شمعِ آرزو

شمعِ آرزو


مستحسن عزم

اخبار والا تازہ اخبار دے گیا ہے ۔ آنکھ کھلتے ہی میں ٹیبل کی طرف دیکھ لیا کرتا ہوں ۔ میرے بچے اخبار ٹیبل پر رکھ دیاکرتے ہیں ۔ اخبار دیکھتے ہی نیند کا غلبہ ختم ہونے لگتا ہے ۔ اخبار اٹھاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے عینک ٹٹولنے لگتا ہوں ۔ ہیڈلائنس دیکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ وہی باتیں جو آج کل کے اخباروں کا مواد ہوا کرتی ہیں ۔۔۔ حادثے ، سیاست ، عصمت دری اور فسادات کی خبروں سے پر اخبار ۔
بہت دنوں سے مجھے کسی اچھوتے موضوع کی تلاش ہے جس پر کچھ لکھا جا سکے۔ یوں تو قلم کار کی آنکھیں عام آنکھوں سے جدا دیکھتی ہیں، کھلی رہیں تو ارد گرد سے متاثر ہو کر روز مرہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو افسانے کا روپ دے دیتی ہیں اور اگر بند ہوں تو تصور کی اڑان سے کہانی کا ایسا سماں باندھتی ہیں کہ حقیقت اس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے ۔ مجھے کاغذ قلم سے اچھا خاصہ لگاؤ ہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کاغذ اور قلم ہی میرے سب سے اچھے دوست ہیں ۔ باقی ماندہ زندگی کے لمحے انہیں کے سہارے مزے سے گزر رہے ہیں ۔ اب عمر بھی ایسی نہ رہی کہ دوستوں کے ساتھ گھنٹوں بیکار کی باتوں میں اپنا وقت گزاروں ۔۔۔۔ اور دوست بھی کہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مرزا اپنی فیملی کے ساتھ دلی شفٹ ہو گیا ہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ارون نے بھی اپنے آبائی گاؤں میں باقی ماندہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔اسی شہر میں رہتے ہوئے بھی شفیع اپنے بزنس میں اس قدر منہمک ہے کہ بس ایک مشین بن کر رہ گیا ہے ۔ دیرینہ زندگی کو جب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو کتنے خوب صورت لگتے ہیں وہ دن ۔ چاروں یاروں کی بے پناہ محبت سب کو ایک جگہ کھینچ لاتی ۔ میز پر چائے کا کپ رکھے جانے کی آواز سے دھیان بیوی کی طرف مبذول ہو جاتا ہے ۔ایک عرصے سے وہ اسی طرح اخبار پڑھنے میں میری مدد کر رہی ہے ۔ میرے اندر پھرتی آگئی ہے ۔ چائے کی چسکی کے ساتھ اخبار کا بغور جائزہ لیتا ہوں ۔
میرا دل کچھ تخلیق کرنے کے لئے آمادہ ہے ۔ذہن خیالات کی وادی میں بھٹک رہا ہے ۔ اخبار میں چھپے ہر ایک خبر اور واقعہ پر صحت مند اور کامیاب افسانہ قلم بند کیا جا سکتا ہے ۔ غنڈہ گردی اور مافیا گری کے خلاف لکھا جا سکتا ہے ۔ ایمان دار افسروں کو ضمیر فروش افسران پر فوقیت دیتے ہوئے کسی سبق آموز افسانے کا تانا بانا بنا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض بے شمار موضوع پڑے ہیں جن پر ایک مدلل اور صحت مند تخلیق پیش کی جا سکتی ہے ۔۔۔۔ لیکن اسے پڑھے گا کون؟ واقعی قلم کاروں کی کاوشیں رنگ لائیں گی۔۔۔ ؟ شاید ان کی کاوشیں بھی اندھیروں میں گم ہوتی چلی جائیں گی۔۔۔۔
"اجی سنئے ” میری بیوی کی آواز سے میرے خیالوں کا تسلسل ٹوٹتا ہے ۔
” ناشتے کا وقت ہو رہا ہے اور آپ ہیں کہ اب تک بستر پہ پڑے ہیں ۔” وہ جھٹکے سے اخبار چھین لیتی ہے ۔ مجھے اس عمر میں بھی اس کی یہ ادا اچھی لگی ۔
ناشتے پر گھر کے سبھی افراد موجود ہیں ۔میرا بڑا بیٹا وردی پہنے ہوئے ہے، شاید ڈیوٹی کا وقت ہو چلا ہے ۔کتنی مشابہت ہے مجھ سے اس کی ۔ بالکل میری طرح اصول کا پکا، اپنے فرض پر مر مٹنے والا ۔ آج میں کتنا خوش ہوں، میری بے داغ زندگی کا یہ ثمرہ ہے بااصول اور ہونہار بیٹا ۔ میرے ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی محنت سے اس نے یہ نوکری حاصل کی ہے ۔
میرا بیٹا جلدی جلدی ناشتے سے فارغ ہو کر ڈیوٹی پر چلا گیا ہے ۔میں بھی باہر آرام کرسی پر بیٹھ گیا ہوں ۔ اخبار بدستور میرے ہاتھ میں ہے ۔ میں اخبار کو کھنگالنا چاہتا ہوں ۔ انسپکٹر خان اپنی گاڑی نکالتا ہے ۔۔۔۔ شاید ڈیوٹی پر جا رہا ہے ۔وہ میرے بیٹے کا ہم عمر ہے اور اسی عہدے پر وہ بھی فائز ہے ۔ میرے گھر کے سامنے ہی اس کا بھی گھر ہے ۔ اب وہ گھر گھر کہاں؟ محل میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔اس کی رعنائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔اس کے مقابل اب میرے بنگلے کی کوئی اہمیت نہیں رہی ۔یوں لگتا ہے یہ بنگلہ بوسیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔ شاید پینٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ظاہری چمک دمک سے ہی تو آدمی کی پہچان بنتی ہے ۔۔۔ لیکن اس کے لئے لوازمات آئیں گے کہاں سے ؟
میرے اندر کا آدمی اکساتا ہے ۔۔۔۔ ” وہ کیسے لاتا ہے ۔؟ وہ بھی تو تمہارے بیٹے کی طرح اسی پوسٹ پر فائز ہے ۔” خود ہی میرے اندر کا انسان اپنے معقول جوابوں سے مجھے خاموش کر دیتا ہے ۔ پھر ایک ہلکی سی مسکراہٹ میرے لبوں پر آتی ہے اور اخبار ہاتھ میں تھامے میں آرام کرسی پر دراز ہو جاتا ہوں ۔
آج جیسے تیسے دن گزرا ہے ۔ شام کو یہ خیال انگڑائیاں لے رہا ہے کہ آج کچھ نہ کچھ تخلیقی کام ضرور ہونا چاہئے۔ میں مطمئن ہوں مجھے بہت سے پلاٹ مل گئے ہیں ۔ اندھیرا چاروں سمت پھیل رہا ہے ۔ ٹیبل پر ایک طرف قلم اور پیڈ ہے دوسری طرف کچھ ادبی رسائل کے ساتھ پیپر ویٹ سے دبے کچھ اخبار کے تراشے ہیں۔ قینچی ٹیبل کے ایک کونے پر پڑی ہے ۔ ضرورت کی ساری چیزیں ٹیبل پر ہیں ۔ نیم دراز خیالوں میں غلطاں پلاٹ سیٹ کر رہا ہوں ۔ میرا بیٹا ڈیوٹی سے آکر مجھے سلام کرتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ہے ۔اس کے ہاتھ میں سوٹ کیس دیکھ کر میں چونک پڑتا ہوں ۔۔۔۔۔ ” کیا ہے بیٹے اس میں؟ "
” ک۔ک۔۔ کچھ ضروری کاغذات.. ” ہچکچاتے ہوئے بہ مشکل اس نے جواب دیا ہے ۔
اچانک بجلی چلی جاتی ہے۔ میں موم بتی جلاتا ہوں۔اس سے بہت ہی کم اندھیرا دور ہو پایا ہے ۔
میں دماغ پر زور دیتا ہوں ۔۔۔” جاتے وقت اس کے ہاتھ میں کچھ بھی تونہیں تھا ۔پھر یہ سوٹ کیس؟ ۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں میری طرح اسے بھی خریدنے کی کوشش کی گئی ہو ۔۔ میں تو نہیں بکا تھا ۔۔۔ شاید وہ بک گیا ہو ۔”
میرے دل سے آواز نکلتی ہے ۔۔ ” اس نے اپنے نام نہاد اصول کو آج بیچ ڈالا ہے تبھی تو نظریں بچاتے ہوئے اس نے میرے سوال کا جواب دیا تھا جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو ۔”
مجھے پسینہ آنے لگا ہے ۔ مانو دماغ پر ہتھوڑے برس رہے ہوں ۔ میراذہن منتشر ہوا جا رہا ہے ۔
موم بتی کا قد گھٹ کر بہت کم ہو گیا ہے اور بدستور گھٹتا جا رہا ہے ۔ اندھیرے کا بوجھ شاید ناقابل برداشت ہے تبھی تو یہ معدوم ہونے جارہی ہے ۔
پیڈ سامنے ہے قلم ہاتھ میں تھام چکا ہوں ۔۔۔۔۔ اس سے اچھا مواد مجھے کہاں اور کب ملے گا ۔ دفعتاً موم بتی اپنی آخری ہچکی کے ساتھ معدوم ہونے لگتی ہے ۔ اندھیرا چاروں سمت مسلط ہونے لگتا ہے ۔
اسی دوران میرا چھوٹا بیٹا ایک روشن شمع لئے کمرےمیں داخل ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔

مستحسن عزم شاعر اور افسانہ نگار ہیں. ان کی شاعری یہاں پڑھیں:مستحسن عزم : تعارف، غزلیں اور ماہئیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے