عجوبے کا عجائب گھر

عجوبے کا عجائب گھر

 ذاکر فیضی، نئی دہلی
عجوبہ دو قدم پیچھے ہٹا، سر اٹھا کر نہایت فخر کے ساتھ اپنی عالی شان حویلی کے ماتھے پر لگا بڑا سا بورڈ دیکھا، اس پر تحریر چمک رہی تھی،’عجوبے کا عجائب گھر‘۔سورج کی تیز روشنی میں اس کی آنکھیں چندھیا گئیں، آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے اس نے سوچا۔۔۔۔۔اب جلدی سے وہ چیزیں بھی مل جائیں تو اس کا عجائب گھر مکمّل ہو جائے۔ وہ اس بیش قیمتی چیزوں کی تلاش میں نکل رہا تھا، جو اس کے عجائب گھر کو چار چاند لگا دیں گی اور اس کا عجائب گھر دنیا کا سب سے اعلی، سب سے نرالا، صحیح معنوں میں سب سے عجیب عجائب گھر ہوگا۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے ، سب سے پہلے اس نے ٹی وی، اخبارات، میگزین، ریڈیو، انٹرنیٹ ہر جگہ اشتہارات دیے، مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس نے دنیا کی تمام اشتہاراتی ایجنسیوں سے رابطہ قائم کیا، مگر کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔پھر اس نے اپنے بہت سے ایجنٹوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجا، ان ایجنٹوں نے ہزاروں ملازمین رکھ کر اس چیز کی تلاش کی، مگر ناکامی ہی ناکامی۔ وہ اس عجیب چیز کی تلاش میں اپنی بے شمار دولت لٹا چکا تھا، جو اسے ورثے میں حاصل ہوئی تھی۔ یہی نہیں اس نے خود کی محنت سے جو پیسہ کمایا تھا، وہ بھی لگا دیا تھا۔ اب محض اس کے پاس یہ حویلی تھی، جس میں عجائب گھر باقی رہ گیا تھا۔ اس کے علاوہ معمولی سا بینک بیلنس بھی تھا۔ عجوبے نے اپنے ملک کی حکومت سے اس چیز کی تلاش کے لیے امداد چاہی تو۔۔۔۔۔۔عوام کی طرح حاکمِ وقت بھی ہنس پڑا۔ حاکمِ وقت کی ہنسی سے اسے شدید ٹھیس پہنچی۔۔۔مگر اس کا جنون کم نہیں ہوا۔ اس کا جنون کہہ رہا تھا۔۔۔۔’وہ چیز ملے گی، ضرور ملے گی، یقینا ملے گی۔ تب اس نے طے کیا کہ وہ شہر شہر، محلے محلے، گلی گلی جائے گا۔ اور کباڑیوں کی طرح آواز لگا کر اس چیز کو خریدے گا۔بالکل ایسے ہی جیسے گلی محلوں میں پھیری ولے پرانا سامان، اخبار کی ردّی، اور ٹوٹا، خراب لوہے، پلاسٹک کا سامان خریدتے ہیں۔ وہ چیز کہیں تو ملے گی، کبھی تو ملے گی۔
عجوبہ ایک زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد اس کے دادا کی اکلوتی اولاد تھے اور وہ خود اپنے باپ کا اکیلا بیٹا تھا۔ اس کے پاس بے شمار خاندانی دولت تھی۔ مگر اسے بچپن سے ہی پرانی سے پرانی نادرونایاب چیزیں جمع کرنے کا شوق ہو گیا تھا۔جیسے ہزاروں سال پرانے سکّے، پرانی انسانی ہڈیّاں، مٹّی کے برتن، زمانۂ قدیم کے اوزار، پرانے زمانے کے عورتوں کے زیور، کپڑے، پرانی کتابیں، ڈاک ٹکٹ، پرانے فوجیوں کی وردیاں اورمورتیاں وغیرہ. ایسی چیزوں کو حاصل کرنے میں وہ اپنی دولت خرچ چکا تھا اور اپنی پشتینی حویلی کے بڑے حصّے کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیاتھا۔
اس کی بیوی اس کے اس پاگل پن سے عاجز آکر اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ میکے چلی گئی اور نوکری کر کے بچوّں کی پرورش کرنے لگی۔ جب کہ وہ اپنے عجائب گھر کو عجیب سے عجیب تر بنانے میں تن من دھن سے لگا ہوا تھا۔ لوگ اس کا اصل نام تک بھول گئے تھے، سب اس کو عجیب کہہ کر ہی بلانے لگے تھے۔
اب وہ سالوں سے اس آخری چیز کی تلاش میں بھٹک رہا تھا، جو اس کے مطابق اس کے عجائب گھر کے لئے بہت ضروری تھی۔ بیس سال میں اس نے بہت سے شہروں کا سفر کیا۔ ہر شہر کے ہر ایک محلے میں گلی گلی جا کر اس نے آوازیں لگا کر اس چیز کو خریدنا چاہامگر۔۔۔۔۔
وہ سالوں سے اپنے گھر بھی نہیں گیا تھا. اسے اس بات کا بھی علم نہ تھا کہ ان دنوں اس کے عجائب گھر کا کیا حال ہے، چلتے وقت وہ عجائب گھر کو چند ملازمین کے بھروسے چھوڑ آیا تھا۔ اس کے بالوں میں سفیدی آچکی تھی، نظر کم زور ہونے لگی تھی۔ مگر اس کا جنون اسے تھکنے نہیں دے رہا تھا۔کبھی کبھی وہ مایوس ہو کر دھپ سے زمین پر بیٹھ جاتا، دھوپ کی تپش، موسلادھار بارش اور جان لیوا سردیوں سے وہ ٹوٹنے لگتا تھا۔ مگر فوراََ ہی اس کا شوق، اس کا جنون اس کو تقویت دیتا اور وہ مایوسی، تھکان اور تمام طرح کی الجھنوں کو بھول کر نئے حوصلے، نئے عزم سے کھڑا ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تلاش جاری رہتی۔
وہ گلی محلوں میں، سڑکوں میں اس چیز کے لئے آوازیں لگاتا تو وہاں موجود سب لوگ حیرت زدہ ہوجاتے تھے،اور سوچتے یہ کون سی شے ہے، یہ کیا بلا ہے؟ایک دوسرے سے پوچھتے۔۔۔۔”یہ کیا چیز ہے بھئی؟‘
کچھ بزرگ جنھوں نے کبھی اس چیز کا نام سنا تھا، وہ ہنستے ہوئے کہتے۔۔۔۔”اب بھلا یہ چیز کہاں ملے گی، پاگل ہو گیا ہے یہ شخص۔“
آج پھر وہ ایک نئے شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں امید کی کرن چمک رہی تھی۔ یہ شہر قدیم اور روایتی قسم کا لگ رہا تھا۔ایسا محسوس ہوتا تھا، یہ شہر جتنا پرانا ہے اس اعتبار سے اس نے ترقیّ نہیں کی ہے۔ وہ حسبِ معمول گلی گلی جا کر آواز لگانے لگا۔ یہاں بھی لوگ اسے عجیب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
وہ آواز لگاتا ہوا ایک پرانے نظرآ رہے محلے میں داخل ہوا۔ ایک پتلی سی گلی میں آواز لگا کر واپس لو ٹ ہی رہا تھا کہ۔۔۔۔۔ایک خستہ حال دروازے کے کھلنے کی آہٹ ہوئی۔۔۔۔اس نے پلٹ کر دیکھا۔دروازہ جگہ جگہ سے گل چکا تھا۔دروازے کے آس پاس کیچڑ اور گندگی تھی۔دروازے کی اوٹ سے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔۔۔”سنوبھیّا۔۔۔“
وہ تیزی سے دروازے کے قریب پہنچا۔ عجوبے کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی۔۔۔۔اس کا دل کہہ رہا تھا، آج تیری مراد ضرور پوری ہوگی۔
”جی۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ۔۔۔مجھ سے کچھ کہا۔۔۔۔“ عجوبے نے بے یقینی کے سے عالم میں پوچھا۔
”جی ہاں، میں آپ ہی سے مخاطب ہوں۔کیا آپ واقعی یہ چیزیں خریدنا چاہتے ہیں؟جن کی اب کوئی وقعت، کوئی پہچان نہیں ہے“ لڑکی کش مکش کا شکار تھی۔
”جی جی۔۔۔ضرور خریدوں گا۔آپ جو دام کہیں گی وہ دوں گا۔“عجوبے کو خدشہ ہو رہا تھا کہ پھٹے،گندے کپڑوں میں ملبوس،یہ معصوم، مریل،بیمار سی دکھنے والی لڑکی، جس نے سر سے اپنا سر ڈھانپ رکھا تھا، اس کے پاس یہ چیزیں ہوں گی؟
”میرے دادا محترم کے پرانے صندوق میں یہ چیزیں پڑی ہوئی ہیں۔۔۔۔ میں لے کر آتی ہوں۔“یہ کہہ کر تیزی کے ساتھ پلٹی، ایک اینٹ سے ٹھوکر کھاتی، لڑکھڑاتی ہوئی اندر چلی گئی۔
جب وہ واپس آئی تو اس کے ہا تھوں میں چھوٹا سا لکڑی کا پرانا صندوق تھا۔اس نے وہ صندوق عجوبے کے پاس نیچے رکھ دیا۔پڑوسی دروازوں اور کھڑکیوں میں سے جھانکنے لگے، آج ان کے لئے یہ نیا تماشہ تھا۔ لڑکی نے صندوق کھولا۔۔۔۔۔پھر اس نے اچانک اسے بند کر دیا۔ اور بھرّائی ہوئی آواز میں گویا ہوئی۔
”بھیّا، پہلے آپ یہ بتائیں، آپ ان کا کیا کریں گے؟“
عجوبے کو احساس ہوا کہ لڑکی کو ان چیزوں کی بے حد فکر ہے۔ وہ گھبرا گیا کہ کہیں وہ دینے سے انکار نہ کر دے۔ عجوبے نے تمام بات بتا دی اور کہا۔
”میری بچّی تو فکر نہ کر۔۔۔۔یہ تمام چیزیں نہایت احتیاط اور حفاظت کے ساتھ میرے میوزیم کی شان بنیں گی۔ “
یہ سن کر وہ بے اختیار گھٹ گھٹ کر رونے لگی۔وہ روئے جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔”معاف کرنا دادا جی،آپ کی دوائی کی فکر نہ ہوتی تو میں آپ کی یہ ہر دل عزیز چیزیں، جنھیں آپ نے اپنی دولت، شہرت، صحت ہی نہیں زندگی سے زیادہ اہمیت دی اور تمام عمر ان کی حفاظت کی، ان کو ہر گز ہر گز فروخت نہ کرتی ۔۔۔۔۔مگر دادا جی۔۔۔۔“لڑکی دوپٹّے کو منھ پر رکھ کر رونے لگی۔عجوبہ پریشان تھا کہ لڑکی کو دلاسہ دے یا جتنی جلدی ممکن ہو سب چیزیں اپنے قبضے میں کر لے۔
”رو مت میری بچّی۔۔۔۔۔۔۔سب اچھا ہو جائے گا۔“ عجوبے کے ان الفاظ سے وہ مزید رونے لگی اور بولی۔۔۔۔۔”بھیّا! میں یہ چیزیں ہر گز نہ دیتی ، مگر کیا کروں۔۔۔دادا محترم بے حد بیمار ہیں، ان کی دوائی آنی ہے۔گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیا کروں، امّی ابّو۔۔۔۔۔“ پھر وہ خود ہی بتانے لگی۔۔۔۔”امّی، ابّو کے انتقال کو عرصہ ہو گیا، بھائی صاحب بھی فسادمیں مارے گئے۔۔۔۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔سر سے دوپٹّہ اوڑھنے کی وجہ سے مجھے بھی کوئی نوکری نہیں دیتا۔۔۔۔حویلی کے تمام حصّوں میں جو کرایے دار ہیں، وہ خالی کرنا تو دور اب کرایہ بھی نہیں دیتے۔۔۔آخر کیا کروں دادا جی۔۔۔۔۔۔“ پھر دادا جی کومخاطب کر کے رونے لگی۔۔۔۔۔۔۔”مجھے معاف کر دو دادا جی، مجھے یہ سامان بیچنا ہی ہوگا۔“
پھر وہ ایک ایک کر کے چیزیں نکالتی رہی اور بڑبڑاتی رہی۔۔۔۔۔”بھیّا، ان کی حفاظت کرنا بھیّا۔۔۔۔بھلے ہی میوزیم میں رکھنا، مگر دیکھ بھال کرتے رہنا، بھیّا۔یہ لیجئے خاندانی شرافت، دیکھو آج بھی اس میں پرانی چمک باقی ہے۔ اور یہ بے لوث محبت۔۔۔یہ انسانیت، خودداری، وضع داری ۔۔۔۔۔۔اعلی کردار۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔یہ ایمان داری۔۔۔۔۔تھوڑی زنگ لگ گئی ہیں، اس میں، مگر ہے یہ اصلی۔۔۔۔۔۔۔ہاں سب لے جاؤ۔۔۔بس چند پیسے دے دو تاکہ میں دوا اور روٹی کا انتظام کر لوں۔۔۔۔۔ہاں بھیّا، لے جاؤ، میں تو داداجی سے بولی بھی تھی کہ کب تک سنبھال کر رکھیں گے ہم ان چیزوں کو۔۔۔۔۔۔۔“ لڑکی زار و قطار رونے لگی۔
اس درمیان اس کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوا کہ چند منٹ قبل اس کے بیمار دادا جی لڑکھڑاتے، آواز دیتے ہوئے دروازے کے قریب چلے آئے تھے اور اب دیوارسے ٹیک لگائے اپنے بے قابو،لرزتے دل کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اچا نک لڑکی کی نگاہ دادا جی پر پڑی۔۔۔۔۔۔وہ بوکھلا کر کھڑی ہو گئی اور دادا جی کو سنبھالنے کے لیے آگے بڑھی۔۔۔۔۔پر دادا جی اتنی دیر میں گر پڑے۔ ان کا ایک پیر نالی میں تھا اور ایک ہاتھ زمیں پر ٹکا ہوا تھا۔۔۔۔دادا جی بہت تیزی سے ہچکیاں لے رہے تھے، لڑکی جلدی سے انھیں سنبھالنے کی کوشش میں زمین پر بیٹھ گئی اور ان کے سر کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ عجوبہ اور پڑوسی تماشائی بنے ہوئے تھے۔ ”بے۔۔۔۔۔ٹی۔۔۔۔۔۔مے۔۔۔ری۔۔۔بچّی۔۔۔۔۔اوں ں ں ں ں“دادا جی نے اپنی ساری طاقت کے ساتھ بولنے کی کوشش کی۔لڑکی روتے روتے معافی مانگنے لگی۔۔۔۔۔”دادا جی مجھے معاف کر دو دادا جی۔۔۔۔۔۔۔مع۔۔۔۔ا۔۔۔۔۔۔ف۔۔۔۔۔“
”اونہہ۔۔۔۔اوں ں ں نہی۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔بیٹی۔۔۔۔۔“ داداجی نے آخری ہچکی لی۔ان کاسر لڑکی کی گود میں ایک طرف کو سرک گیا۔لڑکی نے ایک دل خراش چیخ ماری اور دادا جی کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔
عجوبے نے موقع غنیمت جانا اور ساری بیش قیمتی چیزیں سمیٹ کر اپنے تھیلے میں ڈالیں اور کچھ پیسے دادا جی کے قدموں میں رکھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔ ۔۔۔تقریباََ بیس سال کی شہر شہر آوارگی کے بعد عجوبہ جب اپنی سب سے اہم چیز لے کر اپنے عجائب گھر پہنچا تو۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دیکھا آٹھ دس بلڈوزر اس کے گھر کو مسمار کر رہے تھے، آخری دیواریں گرائی جا رہی تھیں۔وہ تمام عجوبے جو اس نے بہت محنت، محبت اور بے شمار دولت دے کر حاصل کیے تھے حویلی کے ملبے کے ساتھ مزدور ٹرکوں میں لاد رہے تھے۔
عجوبے کے محلے کے لوگ اب اس کو پہچان بھی نہیں پا رہے تھے۔وہ ان بیس برسوں میں اس قدر بدل چکا تھا کہ اس کو پہچاننا مشکل تھا۔ وہ بوڑھا ہی نہیں، بد حال بھی ہو چکا تھا۔۔۔۔۔لوگ اس کو بھکاری سمجھ کر نظر انداز کرتے جا رہے تھے۔
پڑوسیوں کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوی اور بیٹے گھر واپس آ گئے ہیں۔اتنے سال سے اس کی کوئی خیر وخبر نہیں ملنے کی صورت میں اس کو دنیا سے رخصت مان لیا گیا ہے۔بیٹوں کو عجیب و غریب چیزوں میں کوئی دل چسپی نہیں تھی، اس لئے انھوں نے عجائب گھر کی جگہ فائیو اسٹار ہوٹل بنانے کا ارادہ کر لیا تھا۔
یہ سن کر عجوبے کی دھندلی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ وہ دھپ سے زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کا سر تیزی سے گھومنے لگا۔ اچانک اس کے دل میں پہلے ہلکا ہلکا اور پھر شدید درد اٹھا۔ اس نے جلدی سے اپنا وہ تھیلا جس میں اس کی سب سے قیمتی چیزیں تھیں، سینے کے اس مقام پر پوری شدّت سے بھینچ لیا، جیسے وہ اپنے دل کے درد کی ناقابلِ برداشت تکلیف کو تھیلے کی چیزوں سے روکنا چاہتا ہو۔۔۔۔۔۔مگر جان دار دل ان بے جان چیزوں سے کہاں قابو میں آنے والا تھا۔اس نے بہت آہستہ آہستہ اپنا کام کرنا بند کر دیا اور ان بے جان چیزوں کی طرح خود بھی بے جان ہو گیا۔
میونسپلٹی کے کارندے عجوبے کی لاش کو لاوارث جان کر اپنے’استعمال‘کے لئے اٹھا کر لے گئے۔ اور عجوبے کا وہ تھیلا جس میں اس کی بیش قیمتی اشیاء تھیں، لوگوں کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے کوڑے کے اس ڈھیر پر پہنچ گیا، جس میں تعفن پیدا ہو چکا تھا۔ 

ذاکر فیضی کا یہ افسانہ بھی پڑھیں : ایک جھوٹی کہانی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے