احسان قاسمی کی شاعری ’دشتِ جنوں طلب‘ کے حوالے سے

احسان قاسمی کی شاعری ’دشتِ جنوں طلب‘ کے حوالے سے


محمد رضوان ندوی
استاذ اردو، ایس ایس ہائی اسکول تیلتا، بلرام پور، کٹیہار
احسان قاسمی ادبی حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ ان کی ادبی شناخت مستحکم ہے۔ وہ ایک مختلف الجہات شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے بہترین افسانہ نگاری کی ہے اورشاعری کی مختلف اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور متعدد ادبی شخصیات پر انھوں نے تنقیدی مضامین بھی قلم بند کیے ہیں اورصحافت میں بھی انھوں نے اچھے نمونے چھوڑے ہیں۔ سہ ماہی رسالہ ’عکس‘ ارریا کے مدیرِ مسؤل کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ بہ حیثیت مجموعی وہ ایک اچھے افسانہ نگار، عمدہ شاعر، ممتاز ناقد اور اچھے صحافی ہیں۔ بہ حیثیت انسان بھی وہ نہایت نیک، ہم درد اور خیرخواہ ہیں۔ وہ بڑے علم دوست اور ادب نواز شخص ہیں بالخصوص نئے قلم کاروں کی وہ بڑی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ادبی دنیا سے انھیں متعارف کراتے رہتے ہیں۔
انھوں نے پورنیہ کالج، پورنیہ سے معاشیات میں بی اے آنرس کیا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انھیں کوشی کشیتریہ گرامین بینک میں ملازمت مل گئی۔ ایک خالص غیر ادبی شعبے میں ملازمت کے باوجود ان کی ادبی سرگرمیوں میں کبھی جمود نہیں آیا۔ ملازمت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ادبی سرگرمیوں میں کمی ضرورآئی، البتہ کلی طور سے وہ شعر و ادب سے کبھی دور نہیں ہوئے۔ انھوں نے طالبِ علمی کے دور سے ہی افسانہ نگاری اور شاعری شروع کردی تھی۔ اُس وقت پورنیہ کالج کا ادبی ماحول بہت ساز گار تھا۔ ممتاز افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، ناول نگار، شاعر اور ادیب جناب پروفیسر طارق جمیلی صاحب، معروف محقق، شاعر، ادیب،نقاد اور افسانہ نگار جناب پروفیسر احمد حسن دانش صاحب کی شاگردی اور صحبت انھیں حاصل رہی، لہٰذا احسان قاسمی کے اندر جو تخلیقی صلاحیت تھی انھیں کافی جلا ملی اور نہایت کم عمری ہی میں انھوں نے افسانہ نگاری اور شاعری شروع کردی۔ ان کی ادبی سرگرمیوں اور تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ’بزمِ ادب پورنیہ کالج‘ کا انھیں سکریٹری بھی بنایا گیا. انھوں نے اس ذمہ داری کو بھی بحسن و خوبی نبھایا۔
’پورنیہ اردوسوسائٹی‘ کے زیر اہتمام ہونے والے طرحی و غیر طرحی مشاعروں، ادبی نشستوں اور مذاکروں میں مسلسل شریک ہوتے رہے۔ انھیں وفا ملک پوری، پروفیسر احمد حسن دانش، شمس جلیلی، پروفیسر طارق جمیلی اورشمس جمال جیسے شعرا و ادباکے ساتھ شعری و ادبی نشستوں میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طالبِ علمی کے دور ہی میں ان کا شمار ایک اچھے افسانہ نگار اور شاعر کے طور پر ہونے لگا۔ ان کے افسانے ملک کے موقر رسائل وجرائد میں تواتر و تسلسل کے ساتھ شائع ہونے لگے۔ انھوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں نہ صرف سیمانچل، بل کہ پورے بہار کی عمدہ نمائندگی کی۔ ان کے افسانے بیرون ملک میں بھی شائع ہوئے جو ان کے مستند ہونے کی دلیل ہے۔
انھوں نے مختلف اضلاع کی مختلف برانچوں میں ملازمت کی۔ ہر جگہ انھوں نے اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی نبھاتے ہوئے حتیٰ الامکان شعر و ادب کے فروغ میں بھی حصہ لیا اوراربابِ نقد و نظر سے اپنی شعری و ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
بالآخرجنوری ٢٠١٥ء میں وہ بینک کی ملازمت سے سبک دوش ہوگئے. اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو کلی طور پر ادب کے لیے وقف کردیا یایوں کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ ہمہ وقتی قلم کار بن گئے ہیں۔ اگرچہ عمر بڑھی ہے، لیکن عزم جوان ہے اور حوصلہ میں تازہ کاری ہے۔ افسانہ نگاری، شاعری، صحافت اور تنقید نگاری کے میدان میں سرگرمِ عمل ہیں۔
چناں چہ٢٠١٧ء میں ان کا افسانوی مجموعہ ’پیپر ویٹ‘ شائع ہوا جس کی ادبی حلقے میں کافی پذیرائی ہوئی۔اس کے بعد٢٠٢٠ء میں ان کا شعری مجموعہ ’دشتِ جنوں طلب‘ شائع ہوا، اس کی بھی علمی وا دبی حلقے میں کافی پذیرائی ہوئی۔ ابھی حال ہی میں یعنی جنوری ٢٠٢١ء میں ان کی کتاب ’سیمانچل کے افسانہ نگار‘شائع ہوئی ہے جو ایک اہم اور اپنی نوعیت کی منفرد اور دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے فیس بک میں ’سیمانچل ادب کا گہوارہ‘ کے نام سے ایک اہم سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔اس کے ذریعے سے بھی انھوں نے سیمانچل کے نئے، پرانے بہت سے قلم کاروں سے ادبی دنیا کو متعارف کرایا ہے۔یہ ان کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ سیمانچل کے ادبی مورخ احسان قاسمی کے اس احسان کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ اپنے اس سلسلے کو وہ کتابی شکل بھی دینا چاہتے ہیں. خدا کرے یہ کام مکمل ہو۔
سرِ دست مجھے ان کے شعری مجموعہ ’دشتِ جنوں طلب‘ پراپنے تاثرات کا اظہار کرنا ہے زیر تبصرہ شعری مجموعہ’دشتِ جنوں طلب‘ ١٥٢ /صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں ایک حمد ایک نعت ۱۱/ آزاد/معریٰ اور ۵/ پابند نظمیں ۳۶/غزلیں اور چند متفرق اشعار ہیں۔ کتاب کے شروع میں ’آشیرواد‘ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانش صاحب سابق صدر شعبۂ اردو بی این منڈل یونیورسٹی کی ایک مختصر مگر جامع تحریر ہے۔ اس کے علاوہ ۱۱ / صفحات پر مشتمل احسان قاسمی صاحب کی خود نوشت بھی شاملِ کتاب ہے، جس میں ان تمام ضروری باتوں کا ذکر ہے جن کے بغیر ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کا جائزہ لینا مشکل ہے۔
احسان قاسمی نے اپنی شاعری میں کلاسیکی روایت کی پاس داری بھی کی ہے اور ترقی پسندی اور جدیدیت کے رجحانات و اثرات کو بھی قبول کیا ہے۔ کلاسیکی، ترقی پسندی اور جدیدیت کی آمیزش سے ان کی شاعری کاایک منفرد رنگ و آہنگ وجود میں آیاہے۔ ان کے یہاں تخلیقی توانائی اور وفور ہے اور فکری تازگی بھی ہے۔ ان کے یہاں جمود و تعطل نہیں، بل کہ ایک تحرک و تموج ہے۔ ان کا زاویۂ نظر بہت وسیع ہے. ان کے کلام میں تفکر و تعقل، طنز و مزاح، حسن و عشق کی داستاں، عصری مسائل و موضوعات کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کے رموز و اسرار کی جلوہ گری بھی ہے۔
ان کے یہاں عمدہ تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کا بھی ہنر مندانہ استعمال ہوا ہے۔ قاسمی صاحب کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں آسان اور عام فہم الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ بھاری بھرکم تراکیب اورعربی فارسی کے مشکل الفاظ کے استعمال سے حتی الامکان احتراز کیا ہے۔ ان کی بیش تر غزلیں سہلِ ممتنع کے دائرے میں آتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی غزلیہ شاعری کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ انھوں نے ہندی الفاظ کو اس فن کارانہ اور ہنر مندانہ انداز سے اپنی غزلوں میں استعمال کیا ہے کہ ان کی غزلوں کا حسن دوبالا ہوگیا ہے۔ ان کی شاعری اپنے اسلوب و اندازکی دل کشی و رعنائی، فکری بلندی، فنی پختگی اور خیالات کی ندرت و جدت کی وجہ سے معاصر شعری منظر نامے میں منفرد مقام کی حامل ہے۔ ان کی شاعری میں بھر پور عصری حسیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے نظم و غزل دونوں صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے اور دونوں اصناف میں قابل قدر تخلیقات موجود ہیں، لیکن طبعی طور پر ان کا میلان غزلوں کی طرف زیادہ ہے۔ یعنی زلفِ غزل کی اسیری انھیں زیادہ راس آئی ہے۔ ان کے شعری مجموعے کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی شاعری کا اصل جوہر ان کی غزلوں ہی میں نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی بیش تر نظمیں آزاد/معریٰ ہیں۔ ان نظموں میں انھوں نے اہم موضوعات پر نہایت موثر انداز میں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔ ان کی پابند نظموں میں ’ایک خط تمھارے نام‘ ایک رومانی نظم ہے. اس نظم میں انھوں نے اپنے دلی جذبات و احساسات کا بہت عمدہ اسلوب میں اظہار فرمایا ہے۔ یہ نظم بے حد دل کش ہے۔ احسان قاسمی نے ١٩٧٨ء میں اپنی ایک غزل کے مقطع میں اپنی شعر گوئی کے سلسلے میں جو پیشین گوئی کی تھی وہ آگے چل کر سچ ثابت ہوئی:
اک دن شاعر بن جائے گا
دبلا پتلا لڑکا احساں ؔ
اب ان کی غزلوں کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور لطف اٹھائیں۔
پوری دنیا میں قتل وغارت گری اور بنی نوع انسان کی خوں ریزی کے رونما ہونے والے واقعات و حادثات کے تناظر میں ان کا یہ شعر دیکھیں:
ہر لمحہ ہر پل بہتا ہے
خونِ انساں کتنا ارزاں
رنگ و نسل، ذات و مذہب کی بنیاد پر تعصب اور تنگ نظری پر ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں کس قدر سچا شعر ہے:
رنگت، مذہب، نسل و فرقہ
سرحد سرحد ٹوٹا انساں
اس عہد میں چہار سو خوف و ہراس کا جو ماحول ہے اس کے تناظر میں ان کا یہ شعر دیکھیں:
چہرہ چہرہ دہشت دہشت
سہما سہما ہر اک منظر
موجودہ دور میں ملک کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا جو ماحول ہے، اس کیفیت کا شاعرانہ اظہار ملاحظہ فرمائیں:
گولی، گولا، ڈنڈا، بھالا
جئے بجرنگ، اللہ اکبر
آج عالمی سطح پر انسانوں کے اخلاق و کردار اور اس کے کارنامے ایسے ہیں کہ جسے دیکھ کر حیوان بھی شرمندہ ہیں:
دیکھ کے انساں کو شرمائے
کتا، بلی، بکری، بندر
یہ شعران کی دور بینی کی دلیل ہے:
احساں ؔ! شہروں شہروں اگلے برسوں یہ منظر ہوگا
ٹوٹے پھوٹے چہرے ہوں گے،ہاتھوں میں پتھر ہوگا
اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں انسان کو پیار و محبت کے لیے بھی فرصت نہیں ملتی، اگر چہ یہ جذبہ ایک فطری جذبہ ہے:
کیسے کہوں کہ پیار کے قابل نہیں رہا
فرصت ملے تو خواب میں دفتر دکھائی دے
بہ ظاہر سادگی اور بہ باطن مکاری و عیاری اور منافقانہ روش پران کا شعر دیکھیں:
بھولے چہرے پہ ریجھ مت جانا
بھولا چہرہ نقاب ہے لوگو!
تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
کتابوں میں، گلابوں میں، نمازوں میں، دعاؤں میں
نہیں ملتے، نہیں ملتے،مگر تم ہو اسی من میں
شاعر کو رنج وغم جھیلنے اور درد و غم کے سہارے زندگی گزارنے کی عادت سی ہوگئی ہے، چناں چہ وہ کہتے ہیں:
کوئی بات ایسی ہوتی ہمیں رات بھر ستاتی
کوئی درد ایسا ہوتا ہمیں عمر بھر جگاتا
شاعر دوسروں کی خوشی کے لیے ہمیشہ اپنا سب کچھ لٹاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا یہ شعر بھی دیکھیں:
تیری محفل میں ذرا دیر اجالے کے لیے
دل جگر ہم نے چراغوں سا جلا رکھا ہے
ہجر و فراق رنج و غم ظلمت و تاریکی کے سایے میں اب ان کی زندگی گزر رہی ہے، تیرگی اب ان کی زندگی کا مقدر بن چکی ہے:
دردِ تنہائی ہے غم کی رات ہے
تیرگی اب زندگی کے سات ہی

موجودہ حالات میں اس شعر کی معنویت اور بڑھ گئی ہے:
قوتِ گویائی اپنی چھن چکی ہے قاسمی!
تیرے میرے بیچ اب تو بولتی ہے خامشی
آج کے اس پرفتن اور پرآشوب دور میں انھوں نے پیارو محبت کے پیغام کو عام کرنے اور دل کی بستیاں آباد رکھنے کی تلقین کی ہے۔ ان کا یہ آفاقی صداقت کا حامل شعر ملاحظہ فرمائیں :
فتنہ پرور جہاں میں احساں!ؔ
بستیاں دل کی بسائے رکھیو
یہ بھی ہماری اردو شاعری کی روایت رہی ہے کہ ہرچھوٹے بڑے شاعر نے شاعرانہ تعلّی کا اظہار کیا ہے۔ احسان کا یہ شعر بھی اسی نوعیت کا ہے ملاحظہ فرمائیں:
احسانؔ کی غزل کا
کوئی جواب لکھ دے
موجودہ دور میں لوگوں کے دلوں میں کدورت اور تیرگی و تاریکی کی فراوانی ہے۔ اس کے برخلاف مندر و مسجداور دیگر عبات گاہوں میں قمقمے اور روشنی کی جگمگاہٹ ہے۔ اس پر طنز کرتے ہوئے انھوں نے بہت سچا شعر کہا ہے ملاحظہ فرمائیں:
دل کے اندر ہے تیرگی احساں ؔ!
مندروں میں چراغ جلتے ہیں
مادرِ وطن کی موجودہ صورت ِ حال سے اس قدر کبیدہ خاطر ہیں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:
خونِ دل سے جس کو سینچا تھا کبھی اسلاف نے
بکھرا بکھرا سا ہے اس گلشن کا یہ شیرازہ بہت
عصر حاضر میں زندہ انسانوں کی ناقدری اور پس مرگ ان کی مدح سرائی اور عزت و احترام کی جو روش ہے اس صورتِ حال اور کیفیت کا کس قدر عمدہ شاعرانہ نقشہ کھینچا ہے کہ کوئی باذوق شخص داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا:
اس دور کی کیا کہئے، یہ دور نرالا ہے
مردوں کی پرستش ہے، زندوں سے عداوت ہے
یہ شعر بھی اسی قبیل کا ہے کہ ہم لوگ مردہ پرست ہیں جیتے جی لوگوں سے ناواقفیت اور ناآشنائی ہمارا شیوہ ہے اور مردوں پر ہمارا ایمان بہت مستحکم ہے یعنی ہمارا سماج مردہ پرست ہے:
زندوں سے انجان بہت ہے
مردوں پر ایمان بہت ہے
انھیں تمام انسانوں کے فائدے و منفعت سے دلی خوشی ہوتی ہے،خواہ دوست ہو یا دشمن حتی کہ جو ان کے بد خواہ ہیں اور ان کی مصیبت، ناکامی اور ان کے نقصانات سے خوش ہوتے ہیں وہ ان کے بھی نقصان کے خواہاں نہیں ہیں، بل کہ ان کے فائدے کے ہی خواہاں ہیں:
میرے نقصاں پر جو ناحق خوش ہوئے
مجھ کو ان کا فائدہ اچھا لگا
عموماً اصول پسند اور حق گو لوگ زبان کے سخت ہوتے ہیں، لیکن وہ بڑے نرم دل انسان ہوتے ہیں ایسے لوگوں کا ظاہر و باطن یکساں ہوتا ہے اس حوالے سے ان کا یہ شعر کتنا پیارا ہے ملاحظہ فرمائیں:
وہ زباں سے تلخ، دل سے نرم تھا
مجھ کو اس کا قاعدہ اچھا لگا

مندرجہ ذیل اشعار میں انھوں نے اپنے بچپن کی ترجمانی اس انداز سے کی ہے کہ ہر انسان کے بچپن کی ترجمانی محسوس ہوتی ہے:
بانہوں کا جھولا بن جانا اچھا لگتا تھا
ابو کا دفتر سے آنا اچھا لگتا تھا
خود کے ہاتھوں کھا سکتا تھا لیکن مجھ کو تو
امی کے ہاتھوں سے کھانا اچھا لگتا تھا
بھائی بہنوں کی ٹولی میں تھاسب سے چھوٹا
سب سے تو تو میں میں کرنا اچھا لگتا تھا
یاروں کی ٹولی تھی جیسے مستوں کی ٹولی
مستوں کی ٹولی میں رہنا اچھا لگتا تھا
ان کا شعر دیکھیں کہ کس طرح سے انھوں نے اسلام کی تعلیمات کی شاعرانہ انداز میں ترجمانی کی ہے اور پوری امت مسلمہ کو شرافت، ایمان داری، دیانت داری اور حسن اخلاق جیسی صفات کو بہ طور ِہتھیار اپنانے کی تلقین کی ہے کہ اس سے متاثر ہوکر ظالم بھی اپنے ظلم پر نادم اور شرمندہ ہوکر اپنے ظلم سے باز آجائے :
ظالم بھی جسے دیکھ کے شرمندہ ہو دل میں
تم اپنی شرافت کو ہی ہتھیار بنالو
شاعر لوگوں کو دلوں کی تاریکی کو ختم کرنے پر زور دیتے ہیں اور دل کی کدورتوں کو دور کرکے اسے روشن کرنے کی تلقین کرتے ہیں کیوں کہ جب انسانوں کے دل روشن ہوں گے تو آس پاس میں خود ہی روشنی ہوجائے گی اور تاریکی چھنٹ جائے گی:
روشنی ہوگی اندھیروں کے نگر میں یارو!
من کے بھیتر جو کوئی دیپ جلایا جائے
غزلیہ شاعری میں نعت کا یہ پیارا شعر ملاحظہ فرمائیں:
عشقِ احمدؐ زادِ سفر ہے
بس اتنا سامان بہت ہے
ان کا یہ پیارا شعر بھی ملاحظہ فرمائیں:
دل بت خانے میں رہتا ہے
مسجد آؤ ہو کیوں صاحب
موجودہ دور میں والدین کی نافرمانی ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی ہے۔ ان کی خدمت اور اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ کم ہوتا جارہا ہے۔ مذہبی مقدس مقامات کی زیارت تو خوب کرتے ہیں اور اس میں پیسے بھی کافی خرچ کرتے ہیں، لیکن والدین کی خدمت پر بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں جب کہ والدین کی خدمت بہت بڑی عبادت ہے:
جب گھر میں ماتا بوڑھی ہے
کاشی جاؤ ہو کیوں صاحب
آج حال یہ ہے کہ لوگ ظاہر کی صفائی پر تو خوب دھیان دیتے ہیں، لیکن باطن کی صفائی کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دل سے کدورت اور بغض و حسد، نفرت و عداوت کے رکیک جذبات کو دور کیا جائے اور دل کو صاف کیا جائے ورنہ صرف لباس اور جسم کی صفائی سے کو ئی فائدہ نہیں ہے، بل کہ تن اور من دونوں کی صفائی اور طہارت ضروری ہے، اس حوالے سے ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
دل میلا تھا، دل میلا ہے
کپڑے دھوؤ ہو کیوں صاحب
اسی طرح انھوں نے مسلمانوں بالخصوص حاجیوں سے من کے شیطان کو بھگانے کی تلقین کی ہے ورنہ دورانِ حج شیطان کو کنکری مارنے سےکوئی فائدہ نہیں ہے۔سب سے پہلے انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول کی ضرورت ہے اور شیطانی عمل سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اس تناظرمیں ان کا یہ شعر دیکھیں :
اپنے بھیتر بھی شیطاں ہے
کنکر پھینکو ہو کیوں صاحب
یہ شعر بھی دیکھیں کس قدر عمدہ شعر ہے:
رہزن کو بنوا کر رہبر
روؤ دھوؤ ہو کیوں صاحب
اقبال کا شعر ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
اسی قبیل کا یہ شعر احسان قاسمی صاحب کا بھی ملاحظہ فرمائیں:
جنوں مدِ مقابل
خرد سہما ہوا ہے
اس بھری دنیا میں نہ شاعر کا کوئی ہم دم ہے نہ ہم ساز ہے. اپنی تنہائی کے کرب کا اظہار یوں کرتے ہیں:
المیہ اس دور کا احساں ؔ سنو
”دوستوں کی بھیڑ ہے تنہا ہوں میں“
کس طرح شاعر ہمیشہ پیکرِ وفا بن کر الفت و محبت کی شمع ہاتھوں میں لے کر چلتے ہیں۔ اس خود غرضی کے ماحول میں تمام تر دشواریوں کے باوجود انسانی رشتے ناطے کو نبھا کے چلتے ہیں:
ہم تو رشتے نبھا کے چلتے ہیں
دیپ لے کے وفا کے چلتے ہیں
خود احتسابی کے حوالے سے ان کا یہ شعر بہت پیارا ہے، شاعر نے اس خیال کا اظہار بڑے فن کارانہ انداز سے کیا ہے کہ انسان کو دوسروں پر الزام تراشی اور دوسروں کی عیب جوئی اور نکتہ چینی کے بجائے پہلے اپنے آپ کا جائزہ لینا چاہیے:
آئینوں سے رابطہ اچھا لگا
آپ اپنا جائزہ اچھا لگا

یہ شعر بھی کس قدر حقیت پر مبنی ہے:
مجھ کو گرمی کہاں ستاتی ہے
میرا کچا مکان ہے بابا
وہ لوگ جن کے پاس کوئی مستقل ذریعۂ آمدنی نہیں ہے انھیں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور ہر ماہ وقت پر اسکول کی تعلیمی فیس کی ادائیگی میں یا اگر کرایے کا مکان ہو تو مکان مالک کو ہر ماہ کرایے کی ادائیگی میں کس قدر دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے،جو اس کا تھوڑا بہت عملی تجربہ رکھتا ہو۔اس حوالے سے قاسمی صاحب کایہ شعر کس قدر عمدہ شعر ہے:
مجھ کو بچوں کی فیس بھرنی ہے
اب رلائے گا یہ مہینہ بھی
ان کا یہ شعر مزدور اور محنت کش طبقے کی روزمرہ کی زندگی کے جس کرب کو بیاں کرتا ہے اس سے بہتر ترجمانی ممکن نہیں:
مزدور کے جیون میں بس ایک ہی ہے موسم
ہرروز نکلنا ہے، ہر روز کمانا ہے
اب ان کے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اپنے استاذو کرم فرما پروفیسر طارق جمیلی مرحوم کی نذر مندرجہ ذیل شعر کیا ہے، جس میں انھوں نے اپنے استاذ گرامی کے احسانات کا اعتراف کھلے دل سے کیا ہے:
تعریف کیا کروں میں طارق جمیل کی
احسانؔ پر کرم ہے یہ احساں نواز کا
انھوں نے حالاتِ حاضرہ کی نذر ایک شعر کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
حادثوں کا ذکر کوئی اور نہ خبریں قتل کی
آج کے اخبار کا پیسہ تو پانی میں گیا
احسان قاسمی کی نظمیں بھی بہت عمدہ ہیں۔ معری/آزاد نظموں میں بھی بیش تر اہم نظمیں ہیں بالخصوص ’آئینہ‘ ’یادیں‘ ’لاچاری‘ بہت عمدہ نظمیں ہیں. فکری اور فنی دونوں لحاظ سے ان کی نظمیں کام یاب ہیں۔ پابند نظموں میں ’تیل‘ ’کھچڑی‘ ’ایک خط تمھارے نام‘ وغیرہ عمدہ نظمیں ہیں۔
الغرض احسان قاسمی کی شاعری فکر و فن اور زبان و بیاں ہر پہلو سے عمدہ شاعری ہے۔ انھوں نے عصری مسائل و موضوعات کو بہت فن کارانہ چابک دستی اور ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔ان ان کی شاعری میں حدیثِ دل اور حکایاتِ ہستی دونوں ہیں۔ شاعری میں گرچہ انھوں نے کسی کو باقاعدہ اپنا استاد نہیں بنایا، بل کہ شروع سے اب تک وہ اپنی فطری موزونیت اور ذوقِ سلیم کی بنیاد پر شاعری کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا بیش تر کلام فنی اسقام سے پاک ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف سیمانچل کے بل کہ ملکی سطح پرموجودہ دور کے شعرا کے تناظر میں دیکھا جائے تو معیار و وقار میں کوئی کمی نہیں ہے، لیکن حاشیائی بستیوں کے جینوین تخلیق کاروں کے ساتھ ناقدینِ شعرو ادب کا رویہ کبھی بھی اچھا نہیں رہا۔ ہمارے ناقدینِ ادب میر و غالب میں محصورو مقید ہیں۔ کسی نئے جزیرے کی تلاش سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے عہد کے ناقدین ادب اس طرح کے تخلیق کاروں کی تخلیقات پر غور کریں اور ان کے ادبی مقام و مرتبے کاتعین کریں اس سے اردو شعر وادب کا دامن وسیع ہوگا۔

رضوان ندوی کی دوسری نگارش یہاں پڑھیں : ہے نہیں اچھی طبیعت آپ کے بیمار کی

شیئر کیجیے

One thought on “احسان قاسمی کی شاعری ’دشتِ جنوں طلب‘ کے حوالے سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے