بنت حوا اپنی عزت کا سر بازار تماشہ نہ بنا!

بنت حوا اپنی عزت کا سر بازار تماشہ نہ بنا!

ظفر تحریم
ولیدپور، ضلع مئو یو پی
موبائل: 9336552202

ازدواجی زندگی بھی عجیب ہے. محبت سے گُندھے اس رشتے کی وقت گزرنے کے ساتھ خوب صورتی بتدریج عجیب مد و جزر کا شکار ہو جاتی ہے. ایک دوسرے سے لڑ لڑ کے بوڑھے ہو جاتے ہیں. جوانی کا خمار بڑھاپے کے اندھیروں میں جب اترتا ہے تب ایک دوسرے کی قدر کا احساس ہوتا ہے.
جب ایک دوسرے کا دکھ سمجھنے والا کوئی دوسرا نہیں رہتا پھر جیون ساتھی ہی سہارے کی لاٹھی نظر آتاہے اور جوانی کے وہ گزرے پل پچھتاوے بن کے ڈسنے لگتے ہیں اور سوچیں یہ رہ جاتی ہیں کہ کتنے حسین پل تھے جو ہم نے نفرتوں کی نظر کر دیے۔
آنے والے لمحوں پہ پچھتانے سے بہترہے جو وقت پاس ہے، ہماری گرفت میں ہے، انھیں خوب صورت بنا کے آنے والے وقت کے لیے حسین یادیں بنائیں۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ عورت خود کو قابلِ عزت بنائے اور مرد اس کی عزت نہ کرے.
فیس بک پر بہت شور مچا رہتا ہے کہ لڑکیاں بہت بگڑ گئی ہیں. ان کی بے ہودہ ڈریسنگ کی وجہ سے لڑکوں کے ذہن گندے ہو رہے، جرائم بڑھتے جا رہے ہیں، لڑکیوں کو کهلی چهوٹ دے رکهی ہے، ٹک ٹاک پر ٹائٹ لباس زیب تن کیے تھرکتی لڑکیوں کی وجہ سے لڑکوں پر برے اثرات مرتب ہو رہے، اس وجہ سے بهی بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں جس میں زنا عام ہے. میں یہ نہیں کہتا کہ لڑکیاں بےقصور ہیں یا اگر وہ ایسی غلط روش اختیار کیے ہوئے ہیں تو مرد حضرات اپنا قبلہ درست کیوں نہیں کرتے. سوچنے کی بات ہے کہ لڑکیاں پیدائشی تو ایسی نہیں تھیں پهر کیا وجہ ہے ان کی چال ڈهال رہن سہن پہننے اوڑهنے کا سٹائل بالکل مغرب زدہ ہو گیا ہے؟
بچوں کی تربیت کون کرتا ہے؟ ان کے معصوم ذہن ایسی خرافات پر کیوں مائل ہو رہے ہیں؟ آپ خود سوچیں اور اس کا حل تلاش کریں. میں جب بهی کہیں جاتا ہوں تو نوٹ کرتا ہوں، بیوی پردہ دار ہے لیکن بیٹی کی ڈریسنگ اس قابل نہیں کہ اسے نظر بھر کے دیکها جا سکے. وہ مردوں کے بھرے ہجوم میں باپ بهائی کے ساتھ ٹائٹس پہنے گزرتی ہے. شاپنگ مال میں آئس کریم کهاتے ہوئے اونچی آواز میں قہقہے لگا رہی ہے. باپ اور بھائی اس کا ساتھ دے رہے ہیں. ساتھ ساتھ شرارتیں جاری ہیں. مسلم لڑکی کے یہ تیور تو نہیں ہوتے. جب کہ یہاں اکثریت مردوں کی بہت نیک شریف ہے اور ایسی آزاد لڑکیوں کو برداشت نہیں کر پاتے. مجبوراً آنکھیں جھکائے استغفراللہ کا ورد کرتے ہیں. کئی شوہر ایسے دیکھے جن کی بیویوں کی ظاہری حالت پر خود خواتین شرم سے پانی پانی ہو جائیں.
اس کا حل آپ کے پاس موجود ہے. اگر سب مرد صرف اپنے گھر کی خواتین پر کڑی نگاہ رکھیں اور جیسا آپ دوسرے کی بیٹی کو باحیا باحجاب دیکهنا چاہتے ہیں تو یہی کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں. اپنی بیوی بیٹیوں پر گہری نگاہ رکھیں، انھیں فلمی ایکٹرز جیسا نہیں فاطمہ بنت محمد ﷺ جیسا باحیا باکردار بنانا ہے، نہ ماں اس طرف توجہ دے رہی نہ باپ. الله کے واسطے اپنی عزتوں کو یوں سربازار تماشا نہ بنائیں. یہ دل لبھانے کا سامان نہیں ہیں. بہت معتبر اور قابلِ احترام ہستی ہیں. یہاں بہت سے تماش بین ہیں جن کی نظریں آپ کی بے پردہ بیٹی کے آر پار ایکسرے لیتی گزرتی ہیں. وہ کس کس اینگل سے دیکھ رہے ہیں آپ کو اندازہ ہونا چاہیے.
بیٹی کی تربیت میں بڑا حصہ ماں کا ہے، جب ماں ہی فیشن ایبل ہو گی تو بیٹی دو ہاتھ آگے ہی نکلے گی. کہتے ہیں مرد کی غیرت کا اندازہ اس کے گهر کی خواتین سے لگا لیں. اگر ماں کی تربیت میں کمی ہے تو بھائیوں سے گزارش ہے وہ اپنے غیرت مند ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی خواتین کے ایسے غلط چال چلن کی خود نگرانی کریں نہ کہ دوسروں پر بس تنقید کریں.
اگر میری گفتگو میں کڑواہٹ لگی ہو تو دل سے معذرت. میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے بس ایک کوشش کی ہے اگر ماں بیٹیوں سے کوتاہی برت رہی تو گھر کے مرد بیٹیوں کی تربیت میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ وہ بازاروں اور چوباروں میں مردوں کو لبھانے کا سامان نہ بنیں.
آو اٹھو کہ بیداری کا وقت ہے، معاشرہ سدهارنا ہے تو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے. اچھا اور صحت مند معاشرہ تشکیل دینا ہے تو پہلے اپنے گهر کی صفائی کا خاص خیال رکھیں. اسے گندگی سے بچائیں. بہترین گھر بنانے میں مرد اور عورت دونوں کی یکساں ذمے داری ہے. ایک دوسرے کو الزام دے کر خود بری الذمہ نہ ہوں –

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے