زعفرانی میڈیا کا مکروہ چہرہ کمبھ میں بےنقاب ہوا!

زعفرانی میڈیا کا مکروہ چہرہ کمبھ میں بےنقاب ہوا!


محمد قاسم ٹانڈؔوی

09319019005
سال 2019/ میں ملک چین کے شہر "ووہان: سے عالم گیر سطح پر ابھرنے والی "کورونا وائرس” نامی مہلک ترین و متعدی بیماری اس وقت ہمارے ملک میں کنٹرول سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک کی اندرونی صورت حال سال گذشتہ کے مقابلے اس سال مزید ابتر ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں جان کے ڈر و خوف سے کہیں زیادہ اپنی مالی کم زوری اور فکر معاش کی طرف سے ناامیدی اور مایوسی کی لہر ہے۔ حقیقت کیا ہے یہ خدا ہی جانتا ہے کہ: "واقعی یہ کوئی بیماری ہے، عذاب ہے، آزمائش ہے یا پھر اعلی و شاطر دماغوں کی طرف سے ایجاد کردہ کوئی شازش و فارمولہ ہے، جس کا مقصد انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنا یا کمزور و بےسہارا طبقات کو مزید الجھن و پریشانی میں مبتلا کرنا ہو؟ اس کا صحیح علم خدا ہی کے پاس ہے۔ ہمیں تو بس اس کے تئیں یہی فکر و کوشش لاحق رہتی ہے کہ اگر واقعی یہ شاطر دماغوں کی کوئی شازش یا منفی تحریک کا حصہ ہے تو سال بھر سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کا مستقل علاج، پائیدار حل اور باقاعدہ کوئی توڑ سامنے کیوں نہیں آ رہا ہے؟ اور کیوں حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے؟ کیا اس وائرس سے پہلے دنیا میں وبائیں اور بیماریوں نے جنم نہیں لیا ہے؟ عالم گیر پیمانے پر انسانی جانوں کو بھاری بھرکم طریقے پر نقصان پہنچانے والے مختلف اور متعدد امراض کا سامنا اب سے قبل اہل زمیں نے نہیں کیا ہے؟ نہیں دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ اس سے قبل متعدد مرتبہ دنیا والوں نے مجموعی اعتبار سے وبائی اور جان لیوا امراض کا سامنا کیا ہے، لیکن وقت رہتے حکومتی سطح پر ان پر کنٹرول پا لیا جاتا تھا، مگر افسوس! اسی ایک وائرس اور موذی کہے جانے والے مرض کا معاملہ جسے وجود میں آئے ایک سال سے بھی زائد کا عرصہ ہو گیا، وہ ایک معمہ اور عجوبہ بنا ہوا ہے، جو حل نہیں ہو رہا ہے. حال آں کہ جس شہر اور ملک سے سال بھر پہلے یہ وائرس پنپا اور پھیلا تھا، وہ نہ جانے کب کا اس سے پاک اور محفوظ ہو چکا ہے اور وہاں کے عوام مکمل طور پر راحت و سکون کے ساتھ زندگی گزر بسر کرتے اور خوش و خرم نظر آ رہے ہیں۔
رہی بات ویکسین کی تو اس سلسلے میں ماہرین کی آرا پہلے ہی مختلف فیہ شکلوں میں ظاہر کی جا چکی ہیں کہ مثلاً: ویکسین لینے کے بعد بھی کورونا ہو سکتا ہے یا ویکسین اور ڈوز لینے کے بعد موت بھی واقع ہو سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور ایسی خبریں نظروں سے گزریں بھی کہ ویکسین لینے والوں نے وقت پر ویکسین لی، مگر پھر بھی وہ اس بیماری میں مبتلا ہوتے پائے گئے۔  رہی بات ماسک کے مسلسل استعمال اور سماجی دوری بنائے رکھنے کی تو اسے احتیاطی تدابیر کے طور پر اختیار میں تو لایا جا سکتا ہے اور لوگ سال بھر سے اس پر عمل بھی کر رہے ہیں مگر یہاں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ طریقہ بھی کوئی مفید و کارگر اور بہتر علاج کے طور پر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہےکہ جو لوگ ہر وقت سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھتے ہیں اور ماسک کا استعمال بھی ان کے یہاں مستقل رہتا ہے، اور بھی دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کئے رہے وہ لوگ، مگر پھر بھی وہ اس بیماری کی زد میں آئے اور کورونا وائرس سے متاثر ہوتے پائے گئے؟ اس لئے ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے سے اندازہ ہوا کہ اس بیماری کے پس پشت کوئی راز اور پلانننگ ہے، جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے اور اس کی حقیقت آشکار ہونا چاہتی ہے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ سال جس وقت اس وائرس کے اجزا پھیلنے شروع ہوئے تھے اور ملک میں اس مرض کی نشان دہی کی گئی تھی تو حکومتی سطح پر ملک بھر میں یک بیک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا اور جو جہاں تھا اسے وہیں رہ کر عوامی بندش کے ایام گزارنے کا مکلف ٹھہرایا گیا تھا، اس سخت اور ہمہ گیر اعلان کی وجہ سے اس وقت عوام میں جو بےچینی اور کس مپرسی کی حالت تھی، وہ قابل دید اور قابل رحم تھی، مگر عوام کے ایک بڑے طبقے نے سرکار کے اس حکم نامہ کو منظوری دی اور خود کو پابند حکم ٹھہرایا اور جو جہاں جس حالت میں تھا، اس نے اس سخت ترین وقت کو گزار کر خود کے ساتھ دوسروں کی جان کی پرواہ کی، مگر حکم عدولی نہیں کی۔ ہاں کہیں کہیں سے اکا دکا ایسی ناموافق خبریں بھی موصول ہوئیں، کہ جنہوں نے اپنے اہل خانہ کی فکر میں سرکاری حکم کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
مگر ایسے مشکل و خوف ناک حالات میں بھی ہمارے ملک کے متعصب و بدنام میڈیا نے مذہب کے توے پر خوب روٹیاں سینکیں اور مسلم طبقہ کو بدنام کرنے یا کورونا وائرس کی واہی تباہی کو لانے اور اس کے پھیل پھیلاؤ کو تبلیغی جماعت کے سر منڈھنے میں کوئی فروگذاشت نہ رہنے دی۔ بات کوئی بہت قدیم یا عرصہ دراز پہلے کی نہیں ہے؛ جسے ہم لوگ یا ہندوستانی معاشرہ فراموش کر بیٹھا ہوگا. نہیں، بلکہ سال بھر پہلے ہی کی کہانی ہے؛ جب عالمی سطح پر پھیلنے والی کورونا وائرس بیماری نے ہمارے ملک میں بھی پاؤں پسارے تھے، جس کے پھیلاؤ نے تیزی کے ساتھ معاشرے کو اپنی جکڑ میں لےکر پورے ملک میں افرا تفری کا ماحول پیدا کر طویل مدتی لاک ڈاؤن کے اعلان اور حالات سے لوگوں کو روبرو کرایا تھا، جس کے بھیانک و خطرناک نتائج آج بھی عوام برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔ اسی مہاماری اور بیماری کو لےکر ہمارے ملک کے دوغلے، چاٹوکار اور سنگھی و بکاؤ میڈیا نے جو کردار ادا کیا تھا، وہ بھی ہمیں اور برادران وطن کو بخوبی یاد ہے، جس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو لےکر تبلیغی جماعت کے احباب (بنگلہ والی مسجد اور بستی حضرت نظام الدینؒ میں واقع تبلیغی مرکز) کو خوب خوب بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی اور رات و دن ٹی وی چینلز پر اس کے متعلق جھوٹی اور بےبنیاد خبریں نشر کر سارا کا سارا قصور تبلیغی جماعت کے سر کاندھوں پر دے مارا تھا اس چاٹوکار اور متعصب ذہن میڈیا نے۔ یہاں تک کہ لوگوں کو ابھی بھی اچھے سے یاد ہے کہ اس متعدی بیماری اور وائرس کو کورونا بم کا نام دے کر تبلیغی جماعت کو بدنام و رسوا کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں، جس کی برأت و صفائی کےلئے جماعت اور جمعیۃ علماء ہند کو عدالت تک جانا پڑا تھا۔ لیکن منافق میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سرکاری درباریوں کا بکواس ٹولہ جو کل تک تبلیغی جماعت کو بدنام و رسوا کرنے میں سرگرداں تھا، جب امسال ہریدوار (ریاست اتراکھنڈ) میں لگنے والے کمبھ میلہ کے تعلق سے وہاں پہنچا یا وہاں کی منفی صورت حال سے واقف ہوا تو بالکل خاموش نظر آیا اور شِردھالو (عقیدت مندوں) کے لاکھوں کے ہم راہ گنگا میں ڈُبکی لگانے والے عمل اور سادھو سنتوں کا وہاں اتنی بڑی تعداد میں اصول کی خلاف ورزی کرنے اور یکجا ہونے پر یہ میڈیا اپنی آنکھیں موندے بیٹھا ہے۔ اور اب ریاست اترپردیش کے حالات یہ بتائے جاتے ہیں کہ صورت حال بےقابو اور کورونا کے مریض کنٹرول سے باہر ہوتے نظر آ رہے ہیں اور ہر 2000 میں سے 200 سادھو سنتوں کے کورونا+ ہونے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ لیکن ایسے ناگفتہ بہ حالات میں میڈیا کے ذریعہ وہاں کی خبریں نہ چلانا یا ٹی وی ڈیبیٹ میں اس کو مدعا نہ بنانا یہ محسوس کراتا ہے جیسے اس متعصب ذہن میڈیا کے منھ میں دہی جما ہوا ہو جو کسی بھی ٹی وی چینل پر بم یا ایٹم بم جیسی خبریں نشر نہیں کر رہا ہے۔
اس لئے ایسے واقعات کو دیکھ کر ہم جیسے غیرجانب دار صحافی و قلم کار، سیکولر مزاج و انصاف پسند شہری اگر گذشتہ سالوں سے اس بات کو بار بار دہراتے چلے آ رہے ہیں کہ:
"ہمارے ملک کا میڈیا زعفرانی رنگ میں رنگ کر جانب دارانہ اور یک طرفہ کارروائی انجام دینے میں لگ گیا ہے” تو بےجا اور کوئی غلط نہیں کہتے آ رہے ہیں۔ اس لئے کہ ایسی ایک نہیں؛ سینکڑوں ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جن سے موجودہ بکاؤ میڈیا کا مسخ شدہ اور مکروہ چہرہ بےنقاب ہوتا ہو اور جن کی وجہ سے اس کی بولتی بند کی جاسکتی ہے۔ مگر افسوس! "برق گرتی ہے تو بےچارے ہند کے مسلمانوں پر” والا مقولہ یہاں پر بھی صادق ہوتا نظر آتا ہے اور کہیں سے کسی طرح کی کوئی آواز یا سرکاری کاروائی ہوتی نظر نہیں آتی، جس سے کہ اس بےلگام و بدنام میڈیا کا کچھ علاج ہو سکے اور اس کے دماغ ٹھکانے لگائے جا سکیں. 
(mdqasimtandvi@gmail.com)

صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش یہاں ملاحظہ فرمائیں : ویلنٹائن ڈے: فریب خوردہ ذہنیت کے غلاموں کا دن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے