پھولوں میں اب وہ پہلی سی رنگت نہیں رہی

پھولوں میں اب وہ پہلی سی رنگت نہیں رہی



*شعیب سراج*


پھولوں میں اب وہ پہلی سی رنگت نہیں رہی
پیارے سے اس چمن میں بھی زینت نہیں رہی

کیلیں بچھا کے راہ میں ثابت یہ کر دیا
حاکم کو شہریوں سے محبت نہیں رہی

کیوں کر نہیں رہا ہے کسانوں کو کال وہ
قوت نہیں رہی ہے کہ ہمت نہیں رہی

بی اماں، کملا نہرو سا جذبہ ابھی بھی ہے
مت سوچنا زلیخا سی عورت نہیں رہی

امن و اماں کا ملک تھا آنے سے تیرے قبل
آیا ہے جب سے تو یہاں راحت نہیں رہی

لکھنا خلاف ظلم کے اس وقت تک سراج
جب تک نہ موت کہہ دے "اجازت نہیں رہی” 

شعیب سراج کی پچھلی غزل : بغیر سوچے غم وہ مجھ کو بے حساب دے گیا (غزل)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے