مسعود بیگ تشنہ: ایک صاحب طرز منفرد شاعر

مسعود بیگ تشنہ: ایک صاحب طرز منفرد شاعر

تہذیب و پیش کش : طیب فرقانی

ظالموں کا ساتھ دیتا یہ نظام
احتجاجی اور نم دیدہ غزل

مسعود بیگ تشنہ نے اپنی شاعری کو احتجاج کا مترادف بنایا ہے. وہ ستر اسی کی دہائی میں رومانی شاعری کرتے تھے. بینک کی سروس سے سبک دوش ہیں. اور تقریباً ایک دہائی سے اپنی نظموں اور غزلوں کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خون دل پلا رہے ہیں. فی الوقت جب ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے کئ لوگ پوچھتے ہیں کہ اردو کے شاعر و ادیب کدھر ہیں؟ کوئی احتجاج کیوں نہیں کر رہا؟ ایسا نہیں ہے کہ اردو ادب فی الوقت احتجاج سے خالی ہے. متعدد لوگ شعر و ادب کے فارم میں اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں. ان میں سے ایک نام مسعود بیگ تشنہ کا ہے.

احتجاجی شاعری کے لیے نظم کا فارم زیادہ مشہور ہے لیکن مسعود بیگ تشنہ غزلوں میں بھی احتجاج کا رنگ بھرنے میں کام یاب ہیں. وہ بھی فنی لوازمات کے اہتمام کے ساتھ .

بچیّوں پہ ظلم ہوتا دیکھ کر
سامنے آتی ہے رنجیدہ غزل

موصوف 2012 سے تین رسم الخط میں بلاگنگ کر رہے ہیں. تقریباً پچاس برسوں کا شعری تجربہ ہے. معتبر ادبی رسائل وجرائد میں ان کے کلام شائع ہوئے ہیں. ان کی پہلی غزل ماہنامہ شاعر ممبئی میں شائع ہوئی تھی.

نیا سال شروع ہورہا ہے. پڑوس سے پٹاخوں کی تیز آواز آرہی ہے. مسعود بیگ تشنہ ہمیں نئے سال کے لئے نئی تمناؤں اور آرزوؤں کا تحفہ بھیج رہے ہیں.

ان کی شاعری میں ظلم و جبر کے خلاف بلند آواز ہے. اور یہ آواز بڑی شدت کے ساتھ آتی ہے. نرالے ڈھنگ سے آتی ہے. چھوٹی بحریں. معنی خیز ترکیبیں. الفاظ کی تراش خراش اور روانی و بہاؤ…. تھوڑا کہنا اور زیادہ چھوڑ دینا….

وہی چارا گر کی ستم گری
جو بنامِ امن و امان ہے

وہ غزل مسلسل بھی کہتے اور غزل میں نظم کی سی کیفیت پیدا کردیتے ہیں. یہاں ان کا تعارفی خاکہ، نئے سال پر ایک نظم، حمد، نعت اور چند غزلیں پیش خدمت ہیں.

سب سے پہلے یہ نظم ملاحظہ ہو 

جو سال آئے 
جنوں میں بدلے + فسوں میں بدلے
گزرتے یہ پل + کہ خوں میں بدلے
کچھ ایک کے + چاؤ چوں میں بدلے

تھے اہلِ دانش + جو قید پائے
ورودھ کے سُر +بڑے دبائے
نکل کے شاہیں +گھروں سے آئے

منافرت میں + منافقت میں
یہ سال گزرا + وبا کی رُت میں
کچھ ایک کا بس + منافعت میں

سفر میں لُٹنا + گلے کٹانا
مہاجروں کا + گھروں کو آنا
غریب کا اور + غریب بننا

غریب بچّوں + کی پاٹھ شالا
کہاں وہ تھالی + کہاں نوالا
کسے تھی چِنتا + کہاں سنبھالا

ہوئی ہے سب + بیچنے کی سازش
بڑے گھرانے + بڑی نوازش
کسان، جنتا + کہاں گزارش

زمین بیچی + ضمیر بیچا
ہری رُتوں کا + خمیر بیچا
یہ دھر دبوچا + یہ دھیر بیچا

یقین ہو کل + حسین ہو کل
جو سال آئے + متین ہو کل
نہ سال تشنہ + مشین ہو کل

ایک مختصر خود تعارف 
نام: مرزا مسعود بیگ
والد کا نام: مرزا محمود بیگ
(مرحوم محمود بیگ ساز برہانپوری ، ‘اولڈ علیگ’  اور برہان پور کی  عظیم ادبی، شعری اور عوامی شخصیت ، ماہر تعلیم (لیکچرر اور پروفیسر) ، صحافی (انگریزی) ، سیاست دان ، سماجی کارکن، بہترین مقرر ، اور  ممبئی، ناگپور، بھساول ، برہان پور ، کھنڈوا اور بھوپال کو محیط وسطی ہندوستان کے معروف و مقبول اردو  شاعر۔)
قلمی نام: مسعود بیگ تشنہ
پیدائش : برہان پور (ایم پی) ہندوستان میں  یکم اپریل 1954 
تعلیم: ایم ایس سی (فزیکل کیمسٹری) ، ایل ایل بی ، پی جی ڈی ان بزنس مینجمنٹ اور سی اے آئی آئی بی۔
میرے پاس میٹرک میں سٹی ٹاپر سے لے کر یونیورسٹی میں کالج کے ٹاپر تک ایک شاندار تعلیمی ریکارڈ موجود تھا (غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے سال ایم ایس سی میں ناکام ہونے کے علاوہ)
پیشہ: HR اور راج بھاشا ہندی سمیت متنوع پیشہ ورانہ زمہ داریاں نبھاتے نبھاتے مارچ ۲۰۱۴ میں بینک آف بڑودہ سے بطور سینئر منیجر ریٹائر ہوا۔
پہلی شائع شدہ غزل:  ماہنامہ شاعر ، بمبئی میں 1-2-1976 کے شمارے میں
مشاعرہ میں شرکت: 1976 سے
ادبی سفر: دس بارہ سال کے وقفے کے سوا ، مستقل جاری و ساری ۔ ۱۹۶۹ میٹرک کے زمانے سے بلکہ اس سے پہلے سے شاعری شروع کی لیکن ابتدائی شاعری کو ختم کردیا ، صرف 1974 کے بعد ہی شاعری کو محفوظ کرنا شروع کیا۔ اردو کی ادبی ، فیملی اور فلمی جریدوں جیسے شاعر ، بمبئی ، نگار ، دہلی ، عصری آگہی ، دہلی میں غزلیں شائع ہوئیں ۔ ان کے علاوہ تحریک ، دہلی؛ پالیکا سمچار ، دہلی ، بیسویں صدی، دہلی ، شمع ، دہلی ، فلمی ستارے ، حیدرآباد اور دیگر ادبی جرائد میں بھی میری شاعری شائع ہوئی. میں زیادہ تر شہروں میں ادبی حلقوں کی ادبی سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہا ، میری سروس کے دورانیے میں جہاں بھی اردو کلچر نظر آتا تھا اس میں بھلائی درگ (چھتیس گڑھ) ، کھنڈوا ، گوالیار (مدھیہ پردیش) شامل تھے ۔ میں بھلائی درگ میں ایک دہائی سے زیادہ سرگرم رہا ، جس میں آل انڈیا ریڈیو ، رائے پور (جو تقریبا ایک دہائی پر محیط ہے) میں باقاعدہ غزل خوانی سے لے کر ماہانہ شاعری کے اجلاسوں تک اردو نائٹ کوچنگ کلاسز کا انعقاد اور مشاعرے کا انعقاد کرنا شامل ہے۔ کیبل ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں ، کھنڈوا میں یوم آزادی مشاعرہ میں بھی حصہ لیا۔ ساگر یونیورسٹی ، (ڈاکٹر سر ہری سنگھ گور یونیورسٹی) ساگر میں چہار روزہ آل انڈیا یوتھ فیسٹیول (گھومر 1974) ، جے پور میں چار مقابلوں میں انگریزی بحث ، ہندی بحث ، انگریزی تقریری مقابلہ اور ہندی تقریری مقابلہ میں پیش پیش رہا۔ اسکول کے دنوں سے ہی بحث و مباحثہ اور تقریر کرنا میرا جنون رہا ہے۔
اخیر لیکن اہم ، میں عالمی سطح پر اردو دنیا کا غالبا پہلا بلاگر ہوں جس کے بلاگ میں اردو شاعری اردو، ہندی اور انگریزی ؛ تینوں زبانوں میں شائع ہوتی ہے۔ یہ بلاگ سنہ ۲۰۱۲ عیسوی سے جاری ہے۔
شاعری کے آغاز کے چند سالوں کو چھوڑ کر جن میں رومانی نظمیں اور غزلیں ہیں ، میں ایک وسیع تر کینوس پرسنجیدہ شاعری لکھ رہا ہوں۔ میری ابتدائی شاعری میں ، غزلوں میں فراق گو رکھپوری، احمد فراز اور فیض احمد فیض کا رنگ جھلکتا تھا اور نظموں میں ساحر لدھیانوی اور سلام مچھلی شہری کا ۔
اس ادبی سفر کا اہم موڑ ، ایک بند گلی: میں 80 کی دہائی میں دکھائی دینے والی 70 کی دہائی کی جدید نسل  سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں دو بار اس وقت اہم مواقع سے محروم ہوا جب ماہنامہ شاعر، بامبے (اب ممبئی) کا ہم عصر اردو ادب نمبر لام  حرف تہجی کے ساتھ ختم ہوا۔ اور دوسری جلد کبھی منصہ شہود پر نہیں آئی۔ دریں اثناء محترم افتخار امام صدیقی نے مجھے 60 نوجوان اہم شاعروں میں شامل کرنے کا ارادہ کیا۔ میں نے دو تین غزلیں بھیجیں جو پانچ پانچ اشعار پر مشتمل تھیں  اور ان میں کسی کسی میں ایک آدھ شعر شامل بھی نہیں رکھنا تھا۔ اس لیے انھوں نے مزید غزلیں زیادہ اشعار کے ساتھ بھیجنے کے لیے کہا تاکہ کاٹ چھانٹ کی بھی گنجائش نکل آئے اور بہترین انتخاب بنے۔ بد قسمتی سے میں انھیں دوبارہ غزلیں بھیجنے سے رہ گیا ۔ وہ میرے ادبی سفر کی بند گلی ثابت ہوئی ۔ میں نے پہلے ہی قافیہ پیمائی سے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا اور صرف 5 سے 7 سات اشعار پر مشتمل مختصر غزلیں قلمبند کر رہا تھا ، تو میں اپنی ہی علمی وادبی خود تنقیدی کا شکار بن گیا۔ میں نے سوچا ، جب تک عالمی ادب کے معیار  کی شاعری نہیں بن جاتی، مجھے شاعری قلم بند کر دینا چاہئے ۔ میں جان بوجھ کر ذہن میں آنے والے سیکڑوں اشعار نوٹ کرنے سے محروم رہا۔ ماہانہ  روایتی شعری نششتوں کا شکریہ جس نے میرے اندر کے شاعر کو زندہ رکھا۔
آخری بات : ایک دہائی سے ، شاعری میں میری اصل توجہ سماجی و سیاسی امور ، مزاحمت ، اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نقطہ نظر پر ہے۔
آپ میرے بلاگ کے لئے گوگل کرسکتے ہیں
https://masoodbaigtishnakishairi.blogspot.com/


:: حمد ::
چاند، سورج، یہ دن یہ رات چلے
کس کے کہنے سے کائنات چلے؟

کس کے چاہے سے یہ عدم یہ وجود ؟
جب وہ چاہے وجودِ ذات چلے

کون ہے وہ جو کہتا ہے ہو جا؟
کس کے چاہے نفی، ثبات چلے؟

کون دیتا ہے بے حسابانہ ؟
چھین لے پھر تو کچھ نہ بات چلے

آزمائش میں کس نے ڈالا ہے؟
کس طرح دنیوی حیات چلے؟

نفس ،اولاد، مال و زر کیا کچھ
آزمائش میں سب کے سات چلے

زیبِ دنیا حیات ہے دھوکہ
کیوں حیات اور یہ ممات چلے؟

کر رکھا کس نے حشر کا وعدہ؟
بعد از مرگ جو حیات چلے

نیک کاموں کا نیک اجر ملے
اور سزا ساری ہاتھوں ہات چلے

اس کے انصاف میں نہیں کچھ کھوٹ
فیصلہ حسبِ واردات چلے

سب ہیں بندے اسی کے بندے ہیں
دو جہاں کی بھلی حیات چلے

:: نعت پاک ::
سروَرِ دو جہاں
راحتِ جسم و جاں
وجہِ کون و مکاں
کیا کوئی اور جاں؟
قلبِ محبوب پر
وہ نزولِ قرآں
وہ معلّم نبی
مرسلِ آخراں
شاہِ معراج وہ
شاہدِ لا مکاں
ذکر ارفع ہوا
آسماں آسماں
یاد بھی، ذکر بھی
مرکزِ دل براں
رحمتیں سب طرف
رحمتوں کا جہاں
مصلحِ قوم وہ
مصلحِ دو جہاں
وہ کہ صدق و صفا
وہ امیں وہ اماں
وہ کہ صبر و رضا
مہجری داستاں
وہ کہ محبوبِ حق
محبوبِ مومناں
مامنِ مومنیں
محورِ عاشقاں
امّتی کا یقیں
شافعِ مومناں

غزل _1
وہی آرزو کی اُٹھان ہے
وہی حسرتوں کی دکان ہے

وہی بوند تہِ جام رہ گئی
وہی بوند پیاس ہے، تکان ہے

وہی جو ہے خواہشِ بے اماں
وہی اضطرابِ دل و جان ہے

وہی ہے وجود کی بےکلی
وہی بےیقینی گمان ہے

وہی چارا گر کی ستم گری
جو بنامِ امن و امان ہے

کہیں دل ہے ہاتھ میں، جاں کہیں
کہیں ڈر سے ترکِ مکان ہے

کوئی ہے یہاں جو ہے مطمئن!
کوئی جو نہیں پریشان ہے!

ہے لایعنیت میں ہی یعنیت
بے نقطہ فکر میری جان ہے

ہے وجود میں بےوجودیت
وہی تشنہ حرف و بیان ہے

 غزل _ 2
آخری خواب جو آنکھوں سے نکل جائے گا
نسلِ نو کا وہی آموختہ کہلائے گا

ہم بھی بن جائیں گے تہذیبِ شکستہ کا ورق
ہم کو پڑھنے کے لئے کوئی نہیں آئے گا

ڈھال بن جاؤ رکھو اپنا بھی پتھر آگے
بھاری پتھر کوئی اطراف میں ٹکرائے گا

حق یونہی ملتا نہیں مانگنا پڑتا ہے اسے
کچھ نہ بولوگے تو مِلتا ہوا چِھن جائے گا

تم بھی ڈٹ جاؤ کہ بزدل نہیں سمجھے جاؤ
اُس کا ہے دور ابھی، اور وہ اِترائے گا

ہوش میں جوش رکھو، جوش میں بُدّھی اپنی
وہ تو حاکم بھی ہے، ظالم بھی ہے، بل کھائے گا

آسماں ٹوٹ پڑے گا یونہی اک دن تشنہ
ایک جُٹ نہ ہوئے، سنکٹ یونہی گہرائے گا

 غزل _3
حُسن زیرِ نقاب پوشیدہ
چاندنی، ماہتاب پوشیدہ

سرخ رُو اک گلاب پوشیدہ
جیسے آنکھوں میں خواب پوشیدہ

ہے تہِ آب، زندگی کی نُمُو
سطح پر اضطراب پوشیدہ

اپنے آنچل میں سوکھ لیتی ہے
ماں محبت کی آب پوشیدہ

فکر و فن کو اُجالتا ہے مِری
ذہن کا آفتاب پوشیدہ
دھڑکنوں کی ترنگ میں گُم دل
زندگی کا رباب پوشیدہ

آبلے پاؤں کے دبے کچلے
روح، صحرا، سراب پوشیدہ

دیدہء بینا جان سکتا ہے
ذہن کا انقلاب پوشیدہ

ہے صدف میں گہر چھپا تشنہ
جیسے تہ میں حُباب پوشیدہ

 غزل _ 4
رابطے اتنے رکھیں جتنے سنبھالے جائیں
دل کے اطراف رہیں، ڈھنگ سے پالے جائیں

بَیر سے لڑنے کے ہتھیار بھی ڈھالے جائیں
اب محبت کے بھی ہتھیار نکالے جائیں

رشتے بنتے ہیں، ہمیشہ کے لئے بنتے ہیں
گر بکھر جائیں تو مشکل سے سنبھالے جائیں

تیرے آنکھوں کے سمندر مجھے دریا کردیں
میرے جذبات کنارے سے بہا لے جائیں

درد مندی سے محبت کا بھرم باقی ہے
اس بُرے دور میں جذبات اُجالے جائیں

ہم کسی در پہ نہیں جاتے نہی مانگتے ہیں
ہم فقیروں سے شہنشاہ بھی دعا لے جائیں

جس میں تشنہ ہو بھلا سب کا وہی کر ڈالیں
فیصلے اب نہ کسی بات پہ ٹالیں جائیں

  غزل _ 5
جو اپنے پاس ہے ہتھیار، دھار تیز رکھو
بچاؤ تیز رکھو اور مار تیز رکھو

خبر رساں بھی رکھو اور تیز قاصد بھی
جو صلح کی ہو ضرورت، سوار تیز رکھو

گیا زمانہ کہ ہلکے قرار ہوتے تھے
ہے شخص سامنے بھاری، قرار تیز رکھو

ہے اندھا، گونگا بھی، بہرا بھی حاکمِ دوراں
یہ جان لے ذرا دنیا، گُہار تیز رکھو

جو رینگتی نہیں جُوں تو یہ آزماؤ بھی
ہے لہجہ میٹھا تو تھوڑا سا کھار تیز رکھو

یہ زندگی کی بھی تصویر فلم جیسی ہے
لگاؤ چہرے پہ غازہ، نکھار تیز رکھو

یہی چلن ہے زمانے میں آج کل تشنہ
نفع بڑھا کے رکھو اور ادھار تیز رکھو

 غزل _ 6
دھوپ گزیدہ، چھاؤں گریزاں منظر ہے
چشم دریدہ، اشک بداماں منظر ہے

بےکس و ناکس جان ہے ،ہیچاں منظر ہے
جینا مشکل، موت کا ساماں منظر ہے

صبح دریدہ، شام غریباں منظر ہے
زخم سراپا، بر سرِ پیکاں منظر ہے

جہدِ مسلسل ،آبلہ پائی زادِ سفر
کربِ مسلسل، درد فروزاں منظر ہے

سر پہ گٹھریا ، پیٹھ پہ بچّا ، پاؤں فِگار
آسماں سر پہ اور ہراساں منظر ہے

چھوٗٹا پھر مہجوری گھر،پھر گھر واپس
پاؤں میں چکّر، کیسا پیچاں منظر ہے
تشنہ تشنہ، تشنہ تشنہ، تشنہ ہے
صحرا صحرا جسم، بیاباں منظر ہے

 غزل _7
اب لکھوں تو کیا لکھوں چیدہ غزل
ہے مجھی سے تنگ سنجیدہ غزل

کون پڑھتا ہے اسے تنہائی میں
کون سنتا ہے یہ دزدیدہ غزل

بچیّوں پہ ظلم ہوتا دیکھ کر
سامنے آتی ہے رنجیدہ غزل

ظالموں کا ساتھ دیتا یہ نظام
احتجاجی اور نم دیدہ غزل

اب کہاں رخشندہ ماہِ زندگی
رو میں رخشِ عمر، رخشیدہ غزل

اب کہاں تخئیل کے وہ مرغزار
اب کہاں وہ جاگی خوابیدہ غزل

چُھپ کے بیٹھی ہے کسی کونے میں وہ
اپنی دُھن میں مست بالیدہ غزل

رتجگے ،شادی کے البیلے رواج
گُم ہے ڈھولک اور مالیدہ غزل
شہر آشوب اور تشنہ یہ قلم
توڑتی دم، میری دَم دیدہ غزل

غزل  _8
بھر رگِ جاں میں زہر اتنا بھر
قہر مچ جائے قہر اتنا بھر

نفرتوں کو دماغ میں بھر دے
زہر پھیلا دے زہر اتنا بھر

شرم و تہذیب ڈوب ہی جائے
بے حیائی سے شہر اتنا بھر

آبِ تہذیبِ نو ٹھہر جائے
ایک دو تین پہر اتنا بھر

کام نہ آئے کچھ یدِ موسیٰ
سحر باطل کا سحر اتنا بھر

بھر دے ذہنوں میں فتنہء دجّال
کہ بدل جائے دہر اتنا بھر

ٹھونس دے منھ میں گندگی تشنہ
نہ ہو تھوڑا بھی مہر اتنا بھر

:

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے