مایوسی کے حصار سے باہر نکلیے

مایوسی کے حصار سے باہر نکلیے

کامران غنی صبا
اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ان کی محنت کا حق نہیں مل سکا. کسی کو گلہ ہے کہ اسے اس کی لیاقت کے مطابق ملازمت نہیں ملی، کسی کو شکایت ہے کہ اس کے کسی اپنے نے اس سے جفاشعاری کی. کوئی اپنی قسمت پر آنسو بہاتا ہے تو کچھ لوگ اپنے ماضی میں گم ہو کر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں. میری یہ تحریر ان نوجوانوں کے لئے بطور خاص ہے جو مایوسی کے حصار سے باہر آنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن باہر نہیں آ پاتے.
اگر آپ کے پاس "دولتِ ایمان” ہے تو یاد رکھیے کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مایوس نہیں کر سکتی. یہ ایمان روحانی بھی ہو سکتا ہے اور مادی بھی. مادی ایمان کو آپ High Level of Confidence کہہ سکتے ہیں. ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھے (ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے). اس حدیث کی روشنی میں اگر آپ جائزہ لیجیے تو واقعی ایسا محسوس ہوگا کہ ہم جیسا سوچتے ہیں، جس طرف ہمارا جھکاؤ ہوتا ہے، جیسی ہماری سوچ ہوتی ہے، ہمیں ماحول بھی ویسا ہی ملنے لگتا ہے. آپ نے غور کیا ہوگا کہ جو لوگ خوش مزاج ہوتے ہیں انہیں ہنسنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ مل ہی جاتا ہے. اس کے برخلاف ضرورت سے زیادہ سنجیدہ رہنے والے اور غم و مایوسی کی کیفیت کو اپنے اوپر مسلط رکھنے والے لوگ ہنسی مذاق کی باتوں کو بھی سنجیدگی میں لے کر ہنسنے مسکرانے کا موقع بھی ضائع کردیتے ہیں. جھگڑالو مزاج کے لوگوں کو لڑنے جگھڑنے کے ہزاروں بہانے مل جاتے ہیں. وہیں محبت بانٹنے والے لوگ ہزاروں گلے شکوے کو ایک مسکراہٹ سے زائل کر دینے کا ہنر جانتے ہیں.
اسی طرح جو لوگ جادو ٹونا وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں وہ چھوٹی موٹی بیماریوں کو بھی جادو سحر کا اثر سمجھ کر اسی میں گھرے رہتے ہیں اور بسا اوقات بدگمانی کا شکار ہو کر اچھے خاصے تعلقات تک بگاڑ لیتے ہیں. حال آں کہ قرآن کا بہت واضح فرمان ہےکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں.
کچھ لوگ اس بات کے غم سے نڈھال رہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کسی شناسا کے ساتھ احسان کیا اور اس کے شناسا نے جفاشعاری کی.اکثر اوقات وہ اپنی نجی گفتگو میں اس کا ذکر کر کے مخاطب کی ہم دردی حاصل کرنے کی شعوری کوشش بھی کرتے ہیں. ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ احسان جتا کر وہ اپنے سارے کیے کرائے پر خود ہی پانی پھیر رہے ہیں. اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے. اگر ہمارا ایمان ہے اور یقیناً ہے کہ اللہ کا وعدہ نعوذ باللہ غلط ہو ہی نہیں سکتا تو ہمیں احسان جتانے کی بجائے اپنے اندرون میں مطمئن ہونا چاہیے کہ ہمیں ہمارے احسان کا بدلہ مل کر رہے گا.
ہم اکثر اوقات چھوٹی چھوٹی مایوسیوں کو جمع کر کے مایوسیوں کا ایک عظیم الشان محل تعمیر کر چکے ہوتے ہیں اور پھر اس محل سے باہر نکلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے. اگر آپ مایوسی کے حصار سے باہر آنا چاہتے ہیں تو اپنے ایمان کو پختہ تر کر لیجیے. اللہ اپنے محبوب بندوں کو کبھی مایوس کر ہی نہیں سکتا.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے