بھارت کی موجودہ صورت حال اور دوعالمی اداروں کی تشویش ناک رپورٹ

بھارت کی موجودہ صورت حال اور دوعالمی اداروں کی تشویش ناک رپورٹ



✒️سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186


اپنے ملک بھارت میں ان دنوں جس طریقے سے افراتفری اورجھوٹ کا بازار گرم کیاجارہا ہے،جس طرح تانا شاہی کا مظاہرہ ہورہا ہے اور جس طریقے سے جمہوریت کو ختم کرنے اور جمہوری اداروں پر شب خون ماری جارہی ہے یہ انتہائی تشویش ناک ہے،اس کا احساس ملک کے اکثر ذمہ دار شہریوں کو بھی ہے. ہندو مسلم کے درمیان نفرت کی خلیج جس برق رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور جس شدت کے ساتھ اس کو ہوا دی جارہی ہے یہ یقینا افسوس ناک ہے،اور اب اس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے. بھارتی وزیر اعظم سے جب میڈیا کے نمائندے یہاں کی جمہوریت اور جمہوری نظام کے حوالے سے کبھی کوئی سوال اگرکربھی لیتے ہیں تو وہ ان سوالوں کا جواب نہیں دیتے،لیکن اگر کبھی اتفاقاً اگران سےسوال ہوبھی جاتاہے تو ان کا جواب مزید حیران کن ہوتا ہے. ایسے تو کبھی یہ لوگ میڈیا کے لوگوں کا سامنا ہی نہیں کرتے اور میڈیا کا سامنا کریں بھی تو کیوں؟ جب کہ میڈیا سمیت ملک کے دیگر کئی اہم اداروں کو خریدلیا گیاہے یاگود لے لیا گیا ہے. اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کے لوگوں کا کام میڈیا بخوبی سنھبال رہاہے بلکہ جوکام عدالت کا ہے وہ بھی میڈیا انجام دے رہا ہے. غلط بیانی،جھوٹ،فریب،کسی کومجرم قرار دینے اور نفرت پھیلانے میں سب سے اہم کردار ملک کا میڈیا ادا کررہاہے. ایسے میں اگر جمہوری نظام پر سوال اٹھتاہے اورعالمی ادارے اس پر تشویش کا اظہار کرتےہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں. ماہ دسمبر میں جموں کشمیر میں آیوشمان بھارت پردھان جن آروگیہ یوجنا صحت اسکیم کا افتتاح کرتے ہوئے مودی نے کہا تھاکہ”کچھ لوگ جمہوریت کادرس دے رہے ہیں اور دہلی میں کچھ لوگ آئے روز مجھے جمہوریت کا سبق پڑھاتے ہیں،مجھے جمہوریت پر درس دینے کی ضرورت نہیں”یہ بیان مودی نے راہل گاندھی کے ایک بیان پر ردعمل کے اظہار کے طور پر دیا تھا جس میں راہل گاندھی نے کہا تھا کہ”اب ہندوستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جوکوئی وزیر اعظم کے خلاف بولنے یا لکھنے کی ہمت کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتاہے” وزیر اعظم نے یہ بیان کس قدر جھلاہٹ کا شکار ہوکر دیا  ہے کیا آپ اس کا اندازہ کرسکتےہیں؟ اب تو اپوزیشن پارٹیاں مسلسل اس طرح کا بیان دے رہی ہیں کہ ملک کا جمہوری نظام خطرے میں ہے،تانا شاہی اپنے عروج پر ہے،صرف دولوگ ہی ملک کے اقتدار پرقابض ہیں. یعنی ڈبل انجن کی سرکار ہے،چن چن کر جمہوری اداروں پر شب خون ماراجارہا ہے،کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے،بینک کے ملازمین خانگیانے اور ملازمت کےلئے فکرمند ہیں اور اس کےلئے وہ احتجاج بھی کررہے ہیں. ملک ایک عجیب وغریب بحران کا شکار ہے. بےروزگاری نے اپنا ریکارڈ توڑ دیا ہے لیکن حکومت کو ان مسائل کی کوئی فکر نہیں، حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ الیکشن میں مصروف ہیں،کیوں کہ پانچ ریاستوں میں ووٹنگ کی گہما گہمی ہے،ایسے میں ملک میں جس طرح کی افراتفری ہے اس سے ہرکوئی باخبر ہے. اب اگر بھارت کے موجودہ حالات پر کوئی عالمی ادارہ اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتاہے،جائزہ لیتاہے، اور تشویش کا اظہار کرتا ہے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے. ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں دو عالمی اداروں نے اپنی رپورٹ پیش کی ہے اورملکی جائزہ لیا ہے، یہ دونوں ادارے غیرملکی ہیں، غیرملک کے ادارے اگر اس طرح تشویش کا اظہار کررہے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ہمارا ملک کتنے سنگین حالات سےگذر رہاہے. آئیے ذرا دیکھتے ہیں اس رپورٹ میں کیا ہے اورعالمی ادارہ کیاتاثر دیتا ہے؟ اس سلسلے کی پہلی رپورٹ امریکی تھنک ٹینک اورفریڈم ہاؤز کی ہے. مقامی اخبار کے مطابق”مودی حکومت،ہندوستان کو مطلق العنانی کی جانب ڈھکیل رہی ہے،آمریت پسندانہ کارروائیوں اورناقدین پر شکنجہ کسنا،مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنانا جیسی کارروائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے. امریکی تھنک ٹینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان جزوی طور پر بی جے پی کا غلام بن چکا ہے،ہندوستان ایک آزاد ملک کا موقف رکھتاتھا،لیکن اب یہ آزادی جزوی طور پر رہ گئی ہے،مودی حکومت کے تحت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالمی جمہوری لیڈر کی حیثیت سے اپنی اہم خدمت کو ترک کردیا ہے،تنگ نظری پر مبنی ہندو قوم پرستی کے مفادات کو بڑھاوا دیا جارہاہے،ہندوستانی عوام کو دیئے جانے والے یکساں حقوق اور ہندوستانی اقدار کو پامال بھی کیاجارہاہے. امریکی تھنک ٹینک نے ورلڈ2021 میں آزادی کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے،سیاسی حقوق اور شہری آزادی کو چھینا جارہاہے،جاریہ سال ہندوستانی عوام پر ہونے والے ظلم وزیادتی کے واقعات میں اضافہ ہواہے،سوشل میڈیا کو بھی سنسر کیاجارہا ہے،حکومت نے کشمیر میں انٹرنیٹ سروس منقطع کردی ہے. اس کے ساتھ ساتھ دہلی کی سرحدوں پر بھی نیٹ سروس روک دی گئی ہے،جس سے ہندوستان کی انٹر نیٹ آزادی کا اسکور گرکر 51 ہوگیاہے،وزیراعظم نریند مودی کی حکومت اوران کی ریاستی سطح کی حکومتوں نے ناقدین پر شکنجہ کسنا شروع کردیا ہے. خاص کر کوویڈ 19 سے نمٹنے کےلئے حکومت کی نااہلی،تساہلی اورکاہلی پر آواز اٹھانا جرم سمجھا جارہا ہے،عوام پر خطر ناک اور منصوبہ بند طریقے سے لاک ڈاؤن مسلط کردیاگیا،جس کے نتیجے میں لاکھوں مائیگریٹ ورکرس بے روزگار ہوگئے. کورونا وائرس کا سب سے الم ناک واقعہ یہ ہے کہ اس وائرس کےلئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا،وائرس پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے مسلمانوں کونشانہ بنایاگیا،سینکڑوں مسلمان اب تک ہجومی تشدد کا شکار ہوچکےہیں. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی 2014 میں جب وزیراعظم بن کرآئے،تب سے سیاسی حقوق اور شہری آزادی سلب کی جانے لگی. 2019 میں ان کی دوبارہ کامیابی کے بعد اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگیا. گذشتہ سال ہی حکومت نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا اورکئی افراد کے خلاف سخت کارروائی کی گئی. درجنوں صحافیوں کوگرفتار کیاگیا،کورونا وائرس کی وباء پر سرکاری ردعمل پر تنقید کرنے والے صحافی بھی نشانہ بنے،گذشتہ سال دارالحکومت دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران یک طرفہ کارروائی کرتےہوئے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا،دہلی فساد میں 50افراد ہلاک ہوگئے تھے،جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی. اترپردیش کی حکومت نے بین مذاہب شادیوں اورجبری مذہبی تبدیلی کو روکنے کےلئے قانون بناکر نافذ کردیا. بی جے پی نے ہندوستان کی جمہوری شان کو برقرار رکھنے کے بجائے آمریت پسندانہ اورڈکٹیٹرشپ اختیار کرلی ہے. سب سے زیادہ آزاد ملک کو 100نشانات دیئے جاتےہیں،جب کہ ہندوستان 71 سے گھٹ کر 67 ہوگیاہے. فریڈم ہاؤس نے یہ بھی کہا ہے کہ جمہوریت کاعلم بردار بننے اور چین جیسے ممالک کے آمرانہ اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے بجائے مودی اوران کی پارٹی نے ہندوستان کو خود آمریت کی طرف لاکھڑا کیا ہے،جو افسوس کی بات ہے”یہ ہے فریڈم ہاؤس کی رپورٹ جسے بھارت کے اکثر اخبارات نے اپنی پہلی خبر بنایاتھا،اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی حالت کتنی سنگین ہوتی جارہی ہے. یہ تو ایک امریکی ادارے کی رپورٹ ہے آئیے ذرا دیکھتےہیں ایک دوسری رپورٹ،یہ رپورٹ کیاکہتی ہے؟

اخبار کے مطابق”وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ کی جمہوریت کے بارےمیں 5ویں سالانہ رپورٹ میں ہندوستان کادرجہ”دنیا کی سب بڑی جمہوریت”سے گھٹاکر "شخصی نظام حکومت”کردیاگیا ہے اورمیڈیا میں الٹ پھیر،تحقیر اورغداری قوانین کے حدسے زیادہ استعمال کا حوالہ دیاگیا ہے. اس ادارے کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کے بارے میں سب بڑا ڈاٹا تیار کرتاہے،جس میں 202 ممالک کے تقریباً 30ملین ڈاٹا پوائنٹس شامل ہیں. یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے،جب چند دن قبل امریکہ کے فریڈم ہاؤس نے ہندوستان کے درجہ کو اپنی عالمی آزادی رپورٹ میں آزاد سے گھٹاکر جزوی آزادی کردیاتھا. ہندوستان کا سب سے زیادہ اسکور 2013 میں 57 تھا جو 2020 کے ختم تک گھٹ کر 34فی صد ہوگیا. اس طرح 10 برسوں میں ہندوستان نے 23فی صد پوائنٹس کوکھویا ہے. رپورٹ میں کہاگیاہے کہ سب سے زیادہ گراوٹ 2014 میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد آئی. رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ہندوستان اب پاکستان جیسی مطلق العنان جمہوریت بن گیاہے اوراس کی صورت حال پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور نیپال سے بدتر ہے. مودی حکومت نے ہندوستان میں اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کےلئے غداری،تحقیر اورانسداد دہشت گردی قوانین کااستعمال کیاہے. مثال کے طور پر جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے 7ہزار سے زائد افراد پر غداری کاالزام لگایا گیاہے،ان میں بیشتر افراد وہ ہیں جوحکمراں جماعت پر تنقید کرتےتھے. رپورٹ میں کہاگیاہے کہ صحافیوں کو خاموش کرنے کےلئے بار بار تحقیر کے قوانین کا استعمال کیاگیا. اس کے علاوہ غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون یو اے پی اے کا اطلاق سیول سوسائٹی پرکیاگیا،اورحکومت نے سیکولرزم کے تعلق سے دستور کے عہد کے خلاف کام کیاہے. رپورٹ میں کہاگیاہے کہ سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے،ڈرانے،دھمکانے اورانھیں جیل میں ڈالنے کےلئے اس طرح کے قوانین کا استعمال کیاگیا. یونیورسٹیوں اور عہدے داروں نے جامعات میں سی اے اے کے خلاف احتجاج پر طلبہ اور کارکنوں کو سزا دی. رپورٹ میں نوٹ کیاگیاہے کہ سیول سوسائٹی کا گلا گھونٹا جارہاہے اور ہندتوا تحریک سے وابستہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے. رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ بی جے پی نے سیول سوسائٹی کی تنظیموں کو روکنے کےلئے بیرونی عطیات سے متعلق قانون کا اندھادھند استعمال کیا. یہ رپورٹ دنیا میں جمہوری ملکوں کی حالت کے بارے میں تیار کی جاتی ہے اور اس میں پچھلے ایک دہے میں پیش آنے والے واقعات کو نظر میں رکھا جاتاہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں مجموعی طور پر جمہوری نظام کمزور ہوا ہے. بھارتیہ جنتا پارٹی کسی مطلق العنان جمہوریت میں حکومت کرنے والی جماعت کے مماثل بن گئی ہے. سویڈن کے نائب وزیر خارجہ رابرٹ رٹبرگ کی موجودگی میں یہ رپورٹ جاری کی گئی. گذشتہ سال ہندوستان کی درجہ بندی”انتہائی غیر یقینی” کی حیثیت سے کی گئی تھی،لیکن ادارہ نے کہا کہ اب مزید بہتر ڈاٹا کے ساتھ ہندوستان کی درجہ بندی مطلق العنان یاشخصی نظام حکومت کی حیثیت سے کی گئی ہے. مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سنسر شپ کی کوششیں معمول بن گئی ہیں” یہ ہے سویڈن کے انسٹی ٹیوٹ کی ڈیموکریسی رپورٹ. اگر چہ اس رپورٹ کو بھارتی حکومت نے سختی کے ساتھ مسترد کردیاتھا،اور الزام لگایا تھا کہ اس طرح کی رپورٹ مفادات حاصلہ کے گروپس ملک کے خلاف اس طرح کا پرو پگنڈہ کررہےہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت کو جھٹلادینے سے مسئلہ حل ہوجائےگا؟ ملک کی جو ابتر اورنازک صورت حال ہے اس کو ختم کرنے کےلئے کیا کوششیں کی جارہی ہیں؟ دنیا کو یہ تو بتانا ہوگا یاصرف انکار کردینے اورکمیوں وخامیوں کا اعتراف نہ کرنے سے نہ دنیا کو مطمئن کیا جاسکتاہے اور نہ ہی دیش کو. اوپر کی ان دونوں رپورٹ کو غور سے پڑھئے اور سوچئے کہ آخر ہمارا ملک کہاں جارہا ہے؟ اس کا حل کیا ہے؟ اوراس کا علاج کیا ہے؟ اور ہم آپ اس کےلئے کیا کررہےہیں؟ ابھی وقت ہے پھر شاید وقت نہ ملے۔

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے