میر ثانی کلیم عاجز کی غزلیہ شاعری

میر ثانی کلیم عاجز کی غزلیہ شاعری

محمد منظر حسین
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، مولانا آزاد کالج، کولکاتا

وہ جو شاعری کا سبب ہوا وہ معاملہ بھی عجب ہوا
میں غزل سناؤں ہوں اس لیے کہ زمانہ اس کو بھلا نہ دے
یہ شعر اردو کے ایک ایسے شاعر کا ہے جسے دنیا کلیم عاجز کے نام سے جانتی اور پہیچانتی ہے اور جن کا کلام درد دل کا ترجمان ہے۔ مشہور طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کی رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ:
”وہ جب کبھی نغمہ سرا ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کسی بسیط و عریض ویرانے میں کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہے اور سسکیاں بھر رہا ہے۔“
کلیم عاجز کا شمار دور جدید کے شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں کے مطالعے سے غزل کی ایک نئی تفہیم واضح ہوتی ہے۔ لیکن ان کی غزلوں کی حقیقی تفہیم اور ان کی شاعری کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہمارے لیے سب سے پہلے ان کی شاعرانہ اور خاندانی پس منظر کا جاننا نہایت ضروری ہے۔
کلیم عاجز کے گھر کا ماحول مذہبی تھا اور اسی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی جس کا رنگ آخری زمانے تک قائم رہا۔ انھیں مطالعہ کا صرف شوق نہیں بلکہ جنون تھا۔ انھوں نے اوائل عمری میں ہی مشہور قصے، داستانوں اور مختلف رسائل کا بہ غور مطالعہ کیا تھا۔جس کااظہار اپنی کتاب ”وہ جو شاعری کا سبب ہوا“ میں اس طرح کیا ہے :
”اردو رسالوں اور کتابوں کا شوق نہیں جنون تھا۔ میں سوچتا ہوں تو یقین ہوتا ہے کہ میری عمر کا شوقین اردو کلکتہ کے غدار شہر میں بھی شاید ہی کوئی دوسرا ہو. ١٩٣٤ سے ١٩٣٧ تک  تین سال میں دس سے تیرہ سال کی عمر تک صبح اٹھنے سے رات گیارہ بجے تک مستقل چھپ چھپ کر میں مطالعہ ہی میں مشغول رہتا۔ اس زمانے کے تمام اچھے رسالوں کے ماہانہ اور تمام خاص نمبر میرے مطالعہ سے نہ بچے۔ ”عالمگیر“ لاہور۔حکیم یوسف حسین کا ”نیرنگ خیال“ لاہور۔ میاں بشیر الدین کا رسالہ ”ہمایوں“۔ ”ساقی“ دہلی۔ ”ادبی دنیا“ دہلی۔ جوش ملیح آبادی کا حسین رسالہ ”کلیم“۔ اختر شیرانی کا رسالہ ”رومان“۔ اس زمانے میں میرے محبوب افسانہ نگار پریم چند، ایم۔اسلم، پنڈت سدرشن تھے۔ دوسرے لکھنے والوں میں خواجہ حسن نظامی، اشرف صبوحی، مرزا محمد شفیع دہلوی، ظفر قریشی، ناکارہ حیدر آبادی، تمکین کاظمی، امین سلونوی، نسیم انہونوی، شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی، ملا رموزی، مرزا فرحت اللہ بیگ وغیرہ اور نہ جانے کتنے تھے جن کا نام مجھے اب چند برسوں سے یاد نہیں رہا۔“
(وہ جو شاعری کا سبب ہوا“ از کلیم عاجز۔ صفحہ۔ ۲۹)
کلیم عاجز کی ابتدائی تعلیم مولوی ضمیر الدین کے مکتب میں ہوئی۔ ۰۴۹۱؁ء میں میٹرک کے امتحان میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آئی۔ اے میں اخلہ لیا لیکن والد کے اچانک انتقال کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ مجبوراً کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ چوں کہ انھیں تعلیم حاصل کرنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ اور اپنے اس جنون کو انھوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ لیکن اسی درمیان ان کی زندگی میں ۶۴۹۱؁ ء کا وہ خونی سال بھی آیا جس میں مذہب و ملت کے نام پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اور کلیم عاجز کا گاؤں تیلہاڑا جو کہ قومی یکجہتی کی زندہ مثال تھا، جہاں کے مدرسے میں ہندو بچے اور پاٹھ شالوں میں مسلمان بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لیکن اس قومی یکجہتی کو کسی کی بری نظر لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا علاقہ فساد کی زد میں آگیا۔ یہاں تک کہ کلیم عاجز کا گاؤں تیلہاڑا بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ عید قرباں میں لوگ سرشار تھے۔ بچے، بڑے سبھی تہوار کی تیاری میں مشغول تھے۔ لیکن فسادیوں نے اس دن کو ماتم میں تبدیل کردیا اور پوری کی پوری بستی کو جلا کر خاک کر دیا۔اس فساد میں کلیم عاجز کے خاندان کے کل بائیس لوگ شہید ہوئے جن میں ان کی والدہ اور بہن بھی شامل تھیں۔ صرف کلیم عاجز اور ان کے چھوٹے بھائی بچ گئے جو اتفاق سے اس دردناک حادثے کے وقت پٹنہ میں تھے۔ اس حادثے نے کلیم عاجز جیسے خوش مزاج آدمی کو بھی خا موش مزاج بنادیا۔
اس حادثے کا کلیم عاجز کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوا اور اسی غم نے شاعری کا روپ اختیار کر لیا۔ چوں کہ کلیم عاجز کی شاعری دکھ و درد کی کوکھ کی پیداوار ہے۔ لیکن ان کی شاعری سچائی اور حقیقت سے بہت قریب معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اپنی داستان بیان کی ہے۔ میر کی طرح کلیم عاجز کی آپ بیتی جگ بیتی بن گئی۔ چند اشعار بہ طور نمونہ پیش کر رہا ہوں:
حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے
تجھے بھی اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے

غم جاں بھی غم جاناں بھی غم دوراں بھی
ایک دل کے لیے سامان ہیں دنیا بھر کے 

تیرا درد اتنا بڑا حادثہ ہے
کہ ہر حادثہ بھول جانا پڑے ہے

دھوپ کہیں جب دھوپ نہیں ہو رات کہیں جب رات نہیں
دیوانوں کی بات سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں


میرے لیے قید سحر و شام نہیں ہے
روتا ہوں کہ رونے کے سوا کام نہیں

کلیم عاجز کی شاعری کے سلسلے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی شاعری یک رخا پن کا شکار ہے۔ اس میں تیلہاڑا گاؤں کے فساد کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اور ان کی شاعری میں اسی واقعے کی تکرار ہے۔ لیکن یہ خیال تنگ نظری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کی شاعری تیلہاڑا کے فساد کی پروردہ ہے۔ لیکن ان کی شاعری میں اس فساد کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کی شاعری آزاد ہندستان کی تاریخ ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا اور اگر کوئی چاہے تو ان کی شاعری کی مدد سے آزاد ہندستان کی تاریخ بھی ترتیب دے سکتا ہے۔ کوئی بھی تخلیق کار اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ اور اس ائینہ میں وہی دکھتا ہے جو اس زمانے کی سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی حالات ہوتے ہیں۔ کلیم عاجز کی شاعری بھی آزادی کے بعد کے ہندستان کا عکس ہے۔ کلیم الدین احمد جو غزل کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے ہیں جنھوں نے اردو کے بیش تر شعرا کے بتوں کو پاش پاش کر دیا تھا وہ بھی کلیم عاجز کی غزلوں کے زلف کے اسیر نظر آتے ہیں۔ کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:
”کلیم عاجز کے شعروں کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے شعروں میں ایک مخصوص سادگی ہے۔ ان کے الفاظ جانے پہچانے، ان کی ترکیبیں ایسی سیدھی سادھی ہوتی ہیں کہ مفہوم فوراً ذہن نشیں ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ ان کے اشعار سطحی ہوتے ہیں بلکہ الفاظ، ترکیبوں اور معانی کے درمیان کوئی پردہ نہیں بلکہ یوں کہیے کہ ان کے الفاظ ایسے شفاف ہیں کہ معنی کو ایک نگاہ غلط انداز بھی پا لیتی ہے۔ اکثر ان کے شعروں میں لفظوں کا ایک تو سطحی مفہوم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسرا مفہوم بھی ہوتا ہے۔ دونوں بیک وقت سمجھ میں آجاتے ہیں۔“
(وہ جو شاعری کا سبب ہوا“ از کلیم عاجز۔ صفحہ۔۵۴)

کلیم عاجز کے خاندان کے ساتھ جو ظلم و ستم ہوا اس نے ان کو بے باک اور نڈر بنادیا اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بلا خوف و ترد شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا۔ ۵۷۹۱؁میں اندرا گاندھی کے دور حکومت میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کردیا گیا اور جمہوری حقوق سلب کر لیے گئے تو اس کے خلاف بیش تر شعرا و ادبا نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ اس پر آشوب دور میں کلیم عاجز جیسے حساس شاعر کا قلم کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ وہ بھی اس صورت حال سے متاثر ہوئے۔ جس کا ظاہری نتیجہ یہ ہوا کہ حالات حاضرہ کے پیش نظر ان کے ذہن و دل نے سوچنا شروع کیا جس کے نتیجے میں بعض ایسے اشعار موئے قلم سے ٹپکے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ شہسوار وقت ہیں اتنا نشے میں چور
گر جائیں گے اگر یہ اتارے نہ جائیں گے

تم اہل انجمن ہو جس کو چاہو بے وفا کہہ دو
تمھاری انجمن ہے تم کو جھوٹا کون سمجھے گا

انقلابات ابھی دیکھیے لائے کیا کیا
دوش سے زلف تیری تا بہ کمر ہونے تک
احساس غم زندگی کی بنیادی حقیقت ہے۔ یہ دولت درد انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اسی کے ذریعہ کائنات کی قدروں کا احترام اور جذبات کی تہذیب و تسکین ممکن ہے۔ شخصیت اسی کے ذریعہ نکھرتی ہے اور تمدن میں تابندگی اسی کی بدولت آتی ہے۔ کلیم عاجز کی شاعری درد انگیز ضرور ہے لیکن زہر ناک اور مردم بیزار نہیں ہے۔ جوانی میں بیش تر افراد زمانے کی رنگینیوں کا لطف اٹھاتے ہیں اور قدرت کی خوب صورتیوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ لیکن کلیم عاجز صاحب نے نئی نسل کے اندر مذہب کی بیداری کے لیے تبلیغ کا کام کیا اور تا حیات اس سے جڑے رہے۔ انھیں صوبہ بہار کے امیر جماعت ہونے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔
کلیم عاجز کا بھی مسلک شہنشاہ غزل میر تقی میر کی طرح ہی ہے کہ جو کچھ بھی دل پر گزرتی ہے رقم کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں غم جاناں بھی ہے اور غم دوراں بھی۔ لیکن وہ غم جاناں کو غم دوراں بنانے کے ہنر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری میں یہ دونوں صفتیں ایک دوسرے میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے جدا کر کے دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔ کلیم صاحب کے یہاں خالص غزل کے اشعار بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان اشعار میں ایک خاص کسک ہے، درد ہے، آہ و نالہ ہے، آنسوؤں کی لڑیاں ہیں۔ چند اشعار بہ طور نمونہ پیش خدمت ہے۔
میری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں

یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کی رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں

کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں میرے سوز دل کی حرارتیں
کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں میرے آنسوؤں کی رانیاں

مجھ سے نہ پوچھ حال دل اب قابل بیاں نہیں
زخم کدھر کدھر نہیں درد کہاں کہاں نہیں

سلگنا اور شے ہے جل کے مرجانے سے کیا ہوگا
جو ہم سے ہو رہا ہے کام پروانے سے کیا ہوگا

کلیم عاجز اپنے ساتھ پیش آنے والے سانحات و واقعات کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ اور تازہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس عمل کے لیے انھوں نے جو طرز اسلوب اختیار کیا وہ بہت سحر انگیز اور پر اثر ہے۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر شخص سمجھتا ہے کہ کلیم عاجز اپنی زبان اور شاعری کے ذریعہ اس کے دل کی بات کہہ رہے ہیں۔ اور یہی چیزیں ان کو دوسرے شاعروں میں ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔
کوئی دیوانہ کہتا ہے کوئی شاعر کہتا ہے
اپنی اپنی بول رہے ہیں ہم کو بے پہچانے لوگ

جہاں غم ملا اٹھایا، پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا، یہی روگ ہم نے پالا

کلیم عا جز نے اپنی شاعری میں سادگی، سلاست اور روانی کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ مشکل پسندی، پیچیدگی، ژولیدگی سے حتی المقدور اپنی شاعری کو پاک رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں روز مرہ کے آسان فہم اور سہل الفاظ کے استعمال نے ان کی شاعری کو اور زیادہ مقبولیت عطا کی۔ ان کی اسی سہل پسندی نے ان کی شاعر ی کو میر کا رنگ عطا کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل شعر پیش کیا جاسکتا ہے:
اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے
بہت سے شاعروں نے میر کا رنگ اپنانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کوشش میں کلیم عاجز کو جو کامیابی ملی ہے وہ کسی دوسرے شاعروں کے حصے میں نہیں آئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے رنگ و آہنگ کو دیکھتے ہوئے بہت سے ناقدین ادب نے بھی انھیں میر ثانی کا لقب دیا ہے۔ ان کی کئی غزلیں ایسی ہیں جو میر کی زمین میں کہی گئی ہیں۔ کنہیا لال کپور نے کلیم عاجز پر ایک مضمون ”کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے“ لکھا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے کلیم عاجز کی شاعری میں میر کی خصوصیات کو دلائل کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”سر عبدالقادر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب کچھ نقاد یہ کہہ رہے ہیں کہ کلیم عاجز کی غزلوں میں خدائے سخن میر تقی میر دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ اس قول کا اطلاق شاید ان کی ساری شاعری پر نہ ہو تا ہو لیکن ان کی غزلوں پر ضرور ہوتا ہے جو انھوں نے پچھلے دنوں کہی ہیں اور اس قول میں بہت حد تک صداقت ہے۔ میر کے انداز کو اپنانے کی غالب سے فراق تک ہر شاعر نے کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر غالب نے کم ازکم ایک غزل میر کے رنگ میں کہی جس کا مطلع ہے۔
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے
جفائیں اپنی کر کے یاد شرما جائے ہے مجھ سے
فراق نے بھی اپنی چند غزلوں میں میر کے انداز کا کامیاب تتبع کیا ہے۔ خاص کر اپنی اس غزل میں۔
فرقت کی غمگین راتوں کو یاد میں تیری رولیں ہیں
تاروں کو جب نیند آئے ہے ہم بھی گھڑی بھر سو لیں ہیں
لیکن کلیم عاجز دور جدید کے پہلے شاعر ہیں جنھیں میر کا انداز نصیب ہوا ہے، ان کی غزلوں کے تیور نہ صرف میر کی بہترین غزلوں کی یاد دلاتے ہیں بلکہ ہمیں اس سوز و گداز سے بھی روشناس کراتے ہیں۔ جو میر کا خاص حصہ تھا۔“
ذیل میں ایسے اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جن کے مطالعے سے میر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

بیاں جب کلیم اپنی حالت کرے ہے
غزل کیا پڑھے ہے قیامت کرے ہے

قبا ایک دن چاک اس کی بھی ہو گی
جنوں کب کسی کی رعایت کرے ہے

بغیر اس وفا سے جی لگائے
جو سچ پوچھو تو دل کس کا لگے ہے

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی شاعر بڑے شاعر کی پیروی کرتا ہے اور اگر وہ اس پیروی میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اسے اس شاعر کے ثانی ہونے کا لقب تو مل جاتا ہے۔ لیکن تتبع کی کوشش میں اس کی اپنی شناخت گم ہو جاتی ہے اور اس کی پہچان شاعری کی دنیا میں اصل کی بجائے ثانوی کی رہ جاتی ہے۔ لیکن کلیم عاجز کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیوں کہ وہ دور جدید کے میر ثانی ہونے کے باجود اپنا ایک الگ رنگ اور انداز رکھتے ہیں۔ اور یہی انداز بیاں ان کو اپنی شناخت بنانے میں معاون و مدگار ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
اپنا یہ کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے

یہ سلیقہ شخصیت میں ہے بہت مشکل کلیم
دل فقیرانہ رہے اور بات شاہانہ کہے

کوئی دیوانہ کہتا ہے کوئی شاعر کہتا ہے

اپنی اپنی بول رہے ہیں ہم کو بے پہچانے لوگ

کلیم عاجز کی بڑی خصوصیت یہ کہ وہ جس زبان میں سوچتے ہیں اسی زبان میں شعر بھی کہتے ہیں، بالکل عام بول چال اور روز مرہ والی زبان، جو سماج میں بولی اور سمجھی جاتی ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بے شمار اشعار ایسے ہیں جو زبان زد خاص و عام ہیں جسے لوگ موقع محل سے استعمال بھی کرتے رہتے ہیں لیکن شعر کے خالق سے واقف نہیں ہوتے ہیں کہ کس کا شعر ہے۔

یہی تاریخ کہتی ہے، یہی حالات کہتے ہیں
عداوت تم نہ بھولوگے محبت ہم نہ بھولیں گے

رسن و دار نہیں اہل جنوں کی منزل
ہم مسافر ہیں بہت دور کے جانے والے

بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کلیم عاجز کی شاعری میں وہ سحر ہے جو ہر کسی کو اپنا ہمنوا بنا لیتی ہے۔ ان کی زندگی میں ہی بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں اور نقادوں نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ فراق، کلیم عاجز کی شاعرانہ خصوصیات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
”میں اپنی زندگی کی اہم خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے جناب کلیم عاجز صاحب کا کلام خود ان کے منھ سے سننے کے موقعے ملے۔ اب تک کچھ لوگوں کی شاعری پڑھ کر یا سن کر پسندیدگی اور کبھی کبھی قدر شناسی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوتے رہے۔ لیکن جب میں نے کلیم عاجز کا کلام سنا تو شاعر اور اس کے کلام پر مجھے ٹوٹ کر پیار آیا اور ہم آہنگی، محبت اور ناقابل برداشت خوشی کے جذبات میرے اندر پیدا ہو گئے۔ ان کا کلام مجھے اتنا پسند آیا کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی اور کلیم عاجز صاحب پر غصہ آنے لگا کہ یہ کیوں اتنا اچھا کہتے ہیں۔ ان کے اس جرم اور قصور کے لیے میں انھیں کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ اتنی ڈھلی ہوئی زبان، یہ گھلاوٹ، لب و لہجے کا یہ جادو جو صرف انتہائی خلوص سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے مجھے کبھی اس موجودہ صدی میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا تھا۔ میں ان کا کلام سن کر خود اپنا کلام بھول گیا۔
کلیم عاجز صاحب اپنی شاعری اور اپنی آواز سے ہزاروں لاکھوں سننے والوں کا من موہ لیتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک خوبی ہے! رام سے راون نے جب لڑائی ٹھان لی تو یہی دعا مانگی کہ مجھے رام کو دیکھ کر محبت نہ پیدا ہو جائے اس لیے کہ پھر میں ان سے کیسے لڑوں گا؟ کچھ ایسا ہی بسی کرن کلیم عاجز صاحب کی شاعری میں پایا جاتا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ کلیم عاجز صاحب کی شاعری میں ہمیں مولانا رومی یا اقبال، عرفی یامرزا بیدل کے دقائق نہیں ڈھونڈنے چاہئے۔ لیکن صبح کے سہانہ پن میں، بھیروی کی راگنی میں، چاند کے نا قابل بیان جادو میں، ایک بچے میں، کرشن کی ربوبیت کی جھلک میں ہم دقائق نہیں ڈھونڈتے۔ گیتا کا فلسفہ نہیں ڈھونڈتے اور اس سے بھی کوئی بڑی چیز پا لیتے ہیں۔وہی بے نام جادو ہمیں کلیم عاجز کی شاعری میں ملتا ہے۔ ٹھیٹ آدمیت یا آدمیت کے ٹھیٹ پن کی بلاغت کلیم عاجز کے شاعرانہ کردار میں نغمہ بن کر جھلک جایا کرتی ہے۔
(فراق۔ ”ابھی سن لو مجھ سے“،۔ سرورق، پچھلا حصہ)
غرض کہ کلیم عاجز نے میر کی پیروی ضرور کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان کے دائرۂ فکر و فن میں میر کی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہے بلکہ اردو شاعری میں ان کی اپنی ایک الگ پہچان، انداز اور اسلوب ہے جس کے ذریعہ وہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کے تعلق سے ان کے استاد علامہ جمیل مظہری کے درج ذیل قول پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں۔
”کلیم عاجز اپنے کیفیات تغزل میں میر کے فرماں بردار پیرو تو ہیں لیکن یہ نہ سمجھیے کہ ان کے دائرۂ فکر و فن میں میر کی تقلید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ ہمیں ان کی غزلوں میں تغزل جدید کا پرتو بھی ملتا ہے۔ ان کے انداز بیان میں نہ سہی، ان کے انداز فکر میں بھر پور ندرت اور بھر پور جدت ہے۔ انداز فکر میں جدت اور انداز بیان میں قدامت کلیم عاجز کے تغزل کا مخصوص آرٹ ہے جو سینکڑوں شعرا کے ہزاروں اشعار کے ہجوم میں جانا اور پہچانا جا سکتا ہے۔
(”وہ جو شاعری کا سبب ہوا“ از کلیم عاجز۔ صفحہ۔ ۵۵)
ؔ
Md Manzar Hussain
P.G. Department of Urdu
Maulana Azad Colleg
8, Rafi Ahmed Kidwai Road
Kolkata – 700013
e-mail: mdmanzarhussain@gmail.com
صاحب مقالہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : اردو مرثیے کا ایک معتبر نام: علامہ جمیل مظہری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے