاں دنیا بھر کے مایہ ناز شعرا، ادبا کی شاہ کار تخلیقات کو یکجا کر کے سہ ماہی ”ورثہ“ کی شکل دی جا رہی ہے۔
بلا شبہ ان کا یہ قدم شیریں زبان ادو کے فروغ اور بقا کے لیے، اردو کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح سے اردو زبان کو عالمی سطح پر فروغ حاصل ہوگا۔ یقینا شیریں زبان اردو کو بین الاقوامی مقبولیت حاصل ہوگی اور بلا شبہ چوں کہ نیویارک سے شائع ہو رہا ہے تو مقامی لوگ بھی اس زبان کی چاشنی اور لطافت کا مزہ لے سکیں گے۔
بار گارہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر دعا کرتی ہوں کہ خدا سہ ماہی ”ورثہ“ کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا کرے۔ جو یقینا اردو کے طلبا و طالبات اور ریسرچ اسکالرز کے لیے بہترین مواد فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور اردو داں حضرات، ادبا، شعرا اور قلم کاروں کی ذہنی تشنگی کی تسکین کا وسیلہ بھی. دنیا بھر کے ریسرچ اسکالرز بھی اس سے مستفیض ہوں گے، ان شا اللہ. 
سہ ماہی ”ورثہ“ اپنی نوعیت میں بے مثال ہے۔ اور یقین  کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ اس کے مقابلے کا اور اس معیار کا دوسرا رسالہ اب تک منظر عام پر نہیں آیا۔
Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے