کانگریس کے ادے پور چنتن شِوِر میں راہل گاندھی کی تقریر : ایک محاسبہ

کانگریس کے ادے پور چنتن شِوِر میں راہل گاندھی کی تقریر : ایک محاسبہ

مسعود بیگ تشنہ

1- یونین اور نیشن (قوم، راشٹر ) کے وِزَن کا کنفیوزن : بھارت ماتا آر ایس ایس کے ہندو راشٹر بھارت بلکہ اکھنڈ بھارت کا ایک کلیدی شبد ہے جسے خود راہل گاندھی نے بھی کم سے کم دو بار استعمال کیا. دوسری طرف اسٹیٹس اور یونین کے رشتوں پر بات کرتے ہوئے ہندستان کے آئین کے مطابق انڈیا کو یونین کہہ کر نیشن یا نیشنلزم کو نکارا بھی. لفظ ہندوستان کے ساتھ ساتھ خود بھی بھارت شبد کا پریوگ کیا. آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی بھارت ایک ہندو راشٹر کا خلاصہ نہیں کیا. آر ایس ایس کی ہندوتوا کی آئیڈیا لوجی کے لیے ہندُتوا شبد کہنے سے گریز کیا.
2- آر ایس ایس اور بھاجپا کو توڑنے والا سنگٹھن تو بتایا. کانگریس ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کی پارٹی بتا کر ہندو مسلم سکھ عیسائی کے عام محاورے کے علاوہ 35 منٹ کے خطاب میں لفظ مسلمان کا ایک بار بھی بھولے سے بھی استعمال نہیں کیا.
3- کنورزیشن (بات چیت) کو یونین( مرکز) اور اسٹیٹس (صوبوں) کے ماہین ضروری بتایا جس کا فقدان بھاجپا کے پارٹی سنگٹھن میں بتایا اور بھاجپا حکومت میں بھی. (کانگریس کے سینیئر لیڈران جنھوں نے پارٹی اعلیٰ کمان کی کارکردگی پر سوال اٹھائے تھے اور جمود کو توڑنے کا آوہان کیا تھا، ان کا کوئی ذکر نہیں)
4- آر ایس ایس اور بھاجپا کو ایک ہی مانا اور دیش کے لیے خطرہ مانا اس کے ساتھ نظریاتی لڑائی کی بات کی…. مگر آر ایس ایس اور بھاجپا کے ہندوتوا، ہندو راشٹر اور اکھنڈ بھارت کا خلاصہ نہیں کیا.
5- پرانا الزام دوہرایا. نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور کرونی کیپیٹلزم کا استعمال چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے.
4-جاسوسی سافٹ وئیر کا پرائیویٹ کنورزیشن (بات چیت، گفتگو، مکالمہ)کو ٹریک کر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال
5- دو کروڑ نوکریاں دینے کے مودی سرکار کے جھوٹے وعدے کا ذکر. ریکارڈ بے روزگاری اور مہنگائی کا ذکر. یوکرین جنگ کا ذکر اور مہنگائی پر اس کے اثرات کا ذکر. مودی سرکار کے اناج ایکسپورٹ اور پھر کچھ ہی دن میں اس پر پابندی /روک کا ذکر.
6- راہل گاندھی نے خود کے لیے کہا کہ بھارت ماتا کا ایک پیسہ بھی بھرشٹا چار میں نہیں کھایا. (یہاں بھی بھارت ماتا شبد کا استعمال کیا) ….. مگر بھاجپا حکومت کے بھرشٹاچار کو سامنے لانے کی بات نہیں کہی.
7- دلِت نیتاؤں کا اسپیشل ذکر. ڈرامائی انداز میں دلِت نیتا موریہ کی بھاجپا میں جاکر پھر کانگریس میں واپسی کا ذکر اور یہ بھی بتانا کہ کس طرح بھاجپا میں ہر دن دلِت نیتا کو رسوا ہونا پڑتا تھا.
8- کسان آندولن کے چلتے مودی سرکار نے نئے کسانی قوانین جو واپس لیے، اس تناظر میں راہل گاندھی نے کسانی قوانین کو صرف پنجاب کے کسانوں سے جوڑ کر دیکھا. کسان آندولن کا کوئی ذکر نہیں.
9- کانگریس سنگٹھن میں سینیئر جونیئر کے مِکس کی بات کہی. (جونیئر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے بہت سارے سیاسی فیصلے غلط نکلے).
10- اپنی پارٹی کا زعم، صوبائی پارٹیوں کو جاتی وادی (ذات پسند ) تک کہہ ڈالا. جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بھاجپا اور اس کے ہندوتوا کے ایجنڈے کو کانگریس سے زیادہ صوبائی پارٹیوں نے للکارا.
11- حالیہ ریاستی چناؤ میں شکست کے اسباب کا نہ کوئی ذکر نہ خلاصہ.
12- سچ تو یہ ہے کہ آج کی سیاسی صورتِ حال میں دلِتوں سے زیادہ مسلمان پریشان اور تنگ کیے جا رہے ہیں جس کا سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہونے کے ناطے ذکر تک نہیں جب کہ بھڑکاؤ مذہبی جلوسوں سے پیدا ہونے والے متشدد فرقہ وارانہ حالات کی پوری دنیا میں چرچا ہے. نئے پرانے مسجد مندر تنازعے پھر سر اٹھا رہے ہیں.
13 -ایکتا کی علامت کے طور پر گاندھی جی، نہرو جی، سردار پٹیل، امبیڈکر (بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر اور آزاد (مولانا ابو الکلام آزاد) کے ناموں کا ذکر…… کہ یہ سب کے ہیں کسی ایک پارٹی کے نہیں.( بتا دوں کہ مولانا ابو الکلام آزاد کو لوگ بھولنے لگے ہیں. راہل گاندھی بھی پورا نام نہیں لے سکے جب کہ یہ وہ شخصیت ہے جس نے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنے سے روکنے کے لیے شاہی جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر تاریخ ساز تقریر کی تھی.)
14- کپل سِبّل سمیت پارٹی کے سینئر لیڈران جو پارٹی کے جمود کے خلاف کھلے عام سامنے آ گئے تھے. چِنتن شِوِر میں غائب پائے گئے یا انھیں بلایا ہی نہیں گیا. جب کہ راہل گاندھی بار بار کنورزیشن (بات چیت) کی دُہائی دے کر کانگریس کو بھاچپا سے ممتاز ثابت کرنا چاہ رہے تھے.
15 – حالیہ ریاستی چناؤ میں خاص کر پنجاب اور اتر پردیش میں اپنی چلا کر راہل اور پرینکا نے جو کانگریس کا بیڑا پوری طرح غرق کیا اس کی مثال ملنی مشکل ہے. ریاستی چناؤ میں بھاجپا سے شکست کھانے کے اسباب کا کوئی خلاصہ نہیں.
16 – چِنتن شِوِر میں ایک ہی خاندان سے بار بار کئی لوگوں کے سیاست میں آنے پر قدغن لگانے کا ذکر کیا. جو بہتر بات ہے. راہل گاندھی نے اس موقع پر اعلان کر دیا کہ وہ دیش کو آر ایس ایس اور بھاجپا سے بچانے کے لیے پورے طور پر تیار ہیں. (گویا وہ پہلے کبھی تیار ہی نہیں تھے)
17- صوبائی پارٹیوں کو جاتی وادی پارٹی تو کہہ دیا مگر کانگریس کیا نہرو (اندرا) گاندھی خاندان کی ہی پارٹی بن کر نہیں رہ گئی ہے؟
18 – کنورزیشن (بات چیت) کے لیے پارٹی کے چھوٹے بڑے نیتاؤں اور ورکروں کو جنتا کے بیچ جانے کا آوہان جو ایک دو دن نہیں کئی مہینوں کے لیے ہو. (یاد رہے کہ ایک بار راہل گاندھی پورے ملک کی پد یاترا کر چکے ہیں).
19- اچھی ہندی بولنے کے باوجود اپنی تقریر انگریزی میں شروع کرنا راہل گاندھی کی بڑی بھول ہے. حالانکہ کچھ وقت بعد پھر ہندی یا عام ہندستانی میں تقریر کرنے لگے. مودی جی کی کامیابی میں عوام الناس کی زبان کے استعمال کا بھی بڑا ہاتھ ہے. اور پہلے کبھی اپنے کسی مضمون میں اس طرف اشارہ کر چکا ہوں.
20- سب سے اہم بات جو راہل گاندھی نے کہی وہ ہے میڈیا پر بھاچپا کی حکومت کا کنٹرول. راہل گاندھی نے کہا کہ عدلیہ اور دیگر آئینی اداروں میں کانگریس پارٹی نے اپنی پارٹی کے آدمی نہیں بیٹھائے جیسا کہ بھاجپا اور آر ایس ایس نے بیٹھا کر رکھے ہیں. مودی حکومت نے عدلیہ اور چناؤ آیوگ پر دباؤ بنا کر رکھا ہوا ہے.
21- بھارت چین تعلقات، بھارت نیپال تعلقات، بھارت پاک تعلقات سمیت بیرونی پالیسی کا کوئی ذکر نہیں. کئی معاملات میں بھاجپا سرکار بری طرح گھیرے میں آ سکتی ہے. ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے اس فرنٹ کو بِنا لڑے چھوڑ دیا جیسے مودی سرکار نے چین کے نئے قبضے کی واپسی کو چھوڑ رکھا ہے.
22 – آخری مگر اہم بات! راہل گاندھی کی تقریر کے ویڈیو میں سننے والوں کے جو چہرے نظر آ رہے ہیں ان میں زیادہ تر نہرو گاندھی پریوار کی جی حضوری والے، سیاسی طور پر گاندھی نہرو پریوار کی طرح ہی اِن ایکٹیو (بے عمل) لوگ ہیں. یہ ضرور ہے کہ انھوں نے کانگریس کا دامن ابھی تک نہیں چھوڑا ہے. کچھ چہرے تو ایسے ہیں جو بجھے کارتوس ہیں اور اپنے دور میں بھی اپنی کارکردگی میں پھس پھس ہی تھے. ان میں سے زیادہ تر راجیہ سبھا کے پچھلے دروازے سے سیاست میں لائے گئے تھے. چناوی صلاح کار وہی دکھائی دے رہے ہیں جن کی بار بار کی ناعاقبت اندیش صلاح سے کانگریس کی سیاسی پوزیشن اور کمزور ہوئی.
کاش کانگریس سنگٹھن میں مستقلاً ایک تھنک ٹینک کا وجود ہوتا جو بارہ ماہ چنتن میں ہی لگا رہتا. کسی بھی نظام کی کامیابی کے لیے ایک اسٹڈی اور فیڈ بیک سسٹم کا ہونا از حد ضروری ہے جہاں یس مینیجرس کی کوئی گنجائش نہ ہو. ایسے تھنک ٹینک میں سینئر لیڈرس کو کھپایا جا سکتا ہے جو موٗل چِنتن رکھتے ہیں اور خود کو بھی چِنتن، چنوتی اور مثبت تبدیلی کے عوامل سے گزارتے رہتے ہیں.
خلاصہ : چِنتن شِوِر میں یہ ابھر کر نہیں آیا کہ ہندوتوا، ہندو راشٹر واد اور اکھنڈ بھارت کی کاٹ کیسے ہوگی. ملک کی سب سے پرانی پارٹی میں مسلمانوں کی قیادت بتدریج گھٹتی ہی گئی ہے. مسلمان سیاسی طور پر اچھوت بنائے جا رہے ہیں تو کیا اس کے لیے 2014 سے پہلے تک کم و بیش حکومت کرتی آئی کانگریس پارٹی بالکل بھی ذمہ دار نہیں؟ کیا موجودہ حالات میں اس پر چِنتن کی ضرورت نہیں ہے؟………. جب کہ ہندستان ہی نہیں دنیا بھر میں یہ آج کا ہاٹ ٹاپک ہے. کیا سیکولر کانگریس نرم ہندُتوا یا گرم شدت پسند فسطائی ہندُتوا کی تکثیریتی ذہنیت کی ہی پوشک ہوگی؟. رام جنم بھومی آندولن نے ہندو احیا پرستی کی بنیاد بابری مسجد دُھوَست کر کے ڈال دی تھی جو گھور مسلم مخالف ہوکر مختلف شکلوں میں اجاگر ہوتی رہی ہے اور اب شدید طور پر ہنسک بھی ہو گئی ہے. راجیو گاندھی نے رام للا درشن کے لیے نچلی عدالت سے تالا کھلوا کر ایودھیا سے چناؤ پرچار کی شروعات کی تھی. تبھی سے نرم ہندُتوا کی بنیاد پڑ گئی تھی اور تبھی سے راجیو گاندھی آر ایس ایس کے چہیتے ہو گئے تھے. راجیو گاندھی بار بار پانچ ہزار سالہ اِتیہاس کی دہانی دیتے تھے. اب یہ پوچھنے کی ہمت تب بھی کون کرتا اور اب بھی کون کرے گا کہ ان پانچ ہزار سالوں میں آٹھ سو سے ایک ہزار سال تک مسلم حکمرانوں نے بھی حکومت کی. یہی وہ ہندو احیا پرستی ہے جسے آر ایس ایس نے پالا پوسا بڑا کیا ہے. جس کے سبب وہ مسلم حکمرانوں کو باہری حملہ آور سمجھ کر ان کے ایک ہزار سالہ یوگ دان کو خارج کرتی آئی ہے.
ابھی نہیں تو کبھی نہیں جیسا کوئی پلان کیا کانگریس کے پاس تیار ہے؟ پہلے ہی ہو چکی تاریخی ڈھیل اور جمود کے لیے کون ذمہ دار ہے. جنھوں نے ہائی کمان کو یاد دلایا وہ پارٹی میں ہی اچھوت ہو گئے پھر کیسی کنورزیشن (بات چیت /مشورہ /مکالمہ) اب آپ جنتا سے بات چیت کرنے چلے ہیں تو چناؤ کی تیاری کب کریں گے؟
مشورہ : 1 – عوام کی زبان میں بات کریں، بات جلدی سمجھا سکتے ہیں اور دل میں بھی اتار سکتے ہیں.
2 – کرونی کیپیٹلزم جیسی خالص علمی اصطلاح عوام کی سمجھ میں نہیں آ سکتی ہے.
3 – آیا رام گیا رام سے اجتناب کریں.
4 – پچاس پچاس صفحات کے چناوی گھوشنا پتر دینے کے بجائے بُلیٹ پوائنٹ پر فوکس کریں.
5 – جیسا کہ پہلے بیان کر چکا لگاتار چِنتن کا کام تھنک ٹینک بنا کر اس کے لیے چھوڑیں.
6 – سیوا دل کو فعال بنائیں یہ آر ایس ایس کی شاکھاؤں کی طرح کام کر سکتا ہے.
7 – پرچار کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھائیں.
8- پارٹی کی اندرونی جمہوریت کا احیا کریں. پارٹی کے باضابطہ اندرونی غیر جانبدارانہ انتخابات کرائیں.
9 – رسمی چِنتن بہت ہو چکا، اب 2024 کے چناؤ کو جیتنے کی پورے من سے تیاری کریں. کرو یا مرو اور ابھی نہیں تو کبھی نہیں جیسے جوشیلے نعروں اور عزم اور بھرپور جدّ و جہد سے یہ جنگ جیت کر دکھائیں کیونکہ 2024 ہار گئے تو ہندستان ہار جائے گا، ہر سچا ہندستانی ہار جائے گا. سینئر جونیئر، گاندھی پریوار کے وفا دار اور نا وفادار یہ سب باتیں چھوڑیں. بِنا دوسری پارٹیوں کے تعاون کے سنہ 2024 میں بھاجپا کو اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے. اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نرم ہندُتوا آر ایس ایس کی کاٹ ہے تو یہ سراسر بے ایمانی اور پوری طرح سیاست ہے اور صرف حکومت کرنے کا ایک ذریعہ….. یہ آئڈیالوجی نہیں ہو سکتی. ایک طرف آپ یونین آف انڈیا کہہ کر اس یونین میں صوبائی ریاستوں کا عمل دخل چاہتے ہیں تو دوسری طرف صوبائی پارٹیوں کی تذلیل بھی کرتے ہیں. اگر سنہ 2024 میں بھاجپا حکومت بنانے میں پھر کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک کی بربادی جو بھاجپا کے ہاتھوں ہونی ہے اس کی ساری کی ساری ذمہ داری کانگریس کے سر پر ہی آئے گی.
(17 مئی 2022 ،اِندور)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا تین یوروپی ممالک کا دورہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے