نئے پرانے اوراق

نئے پرانے اوراق

معین الدین عثمانی
اکثر یوں ہوتا کہ جب کبھی ذہن تفکرات سے عاری ہوتا تو طرح طرح کے خیالات آنے لگتے ـ عجیب طرح کے منصوبے بنتے اور لمحہ بھر میں بگڑتے چلے جاتے ـ سوچ کا کوئی سرا کبھی ہاتھ آتا بھی تو پل بھر میں کہیں دور چلا جاتا ـ یقینی اور بے یقینی کی یہ کیفیت کبھی تادیر قائم رہتی تو کبھی بہ عجلت ساتھ چھوڑ دیتی ـ اور اکثر میں ان سوچ کے دائروں میں کبھی دور تو کبھی اپنے آس پاس ہی بھٹک کر واپس آ جاتا ـ
اس دن بھی جب میں کمرے میں اکیلا بیٹھا کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا ـ لفظوں کا لا متناہی سلسلہ تھا جو اوراق کے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا ـ یکے بعد دیگرے لفظ نظر کے سامنے آکر گزر رہے تھے ـ اور میں ٹھہر کر انھیں اپنی نظر کی گرفت میں لینے کوشش کر رہا تھا ـ مگر معلوم نہیں کون سی انجانی قوت کے تحت وہ ایک جھلک دکھلا کر اچانک اوجھل ہوجاتے ـ اپنی تمام تر قوت کے ساتھ میں نظر گاڑے انھیں روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ـ پھر اچانک میرے ہاتھوں میں کہیں سے طاقت آگئی ، لگتا تھا کوئی غیر مرئی قوت ہے ـ جس کے سبب پھڑپھڑاتے اوراق پر میرے ہاتھ لمحہ بھر کے لیے ٹھہر گئے ـ محبت نامی لفظ کے قریب انگلیاں تھر تھرانے لگیں ـ
مجھے اپنی صحت پر اعتبار تھا ـ مگر پتا نہیں کیوں آج یہ کیسی کیفیت ہوگئی تھی ـ پوری طرح حواس یکجا کر کے میں نے اس لفظ پر ہاتھ رکھ دیا ـ دوسرے ہی لمحے کہیں سے ایک نحیف سی آواز کانوں میں گونجی ـ
"تم نے مجھے روک تو لیا ہے، مگر یاد رکھو، زیادہ دیر تک اپنے قابو میں نہ رکھ سکوگے ـ”
میں نے نظر گھما کر ادھر ادھر دیکھا ـ کمرے میں میرے علاوہ کوئی نہ تھا ـ پھر یہ آواز کہاں سے آئی؟ ایک سوال پنڈولم بن کر میرے سامنے رقص کرنے لگا ـ ایک پر اسرار خاموشی اور دہشت میرے اطراف منڈلانے لگی ـ غیر ارادی طور پر میں نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر احساس ندامت سے دیوار کی جانب دیکھنے لگا ـ
سامنے دیوار پر ایک طرف طلوع آفتاب کی تصویر تھی تو دوسری جانب غروب کا منظر تھا ـ درمیان میں تاحد نظر ایک کہکشاں تھی، جو افق تا افق پرندوں کی اڑان اور درختوں کی ہریالی سے نغمہ بار تھی ـ منظر کی دل کشی قدرت کے پر فریب حسن کا دعوت نظارہ دے رہی تھی ـ لیکن ادھر صورت حال کچھ اور ہی تصویر بنانے میں مصروف تھی ـ اور میں حیران تھا ـ
"تمھیں حیران ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ـ میں تو تمھاری آنکھوں کے سامنے ہوں ذرا من کی آنکھوں سے میری طرف دیکھو تو، تم مجھے اپنے ساتھ ہی پاؤ گے ـ "
میں نے نظر پھر کتاب کی جانب موڑ دی ـ مجھے اپنے ہاتھوں کے نیچے لفظ محبت سسکتا نظر آیا ـ شاید یہ آواز بھی اسی جانب سے آئی تھی ـ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا ـ مگر اس کے سوا میرے پاس کوئی چارا بھی نہ تھا ـ میں ترحم آمیز نظر سے اسے دیکھنے لگا ـ
میرے ذہن میں آیا کہ اس سے دریافت کروں، اس کی یہ حالت کیسے ہوگئی ـ قبل اس کے کچھ پوچھنے کے لیے میں اپنے لب وا کرتا، وہ لفظ ہی بول پڑا ـ
” تم خود میری اس حالت کے لیے ذمہ دار ہو ـ”
” میں ـ "
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ـ
"تم نہیں تو اور کون؟ سوچو!! جب تک میں تمھارے اندرون میں تھا کیسے خوش حال تھے تم ـ تم نے میری حالت غیر کی تو تمھاری بھی یہ حالت ہوگئی ـ”
” کیا تم بھول گئے، جب علی الصباح روزگار کے لیے باہر جاتے تھے تو امی کی دعائیں لے کر جاتے تھے ـ والد کو سلام کر کے قدم گھر سے باہر نکالتے ـ وہ تو کسی برگد کی طرح تم پر سایہ کیے ہوئے تھے ـ اور تمھیں لگتا تھا کہ بس اسی برگد کی گھنی چھاؤں میں زندگی گزر جائے ـ بات بات پر تم ان سے مشورہ کیا کرتے تھے ـ ان کا حکم تمھارے لیے فرض کا درجہ رکھتا تھا ـ
اس وقت گھر کی حالت بھی نرالی تھی ـ مٹی کی دیواروں سے بنا وہ تمھارا پرانا بوسیدہ مکان تمھارے لیے مانو کسی محل سے کم نہ تھا ـ حال آں کہ بارش کے دنوں میں چھت سے پانی کی بوندیں ٹپکتی تھیں ـ مگر اس ٹھنڈک میں بھی تمھیں فرحت کا احساس ہوتا تھا ـ
مگر جب سے مال و زر کی ہوس تمھارے دل میں سمائی، تم نے والد سے مرتے دم تک سیدھے منہ بات تک نہ کی، امی کو کرایے کے مکان میں تنہا چھوڑ دیا ـ اور اب عالیشان گھر میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ موج کر رہے ہو، کیا تمھیں اپنی امی کی وہ درد بھری درخواست بھی یاد نہیں ـ جب امی نے اپنے خشک ہوتے آنسوؤں کے درمیان تم سے بڑے منت آمیز لہجے میں کہا تھا :
” بیٹے میں ٹھہری پرانے زمانے کی ابھاگن، میں کیا جانوں تمھارے نئے زمانے کے ریت رواج ـ مگر ایک بات میں یقین سے کہتی ہوں، میرا ناتواں وجود تم پر بار نہ ہوگا ـ میں تمھارے مکان کے کشادہ ہال میں نہیں بلکہ کسی اندھیارے کمرے کے گوشے میں اپنی ٹوٹی کھٹیا پر گزارا کر لوں گی ـ بڑھاپے میں مجھے اب یہ تنہائی کا عذاب مت دو ـ میری زندگی کے دن ہی اب کتنے رہ گئے ہیں ـ "
مگر ان کی باتوں پر تمھیں ذرا بھی رحم نہیں آیا تھا ـ تم نے بڑی بے رخی سے جواب دیا تھا :
” امی، اب میری فیملی بھی بڑھ رہی ہے، تم اس بات کا خیال کیوں نہیں کرتی ـ "
اور یہ کہہ کر تم کسی جابر کی طرح آگے بڑھ گئے تھے ـ
ایسے حالات میں، میں کیوں کر تمھارے گھر رہتی، میں تو اب ان پرانی کتابوں کے اوراق میں سسک رہی ہوں ـ اس پر پوچھتے ہو کہ میری یہ حالت کس نے کی ـ
میں اس کی یہ ساری باتیں سن کر سٹپٹا گیا ـ بے چینی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنے لگا ـ تبھی ہوا کا ایک جھونکا آیا اور ورق پلٹ گیا ـ میں نے دفعتاً کتاب پر ہاتھ رکھا تو پھر کراہنے کی آواز سنائی دی ـ غور سے دیکھا تو اخلاص لفظ پر میرا ہاتھ تھر تھرا رہا تھا ـ میں نے قدرے تعجب سے اس کی طرف دیکھا ـ وہ لفظ مجھے بہت دور سے دبلا پتلا اور کمزور دکھائی دے رہا تھا ـ
"ارے یہ کیا؟”
حیرت سے میرا منہ کھلا کہ کھلا رہ گیا ـ
"مجھے ادھ مرا کر کے تعجب کرتے ہو ـ”
"کیا؟ ” میں نے ڈانٹنے کے انداز میں کہا ـ
” نہیں تو اور کیا؟ ” اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا اور پھر یوں گویا ہوا ـ
” میری اس کیفیت کے لیے تم ہی ذمہ دار ہو ـ "
” کیا تم بھول گئے؟ جب تم اپنے نئے فلیٹ میں منتقل ہو رہے تھے، تم نے امی کو ساتھ لے جانے سے منع کر دیا تھا ـ تمھیں خوف تھا کہ سوسائٹی والے تمھیں نام رکھیں گے ـ تمھاری بیوی نے بھی خشمگی نگاہ سے تمھیں روکا تھا ـ اور تم اپنی بوڑھی ماں کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے ـ عرصے تک تم نے ان کی خبر بھی نہ لی تھی ـ مگر جب ان کا انتقال ہوا تو تم کس طرح دہاڑے مار مار کر رو رہے تھے ـ کیا یہی تمھارا خلوص ہے؟ "
اس کی باتیں سن کر میرا سر چکرانے لگا ـ مجھے لگا جیسے چوری کرتے ہوئے مجھے کسی نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو ـ مارے گھبراہٹ میں کتاب بند کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ نظر سچائی لفظ سے جا ٹکرائی ـ یہاں بھی مجھے آہستہ آہستہ سسکیاں بھرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ـ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ ان حالات سے کس طرح فرار حاصل کروں ـ
اچانک میں غصے سے بے قابو ہوگیا اور بڑ بڑانے لگا ـ
"ہاں ہاں، بولو، تم بھی بولو، خاموش کیوں ہو ـ تم بھی مجھے ہی مورد الزام ٹھہراؤ ـ”
"سچائی ہمیشہ سے کڑوی ہوتی ہے ـ اسے آسانی سے ہضم کرنا بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے ـ "
ایک کرخت آواز میری سماعت سے ٹکرائی ـ اور میں گھبرا کر چونک گیا ـ
” تمھیں شاید یاد ہوگا جب معاشرے میں تمھارا مقام تھا، لوگ باگ تمھاری باتوں پر اعتماد کرتے تھے ـ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا لوگ تم سے راے ضرور طلب کرتے ـ اور تم بھی بے خوف ہو کر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دوٹوک راے دیتے ـ اسی بنا پر لوگ تمھیں اپنی آنکھوں کا تارا سمجھنے لگے تھے، تمھیں سر آنکھوں پر بٹھانے لگے تھے ـ تم بھی کتنے خوش تھے ـ زندگی کے ایام کیسے جادوئی دنوں کی طرح گزر رہے تھے ـ مگر جب تمھارے لڑکے سے غلطی سرزد ہوگئی تھی تو تم نے لفظوں سے کھیل کر کیسا تماشا کیا تھا ـ تمھیں تو اپنی عزت کا پاس و لحاظ تھا مگر وہ معصوم لڑکی جو خیر سے تمھاری پڑوسی بھی تھی، تم نے ایک ہی جملے میں اس کی عزت کو تار تار کر دیا تھا ـ جب کہ تم یہ بہ خوبی جانتے تھے کہ تمھارا لڑکا عاشق مزاج ہے ـ ماضی میں تم دو تین مرتبہ اس کی گرفت بھی کر چکے تھے ـ تم نے تو صاف دل سے غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اس لڑکی کو قبول کر لینا چاہیے تھا ـ مگر بڑی ڈھٹائی سے اس یتیم نادار ہی کو قصور وار ٹھہرا دیا تھا ـ اور بہ آسانی اپنے فرزند کی غلطی پر پردہ ڈال دیا تھا ـ اسی دن سے میں بے موت مر گئی تھی ـ کیا اب بھی تم کہتے ہو کہ میری اس حالت کے لیے تم ذمہ دار نہیں ہو ـ "
اس کے اس جواب سے مجھے اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہونے لگی ـ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں کہ مجھے پھر اندھے کنویں سے ڈوبتی ہوئی آواز سنائی دی ـ
” کیا ہوا تمھاری یاد داشت کو، کیا تم بھول گئے، جب تم بچپن میں ایک ہی سوال کو بار بار دہرا کر پوچھتے تھے، کیا کبھی تم کو تمھارے والد نے پھٹکار کر جواب دیا تھا ـ تم دس بار سوال کرتے تھے اور وہ تمھیں دس بار بڑے پیار سے جواب دیا کرتے تھے ـ مگر اس دن محض دوبارہ پوچھنے پر ہی تمھیں غصہ آگیا تھا اور تم آپے سے باہر ہوگئے تھے ـ حال آں کہ تم جانتے تھے کہ ڈھلتی عمر کے سبب ان کی سماعت متاثر ہوچکی ہے پھر بھی بلند آواز میں تم نے ان کی بے ادبی کر ڈالی تھی ـ
میں محو حیرت اس کی باتیں سن رہا تھا کہ اچانک محسوس ہوا کہ اب شام کا دھندلکا ماحول میں پیر پسارنے لگا ہے ـ غروب ہوتی سورج کی کرنیں میرے وجود میں اندھیرے کو رفتہ رفتہ دل و دماغ کی راہوں سے اپنے ہونے نہ ہونے کے احساس کو جگانے کی تگ و دو میں برسر پیکار تھیں ـ لفظوں کا ایک جم غفیر تھا جو ایک دوسرے میں مدغم ہو رہا تھا ـ مجھے اپنی بینائی کم زور محسوس ہونے لگی تھی ، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ـ
قبل اس کے کہ میں کتاب حیات کو بند کرتا پتا نہیں کہیں سے ایک ساتھ کئی الفاظ بہ شمول جھوٹ، فریب، دھوکا دہی اور نہ معلوم کیا کیا مجھ پر ٹوٹ پڑے ـ اور ادھر میں اپنے اندرون کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھ کر سمیٹنے کی نا کام کوشش کرنے لگا تھا ـ شاید میرا وجود پوری طرح سے منتشر ہوچکا تھا ـ لفظوں کے اس عذاب نے سب کچھ ختم کر دیا تھا ـ اور ادھر میں خلا میں ٹک باندھے اوراق پارینہ کو اڑتے دیکھ رہا تھا جو مجھ سے دور بہت دور ہوتے جا رہے تھے ـ
ختم شد

تجزیہ
نثارانجم
یہاں راوی معاشرے کا وہ فرد ہے۔جس کے یہاں باطن میں انذار کا طوفان بپا ہے. وہ اپنے کردار اور اخلاق کے نوکیلے حصے کو وقت پر گول کرنے سے رہ گیا تھا ۔
وہ اپنے باطن میں اتر کردار کی بو سیدہ عمارت کے ملبے پر بیٹھا ہے۔ اخلاص اور اخلاق کی دیواروں کی دراڑیں اسے محاسبے پر سوچنے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔
افسانے کی رگوں میں محا سبے کا تازہ خون ٹوٹتے اور گہناتے رشتوں کے نوحے کے ساتھ رواں ہے۔
اس کی ریگ مال طبعیت نے ان تمام اخلاقی اقدار اور تقدس کے جذبے کو اپنے برتاؤ سے بےمعنی بنادیا تھا۔ ۔اپنے اندر کے ایک پاکیزہ نظام کے defunct ہونے کا احساس اس کے باطن کی انا سازی نے کبھی ہونے نہ دیا۔آج خود اس کی زندگی بے اطمینانی کے اس ببول کے کا نٹوں پر دراز بے، جس کا پیڑ اس نے اپنے سلوک کےآنگن میں بڑے شوق اور چاؤ سے لگایا تھا۔ افسانہ نگار نے ایک ایسے موضوع کو چنا ہے کہ دوران مطالعہ خود شناسی کی جھیل میں گم ہو گئے ان محبت اور اخلاق کے مونگوں کو دوبارہ پانے کی حسرت میں سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں ۔کسی غواص کی طرح مٹھی میں بند ماضی کی جھیل کی تہہ سے جو کچھ ہاتھ لگتا ہے وہ حسر تو ں کی پھونس کی سوا کچھ نہیں ہے۔زیست قصاب احتساب کی دکان پر النگنی پر ٹنگی اس بے جان جسم کی طرح ہے جس میں محبت، اخلاق و مروت کے وہ تمام جوہر اپنی جگہ اور قوت چھوڑ چکے ہیں۔
وہ اپنے کردار کےچبھنے والے نوکیلے حصوں سے غافل تھا۔ اس کے نوکیلے حصوں کی زد میں أنے والے اپنے اور پراۓ اس کی صحبت اور قربت سے زخمی ہورہے تھے، روح کو ٹھیس پہنچ رہی تھے۔آبگینے ٹوٹ کر بکھر رہے تھے لیکن اس نے ٹھہر کر رک کر اپنے کردار کی ریگ مالی نہیں کی۔آج خوداحتسابی کے کانٹوں پر پسری ہوئی زندگی کااحتساب روح میں ایک گلٹی فیلنگ کا تیر ترازو بن گیا ہے۔
ماضی کے وہ تمام کردار سے صدور ہونے والے عمل نے اس کے با طن میں بے چینی، عدم اطمینان اور نفسیاتی بےکلی کے کچرے ڈال دیے ہیں۔
وہ اپنے ہی سلوک اور برتاؤ کے کچرے پر پسرا اس کے تغفن سے خود کوآزاد کرانے کی کوشش میں ہے۔
زیست احساس اور تزکیے کی کانچ پر ڈال دی گئی ہے۔
خودی میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی کے وہ نقش پا دھندلے ہی صحیح لیکن ضمیر کی سڑک پر وہ نشان میل پس منظر سے ابھر رہے ہیں۔
افسانہ نگار نےبہترین تکنیک کے ذریعہ فلیش بیک سے وہ سارے سلوک کے عوامل کو کتاب کی ورق گردانی کی طرح صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔
اور احساس کی صلیب پر ایک ایسے کردار کو دار کیا ہے جو احساس جرم اور تزکیے کی دو راہے پر کھڑا اپنے انذار کا تمنائی ہے اور باطن کے ڈی فنکٹ نظام پاکیزہ کو فعال کرنے کا خوگر ہے.
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں :اشہر ہاشمی کے تین شعری مجموعوں کا مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے