سرسید کا سفر لندن

سرسید کا سفر لندن

طیب فرقانی

١٨٥٧ کی پہلی جنگ آزادی کے بعد کے ہندوستان میں ہندوستانی طلبہ کو انگریزی حکومت نے اسکالر شپ دی تھی۔ اس کی صورت یہ تھی کہ ہر صوبے کی گورنمنٹ اپنے یہاں سے ہونہار اور ہوشیار طلبہ کو منتخب کرکے اسے چھ ہزار کاوظیفہ لندن میں رہائش اور تعلیم کے لیے دے گی اس کے ساتھ تین ہزار روپے آمد و رفت کے خرچ کے لیے۔ یوپی گورنمنٹ نے سر سید احمد خاں کے لائق بیٹے سید محمود کو اس اسکالر شپ کے لیے منتخب کیا۔ سر سید اس زمانے میں ہندوستانیوں کو انگریزوں سے قریب کرنے اور انھیں جدید علوم و معارف سے روشناس کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے۔ کیوں کہ سر سید کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی پستی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ قدیم نظام کی فرسودہ قدروں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ جس کا مقصد انگریزی کتابوں کا اردو ترجمہ شایع کرنا تھا۔ اور انگریزی علوم و فنون کو ہندوستان میں متعارف و مقبول بنانا تھا۔ جب ان کے بیٹے کو لندن میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور خود بھی لندن جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ سر سید اس وقت بنارس میں اسمال کاز کورٹ کے جج تھے۔ انھوں نے گورنمنٹ کو چھٹی کی درخواست میں اپنے سفر لندن کا مقصد بیان کیا تھا، خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب حیات جاوید میں اسے شامل کیا ہے۔ سرسید لکھتے ہیں :

’’ یہ بات بخوبی میرے ذہن نشین ہے کہ ہندوستان کی فلاح اور بہبودی کو کامل ترقی دینے اور گورنمنٹ انگریزی کے مطالب کو جس کی ملازمت کا فخر مجھ کو حاصل ہے بخوبی استحکام و پائداری بخشنے کے واسطے اس کے سوا اور کسی امر کی ضرورت نہیں ہے کہ اہل یورپ اور ہندوستان کے درمیان ربط و ضبط کو ترقی دی جائے۔ پس اس مقصد کی تکمیل کے واسطے ہندوستانیوں کو میری رائے میں یورپ کے سفر کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ وہ مغربی ملکوں کی شائستگی کے عجیب و غریب نتیجوں اور اس کی ترقی کو بچشم خو د مشاہدہ کریں اور اس بات کا اندازہ کرسکیں کہ انگلستان کے لوگ کسیے دولت مند طاقت ور اور دانا ہیں اور ان مفید اور عمدہ باتوں کو ہندوستان کی بھلائی کے واسطے سیکھیں جو اس امر کے نتیجے ہیں کہ تجارت کے باب میں انگلستان کے باشندے کیسے مستعد ہیں اور کارخانوں اور کاشتکاری اور شفا خانوں اور خیرات اور اس کے شہروں کی صفائی اور اس کی دولت اور علم سے روز بروز زیادہ کام لیا جاتا ہے۔

پس اس خواہش سے میں یہ بات چاہتا ہوں کہ خود انگلستان جا کر اپنے ہم وطنوں کے لیے ایک نظیر قائم کروں۔ مجھ کو یقین ہے کہ صرف مجھ کو ہی اس سفر سے فائدہ نہ ہوگا بلکہ امید ہے کہ اپنے اس سفر کے نتیجوں سے ان کو مطلع کرکے ان کو بھی فائدہ پہنچا سکوں اور اس طرح پر جو عمدہ باتیں میں نے سیکھی ہوں ان کو بھی سکھاؤں اور ان کو بھی اپنی پیروی کی ترغیب دوں ۔ ‘‘ (حیات جاوید بحوالہ مسافران لندن از اسمعیل پانی پتی ،ص:٢٤)

اس اقتباس سے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ :

سر سید ہندوستان کی فلاح و بہبودی کے خواہاں ہیں۔ وہ اس فائدے کے لیے ہندوستان میں انگریزی حکومت کو مزید مستحکم اور پایدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پائیداری کی ایک راہ یہ ہے کہ ہندوستانی خود یورپ کا سفرکریں۔ اور وہاں کی شائستگی، دولت مندی، دانش وری کے سرچشموں کو بچشم خود مشاہدہ و ملاحظہ کریں۔ سر سید ایسے ہندوستانیوں میں خود کو ایک نظیر کے طور پر پیش کرکے دوسرے ہندوستانیوں کو اس کی ترغیب دینا چاہتے ہیں۔ اس سفر کے لیے سر سید نے بڑی قربانی پیش کی۔ سفر کے خرچ اور لندن میں قیام کے لیے انھوں نے اپنی قدیمی لائبریری فروخت کردی۔ اپنے آبائی مکان کو ١٠ ہزار روپے میں گروی رکھ دیا۔ جس کا سود چودہ فی صد اور آٹھ فی صد تھا۔

چنانچہ یکم اپریل ١٨٦٩ کو بنارس سے سرسید نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ دوران سفر پیش آنے والے واقعات و حادثات کو وہ قلم بند کرتے رہے۔ اور اپنے سفرنامے کا نام مسافران لندن رکھا۔ کیوں کہ سرسید کا سفر لندن پانچ نفوس پر مشتمل تھا۔ سر سید کے دونوں بیٹے سید محمود و سید حامد، مرزا خداداد بیگ اور ان کا قدیمی خدمت گار جھجو ان کے ساتھ تھے۔ سرسید کا سفرنامہ مسافران لندن ہندوستانیوں میں ایک نیا احساس ترقی پیدا کرتا ہے اور ان میں آگے بڑھنے کا جوش و ولولہ اور نئی روح پھونکتا ہے۔ یہ سفرنامہ ہمیں صرف لندن کی سیر نہیں کراتا بلکہ ہندوستان سے لندن تک سر سید نے جہاں جو کچھ دیکھا اسے اپنے پرجوش اور پرکشش اسلوب بیان میں ہمیں بھی دکھانے کی کوشش کی۔ میں یہاں ان کے سفرنامے سے دو تین واقعات نقل کرکے سرسید کی شخصیت کے چند پہلوؤں پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک تو اردو زبان سے ان کی محبت، دوم مقامی زبان میں تعلیم کی اہمیت اور سوم غلطی ہوجانے پر نادم و شرمندہ ہونے اور کھلے طور پر معافی مانگنے کی ایسی مثال جو ہماری شخصیت کو چار چاند لگادیتی ہے۔ سرسید ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ بندہ نے الہ آباد سے بمبئی تک کیا گاؤں میں اور کیا جوکیات میں اور کیا ریل پر اور کیا گورنمنٹ کے اہل کاروں اور ہر ایک محکمے کے چپراسیوں اور ہر ایک جگہ کے قلیوں سے اردو میں گفتگو کی۔ سب لوگ ہر جگہ بخوبی سمجھتے تھے اور اردو ہی میں جواب دیتے تھے۔ بعض بعض لفظوں کے مکرر سمجھانے کی اور زیادہ تر آسان طور پر بیان کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ کچھ شبہ نہیں کہ تمام ہندوستان میں اردو زبان اسی طرح سمجھی اور بولی جاتی ہے جیسے تمام یورپ میں فرنچ بلکہ اس سے بھی زیادہ مروج ہے مگر میں نے ہر چند تلاش کیا وہ قدیم بھاشا جس کا رواج الہ آباد ایسوسی ایشن چاہتی ہے کہاں ہے لیکن وہ مجھ کو کہیں نہیں ملی۔ (مسافران لندن ، پانی پتی ۔ ص: ٥١)

سرسید ایک غیر جانب دار اور غیر جذباتی مصنف تھے۔ مذکورہ بالا اقتباس میں یہ بات صاف طور سے جھلکتی ہے۔ وہ اردو کی محبت میں یہ نہیں کہتے کہ ہر جگہ لوگ بہت ششتہ اردو بولتے تھے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اردو بولتے تھے لیکن بعض اوقات انھیں مکرر سمجھانا پڑتا تھا۔ اور تشریح کرنی پڑتی تھی۔ یعنی اردو رابطے کی زبان تھی۔ یہ تو ہندوستان کی بات ہوئی۔ سر سید جب عدن پہنچے تو انھیں وہاں یہ دیکھ کر بڑی حیرت انگیز مسرت ہوئی کہ عدن میں بھی اردو عام بول چال کی زبان ہے چنانچہ لکھتے ہیں:

’’واہ ری ہماری قسمت کے [کہ] یہاں کے بازار کے لوگ اور سمالی قوم بھی کسی قدر اردو بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں. کوئی ضروری کام بند نہیں رہ سکتا. سب اردو میں انجام ہوسکتا ہے۔ الحمد للہ کہ عدن تک تو اردو کی شہنشاہیت قائم ہے۔

سمالی قوم کے لوگ جیسی اردو جانتے ہیں ویسی ہی انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی جانتے ہیں، ان دونوں زبانوں میں سب ضروری باتیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں بلکہ انگریزی زبان فرانسیسی زبان کی نسبت زیادہ جانتے ہیں ۔ ‘‘(ص:٩٣)

سر سید جب بحر قلزم میں پہنچے تو انھیں طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ خداخدا کرکے طوفان ٹلا اور سیر سید نے دیکھا کہ جہاز کے عملے کا عام پڑھا لکھا آدمی بھی جہاز میں رکھی گائیڈ لائن کو پڑھ کر جہاز کو بہترین طریقے سے آگے لیے جاتا ہے تو انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ انسان کو تمام علوم فنون اپنی زبان میں دینی چاہئے تاکہ ابلاغ و ترسیل آسان ہو۔ دوسری زبان میں تعلیم اتنی کارگر نہیں جتنی اپنی زبان میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ یہ نتیجہ صرف اس بات کا ہے کہ تما م علوم و فنون اسی زبان میں ہیں جو زبان وہ لوگ بولتے ہیں۔ (یہاں جہاز کے عملے کی طرف اشارہ کرر ہے ہیں) ۔ اگر آج انگریزی زبان میں تمام علوم و فنون نہ ہوتے بلکہ لیٹن میں یا گریک میں یا فارسی عربی میں ہوتے تو آج تک تمام انگریز ایسے ہی جاہل اور بے علم اور لاکھوں ناخواندہ ہوتے جیسے کہ بدنصیبی سے ہم لوگ ہندوستان میں جاہل ہیں اور آئندہ کو بھی جب تک کہ تمام علوم و فنون ہماری زبان میں نہ ہوں گے جاہل اور نالائق رہیں گے اور کبھی عام تربیت نہ ہوگی ۔ ‘‘ (ص ۱۰۱)

مذکور ہوا کہ سر سید سائنٹفک سوسائٹی قائم کرچکے تھے جس کا مقصد تھا کہ تما م علوم و فنون اردو زبان میں منتقل کردیے جائیں۔ یہی نہیں سر سید نے ١٨٦٩ میں ورناکیولر یونی ورسٹی کی ایک اسکیم پارلیمنٹ کو بھی دی تھی۔ اور اس بات پہ زور دیا تھا کہ ہندوستانیوں کو انگریزی میں تعلیم دینے کے علاوہ حکومت ایک ایسی یونی ورسٹی بھی قائم کرے جو مقامی زبانوں میں تعلیم کا بند و بست کرے۔ یہ میکالے کی تعلیمی پالیسی کے برخلاف تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انگریزی حکومت نے اسے منظور نہ کیا۔ سر سید جب انگلستان پہنچے اور وہاں کی مشہور در س گاہیں آکسفورڈ اور کیمبرج دیکھی تو وہیں ان کو مدسۃ العلوم موجودہ مسلم یونی ورسٹی کے قیام کا خیال آیا۔ سر سید چاہتے تھے کہ اس ادارے کی تین حیثیتیں ہوں۔ ایک میں تمام علوم و فنون انگریزی میں ہو۔ تاکہ لوگ حکومتی عہدے سنبھالنے کے قابل بنیں۔ اور تمام علوم و فنون کو اردو میں منتقل کرسکیں۔ دوسرے یہ کہ تمام علوم و فنون اردو میں پڑھائے جائیں۔ اور تیسرے یہ کہ ان دونوں طرح کے طلبہ کو عربی اور فارسی لٹریچر پڑھا یاجائے تاکہ طلبہ مسلمانوں کے قدیم مذہبی اور تہذیبی سرمایے کو موجودہ نسل تک پہنچا سکیں۔ افسوس کہ سر سید کا یہ خواب ادھورا رہا۔

سفر لندن کے دوران یہ ہوا کہ انگریزوں سے اختلاط میں سر سید نے غیر ذبح کی ہوئی مرغی کھالی. چوں کہ عیسائی اہل کتاب ہیں اس لیے سر سید نے اسے جائز سمجھا اور اس خبر کو چھپانے کے بجائے سب کے سامنے رکھا۔ سر سید کے اس عمل سے ان کے دلی دوست مولوی مہدی علی خان (نواب محسن الملک) سخت ناراض ہوئے۔ سر سید نے اپنے دوست کو اس سلسلے میں جو خط لکھا وہ ہمارے لیے نمونہ عمل سے کم نہیں۔ اس سے سر سید کی شخصیت کی معتبریت مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ جن لفظوں میں میں نے غیر ذبح کی ہوئی مرغی کھانے کا ذکر لکھا اور جن سے آپ کو افسوس ہوا، اس کے لیے عذر کرتا ہوں اور معافی چاہتا ہوں، ہاتھ جوڑ کر ہندوستانی نہ شرعی طور پر توبہ کرتا ہوں۔ افسوس کہ مجھ کو ایسے لفظ لکھنے نہ آئے جن سے آپ کو افسوس نہ ہوتا، برائے خدا معاف کیجئے۔ جب میں وہ لفظ لکھ رہا تھا تم میرے دل میں اور میری آنکھوں کے سامنے تھے، یہ میں جانتا تھا کہ تم نا پسند کروگے۔ بھائی! کیا تم یہ بات پسند کرتے ہو کہ میں برا کروں اور اس کو اس لیے چھپاؤں کہ لوگ برا نہ کہیں۔ ہم کو اپنے خدا سے معاملہ ہے جس کے ہاتھوں سے ایسے تنگ آئے ہیں کہ کچھ بیان نہیں کرسکتا: جو کام کرتے ہیں وہ دیکھتا ہے، جو بات کہتے ہیں سن لیتا ہے، جو دل میں لاتے ہیں جان لیتا ہے، ایسا پیچھے چمٹا ہے کہ نہ جہاز میں چھوڑے نہ زمین پر چھوڑے، نہ رات کو دن کو الگ ہو، نہ غیر ذبح مرغی کھاتے وقت پیچھاچھوڑے، پس جب میں نے نہایت سچے دل اور درست اعتقاد سے ایسے سچے رفیق خدا سے شرم نہ کی تو پھر بھائی مہدی علی سے کیا ڈرتا۔ میں اس کو قرآن مجید سے جائز سمجھتا ہوں نہ روایت شاذہ سے۔ بہر حال میں اس میں گفتگو نہیں کرتا، شاید میں غلطی پر ہوں۔ صرف معافی چاہتا ہوں اور آپ سے نہایت سچے دل سے التجا کرتا ہوں کہ بعض آقاؤں کے نہایت بدخصلت اور بد کردار غلام ہوتے ہیں۔ وہ آقا اپنے غلام پر ناراض تو ہوجاتے ہیں مگر اس غلام کو غلام سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح گو آپ میری حرکات ناشائستہ سے ناراض ہوں مگر مجھ کو اپنا غلا م سمجھتے رہیں ’’ بر من منگر بر کرم خویش نگر‘‘ ۔ یہ الفاظ میں نے نہیں لکھے میرے دل نے لکھے ہیں۔ ‘‘ (ص:٢١٠)

اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید احمد خان (پ :١٧ اکتوبر ١٨١٧، ف: ٢٧مارچ ١٨٩٧) ابن سید محمد متقی انیسویں صدی کے عظیم مصلح، ماہر تعلیم، فلاسفر، ادیب و مصنف تھے۔ ’’مسافران لندن ‘‘ ان کا دل چسپ، معلومات افزا روداد احوال خاطر ہے۔ یہ سفر نامہ سر سید کے اسلوب بیان کا شاہ کار ہے۔ یہ بیش بہا ادبی اور معلوماتی خزانہ ہے۔ یہ کتاب ہندو پاک میں الگ الگ ماخذ سے شایع ہوئی ہے۔ پاکستان میں سرسید کے عاشق امتیاز علی تاج جو اس وقت مجلس ترقی ادب لاہور کے سربراہ تھے، کی ایما پر مولوی اسمعیل پانی پتی نے مسافران لندن کو مرتب کیا تھا۔ اور پہلی بار یہ سفرنامہ کتابی شکل میں ١٩٦١ میں شایع ہوا۔ اور پھر سر سید اکیڈمی نے اسی کو ٢٠٠٩ میں شایع کیا۔ ہندوستان میں اس سفرنامے کو اصغر عباس نے مرتب کیا اور ٢٠٠٩ میں ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ نے شایع کیا۔ اسمعیل پانی پتی کے مرتب کردہ مسافران لندن کا ماخذ رسالہ تہذیب الاخلاق، حالی کی حیات جاوید، سرسید کے مکاتیب اور ان کے لیکچر ہیں۔ جب کہ اصغر عباس کے مرتب کردہ مسافران لندن کا ماخذ علی گڑ ھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ہے۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے