وبائی اَموات کے بعد کی دُنیا: نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

وبائی اَموات کے بعد کی دُنیا: نیند کیوں رات بھر نہیں آتی


کوروناکی ماری ہوئی دُنیا اور بالخصوص ہندستان کی سماجی اور خاندانی زندگی آنے والے وقت میں شاید اِتنی بدل جائے کہ کسی کو یقین ہی نہ آئے۔
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
چیٖن کے دَور سے اگر سلسلہ جوڑیں توکورونا کے ڈیڑھ برس پورے ہو گئے۔ہندستان دوسری لہر میں مَر کھَپ کر نئے سِرے سے کھڑا ہونے کی کوشش میں ہے۔ بعض ممالک تیسری اور چوتھی لہر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ خود ماہرین ہندستان میں بھی چند مہینوں کے بعد تیسری لہر کی پیشیٖن گوئی کر رہے ہیں۔ جس کے حساب سے جولائی اگست کے بعد نئے سِرے سے یہ سلسلہ قایم ہوگا۔ پوری دُنیا کی سطح پر جو سرکاری اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں، اس کے حساب سے چھتّیس لاکھ سے زیادہ افراد اس وبا کی کی نذ رہوئے۔ امریکا سے لے کر ہندستان تک ہر جگہ حکومت پر مہلوکین کی تعداد کو کم کر کے بتانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ مختلف انداز کے سروے اِس بات کی وضاحت کررہے ہیں کہ حقیقی تعداد کم از کم سرکاری اعداد و شمار کی پانچ گُنی ہوگی۔ہر گھر اور ہر گلی محلّے میں جو موتیں ہوئیں،بھلے حکومت اُنھیں بہ وجوہ گِننے سے پرہیز کرے مگرگھر والے اور محلّے شہر والے انھیں گِنیں گے ہی۔اِ س اعتبار سے اِس ڈیڑھ برس میں ڈیڑھ سے دو کروڑ آبادی روے زمین سے ختم ہو چکی ہے۔ آنے والی لہروں میں نہ جانے اور کتنے کروڑ لوگ اِس وبا کی بھینٹ چڑھیں گے۔
گذشتہ ڈیڑھ برس میں بار بار لاک ڈاؤن اور گھروں میں قید ہونے کی مجبوریوں میں انسانی زندگی بالکل بدل سی گئی ہے۔وبا کو روکنے کے لیے عوامی تقریبات، شادیات اور تجہیزو تکفین میں بھی محدود تعداد میں لوگوں کی شمولیت کی اجازت ہے۔ جو لوگ مختلف اَمراض میں پہلے سے مُبتلا ہیں، اُنھیں تو بے حد قریبی لوگوں کی موت پر بھی پُرسہ دینے کے لیے اُن کے گھر والوں نے کہیں باہر جانے نہیں دیا۔ اس دوران جب کِسی کی موت ہوئی اور فون سے ہی تعزیت کے لیے آپ نے چند الفاظ پیش کیے تواکثر صاحبِ خانہ نے ہی معذرت کی کہ آپ جنازے میں یا تدفیٖن میں شامل ہونے کی زحمت نہ کریں کیوں کہ حکومت نے صرف گھر والوں اور صرف بیس افراد کو اِس کی اجازت دی ہے۔المیہ یہ ہے کہ آپ کے پڑوس میں کسی کی موت ہوئی مگر نہ وہاں آپ جاسکے اور نہ جنازہ اور تدفیٖن میں شامل ہو سکے۔بہت ساری جگہوں پر اور کچھ دوسرے مُلکوں میں تو اسپتال سے سیدھے قبرستان یا شمشان بند لاشیں آخری رُسومات کے لیے بھیج دی گئیں۔ کچھ ملکوں میں تو اجتماعی قبریں بنانی پڑیں اور پولیس یا تربیت یافتہ سرکاری عملوں نے انھیں دفن کِیا۔ اُن کے اہل و عیال بھی اُس میں شریک نہیں ہو سکے یا حالات ایسے تھے کہ اُنھیں اُس میں شرکت کی اجازت نہ دی جا سکی۔
کورونا کی پہلی لہر میں ہندستان میں نقلِ مکانی اور غربا اور مزدوٗروں کی بے بَسی پر ہم نے سب سے زیادہ ماتم کیا تھا۔ مرنے والوں کی تعداد ہندستان میں امریکا، برازیل یا یوروپ کے ممالک کی طرح اوّلاً نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے موت کا وہ خوف ہمارے دلوں میں گھر نہیں کر سکاجو اَبھی اپریل اور مئی مہینے میں کورونا کی دوسری لہر کے موقعے سے پیدا ہوا ہے۔دوسری لہر کا زور ذرا کم ہوا ہے، حال آں کہ جو مریض صحت یاب ہو چکے، انھیں طرح طرح کے اَمراض بالخصوص ’بلیک فنگس‘ نے الگ مشکلوں میں ڈال دیا ہے اور اس سے بھی روزانہ پچاسوں اموات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔کون جانتا ہے کہ یہ مزید خطرناک روپ میں آگے ہمارے امتحان کے لیے سامنے نہ آ جائے۔کورونا یا بلیک فنگس کی دوائیں مُلک میں معقول تعداد میں موجود نہیں۔جس کی وجہ سے آئے دن ہزاروں کی موت ہوئی۔ کورونا سے بچنے کے لیے واحد علاج ویکسیٖن ہے جسے لگانے کی مُلک میں ایسی سُست رفتار ہے کہ ماہرین کو اس بات سے شبہہ ہے کہ یہ ٢٠٢٤ء کے پارلیمانی انتخاب کے پہلے شاید ہی مکمل ہو سکے۔ اِسی وجہ سے ایسے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ مُلک میں تیسری، چوتھی اور پانچویں لہر بھی آئے گی اور آنے والے دو تین برس اور مُشکل اور شدید امتحانات کے ہوں گے۔یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ ہر لہر ہمارے ہزاروں اور لاکھوں بھائیوں کی جان لے کر ہی ختم ہوتی ہے، اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آنے والے تین چار برسوں میں کون بچے گا اور کون گُزر جائے گا؟

اِن اٹھّارہ مہینوں میں ایسا خوش نصیب کون ہے جس کا کوئی دوست، جس کا کوئی عزیز یا جس کا کوئی بزرگ اس دنیاسے کورونا کی وجہ سے رُخصت نہ ہو گیا ہو۔ ایسے خاندانوں کی تفصیل دھیرے دھیرے سامنے آنے لگی ہے کہ دو مہینے میں گھر کے پانچوں افراد ایک ایک کرکے رُخصت ہوئے۔ جگہ جگہ سے ایسی اطّلاعات ملتی رہیں کہ ایک گھر کے کئی لوگ باری باری سے اسپتال پہنچے اور کئی بار الگ الگ اسپتال میں وہ داخل کیے گئے۔ تیمار دار ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال تک دوڑتا رہا اور آخری کام یہی تھا کہ اپنے بُزرگوں اور عزیزوں کی لاشیں جمع کر کے قبرستان تک لے جائے۔کئی گھروں میں آٹھ آٹھ جانیں اس وبا نے لوٹی ہے۔ ایسے سیکڑوں واقعات سامنے آئے کہ آج شوہر کو دفنایا گیا، اگلے دن بیوی بھی حتمی رفاقت کے لیے جان ہار گئی۔ ہمارے دوست مشرّف عالم ذوقی اور اُن کی اہلیہ تبسُّم فاطمہ کے گُزرنے کو آخر کیسے ہم بھُلا سکتے ہیں۔ نہ جانے کِتنے دوست فون پر بات کرتے ہوئے پھر بات کرنے اور مِلنے کا وعدہ کر گئے مگر کورونا نے اُنھیں بے وفا بنا دیا اور وہ رُخصت ہو گئے۔
بدلی ہوئی دُنیا میں ہر آدمی اپنے فون کے ایڈریس بُک پر جب توجّہ کرے گا تو ہر دس بیس کے بعد کوئی ایک نام ہوگا جسے ڈی لیٹ کرنا ہوگا کیوں کہ اس وبا نے اُس شخص کو ہم سے چھین لیا۔ رسائل و جرائد کے ڈِس پیچ کی فہرست میں مدیران کو سیکڑوں نام حذف کرنے ہوں گے کیوں کہ اب اُن پتوں پر ہمارے خطوط کون قبول کرے گا۔ہر گھر میں شادیات کے لیے عزیزو اقارب کی طوٗل طویل فہرستیں بنی ہوتی ہیں مگر اُسے نئے سِرے سے تیّار کرنا پڑے گا کیوں کہ اُس میں سے ایک چوتھائی لوگ تو ہمیں چھوڑ کر نکل گئے۔ ایسا ہر ادیب اور شاعر کو موقع ملا ہوگا کہ کسی نے کوئی کتاب بھیجی کہ اُس پر ایک تبصرہ کر دیا جائے مگر تبصرہ سے پہلے وہ مصنّف اُس تحریر کے لکھے جانے یا چھپنے تک بچ نہ سکا۔ رسائل کا تو یہ حال ہے کہ اس دوران کے جس شمارے کو آپ ہاتھ میں لیجیے، پانچ دس ایسے شاعر یا ادیب کی تحریریں اس میں لازمی طَور پر چھپی ہوں گی جو اَب دوسری دُنیا کے باسی ہو گئے۔
کورونا کی دوسری لہر کے آغاز میں بمبئی اور دلّی سے لوگوں نے یہ بتایا کہ ہر ایک مِنٹ پر ایمبولنس کی خوف ناک آوازیں گھروں میں سُنائی دیتی تھیں۔ اُن گاڑیوں میں یا تو بیمار اسپتال لے جائے جا رہے تھے یا اسپتال سے مَر چُکے افراد شمشان یا قبرستان پہنچائے جا رہے تھے۔مگر اِن کی تعداد اِتنی تھی کہ یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے کا ہو گیا تھا۔ ایک خوف اسپتال اور سڑکوں پر تھا مگر وہ خوف ناک آواز لوگوں کے محفوظ کمروں میں پہنچ کر آنے والے وقت کا خوف ڈالتی رہی۔جن لوگوں کے مکان یا دکانیں اُن راستوں میں ہیں جہاں سے ندی کا کوئی گھاٹ یا شمشان کا کوئی راستا گُزرتا ہے، میرے ایک آشنا نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی دُکان کھولتا ہوں تو ہر پانچ دس مِنٹ پر ایک لاش سامنے سے گُزرتی ہے اور طبیعت مُکدّر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا دُکان بند کرکے مغموم گھر میں ہی بیٹھنا زیادہ آسان ہے۔غدر کے موقعے سے غالب نے اَموات اور خوف کی پرچھائیوں میں جینے کے کئی حقیقی نقشے بیان کیے ہیں۔ایک تو وہی مشہور جملہ ہے کہ ’اس ہنگامے میں میرے اِتنے یار مرے کہ جب میں مروں گا تو مجھے کون کاندھا دے گا۔‘ ایک خط میں کھڑکی سے گُزرتی ہوئی لاشوں کو دیکھتے دیکھتے بے دم ہو جاتے ہیں اور گنتی بتاتے ہیں کہ اِتنے افراد مار دیے گئے اور اس گلی سے اُن کی لاشیں گُزریں۔ غدر کے بعد تقسیمِ مُلک کے فسادات میں بھی ہزاروں اور شاید لاکھوں جانیں گئیں مگر اُن اَموات کا ایک خاص جغرافیائی خطّے سے زیادہ تعلُّق تھا۔ باقی ماندہ دُنیا محفوظ تھی مگر کورونا کی دوسری ہی لہر میں ہندستان کے ہر گھر میں موت نے دستکیں دے دی ہیں۔ بڑی عمر کے لوگ تو اس چپیٹ میں بچ ہی نہیں سکے۔ رفتہ رفتہ جوان اور نو خیز بھی اس کارواں کا حصّہ بنتے گئے۔ اب اگر تیسری اور چوتھی لہر آئی تو ہمارا مُلک واقعی مَر گھٹ بن جائے گا۔ ابھی ہی قبرستانوں اور شمشانوں میں جگہہ نہیں ہے۔ بجلی گھروں میں لائن لگی ہوئی ہے۔ ندیوں میں تیرتی ہوئی لاشیں اور ریتوں میں ڈال دی گئی زندگیاں ایک خوف ناک ماحول بنا چکی ہیں۔ حکومتِ وقت کو لاکھ اور کروڑ لوگوں کے مرنے کی نہ کوئی فکر ہے اور شاید افسوس بھی نہیں۔ عالمِ انسانیت کو ایسی بے چارگی اور بے بسی شاید ہی کبھی جھیلنی پڑی ہو۔

مضمون نگار کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔
Email: safdarimamquadri@gmail.com

صاحب مضمون کی گذشتہ عرض داشت : ہندستان میں ماحولیاتی بے داری کا مجاہدِ اوّل سُندر لال بہوٗ گُنارخصت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے