تاریخی عمارتوں اور مندروں، مسجدوں کی بنیاد کی کھدائی

تاریخی عمارتوں اور مندروں، مسجدوں کی بنیاد کی کھدائی


تاریخی عمارتوں اور مندروں، مسجدوں کی بنیاد کی کھدائی: اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
گیان واپی مسجد کی کھدائی، پیمایش اور مقامی عدالت کے حکم سے نئے تنازعات کو پیدا کرنے کی جس مہم کا آغاز ہوا ہے، اس کے انجام سے اصحابِ اقتدار شاید بے خبر ہیں!!

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ

کہا جاتا ہے کہ قانون سازیہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنے الگ الگ کاموں کا پتا ہونا چاہیے ورنہ جمہوریت کو صحیح معنوں میں کبھی کامیابی نہیں مل سکتی مگر ہندستان میں آئے دن یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جمہوریت کے یہ تینوں ادارے ایک دوسرے کے ساتھ کبھی غیر ضروری تال میل بٹھاتے ہوئے نظر آ تے ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے دست و گریباں معلوم پڑتے ہیں اور سب ایک دوسرے پر یہ الزام عاید کرتے ہیں کہ جمہوریت کے یہ ستون ایک دوسرے کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کرتے ہوئے اپنی طاقت اور اس کے نشے میں سرشاری میں مبتلا رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہی ایسی چپقلش بڑھنے لگی اور جسے جہاں موقع ملا، اس نے وہیں جمہوری تقاضوں کو ملیامیٹ کرنے سے کوئی گریز کی صورت نہیں اپنائی۔
وارانسی کی ایک مقامی عدالت کی طرف سے گیان واپی مسجد کے احاطے میں کھدائی، ویڈیو گرافی اور پوری پیمایش کا جو فیصلہ سامنے آیا اورپھر فوری طور پر کھدائی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسے ایک بڑا طبقہ عام کیس مقدمے کی شکل میں دیکھ رہا ہوگا یا ایسا دکھانے کی کوشش ہورہی ہوگی مگر جن کی فصیلِ وقت پہ ابھرنے والی عبارتوں کو پڑھنے کی صلاحیت ہے، وہ خوب خوب سمجھ رہے ہیں کہ بس یہ ایک نقطۂ آغاز ہے۔ آنے والے وقت میں ایسے معاملات اور بڑھیں گے اور نہ جانے کتنی مسجدیں اس کی زد میں آئیں گی، کہا نہیں جاسکتا۔ یہ کسی بڑے کام کی جلد بازی میں ایک ایسا آغاز ہے جس کی پہنائیوں میں ملک و قوم کی تقدیر پیوست ہے، اس لیے اسے سرسری طور پر لینا مشکل ہے۔ نتائج جو بھی آئیں گے، اسے قبول کرنے کی صلاحیت موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ملک و قوم کے لیے ایک مشروط صورت حال رہی ہے۔ ہماری پسند کا نتیجہ آئے تو ہمیں قبول ہے اور ہمارے خلاف نتیجہ آئے تو وہ ہمیں قبول نہیں۔
بابری مسجد کے سلسلے میں جو ایک طویل عدالتی سلسلہ قائم ہوا، اس کے نشیب و فراز سے ہم نے جمہوری تقاضوں کے تحت کچھ بھی نہیں سیکھا۔ زمین کی کھدائی کرنے سے یہ نتیجہ نکالا جانا کہ اس میں جو اوپر عمارت تھی، اس سے مخالف صورت حال داخل میں تھی۔ اس سے یہ بھی سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اوپر عمارت والوں نے نیچے والوں کی عمارتوں کو مسمار کرکے اپنی نئی عمارت قائم کی۔
یہ ہندستان پانچ ہزار سال سے زیادہ کی معلوم تہذیب و تاریخ کا پروردہ ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ خطہ زلزلوں کی زد پہ ہے اور زمین کے اندر بڑی بڑی جوالہ مکھیاں پھٹنے کو بے تاب ہیں۔ شعراے کرام اور مذہبی رہنما تو بار بار زمینوں کے الٹ جانے کا تذکرہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ یونان، مصر اور روم میں چلے جائیے، جتنے حصے کی کھدائی ہوئی، لگتا ہے موجودہ سطحِ زمین کے نیچے پورا پورا شہر بسا ہوا تھا۔ روم میں تعمیراتی کاموں کور وکنا پڑا، کیوں کہ ہر جگہ زمین کے نیچے ٹھوس اور مستحکم بڑی سے بڑی عمارتیں ستون اور مقبرے مل جاتے تھے۔ برٹش انڈیا کے زمانے میں تکشلا، نالندہ اوروکرم شلا یونی ورسٹیاں اسی کھدائی میں زمین کے اندر سے نکلی ہیں۔ نالندہ یونی ورسٹی تو صرف ایک مربع میل کے حصے سے زمین سے نکالی گئی مگر پوری صدی بیت گئی، انسانی آبادیوں کو اجاڑ کر زمین سے ہم تاریخ کے کچھ اور پتھر اور مٹی کے تودے ڈھونڈ تو سکتے ہیں مگر انسانی زندگی کے لیے یہ مناسب نہیں۔
بابری مسجد کے لیے جب الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم سے زمین کے اندر محکمۂ آثارِ قدیمہ کے افراد اترے اور کھدائی شروع کی تو طرح طرح کے آثار ملنے لگے۔ بہت ساری باتیں اب بھی پوشیدہ ہیں مگر یہ سچائی ہے کہ وہاں ہندو دھرم سے متعلق مورتیوں اور پتھروں کے ساتھ ساتھ بودھوں کے تعلق سے بھی بہت سارے آثار پائے گئے تھے۔ پچھلے اگست میں جب رام جنم بھومی کے احاطے میں نئے رام مندر کی بنیاد رکھی گئی اور تعمیر کا کام شروع ہوا تو مختلف ذرایع سے یہ خبر آنے لگی کہ زمین کے اندر سے بودھ مذہب کے آثار بڑی مقدار میں مل رہے ہیں۔ میڈیا کے ایک بڑے حلقے میں اس کے لیے زیادہ جگہ نہیں تھی مگر آزاد ذرایع نے یہ بات وثوق کے ساتھ بتائی۔ اب اگر اسی سے نتیجہ اخذ کیا جائے کہ وہاں کوئی بودھ مٹھ یا عبادت خانہ تھا تو پھر موجودہ نتائج میں ایک نئی مشکل شامل ہوجائے گی۔ مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے جب اپنا شہکار ”موہن جودڑو کا خزانہ“ لکھا تو اس کا نہایت ہی دل چسپ اور طنز آمیز نتیجہ اخذ کیا۔ زمین کی پرت در پرت کھلتی جارہی ہے اور کوئی نئی چیز مل نہیں رہی ہے۔ آخر میں جو مزدور کام کررہے تھے، انھیں کوئی سخت چیز محسوس ہوئی اور پھر بڑی احتیاط سے اسے زمین سے لوگوں نے نکالا۔ افسانہ نگار بار بار موہن جودڑو کی تہوں میں چھپے خزانے کی تلاش میں ہے، اس لیے جب کوئی نئی چیز ملتی ہے، اسے وہ پوشیدہ خزانہ سمجھنے لگتا ہے۔ جب بڑے بکس کو کھولا گیا اور اس کے اندر کوئی سوکھی اور سڑی ہوئی چیز ملی تو کرشن چندر کا مارکسی ذہن جاگ اٹھا اور اس نے کہا کہ اس زمانے کے لوگوں کی روٹی اس عہد کے اصحابِ اقتدار نے چھین کر یہیں چھپا لی تھی۔
سوال یہ ہے کہ زمین کے اوپر جو آثار مل رہے ہیں، اس کو مسمار کرکے اور اس کے اندر حقیقی یا غیر حقیقی چیزوں کی تلاش میں جو ہمارا ذوقِ جنوں سیاست دانوں سے لے کر عدالت کے کارپردازوں تک عام ہورہا ہے، یہ ایک الگ طرح کی احیا پسندی ہے۔ بنارس مسجد کے سلسلے سے جب عدالت نے فیصلہ کیا تو سوشل میڈیا پر بہت سارے سچے اور دانش مند لوگوں نے یہ مانگ اٹھائی کہ مسجدوں کے ساتھ مندر، گرودوارے اور گرجاگھروں کے آس پاس بھی کھدائی شروع کی جائے۔ ہندستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک سو عیسوی کے بعد تقریباً ہزار بارہ سو برس تک پورے ملک میں بودھ بڑے طاقت ور تھے اور انھوں نے ہر جگہ مندر اور عبادت خانے قائم کیے۔ اتنا ہی نہیں ان کی یہ حیثیت تھی کہ وہ عالمی پیمانے کی درس گاہیں تیار کرسکتے تھے۔ تکشلا، نالندہ اور وکرم شلا انھیں بودھوں کی یادگار ہیں۔ ان کے آثار مٹائے نہیں گئے بلکہ قدرت کے نظام میں زلزلہ اور آتش فشانوں کے پھوٹنے سے زمیں دوز ہوئے۔ اس وجہ سے لوگوں کی یہ مانگ ہے کہ جب مندروں کے آس پاس کی زمین کھودی جائے گی تو وہاں سے بودھ آثار لازمی طور پر ملیں گے۔ جس سے شاید موجودہ حکمراں طبقے کی آنکھ کھلے اور گڑے مردے اکھاڑنے کے کھیل سے وہ دست بردار ہوسکیں۔
بابری مسجد کا قضیہ جب سے شروع ہوا، کئی مقامی جج پارلیامنٹ کے ممبر بنے اور دیگر عہدوں تک بھی پہنچے۔ آخری بابری مسجد کے حق کو ختم کر دینے والے سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس کو تو نظیر اکبر آبادی کی زبان میں ”میوہ کھلا میوہ ملے، پھل پھول دے پھل پات لے: کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہات لے“ کے مصداق راجیہ سبھا کی رکنیت ملی ہوئی ہے۔ آنے والے وقت میں عدلیہ کے اور بھی لوگ حکومتِ ہند اور صوبائی حکمرانوں سے فیض پانے میں شاید پیچھے نہ رہیں۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ بھی اپنے طور پر علمی کاموں کو مذہبی رنگ دینے اور آثار کے تجزیے میں فرقہ وارانہ نتائج اخذ کرنے کے لیے کم شہرت نہیں رکھتا۔ جب سیاست داں محکمۂ آثارِ قدیمہ کے افسران جو براہِ راست حکمراں جماعت کے تابع دار ہوتے ہیں اور پھر سہولت کے مطابق چھوٹی عدالت سے بڑی عدالت تک کے ماہرین۔ نیت اگر معقول نہیں تو جب جیسا نتیجہ اخذ کرنے کا ارادہ ہوگا، زمین کے اندر سے ویسا ہی نتیجہ نکال دیا جائے گا۔ تاج محل اور قطب مینار پر پہلے سے ہی طرح طرح کی مانگیں ہوتی رہی ہیں۔ ابھی پھر سے یہ سلسلہ چل نکلا ہے۔ فرقہ واریت کی یہ وہ شکل ہے جس میں ملک کی ساکھ اقوامِ عالم کی نظر میں کچھ اس طرح سے گر جائے گی کہ پھر اسے ہم کبھی سنبھال بھی نہیں پائیں گے۔ اقبال پہلے ہی ہمیں خبردار کرچکے ہیں:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والوں
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں:غیر رواداری اِس ملک کو کہاں تک لے جائے گی، کسی کو نہیں معلوم؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے