فلک کی چیز زمیں پر اتار لائی گئی (غزل)

فلک کی چیز زمیں پر اتار لائی گئی (غزل)

 

✍ کاشف شکیل



فلک کی چیز زمیں پر اتار لائی گئی
یہ عشق کیا تھا کہ جس میں انا‌ گنوائی گئی

ہزار جنموں کا بندھن کہا تھا اس نے جسے
یہ دوستی تو فقط دو قدم نبھائی گئی

یہاں لبوں سے چھلکتی ہوئی شراب ہے پر
تڑپ کے مر گئے لیکن نہیں پلائی گئی

نہ خوش ادا ہی تھی وہ اور نہ دل‌ ربا تھی مگر
ہماری ضد تھی سو ضد‌ میں ہی وہ پٹائی گئی

میں سنگ دل تو نہ تھا جس پہ نقش دائم ہو
تمہاری یاد تو اب ہوگئی ہے آئی گئی

سہیلیاں تھیں بضد پر تری ہتھیلی پر
ہمارے نام کی مہندی نہیں لگائی گئی

مرا وجود تھا ننگا بدن کے آنگن میں
سو روح کے لیے تیری قبا سلائی گئی

تمہارے ساتھ مری نیند نے بھی ہجرت کی
اگر چہ نیند کی گولی بہت کھلائی گئی

اب التفات کی امید مت رکھو کاشف
نکاح ہو گیا اس کا سو آشنائی گئی



کاشف شکیل کی مزید غزلیں:
آوارہ دل (غزل)
تیرا ڈمپل(غزل)
غزل (اضطراب دل ناداں)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے