قربانی ضروری ہے ریاکاری نہیں!

قربانی ضروری ہے ریاکاری نہیں!

جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com
یوں تو ہر قوم اور ہر امت میں ایک مخصوص ایام میں قربانی متعین کی گئی ہے لیکن سب سے مشہور قربانی امت محمدیہ میں جو ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے چلی آرہی ہے، اسی کی اصل شناخت ہے اور کیوں نہ ہو جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعلان کردیا کہ اے میرے محبوب اب صبحِ قیامت تک تمھارے ہی دین کا ڈنکا بجے گا، ہم نے تمھیں جو دعوت و تبلیغ کا کام دے کر دنیا میں بھیجا تو تم نے وہ پورا کردیا. اب میرے نزدیک سب سے پسندیدہ دین، دین اسلام ہے- آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاے کرام دنیا میں ہم نے بھیجا سب کی شریعتیں منسوخ اب جسے کام یابی حاصل کرنا ہے تو وہ آپ کی شریعت پر عمل کرے. اب آپ کا کلمہ پڑھنے والا ہی راہ نجات پاسکے گا. آپ کے اسوۂ حسنہ کو اب ہم نے نمونہ عمل بنادیا ہے. اس لیے اب کوئی دوسرا نمونہ لے کر ہمارے پاس کوئی پاور فل، بڑے سے بڑا بھی آئے گا تو ہم اس نمونے کو ریجکٹ کر دیں گے- اب نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی سمیت دیگر ساری عبادتوں پر آپ کی مہر کا لگنا ضروری ہے. کسی دوسرے کی مہر لگی ہوئی عبادت ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی. بل کہ اس کے منہ پر ماردی جائے گی. اسی موقع پر کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ قربانی تو نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے بل کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے تو اس پر عمل کیوں؟ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ قربانی کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت نہیں کہا ہے بل کہ واضح طور پر فرمایا ہے، وہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہ قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اس سنت پر عمل کرنا تم سب کے لیے اور میری امت کے لیے ضروری ہے. حضرت آدم علیہ السلام تو بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے باپ ہیں. ان کے بعد کسی نبی کو سب کے لیے باپ نہیں کہا ہے. صحابہ کرام کو مخاطب کرکے جن کے بارے میں یہ کہا ہے کہ تمھارے باپ تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں کیوں کہ جب حضرت ابراہیم کو نار نمرود میں ڈالا گیا تھا تو جبرئیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام سے خواہش پوچھی تھی کہ بتاؤ میں اللہ کی بارگاہ میں پیش کروں گا تو ابراہیم علیہ السلام نے آگ کو ٹھنڈی کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا بل کہ یہ کہا تھا کہ ہاں میری خواہش ہے اے جبرئیل رب کریم سے کہنا کہ تیرے خلیل کی خواہش یہ ہے کہ تو جسے خاتم الانبیا بناکر دنیا میں بھیجے تو وہ میری خاندان کا ہو، بس یہی میری خواہش ہے. تو جس طرح خاتم الانبیا پوری امت کے لیے روحانی باپ ہیں، مجازی باپ ہیں تو ان کا شجرہ نسب ابراہیم علیہ السلام سے ہے اسی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی بلند ترین مقدس خواہش اللہ نے پسند بھی کی اور پوری بھی کی. اور ابراہیم و ہاجرہ علیہما السلام کی اداؤں کو بھی اللہ نے اتنا پسند کیا کہ حج کے ارکان میں شامل کرکے صبحِ قیامت تک کے لیے مقدس و بلند ترین بنا دیا. صفا و مروہ کی سعی کرنا ، شیطان کو کنکریاں مارنا یہ ابراہیم و ہاجرہ علیہما السلام کی ادا ہی تو ہے جن کو کیے بغیر حج مکمل نہیں ہو سکتا. اب وسیم رضوی جیسا بدبخت قربانی کے نام پر جانور کو ذبح کرنے کو گناہ کہے اور دوسری طرف فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ وسعت ہوتے ہوئے قربانی کے ایام میں جو قربانی نہ کرے تو خبردار وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے تو گویا وسیم رضوی عیدگاہ سے بھگایا گیا ہے. اب وہ بتائے گا کہ یہ گناہ ہے وہ گناہ ہے. ارے حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا جینا گناہ ہے، اس کی رگوں میں دشمن رسول، دشمن اسلام، دشمن صحابہ اور دشمن مسلمان کا خون دوڑ رہا ہے اور وہ لعنت کا انبار لگا رہا ہے. اب رہ گئی بات خود ہمارے طور طریقوں کی تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے یہاں گوشت، ہڈیاں، بوٹیاں نہیں پہنچتیں بل کہ نیت پہنچتی ہے، خلوص اور تقویٰ پہنچتا ہے. اس لیے نیت صاف ہوناچاہیے. قرب خداوندی مقصد ہوناچاہیے. نام و نمود، شہرت، پرچار پرسار والی قربانی منہ پر ماردی جائے گی. یہاں تو عجیب حال ہے ایک دوسرے کا قربانی کا جانور مضبوط اور کم زور ہے تو طنز کسا جاتا ہے. مہنگے جانوروں کا خوب پرچار کیا جاتاہے، روزانہ محفل لگاکر اپنی اپنی قربانیوں کی گنتی کرائی جاتی ہے، گھما گھما کر دیکھایا جاتا ہے، خود اپنے جانوروں کی قیمت بتا بتاکر داد و تحسین حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے. ایک طرف زید کی بیوی کہتی ہے کہ تم اتنا کم زور بکرا لائے ہو دیکھو ہمارا پڑوسی بکر خوب مہنگا بکرا لایا ہے. تمہارا بکرا کم زور ہے اگر تم بھی مہنگا بکرا لاتے تو بکر کی طرح میں بھی باہر باندھتی تم بھی باہر بیٹھے رہتے جو آتا اسے دکھلاتے، قیمت بتاتے تو اسے معلوم ہوتا پھر وہ بھی کسی کو بتاتا تو ہمارا کتنا نام ہوتا. زید بولتا ہے کہ اپنی زبان بند رکھو کسی کو دکھانے کے لیے قربانی نہیں کی جاتی اللہ کی رضا کے لیے قربانی کی جاتی ہے. دکھاوے کی قربانی سے کوئی فائدہ نہیں ہے. ابھی میاں بیوی میں تکرار ہوہی رہی تھی کہ بکر آجاتاہے اور کہتا ہے کہ یار تمھارا جانور بہت ہلکا ہے دیکھو میرا جانور کتنا بڑا ہے، کتنا مضبوط ہے ہر شخص تعریف کرنے کے لیے مجبور ہے. آخر ہم دونوں دوست ہیں تو کام ایک جیسا کرنا چاہیے. سنتے سنتے پک گیا تو زید کا بیٹا بولتا ہے کہ تمھاری بات الگ ہے تم بڑے آدمی ہو ہمارے سامنے مجبوری ہے ہم اتنا ہی پاؤں پھیلا سکتے ہیں جتنی بڑی ہماری چادر ہے اور دوسری بات کہ شاید تمھیں معلوم نہیں کہ صرف حج کے لیے نہیں بل کہ قربانی کے لیے بھی لین دین کا معاملہ صاف ہوناچاہیے، حساب کتاب آنا پائی چکتا ہوناچاہیے. مگر تمہارا تو سارا معاملہ ہی الٹا ہے. مزدوروں کی مزدوری روکے ہوئے ہو، حساب کرنے کے بعد بھی جو پیسہ نکلتا ہے وہ بھی نہیں دیتے ہو اور نصف درجن بکرا کی قربانی کرنے جارہے ہو. رسول کائنات نے فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو اور تمھارا حال یہ ہے کہ مزدوروں کا خون چوس لینے کے بعد بھی مزدوری ادا نہیں کرتے ہو. جب دو سگے بھائیوں کے درمیان دشمنی کی وجہ سے قربانی قبول نہیں ہوسکتی تو مزدوروں کی مزدوری روکنے کی وجہ سے قربانی کیسے قبول ہوسکتی ہے. خدارا جھوٹ بولنا بند کیجیے. تجارت میں جھوٹ بول بول کر تم نے آبادی کی رونق تک ختم کرڈالی. خلوص کے ساتھ قربانی کیجیے ، نیک نیتی کے ساتھ قربانی کیجیے، بہت ہوگیا دکھاوا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے باز آجائیے. حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کے واقعات کے ایک ایک پہلو پر غور کیجیے، اپنے اندر تقویٰ پیدا کیجیے تاکہ ہماری قربانی کامیاب قربانی ہو. اس کے لیے دنیا میں نمبر حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بل کہ وہ نمبر جسے خدا کا قرب کہا جاتا ہے. وہ نمبر حاصل کریں اور وہی نمبر نجات کا ذریعہ ہے ورنہ اس کے برعکس نیکی کر دریا میں ڈال کے مترادف ہے –

*( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
رابطہ:8299579972
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :قربانی کرو، سنت ابراہیمی ادا کرو فائدہ ہی فائدہ!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے