تعلیم ہی کام یابی کی کنجی ہے

تعلیم ہی کام یابی کی کنجی ہے

علاقۂ اتر دیناج پور کے خصوصی حوالے سے

حبیب الرحمن
پچڑا، اتر دیناج پور

ہمارے سیمانچل میں بالخصوص علاقۂ اتر دیناج پور کے نوجوانوں کو نہیں ،بل کہ والدین کو اس بات پر قائل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے کہ تعلیم ہی کام یابی کی کنجی ہے ، تعلیم ہی سے بند راہیں کھلتی ہیں ، منزل مقصود تک پہنچنے کا طریقہ معلوم ہوتاہے ، اچھی اور بری چیز کا شعور پیدا ہوتاہے ، گھپ اندھیرے سے نکلنے کا راستہ ملتاہے ، زندگی کیا ہے ؟ زندگی کی صحیح سمتیں کیا ہیں ؟ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے ،یا جانی چاہیے ؟ یہ سب ہمیں صحیح طور پر تعلیم ہی سے معلوم ہوتاہے، بغیر تعلیم کے ایک قدم بھی آگے بڑھنا مشکل ہے ، غیر تعلیم یافتہ حضرات کو ہر ہر گام پر اڑچنوں کا سامناکرنا پڑتاہے. مندر میں داخل ہوکر پانی پینے والے محمد آصف کی پٹائی اس لیے ہوئی تھی کہ وہ ناخواندہ تھا ، مندر کے باہر بڑا سا بورڈ لگاہوا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے ، مگر محمد آصف نے تو کبھی اسکول ، اور مدرسے کا منہ ہی نہیں دیکھا تھا، اس کی دہلیز پر کبھی قدم دھرا ہوتا تو کچھ پڑھ لکھ لیتا، اور اس بورڈ پر مرقوم تحریر کو پڑھ کر مندر میں داخل ہونے سے ضرور اجتناب کرتا ، اور اس کی وہ گت نہ بنی ہوتی ، جو ان بیداد گروں کے ہاتھوں بنی تھی –
آج ہمارے علاقے کے بیش تر گھرانوں کی نئی پود میں ہر دوسرا تیسرا فرد ان پڑھ ہے ، اور والدین کی بے حسی اس پر مستزاد ، ہمارے ہاں کے زیادہ تر والدین یہی سوچتے ہیں کہ فلاں کا بچہ بغیر پڑھ لکھ کر دلی ، پانی پت ، ہریانہ، کیرالا اور دیگر مقامات میں مزدوری کرکے اتنے روپے پیسے کما لیتے ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں کما سکتے ، کوئی بیس ہزار ، تو کوئی تیس ہزار ، ارے وہ دیکھو نا! ان کے دولڑکے کیرالا میں رہتے ہیں ، کتنی شان دار بلڈنگ کھڑی کرلی ہے ، اوراس بی اے ، ایم اے پاس ،اور مولبی صاحب کو دیکھ لو ! پڑھ لکھ کر کون سا پہاڑ توڑدیےہیں، گھر پر نٹھلے ہی تو بیٹھے ہیں ، اس لاک ڈاون میں بھی میرے دونوں بیٹوں نے مجھے اتنے روپے پیسے دے دیے ، اس لیے آج کل بچوں کو پڑھا لکھا کر کوئی فائدہ ہی نہیں ہے ، نوکری تو ملے گی نہیں ، اس لیے بالی عمر ہی میں اپنے بچوں کو آذوقۂ حیات کی تلاش میں دور دراز مقامات کی طرف بھیج دیتے ہیں ،اور یہی وجہ ہے کہ بعضے لڑکے کیرالا سے اس لیے بھی واپس کردیے جاتے ہیں کہ ابھی ان کی عمر نہیں ہوئی ہے کام کرنے کی. سچ پوچھیے دوستو ! دل خون کے آنسو روتا ہے، جب یہی لڑکے کیرالا ، پانی پت اور دیگر مقامات سے کچھ روپے پیسے کماکر گھر لوٹتے ہیں تو اپنی تہذیب وتمدن ،اور اپنی مذہبی تعلیمات کو یکسر فراموش کربیٹھتے ہیں. اور اس کروفر اور طمطراق کے ساتھ گاوں میں چلتے پھرتے ہیں کہ بسا اوقات تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، اور جے این یو کے پروفیسر معلوم ہوتے ہیں ، اور یہی وہ لڑکے ہوتے ہیں جو معاشرے کو بگاڑ نے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں. والدین بھی ان لڑکوں کے گھر آنے پر یہ سوچ کر گھبراتے ہیں کہ پتا نہیں کون سی اول فول حرکت کرکے ہماری گردن شرم سے جھکادے. واقعی تعلیم یافتہ حضرات کے لیے بالخصوص ہمارے علمائے کرام کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے. اس لیے ہماری یہ مکمل ذمے داری بنتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی تقریروں اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت اور اس کی فضیلت سے آگاہ کریں اور انھیں یہ بھی بتائیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں کام یابی اور کام رانی حاصل کرنے کے لیے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے لیے اور دوسروں پر حکم رانی کرنے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ازحد ضروری ہے. آج اچھے اچھے عہدوں اور اعلی مناصب پر غیر اسی لیے فائز ہیں کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں ، تعلیم کی اہمیت کو وہ ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں ،اس لیے آج ہم ان کے محکوم بنے بیٹھے ہیں ، ابھی دو روز پیش تر ہی کی بات بتاوں آپ کو ، راقم کسی ضرورت سے شاہ پور بازار گیا تھا، جس دکان میں گیا تھا، وہاں پہلے ہی سے ایک رفیوجی خاتون موجود تھی ، جو گھر پر واقع اپنی دکان کے لیے کچھ سامان خریدرہی تھی ،اور بڑی جلدی جلدی میں خریدی ہوئی چیزیں اپنے جھولے میں ڈال رہی تھی ، اور بنگلہ زبان میں کہے جارہی تھی ،جس کا مفہوم یہ تھا ” کہ میری بچی گھر پر واقع اپنی دکان پر بیٹھی ہوئی ہے ، مجھے جلدی جلدی یہ دیجیے وہ دیجیے، میں گھر جاوں گی ، دکان پر جاکر بیٹھوں گی ، اور میری بیٹی ٹیوشن جائے گی ، اس کی ٹیوشن کا وقت ہورہا ہے ، دیر ہوجائے گی تو وہ ٹیوشن نہیں جاپائے گی ، اس رفیوجی خاتون کا تعلیم کے تئیں یہ جذبہ صادق دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب سی مسرت محسوس ہورہی تھی ، اور اپنی قوم کے بالخصوص علاقے کے لوگوں کی تعلیم کے تئیں سرد مہری دیکھ کر افسوس ہورہاتھا کہ ہمارے ہاں کے لوگ زندگی کے ہر شعبے میں اس لیے پچھڑے ہوئے ہیں کہ ان کے نزدیک تعلیم کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے.
آج ہرایک کو متمول بننے کا شوق ہے ، اور اپنے ہونہار بچوں کے پیسوں سے اونچی اور شان دار عمارتیں کھڑی کرکے معاشرے میں اپنا ایک الگ مقام بنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ، گویا ان کے نزدیک سماج میں عزت و توقیر کا معیار بینک بیلنس کا زیادہ ہو ناہے ، اگر انھیں اس بات کا علم ہوتا کہ تعلیم کیا چیز ہے ؟ تعلیم یافتہ حضرات کا تعلیم یافتہ سماج اور معاشرے میں کیا مقام ہوا کرتاہے ، ملک کی باگ ڈور کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے؟ اور ملک کو بام عروج تک پہنچانے میں کن لوگوں کا کردار ہوتا ہے ؟ تو وہ ضرور اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کی فکر کرتے.
اخیر میں یہ کہہ دینا مناسب معلوم ہوتاہے کہ علاقے میں تعلیم کے تئیں بیداری لانے کے لیے تعلیم یافتہ حضرات کو بالخصوص ہمارے علمائے کرام کو آگے آنا ہوگا ، ان شاء اللہ ایک نہ ایک روز ہمارے علاقے میں ضرور انقلاب آئے گا ،اور ہمارا علاقہ تعلیم کے معاملے میں پچھڑا ہوا نہیں سمجھائے گا ، جیساکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہاگیاہے –

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے