قاری سید محمد عثمان منصور پوری :  شخصیت و خدمات

قاری سید محمد عثمان منصور پوری : شخصیت و خدمات

(بابصیرت منتظم ، باوقار ومشفق مربیّ

حضرت مولانا قاری سیّد محمد عثمان صاحب علیہ الرحمہ) 

مفتی عمران اللہ قاسمی
استاذ شعبہ عربی ونگراں شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند

انتظام کی الجھنیں اور دشواریاں تحمل کو ختم کردیتی ہیں، ماتحت افراد اور ملازمین کی سردمہری، ان کی باربار غفلت و کوتاہی، ذمہ دارکی سنجیدگی اور صبر وبرداشت کو مٹا کر چڑ چڑا پن پیدا کردیتی ہیں، انتظام وانصرام سے مربوط افراد پر اتہام و بہتان تراشی کی یلغار سے اربابِ حل وعقد کی اولوالعزمی، دل چسپی و سرگرمی کو متأثر ہوتی ہے اورمایوسی و بدگمانی اس کی جگہ لے لیتی ہے نیز کسی ایک ادارے وجماعت کا انتظام اور نگرانی اس کے سوا کسی دوسرے زیر انتظام ادارے اور جماعت کے نظام کو متأثر کرتاہے کہ دونوں جگہ توجہ یکساں نہ رہ کر کسی ایک طرف سستی و غفلت اورچل چلاؤ کی شکل رہتی ہے، پھر انتظامی مصروفیت تدریسی مشغلہ کو سب سے زیادہ متأثر کرتی ہے، بسا اوقات منتظم کا علمی اشتغال عنقا ہوجاتا ہے۔ ان مسلّمات پر یقین کے باوجود اگر کسی شخصیت میں انتظامی بصیرت، سرگرمی، خلوص و وفاداری، اپنے فریضے کی پابندی سے ادائیگی، ماتحت افراد کے ساتھ پروقار برتاؤ ، ارباب انتظام کے مابین اعتماد اور خود منتظم کی ذات میں تحمل، سنجیدگی، صبر وشکیبائی کا مشاہدہ ہو، نیز علمی مصروفیت اورتدریسی مشغلہ بھی برقرار رہے تو یہ اس کی عظمت، اس کے صاحبِ کمال اور موفق من اللہ ہونے کی دلیل ہے، ہمارے استاذ محترم استاذالاساتذہ امیر الہند حضرت مولانا قاری سیّد محمد عثمان صاحب منصورپوری ایسی ہی خوبیوں کی جامع مثال تھے۔
حضرت قاری صاحبؒ امت مسلمہ کی نمائندہ قدیم تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے صدر، دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم، متعدد اداروں کے رکن رکین و سر پرست، کانفرسوں اورعظیم اجلاسوں کے صدر نشیں، کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم، دارالعلوم دیوبند کے ماتحت جاری متعدد مکاتب کے اور تحریک اصلاح معاشرہ کے سرپرست، تحقیق وتالیف کمیٹی کے نگراں، امارت شرعیہ ہند کے امیر، امیرالہند، ادارہ المباحث الفقہیہ کے سرپرست، شعبہ محاضرات کے نگراں اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث وادیب تھے۔
۱۹۹۳ء یا ۱۹۹۴ء کا سنہ، مادرِ علمی اعزاز العلوم ویٹ میں سالانہ اجلاس کے موقع پر علماء اور اکابر کا اجتماع تھا، جانشین شیخ الاسلام فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ اپنے خطاب کے بعدرخصت ہورہے تھے کہ حاضرین کے جم غفیر میں ایک صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے حضرت فدائے ملت گویا ہوئے؛ اچھا! مولانا عثمان صاحب! چلتے ہیں۔ سر پر دوپلی ٹوپی، سفید کرتا پائجامہ، سادگی ووقار، شرافت وسنجیدگی کی پیکر اس شخصیت کے بارے میں بتلایاگیا کہ یہ دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ جناب مولانا قاری سیّد محمد عثمان صاحب ہیں، اس پہلی زیارت اور تعارف کے بعد مختلف مرحلوں اور موقعوں سے تذکرہ سنا جاتا رہا، مادرعلمی اعزازالعلوم کے اجلاس، امتحانات اور اطراف کے مدارس کے جلسوں میں خطاب سننے کا موقع ملتا رہا تا آں کہ احقر جب دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوگیا تو حضرت والا سے استفادے کے مواقع سوا ہوگئے،اور ربط و تعلق کا تسلسل رہا، ابھی چند ماہ قبل مجلس شوریٰ منعقدہ صفر ۱۴۴۲ھ میں معاون مہتمم بننے کے بعد احقر کے لیے حضرت کے تجربات سے استفادے کی مزید راہیں دریافت ہوئیں، اس دوران احقر کو حضرت والا کی ہدایات اور حضرت کے طریقہ سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، آپ کی زندگی کے متعدد نقوش بعد والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
آپ نے تدریس کا آغاز جامعہ قاسمیہ گیا سے کیا، یہاں ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۱ء تک تدریسی خدمات پر مامور رہے، پھر ۱۹۷۱ء سے مغربی یوپی کے معروف شہر امروہہ کے قدیم ادارے جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ منتقل ہوگئے. یہاں تدریسی خدمت کے ساتھ کچھ انتظامی امور بھی آپ سے متعلق کردیے گئے، آپ نے مدرسے کے تعلیمی وتربیتی نظام کو مستحکم بنانےکے لیے بہت محنت کی، آپ کی جدو جہد کی بدولت مدرسہ جامع مسجد امروہہ کا ماحول تعلیمی و تربیتی ہوگیا، اس کی طرف طلبہ و عوام کا رجوع بڑھ گیا، پھر اکابر واساتذہ کے مشورے سے آپ ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم دیوبند منتقل ہوگئے، دارالعلوم دیوبند میں متعدد کتب خصوصاً کتب حدیث کی تدریس میسر آئی ، ۱۹۸۲ء سے تا وفات اس پوری مدت میں دارالعلوم کی مختلف النوع خدمات آپ کی ترجیحات میں شامل رہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی ذوق:
بچوں کی تعلیم وتربیت میں آپ کو خصوصی درک حاصل تھا، بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہمہ وقت متفکر نظر آتے، خصوصاً اپنے بچوں کی نگرانی اوران کی تعلیمی ترقی کی فکر قابل دید تھی، تدریس وانتظامی مصروفیت میں سے کچھ وقت فارغ کرکے ان کی تعلیم میں کچھ نہ کچھ اپنا بھی حصہ رکھتے، قاعدہ، ناظرہ، قرآن یا کوئی بھی کتاب خود پڑھاتے، ان کے اسباق وآموختہ سنتے، پڑھے ہوئے حصہ کی جانچ کرتے؛ چناں چہ اپنے بڑے صاحب زادے جناب مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری کا حفظ قرآن از اوّل تا آخر حضرت والا ہی نے مکمل کیا، آپ نے ان کو تکمیل حفظ کے بعد عربی درجات کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھائیں، متوسط اورمنتہی عربی درجات میں داخل ہونے کے بعد فراغت تعلیم تک مکمل نگرانی جاری رہی، اسی طرح دوسرے صاحب زادے مفتی محمد عفان صاحب منصور پوری کی بھی از ابتداء تا انتہاء مکمل نگرانی اور خصوصی تربیت فرمائی۔ حضرت قاری صاحب بچوں کی نگرانی میں سخت اور تیز نظر واقع ہوئے تھے، ان کے رہن سہن، گفتگو، نشست وبرخاست، درس گاہ کی حاضری میں پابندی، اسباق یادکرنا، اسباق سنانا، نماز وتلاوت کی پابندی، تکرار ومطالعہ، دیگر طلبا سے میل جول، گھر سے باہر کی آمد ورفت، وغیرہ پر گہری نظر رکھتے، کوتاہی پر باز پرس بھی ہوتی تھی، اسی کے ساتھ طبعی ضرورتوں کا بھی مکمل خیال کیاجاتا، لباس، کھانے پینے کی ضروریات کا عمدہ انتظام رہتا، امتحان میں عمدہ کامیابی پر بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور شکر الٰہی بجالاتے، دعاؤں سے نوازتے، آپ کی تربیت ونگرانی کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کی تینوں اولاد (دولڑکے اورایک لڑکی) حافظ قرآن کریم ہوئیں، جب کہ دونوں صاحب زادے جید عالم دین بنے جو تدریس اور اصلاح وخطابت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، اپنے صاحب زادگان کی نگرانی کا یہ سلسلہ تعلیم سے فراغت کے بعد بھی برابر جاری رہا، جناب مفتی محمد سلمان صاحب جب ہندوستان کے معروف ادارے جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد میں مدرس متعین ہوئے تو ان کو درج ذیل نصیحتیں فرماکر روانہ کیا:
(۱) کوئی طالب علم اگر کتاب سمجھنے کے لئے کمرے پر آئے تو دروازہ بند کرکے اس سے گفتگو نہ کرنا بل کہ دروازہ کھلا رکھنا، (۲) کبھی یہ مطالبہ مت کرنا کہ مجھے فلاں کتاب دی جائے، بل کہ انتظامیہ کی طرف سے جو کتاب بھی دی جائے اسی کو اللہ کے بھروسے قبول کرلینا، (۳) کبھی تنخواہ بڑھانے کی درخواست مت دینا، بل کہ مدرسے سے جو ملے اسے شکریہ کے ساتھ لے لینا، (۴) کسی بھی انتظامی معاملے میں از خود دخل مت دینا؛ البتہ اگر منتظم خود مشورہ لے تو جو دیانتاً صحیح سمجھو وہ بتادینا مگر اپنے مشورے پر اصرار مت کرنا۔ (ندائے شاہی،جون ۲۰۲۱ء،ص:۸۰)
ہونہار فرزند نے والد گرامی کی ان زریں نصائح کو گرہ سے باندھ لیا، اسی پر عمل کا ثمرہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آج ان سے دین کی اشاعت و تبلیغ، علم وفن کی تعلیم و تدریس، تصنیف وتالیف، فقہ وافتاء کے حوالے سے بہت خدمت لے رہاہے، طلبا اور عوام کاایک بڑا طبقہ ان سےمستفید ہورہاہے۔
بچوں کی تربیت اور تعلیم کی نگرانی میں حضرت قاری صاحب کی دل چسپی کی وجہ سے خاندان اور رشتہ داروں کے بچے بھی آپ کے سپرد کردیے جاتے، آپ اس ذمہ داری کو فریضہ جان کر بسر وچشم نبھاتے، ان کی تعلیم کی نگرانی کرتے، جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں قیام کے زمانے میں خاندان کے متعدد بچے آپ کی نگرانی میں رہے، جب آپ بغرض تدریس دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے تو یہاں پر بھی خاندان کے بہت سے بچے آپ کی زیر نگرانی تعلیم پاتے رہے، یہاں دیوبند میں مدنی منزل اندر مدرسہ حسینہ کے نام سے ایک ادارہ چلتا تھا جب تک وہ ادارہ جاری رہا یہ طلبہ وہاں پر پڑھتے اور تعلیم کے ساتھ باقی نگرانی حضرت قاری صاحب فرماتے تھے؛ مگر جب مدنی منزل کا مدرسہ حسینہ موقوف ہوگیا تو چھتہ مسجد میں جہاں پر حضرت قاری صاحب کی رہائش تھی ایک درجۂ حفظ آپ کی نگرانی میں جاری ہوگیا، جس میں قاری محمد احسان صاحب دیوبندی تعلیم دیتے تھے، قاری محمد احسان صاحب اس بات کے پابند تھے کہ رجسٹر میں روزانہ ہر طالب علم کی کیفیت واحوال درج کریں، کہاں سے کہاں تک سبق ہوا، سبقاً پارہ کون سا تھا، آموختہ کتناہوا اور کیسا یاد رہا، حاضری کیسی رہی، ہر دو تین دن میں حضرت قاری سید محمد عثمان صاحب علیہ الرحمہ اس رجسٹر کی جانچ کرتے، کوتاہی پر بچے کا مؤاخذہ ہوتا، سزا اور تنبیہ سے دریغ نہ ہوتا، زیر نگرانی رہنے والے بچوں کو تعطیل کے ایام میں بھی پابند کیا جاتا تھا کہ وہ حضرت قاری صاحب کے ساتھ ہی رہیں یا پھر مصروفِ تعلیم رہیں۔ حضرت قاری صاحب از خود بھی کبھی ان کی تعلیمی چانچ کرتے، اور پھر متعلقہ استاذ کو اس کمی سےآگاہ کرتے، طلبا کی اخلاقی حالت اور گفتار وکردار پر بہت سخت نظر تھی، فضول گوئی، گپ شپ اور دوستی بازی بالکلیہ ممنوع تھی ۔ خاندان کے بہت سارے بچوں نے حضرت قاری صاحب کی زیر ِنگرانی ، اپنی تعلیم وتربیت کے مراحل طے کیے، ان میں بطور خاص حضرت مولانا سید محمد اسجد مدنی، مولانا اخلد رشیدی مقیم مدینہ منورہ، مولانا ازہد مدنی، مولانا محمود مدنی، مولانا مسعود مدنی، حافظ کلیم منصورپوری، مفتی محمد حارث صاحب مقیم مدینہ منورہ قابل ذکر ہیں، ان حضرات نے امروہہ کے زمانہ قیام میں آپ کے زیرنگرانی تعلیم پائی جب کہ دیوبند میں آپ کے زیرنگرانی رہنے والوں کی تعداد زائد ہے. ان میں مولوی محمدمعاذ، مولوی محمد سعد، مولوی محمد بشار، مولوی محمد زید مقیم مدینہ منورہ، مولوی محمد مدنی، مولوی محمد بجنوری، حافظ محمد احمد، حافظ محمد صادق، حافظ محمد عدنان صاحب بطور خاص شامل ہیں، حضرت قاری صاحب اپنے ماتحتوں اور زیر نگرانی رہنے والے بچوں پر شفیق بھی تھے ان کی ہم دردی اور فائدے کے لیے اپنا آرام تک قربان کرتے؛ مگرآپ کی اصول پسندی اور تربیتی مزاج اور نگرانی کے معاملہ میں سخت ہونے کی وجہ سے سبھی رشتہ دار اور خاندان کے بچوں میں آپ کا وقار اور رعب زبان زد تھا کسی کو بے تکلف ہوکر بات کرنے ، اور آپ سے گھلنے ملنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔
طلبا اور متعلقین سے والہانہ برتاؤ:
حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ سے محبت فرماتے، ان کی ملاقات سے خوش ہوتے، تعلیمی احوال پوچھتے، اسباق کی پابندی، تکرار ومطالعہ کی دل چسپی پر نظر رکھتے، امتحان میں نتائج کی عمدگی پر خوشی کا اظہار کرتے، بعض طلبا اپنے خرچ کی رقم آپ کے پاس جمع کردیتے تھے تو اس کا صاف ستھرا اورمکمل حساب رکھاجاتا، طلبا کے ساتھ ان کی شفقت مثالی تھی، تربیت کی خاطر طلبا کے لیے اپنا وقت قربان کرنے میں انھیں ذرا بھی تأمل نہ ہوا، طلبا کے پروگراموں اورانجمنوں سے خصوصی دل چسپی تھی، جامع مسجد امروہہ میں عربی انجمن النادی الادبی کا وجود آپ کی ہی توجہ اور دل چسپی کا مظہر ہے. اپنے زمانۂ قیام میں آپ نے ہی اس کا آغاز کیاتھا، اس کے پروگراموں میں بہت ہی مسرت کے ساتھ حاضر ہوتے تھے، دارالعلوم دیوبند میں طلبا کی ضلعی و صوبائی انجمنوں کی سرگرمیوں، ان کے پروگراموں سے متعلق بھی آپ کا برتاؤ بہت ہی ہم دردانہ اور شفقت پر مبنی تھا، اس حوالے سےطلبا کی حوصلہ افزائی، دل داری اور خرد نوازی میں آپ کے وسیع القلب ہونے کا ہر کوئی معترف ہے، دارالعلوم میں قائم بڑی انجمنیں مدنی دارالمطالعہ، النادی الادبی اور انجمن ترتیل القرآن کے پروگرام اور میٹنگ میں شرکت، ان کی دیگر سرگرمیوں، حساب وکتاب، ذمہ داریوں کے انتخاب، تقریری مسابقے، تحریری مسابقے، ہفتہ واری پرچوں کی تیاری تک میں دل چسپی رکھتے تھے، مظفرنگر، شاملی اور دیگر ضلعی انجمنوں کے پروگراموں میں بھی تشریف لے جاتے، یہاں تک کہ بنگال، آسام اور دیگر صوبہ جات کی ان انجمنوں میں بھی جن کا پروگرام اپنی علاقائی زبانوں میں ہوتاہے، زبان سے عدم واقفیت کے باوجود تشجیع اورحوصلہ افزائی کی خاطر شرکت کرتے تھے، انجمن کے پروگراموں کی شرکت کی وجہ سے بسا اوقات اپنے دیگر پروگراموں کو تبدیل کردینا، مصروفیت کی وجہ سے تکان کے باوجود انجمنوں کے پرگراموں میں رات ایک دوبجے دیرتک حاضر رہنا اور دعا کے بعد ہی واپس ہونا عام معمول تھا۔
مفوضہ اسباق کی تدریس میں پابندی برتتے، آپ کی ہر ممکن کوشش طلبا کو کسی لائق بنادینے کی رہتی تھی، دوران درس عبارت کی تشریح، مضمون کی تفہیم کے بعد طلبا سے بھی کام اور محنت لینے کا مزاج تھا، عبارت خوانی کے بعد ترجمہ اور الفاظ کی تحقیق، اعراب اور سابقہ درس سے متعلق کوئی بھی بات معلوم کرلیتے، جو طلبا بھی آپ سے تعلق رکھتے ان کے ساتھ تو پدرانہ شفقت تھی، کوئی طالب اپنا مضمون، یا تحریر کردہ کتاب نظرِ ثانی کرانے کی نیت سے لے کر حاضر ہوتا، تو اس کو سراہتے، نظر ثانی اور اصلاح کرکے مفید مشوروں سے نوازتے، کسی طالب علم کے اندر کسی خاص موضوع سے مناسبت محسوس کرتے تو اس موضوع سے متعلق آگے بڑھنے اور مطالعہ میں وسعت پیدا کرنے کا مشورہ دیتے، موقع بہ موقع اس کے مطالبہ کی سرگرمی دریافت کرتے رہتے تھے، جن حضرات نے بھی قاری صاحب سے پڑھا وہ آپ کی شفقتوں، عنایتوں کو نہیں بھلاپایا، آپ کے فیض یافتگان کی کثیر تعداد ملک و بیرون ملک اہم خدمات انجام دے رہی ہے. معاشرے اور سماج میں ان کا اہم مقام ہے. وہ حضرات آج بھی حضرت والا کی شفقتوں اور اس وقت کی تنبیہات کا بطور احسان تذکرہ کرکے پھولے نہیں سماتے ہیں۔
شاگردوں اورمتعلقین کی تربیت و اصلاح کے بارے میں حضرت والا کی فکر مندی اور توجہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ راقم ۲۰۱۲ء تک مدرسہ شاہی مراد آباد میں مصروف تدریس رہا، ملاقات ہونے پر علمی مصروفیت کا سوال ضرور ہوتا، متعلقہ کتب اور تحریری سرگرمیوں کی تفصیل، مدرسہ کے حالات، گھر کے حالات معلوم کرتے، پھر جب احقر دیوبند منتقل ہوگیا تو عصر کے بعد کی تفصیلی ملاقات میں بچوں کی تعلیم کے متعلق سوال ضرور ہوتا، فرداً فرداً ہر بچہ کے بارے میں معلوم کرتے، احقر اپنی کوئی تحریر یا رپورٹ لےکر حاضر ہوتا، اس کو بغور پڑھ کر اصلاح و ترمیم کے مشورہ سے نوازتے، حضرت کی شفقتوں اور عنایتوں کا یہ سلسلہ صرف احقر کے ساتھ ہی نہ تھا بل کہ یہ حضرت والا کا اپنے قدیم وجدید شاگردوں اور متعلقین کے ساتھ عمومی مزاج تھا، حضرت والا کے ایک شاگرد ڈاکٹر مولانا ذاکر قاسمی صاحب نے ’’دربارِ نبوت کے درخشندہ ستارے‘‘ نامی کتاب تیار کی جو حضرات عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم کے تذکرہ پر مشتمل تھی، انھوں نے کتاب کا مسودہ، حضرت والا کی خدمت میں برائے نظرثانی پیش کیا، حضرت والا نے اپنی مصروفیات کے باوجود چند ماہ تک مسلسل اس کا گہری نظر سے مطالعہ کیا، ترتیب وترمیم کے مشورے کےساتھ اپنی رائے سے بھی نوازا۔ اپنے خوردوں کے کام کی اصلاح، اس کے اچھےاور عمدہ انداز سے منظر عام پر لانے کی فکر، شاگردوں، اور خردوں کے تئیں ہم دردی، خلوص و شفقت سے ملی جلی رہتی تھی۔
فتنۂ قادنیت کاتعاقب:
فتنہ قادنیت کا تعاقب آپ کی خدمات کا ایک مرکزی عنوان ہے، آج پورے ملک میں پھیلی ہوئی تحفظ ختم نبوت کی تحریک، اس سلسلے کی پیہم جدوجہد، اجلاس، میٹنگ، لٹریچر، تربیتی کیمپ وغیرہ آپ کی فکر ومساعی کے پرتو ہیں، تحفظ ختم نبوت کی تحریک کو آپ نے ایک مشن کی شکل دی اور قادیانیت کو چیلنجز مان کر اس کا تعاقب شروع کیا، جب ۱۹۸۶ء میں ملک پاکستان میں امتناعِ قادیانیت کا آرڈیننس جاری ہوا۔ اور قادیانیوں نے دوبارہ ہندستان کی طرف رُخ کرکے اپنی سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کرنا شروع کیا، مختلف علاقوں میں ان کی ریشہ دوانیاں اور خفیہ سرگرمیاں شروع ہوئیں تو علما متفکر ہوئے، چناں چہ ارباب دارالعلوم نے مجلس شوریٰ منعقدہ ۱۹؍ ۲۰؍ ۲۱؍شعبان ۱۴۰۶ھ میں یہ تجویز منظور کی کہ قادنیت کا علمی وعملی تعاقب ضروری ہے؛ تاکہ سادہ لوح عوام کو اس فتنہ کی خطرناکی سے بچایا جاسکے، ختم نبوت کے متعلق عقیدہ کا تحفظ ہوسکے، اس میٹنگ میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کے انعقاد کا بھی فیصلہ ہوا جو ۲۹؍ ۳۰؍ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو دارالعلوم دیوبند میں بڑی آب وتاب کے ساتھ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی سرپرستی میں منعقد ہوا، حضرت قاری سیّد محمد عثمان صاحب اس اجلاس کے کنوینر بنائے گئے، چھ نشستوں پر مشتمل یہ سہ روزہ اجلاس اپنے عمدہ نظام، مرتب نظم ونسق اورمؤثر حکمت علمی کی بدولت امید سے زیادہ کامیاب رہا، اگرچہ یہ اجلاس مخصوص علمی کانفرنس کے طور پر منعقد کیا گیا تھا، اس کے دعوت نامے محدود ہی تقسیم کیے گئے، مگر موضوع کی حساسیت کی بنا پر یہ بڑے اجلاس کی صورت اختیار کرگیا، ہندستان کے اکثر صوبوں کے بیش تر دینی اداروں سے مربوط افراد کے علاوہ بنگلہ دیش، پاکستان، دبئی، ابوظہبی، سعودی عرب سے بھی مندوبین حاضر اجلاس ہوئے، ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً دس ہزار افراد نے اس اجلاس میں شرکت کی، ہندوستان کے معروف ودیگر مشاہیر کے علاوہ ، ممالک اسلامیہ سے بطور نمائندہ شرکت کرنے والوں میں رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری عبداللہ عمر نصیف، اخبار’’الاتحاد‘‘ کے نامہ نگار محمد باسل الرفاعی، جامعہ اسلامیہ لاہور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد مالک صاحب کاندھلوی، اسلامک فاؤنڈیشن ڈھاکہ کے ڈائریکٹر جناب مولانا فرید الدین مسعود قابل ذکر ہیں، اس اجلاس میں ڈاکٹر عبداللہ عمرنصیف کے ولولہ انگیز خطاب کو کافی پسند کیا گیا تھا، اجلاس کی چوتھی نشست صرف تجاویز کے لیے مخصوص تھی جس میں متعدد تجاویز منظور کی گئیں، تجویز نمبر :۱ ؍ کے الفاظ تھے کہ : تحفظ ختم نبوت کا یہ اجلاس ہندستان میں قادنیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتاہے اورملک میں اس فتنہ کی از سرِ نو حرکت کو دین اور وطن دونوں کے لیے نہایت خطرناک تصور کرتاہے، اس فتنہ کی ہلاکت خیزیوں کی بنا پر ضروری سمجھتا ہے کہ منظم ہوکر ملک گیر پیمانہ پر اس کا مقابلہ کیا جائے اس لیے یہ تجویز کرتاہے کہ : (الف) کل ہند سطح پر مجلس تحفظ ختم نبوت کی تشکیل کی جائے۔
اسی اجلاس کی تجویز ۶؍میں یہ بھی ہے؛ کہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس دینیہ کا اصل مقصد حفاظت اوراشاعتِ دین کے لیے افراد سازی ہے، اب گونا گوں اسباب کی بنا پر یہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ اس مقصد کے لیے ایک مخصوص شعبہ قائم کیاجائے جس میں منتخب فضلائے دارالعلوم کو دین کی اشاعت اور وقت کے فتنوں سے دین کی حفاظت کے لیے تیار کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے، یہ عالمی اجلاس دارالعلوم کی مجلس شوریٰ سے اس شعبہ کو دارالعلوم دیوبند میں قائم کرنے اوراس کی جانب خصوصی توجہ کرنے کی اپیل کرتاہے۔
کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت:
بہرحال کل ہند سطح پرمجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں آگیا، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند اس کے صدر اور ناظم عمومی حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہا اللہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند مقرر کیے گئے جب کہ ناظم کی ذمہ داری حضرت قاری صاحب کے سپرد کی گئی. اسی طرح شعبہ تحفظ ختم نبوت کا قیام بھی ہوگیا اور اس شعبے کی نگرانی بھی حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ کے ہی سپرد کی گئی، حضرت قاری صاحب نے نہایت حکمت عملی کے ساتھ فتنۂ قادیانیت کی بیخ کنی اور تردید کے سلسلے میں منصوبہ بندی کے ساتھ مجلس کے کام کو آگے بڑھایا، اکابر کے متعین کردہ خطوط پر عزم و حوصلہ کے ساتھ رد قادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کا سفر شروع ہوا، پورے ملک میں تحفظ ختم نبوت کی تحریک منظم و مربوط انداز میں چلنے لگی، اس کے بہتر نتائج برآمد ہونے لگے، ابتدا سے دس سال تک یعنی۱۴۰۷ھ سے ۱۴۱۷ھ تک حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ تنہا کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت اور شعبہ ختم نبوت کے امور کی دیکھ بھال کرتے رہے، اپنے معاونین اور دیگر لوگوں کی مدد سے کام کو آگے بڑھاتے رہے، پھر جب ۱۴۱۷ھ میں حضرت قاری صاحب کی ہی کوششوں سے مولانا شاہ عالم صاحب کا بحیثیت نائب ناظم تقرر عمل میں آیا، تو ایک سرگرم فعال معاون مل جانے کی وجہ سے مجلس تحفظ ختم نبوت کے عمل میں مزید تیزی آگئی، مجلس کی کارروائی منظم انداز میں روبہ ترقی ہوئی، باہمی مشورے سے قادیانیت سے متاثرہ علاقوں اور قادیانیوں کی سرگرمیوں کا مرکز بننے والے مقامات پر اساتذہ و مبلغین اور دیگر ارکان مجلس کے دورے شروع ہوئے، متاثرین سے ملاقات کرکے ان کو سمجھانے کی کوششیں، دیگر پس ماندہ اور کم تعلیم یافتہ علاقوں کو قادیانیت سے محفوظ رکھنے کے لیے منصوبے بنائے جاتے، پروگرام کرنےکی شکلیں طے کرکے بڑے پیمانے پر کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا، مجلس کے مشن میں استحکام کے مقصد سے جگہ جگہ عوام، علاقے کے بااثر افراد اور علما و ائمہ مساجد کی میٹنگ منعقد کی جاتی، تربیتی کیمپ قائم کیے جاتے تاکہ ایسے افراد تیار ہوں جو قادیانیت کی ریشہ دوانیوں پر بند لگا سکیں اور ان کی سازشوں کو ناکام بنا سکیں۔ قادیانیت کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے لٹریچر تیار کرکے چھوٹے چھوٹے رسائل اور پمفلٹ تقسیم کیے جاتے، سب سے پہلے عالمی اجلاس کے موقع پر بھی تردید قادیانیت سے متعلق دس ایسی کتابوں کا سیٹ شائع کیا گیا جو اس وقت ہندستان میں دست یاب نہیں تھیں اور مسئلہ ختم نبوت کی تفہیم اور قادنیت کی تردید میں بہت معاون ہوتی تھیں، حضرت قاری صاحب کی زیر نگرانی مجلس کل ہند تحفظ ختم نبوت کی متنوع خدمات مسلسل جاری رہیں، جہاں جیسی ضرورت محسوس ہوتی اور جہاں سے مطالبہ سامنے آتا اسی کے مطابق اقدام کر لیا جاتا، ابتدا سے تاحال یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔
چناں چہ موجودہ وقت کی رپورٹ کے مطابق اب تک تحفظ ختم نبوت کے لیے رجال کار کی تیاری اور نئے فضلا کو تربیت دینےکے لیے مختلف علاقوں اور صوبوں میں ۱۲۱؍ تربیتی کیمپ لگائے جاچکے ہیں، فتنہ قادیانیت کے خلاف عوام میں بیداری لانے کے لیے، عوام کو صحیح صورتِ حال سے واقف کرنے کے مقصد سے مختلف علاقوں میں ۲۷۴؍ اجلاس عام منعقد کیے گئے، متاثرہ علاقوں میں کام کی ترتیب بنانے، تحریک میں استحکام پیدا کرنے کے لیے علاقائی ذمہ داروں کے ساتھ۶۲؍ میٹنگ منعقد کی جاچکی ہیں، نیز صورتِ حال کا جائزہ لینے اورمتأثرہ علاقوں میں کام کی نگرانی اور مزید کام کی نوعیت سمجھنے کے لیے اب تک ۱۱۰؍ مختلف علاقوں کے دورے کیے جا چکے ہیں، حالات کی نزاکت اور وقت کے تقاضے کی بدولت قادیانیوں سے بحث ومناظرہ کی ۲۶؍ مقامات پر نوبت آئی، اور مبلغ قادیانیوں سے گفت و شنید اور مباحثہ ہواہے جس میں انھوں نے یا تو راہ فرار اختیار کی ہے، یا منھ کی کھائی ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مجلس کی کوششوں کے طفیل تقریبا ۲۹؍ مقامات پر سینکڑوں قادیانیوں نے قادیانیت سے توبہ کی، جن کی تفصیلی رپورٹ متعدد مواقع پر شائع کی گئی ہے، نیز تحفظ ختم نبوت سے دل چسپی رکھنے والے اور تردید قادیانیت کے لیے تیاری کی خاطر اردو ہندی میں لٹریچر بھی تیار کیاگیا جس میں متعدد عناوین پر رسالے ، کتابیں اور پمفلٹ تیار کرکے شائع کیےگئے اوران کو بلا معاوضہ تقسیم کیاگیاہے، تحفظ ختم نبوت کا اور تردید قادیانیت کا کام کرنے والے علما پر قادیانیوں کی طرف سے متعدد جگہوں پر جھوٹے مقدمات درج کرائے گئے، مجلس کی طرف سے ان مقدمات کی پیروی کر ائی گئی، اللہ تعالی نے ان میں کامیابی سے نوازا۔
حالات کی نزاکت فتنہ قادیانیت کی سرگرمیوں کے پیش نظر تحفظ ختم نبوت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے بعض ذمہ داران مدارس نے اپنے علاقوں میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی شاخیں قائم کیں جو دارالعلوم دیوبند کی رہ نمائی میں کام کرتی ہیں . بعض مدارس نے اپنے مدرسوں میں تحفظ ختم نبوت کا شعبہ بھی قائم کرلیا ، یہ حضرات اپنے اپنے علاقوں میں دارالعلوم دیوبند کی رہ نمائی اور حضرت قاری صاحب کے مشورے سے ہی تحفظ ختم نبوت کی خدمات انجام دیتے ہیں، ملک میں جاری تردید قادیانیت کی جدوجہد کے دوران جب یہ بات سامنے آئی کہ قادیانی لوگ عموماً پس ماندہ اور ناخواندہ عوام کو ہی اپنا نشانہ بناتے ہیں، ان علاقوں میں رفاہی کیمپ اور تعلیم کا بندوبست کرکے قادیانیت کی تبلیغ کرتے ہیں توان حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان علاقوں میں مکاتب کے قیام کی تحریک چلائی جائے، تاکہ ناخواندگی مٹ سکے، تعلیم عام ہو، عوام میں دین کی طرف رغبت پیدا ہو اور عقیدۂ ختم نبوت کے متعلق شعور بیدار ہو؛ چناں چہ مجلس تحفظ ختم نبوت کی رپورٹ پر ان پس ماندہ علاقوں میں مکاتب کے قیام کی تجویز منظور ہوئی اور آناً فاناً مختلف علاقوں میں مکاتیب قائم کیےگئے، ان میں ایسے معلمین مقرر کیے جاتے جو تعلیم و تعلم کے ساتھ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کرسکیں، مکاتب کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے؛ چناں چہ ہریانہ، راجستھان، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، جھار کھنڈ، اور بھاگووالا بجنور وغیرہ کے علاقہ میں اس وقت ۳۱؍ مکاتب قائم ہیں جن میں تعلیم قرآن اور درست عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے، حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ ان تمام مکاتب کی خیر گیری کرتے، ہر چند ماہ کے بعد ان کی رپورٹ حاصل کرتے رہتے، اسی طرح مجلس تحفظ ختم نبوت کی ملک بھر میں پھیلی ہوئی شاخوں کے متعلق بھی رپورٹ طلب کرنے کا معمول تھا۔
اصلاح معاشرہ:
عوام کی اصلاح، رسوم وبدعات سے اجتناب کی ترغیب، گناہوں سے روکنے کی کوشش وغیرہ آپ کی دل چسپی کے موضوع تھے، اس مقصد سے گاؤں، دیہات کے اسفار اور مدارس کے جلسوں اور اصلاحی پروگراموں میں شرکت فرماتے۔ آپ نے جمعیۃ علماے ہند کے پلیٹ فارم سے بھی اصلاح معاشرہ کے مشن کو ازسر نو زندہ کیا، اس کے تحت ملک بھر میں اصلاحی پروگرام منعقد کیے گئے۔ اسی طرح گذشتہ سال جب پوری دنیا میں کرونا پھیلنے کی وجہ سے نظام تعلیم معطل ہوا اور دارالعلوم دیوبند میں بھی تعلیم موقوف تھی تو آپ نے اصلاح معاشرہ کی اہمیت کے پیش نظر ایک کمیٹی برائے اصلاح معاشرہ تشکیل کرنے کی رائے دی؛ چناں چہ آپ کی سرپرستی میں ۲۱؍ربیع الثانی ۱۴۴۲؍ مطابق ۷؍ دسمبر ۲۰۲۰ء کو اصلاح معاشرہ کمیٹی کی تشکیل ہو گئی. پھر آپ کے مشورے سے اصلاحی پروگرام شروع کیے گئے، دیوبند کی بیش تر مساجد میں ہفتہ واری پروگرام اور درس قرآن کا نظام بنایا گیا اور اساتذۂ کرام کو متعین کیا گیا، اطراف کے دیہات و قصبات میں بھی اصلاح معاشرہ کے پروگرام منعقد کئے گئے؛ چناں چہ تقریباً ۲۰۰سے زائد گاؤوں میں اصلاح معاشرہ کے پروگراموں کا انعقاد ہوا، دیگر اضلاع وصوبہ جات میں بھی وہاں کے مطالبے پر اصلاحی پروگرام منعقد کیے گئے، حضرت قاری صاحب کی تجویز اور مشورے سے ہی متعدد عناوین پر مختصر مختصر رسائل تیار کرکے شائع کیے گئے، اب تک متعدد اصلاحی عناوین پر۳۱؍ رسائل اردو ہندی میں شائع کیے جا چکے ہیں، یہ رسائل پروگراموں میں تقسیم کیے جاتے؛ تا کہ ان کو پڑھ کر عوام میں اصلاح کا جذبہ بیدار ہو، حضرت قاری صاحب نے ان رسائل کو پمفلٹ کی صورت میں بھی شائع کرایا، حضرت قاری صاحب جہاں بھی پروگرام کے لیے جاتے رسائل اور پمفلٹ ساتھ لے جاتے، اپنی تقریر کے بعد اصلاح معاشرہ کی اہمیت اور پھر ان رسائل کے تعلق سے گفتگو کرتے، سامعین سے ان رسائل کو پڑھ کر عمل کرنے اور دوسروں کو پڑھوانے کا وعدہ لے کر ان کو تقسیم کرتے، پمفلٹ کی فوٹو کاپی کراکر دیگر لوگوں کو پڑھوانے اور عمل کرنے کی ترغیب دیتے۔
حضرت قاری صاحب نے اصلاح معاشرہ کے تحت تصحیحِ قرآن کے جزوقتی حلقے بھی قائم کرائے
چناں چہ شہر دیوبند کی مساجد میں تصحیحِ قرآن کے متعدد حلقےجاری ہوئے جن میں اساتذۂ مکاتب، اساتذۂ ناظرہ وحفظ کی ڈیوٹی لگائی گئی. یہ جز وقتی مکاتب شہر کی مساجد میں صرف ایک یا دو گھنٹے کے لیے جاری ہوتے اور ان میں اساتذہ کرام بالغ حضرات کو قرآن کی تعلیم دیتے یاان کے قرآن کی تصحیح کراتے، نیز دیوبند میں دارالعلوم کے تحت مکاتب کا ایک مزید سلسلہ پہلے سے بھی جاری ہے اور ان مکاتب کی تعداد ۱۳؍ہے. اس طرح دارالعلوم کی شاخ کے طور پر دیوبند اور بیرون دیوبند چلنے والے کل مکاتب ۴۳؍ ہوجاتےہیں. حضرت قاری صاحب کو اِن تمام مکاتب سے بہت دل چسپی تھی. ان کی کارکردگی اور رپورٹ منگا کر ملاحظہ کرتے، معلمین مکاتب اور نگراں حضرات کی میٹنگیں کرتے رہتے تھے، آپ کی توجہ اور دل چسپی کی بدولت اصلاح معاشرہ کا کام نہایت منظم اور مربوط انداز میں ہوا، جس کے بہت اچھے اثرات محسوس کیے گئے اور اس اقدام کی ستائش کی گئی۔
تحقیق و تالیف کمیٹی:
تعلیمی نظام موقوف ہونے کے زمانے میں ہی تحقیق وتالیف کمیٹی کا قیام ہوا، جس کی ذمہ داری احقر کے کاندھوں پر ڈالی گئی، حضرت قاری صاحب کی نگرانی میں کمیٹی نے کام شروع کیا، چناں چہ اکابر کی قدیم کتب کی تسہیل وتحقیق اور جدید عناوین پر تصنیف وتالیف کا کام متعدد اساتذہ کرام کو سونپا گیا، جن میں بیش تر حضرات اساتذہ نے اپنے کاموں کی تکمیل کرکے جمع کردیاہے، نظرثانی کے بعد وہ طباعت و کتابت کے مرحلے میں ہیں۔ حضرت قاری صاحب کو اس شعبہ کے امور سے بھی بہت دل چسپی تھی، صبح سویرے دفتر اہتمام میں تشریف لانے کے بعد عموماً احقر کو یاد کرلیتے، پھر تحقیق وتالیف کمیٹی سے متعلق متعدد امور پر گفتگو اور مشورہ ہوتارہتا، تحقیق وتالیف کمیٹی کی میٹنگ میں پابندی سے شرکت فرماتے، اپنی صاف شفاف رائے رکھتے، کمیٹی کی رپورٹ اور دیگر تحریرات پر غور فرماتے، رپورٹ اور تحریرات پڑھتے وقت الفاظ کے استعمال، تعبیرات وجملوں کی بندش وغیرہ پر بڑی نظر رکھتے، دفتری کارروائی اور رپورٹ وغیرہ میں تحریر اور کاغذ پر اعتماد کرتے، کسی بھی معاملہ کی دفتری کارروائی میں کاغذات کا تسلسل ان کے یہاں ضروری تھا. فائل کے درمیان سے کسی کاغذکا نکل جانا جرم کے درجہ میں گرداناجاتا، حضرت والا کے معاون مہتمم بننے کے بعد جن میٹنگوں میں احقر کو شرکت کرنے کاموقع ملا اور حضرت والا بھی ان میں شریک ہوئے ان میں ادارے کی انتظامی میٹنگوں اور تحقیق وتالیف کمیٹی میٹنگوں کی مجموعی تعداد پچیس سے متجاوز ہے، احقر نے ان میٹنگوں میں شرکت کرکے حضرت والا کے طرز، طریقہ کار، رائے دہی کے انداز، رائے کے قبول و رد کرنے کااصول اورفیصلہ کے لیے کسی ترجیح کو بنیاد بنانے کے طریقے کو خوب نوٹ کیا، کہ رائےدینے اور فیصلہ کرنے میں پ کی نظر میں اپنی خواہش و اصرار کا کوئی دخل نہ ہوتا بل کہ اس کے لیے کوئی معقول بنیاد اور ترجیح پیش نظر رہتی ، تحقیق وتالیف کمیٹی کی ہر میٹنگ میں آپ نے پوری دل چسپی سے شرکت فرمائی اور ہرہر بات کو ملاحظہ فرماکر مفید مشوروں سے نوازا۔
جمعیۃ علماء ہند:
آپ کی خدمات کا ایک اہم باب جمعیۃ علماے ہند بھی ہے. حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ سے دیرینہ تعلق اور خاندانی وابستگی کے سبب آپ جمعیۃ علما سے ابتدا ہی سے وابستہ ہوگئے، امروہہ قیام کے زمانہ میں جب جمعیۃ علما کی طرف سے جیل بھرو تحریک چلی، آپ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جمعیۃ علما کی ہر تحریک میں آپ کا نمایاں کردار رہا، اس کے پروگراموں کو کامیاب بنانے اور اس کی تجاویز کی تیاری میں تعاون فرماتے، آخر میں آپ کوجمعیۃ علماے ہند کا صدر بنایاگیا، آپ کے دورِ صدارت میں جمعیۃ علماء ہند نے دہشت گردی مخالف تحریک شروع کی، پورے ملک میں جگہ جگہ چھوٹی بڑی کانفرنسیں کی گئیں، دہشت گردی مخالف امن عالم کانفرنس منعقدہ ۱۴؍ فروری ٢٠٠٩ء میں آپ نے پورے مجمع کو ہاتھ اٹھوا کر بطور عہد کے درج الفاظ دوہرائے، کہ ہم جمعیۃ علما کی طرف سے منعقدہ دہشت گردی مخالف امن عالم کانفرنس کے اعلامیہ کی تائید کرتے ہیں اور دارالعلوم کے دہشت گردی مخالف فتوی کو تسلیم کرتے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ اسلام کے پیغامِ امن کو عام کریں گے، ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ بڑی بڑی متعدد کانفرنسوں میں لاکھوں افراد سے ہاتھ اٹھاکر اس عہدنامہ کو دوہرا یاگیا، دہشت گردی مخالف کانفرنسوں کا انعقاد کرکے حکومت وقت اور پوری دنیا کے سامنے ہندستانی مسلمانوں کا موقف رکھا گیا، جس کے وسیع پیمانہ پر مثبت اثرات محسوس کیے گئے، آپ کے زمانے میں جمعیۃ علماے ہند کی سرگرمیاں پہلے کی طرح نہ صرف جاری رہیں بل کہ ان میں اضافہ ہوا۔
متعلقین کی دل داری:
آپ کی زندگی میں جو بات بہت زیادہ متأثر کن رہی وہ آپ کا متعلقین کے ساتھ دل داری کا معاملہ اور وقار کا برتاؤ ہے، اپنے چھوٹوں سے بھی احترام و وقار سے پیش آتے، احقر حضرت والا کا ایک ادنیٰ شاگرد اور خادم کے درجہ کا تھا؛ احقر کو اچھی طرح یاد ہے کہ دارالعلوم میں مدرس ہونے کے بعد کبھی بھی صرف نام لےکر راقم کو نہیں کارا، ہمیشہ مولانا کا لفظ لگا کر ہی مخاطب کرتے ۔ جب پروگرام میں کہیں تشریف لے جاتے اور وہاں اگر کوئی بہ اصرار اپنے گھر حاضری کی گذارش کرتا تو حتی الامکان وقت کی گنجائش کا خیال کرتے ہوئے اس کی دل داری کی کوشش کرتے، اس طرح کے متعدد واقعات احقر کےعلم میں ہیں۔ احتیاط و پرہیز بھی آپ کی زندگی میں مثالی تھا، معاملات حتیٰ کہ ہر ہر چیز میں آپ کا طور و طریق احتیاط کا نمونہ ہوتا تھا، طلبا کے معاملات اور خرچ کے لیے اُن کی جمع کردہ رقم سے متعلق بہت محتاط رہتے، وفات کے بعد آپ کے کاغذات میں ایسے بہت سارے لفافے ملے جن میں رقم اور اُس کی تفصیل کاغذ پر درج تھی کہ فلاں طالب علم نے اتنی رقم فلاں تاریخ میں جمع کی اور فلاں فلاں تاریخ میں اتنے پیسے واپس لیے، اب اس قدر رقم بچی ہوئی ہے، اِس طرح امانت کے برائے واپسی جو لفافے ملے جب اُن کے بارے میں اُن لوگوں کو جن کے نام لکھے ہوئے تھے بتلایا تو وہ حضرات بھی متحیر ہوئے یہ آپ کے احتیاط کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہے، اِسی طرح اہل تعلق کی دل داری سے متعلق آپ کی زندگی کاایک واقعہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کے اجداد نےحیات ہی میں وارثین کے مابین زمینوں کی تقسیم کردی، ہرحصہ دار کو اس کے حصہ کا مالک بھی بنادیا تھا، زمین ویلیو ریٹ کے اعتبار سے تقسیم ہوئی اور ہر ایک کےحصے کاپورا خیال رکھا گیاکہ کوئی اس پر معترض نہ ہوا تھا، وقت گذرتا رہا، اجداد کا زمانہ ختم ہوگیا، پھرحضرت قاری صاحب کے والدین کا زمانہ بھی گذر گیا والدین کے معاصرین ہم عمر بھی دنیا سے رخصت ہوگئے یہاں تک کہ حضرت قاری صاحب کی زندگی کا اکثر حصہ گذرچکا تھا تقریباً ساٹھ ستر سال سے زائد عرصہ بِیت جانے کے بعد مسئلہ کھڑا ہوا کہ جو کھیت حضرت قاری صاحب اور آپ کے برادران کے حصے میں آیا تھا اسی کے متصل دوسرا کھیت جو خاندان کے دوسرے افراد کی ملکیت میں آیا تھا جب قاری صاحب والے حصہ کی فروختگی کا ارادہ ہوا تو دوسرے حضرات برابر کھیت والے معترض ہوئے اور پرانی تقسیم کو غلط ٹھہرایا کہ اس وقت وہ تقسیم درست نہ ہوئی تھی، جب کہ واقعہ کے واقف کاروں کے نزدیک وہ تقسیم درست ہی تھی، اس موقع پر حضرت والا نے ایک وکیل کی مدد سے پرانے کاغذات کچہری سے حاصل کیے اورتمام اہل خاندان کو جمع کرکے ان کے سامنے صورت حال واضح کی، جس سے ثابت ہوا کہ وہ اجداد کے زمانے کی تقسیم درست تھی، اس میں کسی کی کوئی حق تلفی نہیں ہوئی تھی، سب کے اعتراف کے بعد حضرت قاری صاحب نے اپنے حصہ میں سے لاکھوں کی رقم ان لوگوں کے حوالےکی کہ اگر آپ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور اس زمین میں اپنے حق کے مدعی ہیں تو میں سب کی جانب سے صرف اپنے حصہ میں سے یہ رقم آپ کے حوالہ کرتاہوں، جب کہ آپ کے برادر زادے اور دیگر اہل خانہ اس سے سخت نالاں تھے، مگر آپ نے اپنے بھائیوں اور برادر زادوں کی مرضی کے خلاف اور ان کے علی الرغم ان مدعی حضرات کو لاکھوں کی رقم حوالہ کی، اس عمل سے آپ کی متعلقین کی دل داری اور شبہات سے احتیاط کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے. اس زمین کی تقسیم کے واقف کاروں کے نزدیک موجودہ دور میں آپ کا یہ عمل بہت ہی نادر اور شاذ واقعہ ہے، جب کہ زمین وجائیداد کے جھگڑے اور مقدمات سالہا سال تک چلتے ہیں اورکوئی فریق ہمارے ماننے کے لیے تیارنہیں ہوتا، آپ کا ایثار و دل داری پر مشتمل یہ عمل نصیحت آموز ہے۔
حضرت کی ۷۶؍ سالہ زندگی، صاف شفاف، باوقار، سنجیدہ، مصروف ترین اور گونا گوں خصوصیات کی حامل تھی. وفات کےبعد اکابر میں ایک شخصیت کا تأثر تھا: کہ حضرت کی وفات کا معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ اس طرح ہے کہ جیسے دودھ سے کریم اور مکھن نکال لیاگیاہو، ہر شخص کو افسردگی کے ساتھ آپ کی کمی سے ہونے والے نقصان کا تذکرہ کرتےہوئے پایا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت والا کی مغفرت فرمائے، درجات عالیہ سے نوازے۔ آمین.
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے