بنگال میں محاذ آرائی

بنگال میں محاذ آرائی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ
ملک کی ریاستیں وفاقی اکائیاں ہیں،جس سے مل کر عظیم ہندوستان بنتا ہے، ریاست کو مرکز سے جوڑے رکھنے کے لئے دستور میں گورنر کاعہدہ نکالا گیا ہے، گورنر کی حیثیت آئینی سربراہ کی ہوتی ہے، جس طرح ملک کا آئینی سر براہ صدر جمہوریہ ہوتا ہے۔ بیش تر معاملات میں منتخب حکومت کے کام کاج میں نہ تو صدر مداخلت کر سکتا ہے اور نہ گورنر، اسی لیے ان سر براہوں کے بارے میں ربر اسٹامپ کی اصطلاح عام ہے، مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت جو کاغذات ان دونوں سربراہوں کے پاس بھیجتی ہے اس پر عام طور پر آنکھ بند کرکے صدر اور گورنر دستخط کر دیتے ہیں، چند معاملات کا استثنا ضرور ہے؛ لیکن عمومی احوال یہی ہیں، ایسے میں مرکز اور ریاست سے ٹکراؤ اور محاذ آرائی کی نوبت نہیں آتی ہے۔
لیکن ادھر چند سالوں سے مرکزی حکومت گونر کے توسط سے ریاستی حکومتوں کو؛ خصوصا جہاں بھاجپا کی حکومت نہیں ہے،کم زور کرنے میں لگی ہوئی ہے، کہیں غیر ضروری طور پر صدر راج لگا دیا جاتا ہے، کہیں راتوں رات دل بدلوؤں کی حمایت سے حکومت بنا لی جاتی ہے، اور اگر ایسا کچھ نہیں ہوپایا اور ساری طاقت وتوانائی لگانے کے بعد بھاجپا کی حکومت نہیں بن پائی تو ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ صدر راج نافذ کر نے کا جو از نکل آئے۔
بنگال اس محاذ آرائی اور دنگل کی نئی تجربہ گاہ ہے، ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے بھاری اکثریت سے بھاجپا کو شکست دے کر تیسری بار حکومت سازی کا کام کیا، بھاجپا کو یہ بات ہضم نہیں ہو پائی، اس لیے اس کے لیڈران اور خود بھاجپا کے قومی صدر نڈا نے وہاں جا کر کیمپ کر دیا؛چناں چہ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہو گیا، ممتا بنرجی نے اس پرسخت سر زنش کی، لیکن پھر بھی ڈیڑھ درجن سے زائد لوگ اس فساد کی نظر ہو گئے، بنگال میں مارکسوادی دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن اس بار کچھ زیادہ ہی ہو گیا، نقصان دونوں طرف کا ہوا، بھاجپا کی آئی ٹی مضبوط ہے، اس لیے اس نے پرانے دنگوں کی ویڈیو کلپ بھی وائرل کی اور حد تو یہ ہے کہ”آج تک“کے ایک اینکر کو مردہ دکھلا دیا، اس اینکر کو میڈیا پر آکر بتانا پڑا کہ یہ خبر غلط ہے، میں تو ابھی زندہ ہوں، اس طرح ممتا بنرجی کی یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ بھاجپا فساد پھیلانے کے لئے پرانی ویڈیو دکھلا رہی ہے۔
اس محاذ پر بھی جب بھاجپا کو شکست ملی تو سی بی آئی کے ذریعہ جانچ کے نام پر ترنمول کے دو وزیر اور دو لیڈر کو گرفتار کر لیا گیا، وزرا کی گرفتاری کے لئے گورنر نے منظوری دی، بلکہ سی بی آئی کی ٹیم بنگال میں گورنر ہاؤس میں ہی قیام پذیر رہی، ممتا نے بہت احتجاج دھرنا دیا، سی بی آئی نے ضمانت دے دی، بنگال ہائی کورٹ نے اسے رد کر دیا، تازہ اطلاع یہ ہے کہ کورٹ نے اتنے دنوں بعد ان حضرات کو عارضی ضمانت دے دی ہے،ممتا بنرجی نے گورنر پر ایف آئی آر درج کرنے کے لئے اپنے کارکنوں سے کہا ہے، دستوری طور پر گورنر پر مقدمہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن ممتا بنرجی کو یقین ہے کہ جب یہ گدی سے اتریں گے تو ایف آئی آرکے ذریعہ ان کو سزا دلائی جاسکتی ہے۔
اس محاذ آرائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم کے ذریعہ کورونا پر ریاستی وزراء اعلیٰ سے تبادلہ خیال کے لئے بلائی گئی میٹنگ بھی وائرس کو دو ر بھگانے کے طریقہ کار پر گفتگو کے بجائے آپسی اٹھا پٹخ کا میدان بن گیا ، اس میٹنگ میں وزراء اعلیٰ کو بھی اپنی ریاست کی صورت حال بتانی تھی اور اپنے تجربات وزیر اعظم تک منتقل کرنے تھے، لیکن وزیر اعظم ہی اس مجلس میں بولتے رہے، کچھ ضلع مجسٹریٹ کو موقع ملا اور وزراء اعلیٰ کی نہیں سنی گئی، ممتا بنرجی اس پر بھڑک اٹھیں اور کہا کہ اگر وزیر اعظم وزیر اعلیٰ سے خوف زدہ ہیں اور انہیں سننا نہیں چاہتے تو بلاتے ہی کیوں ہیں، بقول ان کے وزیر اعظم نے وزراء اعلیٰ کی توہین کی ہے، وزیر اعظم کی اس قسم کی میٹنگ کے بارے میں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی بھی یہی رائے ہے کہ وزیر اعظم صرف اپنے”من کی بات“ سناتے رہتے ہیں، اروند کیجریوال نے اس موقع سے زیادہ تیزی دکھائی اور اپنی تقریر ڈائرکٹ نشر کروادی، اس پر انہیں وزیر اعظم کی ڈانٹ بھی سننی پڑی، بھاجپا کے وزراء اعلیٰ کی تو وزیر اعظم کے سامنے بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی، اس لیے وہ چپ سادھے رہے۔
وزیر اعظم کے اس رویہ کا سیاسی حضرات ہی نہیں دانشوروں نے بھی بہت بُرا مانا، اس قسم کی میٹنگیں منصوبہ بندی اور کاموں کو زمین پر اتارنے میں انتہائی مؤثر ہوتی ہیں؛چوں کہ ریاستوں کی سرگرم حصہ داری کے بغیر اس کا نفاذ ناممکن ہوتا ہے، وزیر اعظم کو اس حصہ داری کا خیال نہیں ہے، اسی لیے انہوں نے یوجناآیوگ کو ختم کرکے نیتی آیوگ بنا یا اور نیتی آیوگ کا مقصد سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس قرار دیا تھا، لیکن اس آیوگ کے تینوں اجزاء منتشر ہو گئے ہیں، نہ ”سب کا ساتھ“ ہے اور نہ”سب کاو کاس“؛ رہ گئی ”سب کے وشواس“ کی بات تو وہ کورونا کے اس دورمیں”سب کے وناش“ میں بدل گئی ہے، اور ملک ہر محاذ پر بچھڑتا چلا جا رہا ہے۔
اس محاذ آرائی کا اثر ”یاس“طوفان کے بعد وزیر اعظم کے دورہ بنگال پر بھی دیکھنے کو ملا،وزیر اعظم نے جو جائزہ میٹنگ بلائی اس میں ممتا بنرجی آدھے گھنٹے دیر سے پہنچیں اور طوفان سے متعلق وزیر اعظم کو رپورٹ تھما کر چلتی رہیں،ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس میٹنگ کی پہلے خبر نہیں دی گئی تھی، آنے کے بعد میں ایک گھنٹہ انتظار کرتی رہی مجھے اندر نہیں جانےدیا گیااور ان کا پروگرام دوسرے علاقوں کا پہلے سے طے تھا،اس لیے رپورٹ تھما کر چلتی رہی، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی مٹنگ میں حزب مخالف کے لیڈر کو نہیں بلایا جاتا ہے جب کہ اس مٹنگ میں ان کو بھی بلایا گیا تھا، ان کی خفگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی، وزیر اعظم نریندر مودی نے باز آباد کا ری اور راحت رسانی کے لئے ان کی جانب سے بیس ہزار کروڑ کی مرکزی امداد کے مطالبہ کو بھی رد کر دیا اور صرف پانچ سو کروڑ دینے کی منظوری دی،جو تباہی کے اعتبار سے انتہائی کم ہے،اس سے بھی مرکز اور ریا ست کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگی اور محاذ آرائی کا نیا دروازہ کھلے گا۔
وزیر اعظیم کے اس طریقہ کار کی وجہ سے ملک کا وفاقی ڈھانچہ کم زور ہو رہا ہے اور اس کم زوری کی وجہ سے ملک کی سا لمیت خطرے میں ہے، اس لیے ضرورت وفاقی ڈھانچہ کے مضبوط کرنے کی ہے، چاہے وہ جس قیمت پر ہو.
آپ صاحب مضمون کی یہ تحریر بھی ملاحظہ فرما سکتے ہیں :مفتی محفوظ الرحمن عثمانی: یاد تیری پل پل ستاۓ گی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے