محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور

محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور

(’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کے خصوصی حوالے سے۔ حصّہ اوّل)

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

اسم بامسمّٰی ہونا نہ کسی شخصیّت کے لیے آسان ہے اور نہ ہی کسی کتاب کے لیے۔ہم جب کسی چیز کا نام منتخب کرتے ہیں تو نہ جانے دل کی کتنی پوشیدہ آرزوئیں، خواب، تصوّرات اور نیک خواہشات کا ایک طلسماتی بندھن ہمارے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں اپنے آپ ہوجاتی ہیں مگر جن کاموں کے سلسلے سے ہماری کوشش یا کسب کو دخل ہوتا ہے، ان میں اپنے آپ جواب دہی پیدا ہوجاتی ہے۔ اخترالایمان نے اپنی مشہور نظم ”میرا نام“ میں بدرالدجیٰ اور غفّارجیسے ناموں کی مثالوں سے یہ ثابت کرنے میں کامیابی پائی تھی کہ کام سے جب نام بے جوڑ ہوجائیں تو مذاق کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بَرعکس یہ بھی حقیقت ہے کہ کہیں کہیں نام ایسے چسپاں ہوجاتے ہیں کہ ان کی معنویت اور کیفیت پہ آپ داد دینے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔ میر عبدالحئی نے جب ’تاباں‘ تخلّص اختیار کیا ہوگا تو اٹھارویں صدی کا کون کافر ہے جو یہ نہ کہہ دے کہ اِس کا حق صرف انھی کوپہنچتا تھا۔ اسد کے راستے سے جب ہمارے عظیم شاعر غالبؔ بن کر اُبھرے تو اَب کسے اختلاف ہوسکتا ہے کہ یہ تخلّص صرف اُنھی پر پھَبتا ہے۔ بھَلا سب خود کو غالب کیسے کہہ سکتے ہیں اور کہہ دیں تو انھیں مانے گا کون؟
جب ملّا وجہی نے اپنی کتاب کا نام ’سب رس‘ رکھا ہوگا تو وہ ایک تمنّا تھی مصنّف کی لیکن چار صدیوں میں ہماری زبان کی یہ ایک حقیقت بن گئی۔ ’سحرالبیان‘ پر میر حسن کو کہاں شاہانِ وقت کی طرف سے دل خواہ داد ملی لیکن اردو کی ادبی تاریخ نے یک زبان ہوکر تسلیم کیا کہ بیان کا جادو اپنے کمال کو وہیں پہنچتا ہے۔ میر امّن دہلوی فورٹ ولیم کالج میں چالیس روپے کے تنخواہ دار ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی تالیف کا تاریخی نام آرزوؤں اور تمنّاؤں کے کسی خوابناک جزیرے میں بیٹھ کر’باغ و بہار‘طے کیا ہوگا۔ آج تک ہم اپنی نسل کے اسی باغ میں بہار کی تلاش کرتے ہیں اور شاداں و فرحاں کا مران ہوتے ہیں۔ مولوی محمد باقر کے فرزند اور شیخ محمد ابراہیم ذوق کے تربیت یافتہ محمد حسین آزاد جب ١٨٨٠ ء میں قوم کے سامنے اپنے بزرگوں کے ادبی احوال تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں تو اسے وہ ’آبِ حیات‘ کا نام عطا کرتے ہیں۔ کہنے کو یہ ذرا بڑھ کر بولنا ہے۔ محمد حسین آزاد کو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ کتاب کے نام کو تعلّی کی انتہا نہ سمجھ لیا جائے۔ اسی لیے دیباچے میں کوئی تفصیلی جواز اس سلسلے سے نہیں پیش کیا گیا لیکن سب نے یہی کہا کہ ہماری زبان میں اپنی کتاب کا نام ’آبِ حیات‘ رکھنے کا حق صرف اسی جادو نگار کو پہنچتا تھا۔
’آبِ حیات‘ ہماری شاعری کی پہلی مکمّل تاریخ ہے۔ محمد حسین آزاد کا ذہن سائنسی فکر کا حامل تھا۔ اِسی لیے انھوں نے بعض تذکروں کی اُس روایت کو بہ نظرِ توجّہ دیکھا جہاں شاعروں کا حال طبقات اور ادوار میں تقسیم کرکے لکھا گیا تھا۔ وہ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے واقف ہوچکے تھے کہ وقت کو بنیاد بناکر زندگی اور عہد کی خانہ بندی سے نتائج اخذ کرنے کا ایک عمومی سلیقہ اردو فارسی میں بھی قائم ہورہا ہے۔ اس لیے محمدحسین آزاد نے اپنی تاریخ کو ادوار میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ آج یہ خانہ بندی اگر زیرِ بحث ہو تو ایک مقالہ صرف اس بات کے لیے تیّار کیا جاسکتا ہے کہ آزاد کی ادوار کی تقسیم کس حد تک مناسب اور ادبی اعتبار سے معقول ہے یا نہیں؟ یہ بھی سچّائی ہے کہ آزاد کے بعد ہم نے اور زیادہ سائنسی انداز میں درجہ بندی کرنے کا شعور پیدا کرلیا۔ تقریباً ایک سو پینتیس برس پہلے محمد حسین آزاد کو تنقیدی اور تحقیقی اطّلاعات کے جو خزینے دستیاب تھے، انھی بنیادوں پر انھوں نے اپنا کام کیا تھا لیکن اس کے بعد تنقید و تحقیق کی ہزاروں سبز و شاداب فصلوں کے پھل پھول دیکھنے کے بعد ہمارے عہد میں تاریخ نویسی کا ایک باسلیقہ اور سُلجھا ہوا انداز دیکھنے کو ملتا ہے جس کے سبب بعض شعرا کے سلسلے سے یہ اعتراض تسلیم کیا جا سکے کہ محمد حسین آزاد نے انھیں صحیح دور میں شامل نہیں کیا۔ اس سلسلے سے جتنی بھی بحث ہو لیکن جب ہم کتاب سے رجوع کریں گے تو اس کتاب کے مخصوص ادوار اور ان کے شعرا سے بھلا کیسے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے؟ ہمارے لیے وہی اَدوار اور اُنھی اَدوار میں موجود شعرا کو پَرکھنے اور سمجھنے کے مواقع ممکن ہیں جنھیں آزاد نے طے کر رکھا ہے۔آزاد کی طے شدہ درجہ بندی اس طور پربھی قبولِ عام کے دربار میں جگہ پانے میں کامیاب ہوئی کیوں کہ ہم آج بھی اپنے قدیم شعرا کو پہچاننے کے لیے ’آبِ حیات‘ کے اَدوار کو یاد رکھتے ہیں۔
دیباچہ کے بعد ’آبِ حیات‘ کے ابتدائی تین ابواب کو پیش بندی اور آزاد کی لسانی دل چسپیوں کی پیش کش مانا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص سے یہ دریافت کیا جائے کہ’آبِ حیات‘ کے پانچوں اَدوار میں کون سا زمانہ آپ کو پسندیدہ معلوم ہوتا ہے یاکس دور میں اردو شاعری کا سورج نصف النہار پر دکھائی دیتا ہے تو اس کا عمومی جواب تیسرے اور پانچویں دور سے تعلّق رکھتا ہوا حاصل ہوگا۔ پانچویں دور میں سب سے زیادہ شعرا شامل ہیں اور’آبِ حیات‘ میں عمومی طور پر ڈیڑھ سو سے زیادہ صفحات میں یہ حصّہ پھیلا ہوا ہے۔ اسی دور میں ذوقؔ، غالبؔ، مومنؔ اور انیسؔ و دبیرؔ کے ساتھ ساتھ آتشؔ جیسے شعرا موجود ہیں۔ صفحات کے اعتبار سے غور کریں تو چوتھا اور تیسرا دور بھی تفصیلی ہے اور کم و بیش اَسّی صفحات پر دونوں ادوار پھیلے ہوئے ہیں۔ تیسرے دور کی اہمیت ایک دنیا جانتی ہے کیوں کہ یہ میرؔ و سوداؔ کا دور ہے اور ان شعرا کے ساتھ دردؔ کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ پانچواں دور تو وہ عہد ہے جسے محمد حسین آزاد نے بہ ذاتِ خود دیکھا تھا اور بعض کے دیکھنے والوں کو دیکھا اور سُنا تھا۔اس اعتبار سے محمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘ کے پانچویں دور میں حقیقی طور پر واقعات کو دیکھ اور پرکھ کر لکھا لیکن یہ کون نہیں جانتا کہ ’آبِ حیات‘ کا پانچواں دور محمد حسین آزاد کے گلے میں پھنسی ہوئی وہ ہڈّی ہے جسے وہ اپنے زمانے میں بھی نگلنے یا اگلنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ اسی میں انھیں عوامی اعتراضات کے پیشِ نظر اگلی اشاعتوں میں سب سے زیادہ اضافہ کرنا پڑا اور یہی وہ باب ہے جس کی وجہ سے ان پر یہ تہمت لگتی رہی ہے کہ وہ تنقید میں انصاف کے مسند پر فائز نہیں رہ سکے اور ادبی دیانت سے ذرا دور جابسے۔ ’آبِ حیات‘ پر یہ بھی الزام رہا کہ محمد حسین آزاد نے زبان کا غیر تنقیدی استعمال کیا یا انھوں نے تحقیقی اعتبار سے بہت ساری کوتاہیاں کیں۔ یہ اعتراضات پوری کتاب پر نافذ ہوتے ہیں لیکن دیانت داری پر سوال پانچویں دور کے لیے مخصوص ہے۔
’آب حیات‘ کا تیسرا دور مرزا مظہر جانِ جاناں ؔ، عبدالحئی تاباں ؔ، سوداؔ، ضاحکؔ، خواجہ میر دردؔ، میر سوزؔ اور محمد تقی میرؔ کے جائزے سے پورا ہوتا ہے۔ ان اصحاب میں تاباں ؔ اور میر ضاحک کا تذکرہ ضمنی طور پر ہوا ہے۔ غور کریں تو یہاں صرف میرؔ و سوداؔ کا تذکرہ مقصود تھا کیوں کہ دردؔ، سوزؔ اور مرزا مظہرؔ بھی محدود صفحات میں ہی سمٹ گئے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ محمد حسین آزاد کو بہت حد تک یہ معلوم تھاکہ کن اصحاب کے ذکرکو طول دینا ہے اور کہاں اختصار میں گفتگو مکمل ہونی چاہیے؟ پھر بھی یہ سوال قائم رہتا ہے کہ انشا اور ناسخ پر میر اور سودا سے زیادہ طول بیانی کیوں کی گئی؟ غور طلب ہے کہ آزاد جن کی گپیں بھی لوگوں کو وحی معلوم ہوتی تھیں، انھوں نے اس کتاب میں اپنی انشا پردازی کا تو مظاہرہ کیا ہی ہے لیکن ان کی ایک اور صفت تھی، قصّہ گوئی اور تخیّل آفرینی کی؛ جس کا استعمال انھوں نے اپنی شعر گوئی میں کم سے کم کیا تھا [اور اسی لیے وہ حالی کے درجے کے شاعر نہ ہوسکے] لیکن تنقیدی و تحقیقی کتابوں کی طرف جب وہ آئے تو یہ چیز خوب خوب آزمائی گئی۔ آج تک محقّقین اور ناقدین کا طنزیہ رُخ انھی اسباب سے محمد حسین آزاد کی طرف ہوتا ہے۔ محمد حسین آزاد میں ایک دوسری صفت بھی تھی جسے انگریزی میں Gossipping کہتے ہیں، اس میں انھیں لطف آتا ہے۔ شعرا کے تذکرے میں وہ اپنی اس صفت کا خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔ اکثر اس کا جائز اور معقول استعمال ہوا ہے لیکن شعراے اردو کی آپسی لڑائی اور معرکہ آرائی محمد حسین آزاد کا مضمونِ خاص ہے جہاں اس صفت کا حسبِ ضرورت کچھ سیاسی استعمال بھی ہوا ہے۔اسی وجہ سے شعرا کے تذکرے ظاہری طَور پر طول پکڑتے چلے گئے۔
’آبِ حیات‘ کا تیسرا دور مقابلۃً نَپا تُلا ہے اور بہت حد تک ان کی اِس Gossipping سے پاک ہے۔ اس وجہ سے ہماری نگاہِ انتخاب تیسرے دور پر ٹِکتی ہے۔ سودا اور میر کا تذکرہ تو باعثِ کشش ہے ہی لیکن دوسرے شاعروں کے احوال بھی اچّھے خاصے دھیان اور انہماک کے ساتھ تحریر کیے گئے ہیں۔اس باب میں دوسرے ابواب کے مقابلے علمی توجّہ بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان بڑے شعرا کے تذکرے میں اپنے آپ محمد حسین آزاد کا شعور زیادہ متوازن ہوگیا ہو۔ تیسرے دور کی متعیّن جگہ بھی قلب کی ہے۔ کتاب میں اندازِ بیان بھی یہیں اپنے عروج پرہے۔ اس طرح’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کو اس کتاب کی روح تصوّر کیا جاسکتا ہے۔ آیندہ گفتگو میں اس بات پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا تیسرے دور کی مرکزیت علمی اور ادبی نیز تنقیدی اعتبار سے مستحکم ہے یا نہیں۔
’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور میں دوسرے اَدوار کی طرح ہی گفتگو تمہید سے شروع کی گئی ہے۔ دیگر اَدوار کے مقابلے یہ تمہید ذرا تفصیلی ہے اور عمومی گفتگو کرتے ہوئے بہت ساری باتیں، یہاں تک کہ موازنہ و مقابلہ یا شعرا کے اختصاص کا بنیادی پیمانہ وضع کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ تمہید میں آزاد نے اس عہد کی مخصوص زبان اور اپنے دور کی زبان سے اس کا موازنہ کرکے بھی کچھ نتائج اخذ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ تفصیلی گفتگو سے پہلے ہی یہ بات واضح ہوجائے کہ آزاد کے زمانے ہی میں تنقید کی زبان کا جو رنگ سرسیّد تحریک کے زیرِ اثر حالی نے اُبھارا اور وہ طوفان کی شکل اختیار کرتے ہوئے ہم تک پہنچا، پورے ایک سو برس سے زیادہ اُس زبان کو استعمال کرتے کرتے اظہار کی تکمیلیت اس میں شامل ہو گئی جس سے ہماری تنقید کی زبان ایک مخصوص شکل اختیار کرگئی۔ آج ہم تنقیدی کتابیں پڑھتے ہوئے کام کی باتوں پر انحصار کرتے ہیں اور آرایشِ بیان سے مقدور بھر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے جب یہ کتاب لکھی، اردومیں تنقید کی یہ زبان سکّہ بند نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ہم محمد حسین آزاد سے تنقید کی اُسی نَپی تُلی زبان کی طلب نہیں کرسکتے جو اُن کے بعد کے دور میں پیدا ہوئی۔ ایک قاری کے طور پر ہمیں اس صاحبِ طرز اور لفظوں کے جوڑ بٹھانے کے ماہر انشا پرداز کی مخصوص زبان دانی سے ہی ان کے تنقیدی خیالات اخذ کرنے ہوں گے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اُس عہد یا شاعر کے بارے میں محمد حسین آزاد کی جو راے ملتی ہے، کیا وہ موجودہ علمی نتائج کے اعتبار سے قابلِ اعتنا ہے؟اس کے بعد ہی زبان کے ساحرانہ رنگ اور رویّے کو پرکھنے کی کوشش ہونی چاہیے۔یہ بات مناسب نہیں کہ آزاد کو اُن کی بہت ساری تنقیدی باتوں کے باوجود صرف انشا پردازی کی وجہ سے ایک ادبی نقّاد کے منصب سے معزول کردیا جائے؟اور آخر ایسا کیوں کیا جائے؟
محمد حسین آزاد کو بہ حیثیتِ نقّاد پرکھتے ہوئے ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ہماری زبان کے صاحبِ طرز انشا پرداز ہیں۔ ان کی تحریروں اور طرزِ تحریر میں نقص ڈھونڈنے والے بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آزاد ایک الگ طرح کی نثر کے موجد ہیں۔پہلے ذرا اس بات پہ غور کرلینا چاہیے کہ انفرادی رنگ آخر ہوتا کیا ہے؟ جب قبولِ عام کا درجہ حاصل ہوجائے تو ہمارے لیے یہ مصنّفین چاند سورج ہوجاتے ہیں اور صاحبِ طرز کہے جاتے ہیں لیکن قبولِ عام کا منصب نہ ملے تو پڑھنے والے مروّت سے کام لیں تو اس رنگ کو ایجادِ بندہ کہتے ہیں ورنہ لکھنے والے کو راندۂ درگاہ ہونا پڑتا ہے۔ یاد کیجیے کہ جب اس مصنّف نے اپنی روایت اور موجود ذرائع کو آزمانے کے بجاے ایک نئی ادبی صورت تیّار کی ہوگی تو کیا اُسےاس زمانے میں باغی نہیں کہا گیا ہوگا؟ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نئی طرز کے جویا اشخاص ثقہ لوگوں کی نگاہ میں بے ہنگم اور انارکسٹ ہوتے ہیں۔ یہ صفات ان لکھنے والوں میں نہ ہوں تو نئے رنگِ سخن کی تلاش میں وہ آخر کیوں سرگرداں ہوں گے؟ محمد حسین آزاد بھی اپنی نثر میں لفظ و معنیٰ اور مضمون و مفاہیم کی پیش کش میں واقعتا اپنی طرح کے انارکسٹ ہیں۔ لیکن کوئی کیا کرے کہ پچھلے ڈیڑھ سو برسوں میں اس انشا پرداز کے ایک ایک لفظ اور جملے کو قوم نے آنکھوں سے لگایا اور جی میں بسایا۔
اب جب لفظوں پہ لفظ بٹھانے اور جملوں پہ جملے چَسپاں کرنے کی ایک مخصوص ادا پیدا ہوگئی ہے اورجسے ’آب حیات‘ لکھنے سے پہلے ہی قبولِ عام حاصل ہوچکا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پچاس برس کی عمر میں اسے بغیر کسی وجہ کے تبدیل کردیا جائے؟ پھر یہ سوال قائم ہوتاہے کہ یہ کیوں کر کیا جائے؟ ہم عصر نقّادوں اور ادیبوں نے نفسِ مضمون کی اصلاح پر جو باتیں گوش گزار کیں، انھیں جہاں جہاں ممکن ہوا، محمد حسین آزاد نے قابلِ غور سمجھا اور جتنا مناسب معلوم ہوا، اس قدر اس میں ترمیم و اضافہ کرنے سے بھی وہ پیچھے نہیں رہے۔ انشا پردازی پر اعتراضات تو بعد میں ہوئے جس کی اصلاح یوں بھی ١٨٩٠ء کی دیوانگی کے بعد ان کی زندگی میں بھی ناممکن تھی۔ اگر ہم نے تنقید کی موزوں زبان بعد کے زمانے میں بنائی اور اُسے مستند تسلیم کرلیا تو اس کا نفاذ پچھلی تحریروں پر کرنا غیر منصفانہ ہے۔ ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ جو شخص پہلے سے مستند اور ممتاز ہے اور جس کے طرز کو پہچانا جاتا ہے؛ اسے کیا اُسی طرز میں نئے نئے کام کرنے کے لیے سرگرم ہونے نہیں دیا جانا چاہیے؟ کیا ہم ان نئی تحریروں اور مختلف اسلوب میں پیش کردہ مواد کے تنقیدی احتساب کے لیے پیمانۂ نقد میں حسبِ ضرورت تبدیلی نہیں کرسکتے؟ تنقید کے اصول و ضوابط جامد کیوں مانے جائیں؟ یوں بھی ہر تخلیق کے لیے ہمیں نقد کے نئے پیمانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے میں صرف محمد حسین آزاد پر کب تک ہم لعنت اور ملامت بھیجتے رہیں گے کیوں کہ انھوں نے تنقید کی2+2=4  والی زبان کو اپنانے کے بجاے اپنے مانوس انشا پردازانہ رنگ سے انحراف نہیں کیا۔ آزاد کی اس انوکھی کتاب ’آبِ حیات‘ کے مطالعے اور محاسبے کے دوران ہمیں بہر طور اِن امور کو ملحوظِ نظر رکھنا چاہیے۔
’آبِ حیات‘ کے مطالعے کی جہت ابتدائی طور پر معلوماتی اور آخری سِرے پرانشا پردازانہ قبولیت کی ہوتی ہے۔ بہ نظرِ توجّہ ’آبِ حیات‘ کے صفحات ہمیں پکار پکار کر بتاتے ہیں کہ ’آبِ حیات‘ کا مطالعہ تنقید کی جدید سوجھ بوجھ کے ساتھ پُر خلوص انداز میں کیا جانا چاہیے۔ ’آبِ حیات‘ کی تنقیدی اور تحقیقی فرو گذاشتیں کم نہیں ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ معترضین کی اصلاحیں اکثر درست ہیں؛ اس کے باوجود ’آبِ حیات‘ کے متن میں کیا ایسے تنقیدی اور بہت سارے مواقع پر ایسے تحقیقی امور موجود نہیں ہیں جنھیں پڑھ کر آپ ’آبِ حیات‘ کے مقام کا تعیّن کرسکتے ہیں؟ عقیدت مندی کے زیرِ اثر ’آبِ حیات‘ یامحمد حسین آزاد کے بارے میں جو غور و فکر رہی، وہ ہمارے لیے زیادہ قابلِ توجّہ نہیں۔ اس کے باوجود ہمارا معروضہ ہے کہ تنقید اور عقیدت سے پَرے جاکر عہدِ جدید کی روِش کے عین مطابق ’آبِ حیات‘ کے متن سے رجوع کرکے ان تنقیدی نکات کی تلاش و جستجو ایک لازمی امر ہے۔ پہلی بات تو یہی کہ ’آبِ حیات‘ کی مقبولیت اور اردو عوام کے دلوں میں بس جانے والی کیفیت کا بنیادی سبب آخر کیا ہے؟ کس بنیاد پر ’آبِ حیات‘ اپنے پانو پرکھڑی ہوتی ہے اور لوگوں تک پہنچتی ہے؟ بے جا تعریف سے احتراز اور بجا تنقید سے ہوش کے ناخن آراستہ کرنے کے باوجود متنِ ’آبِ حیات‘ میں کچھ ایسے تنقیدی اوصاف ضرور پیوست ہیں جنھیں تلاش کرنا اور تنقیدی مطالعے کا حصّہ بنانا لازم ہے۔ ہم نے پہلے ہی یہ بات طے کرلی ہے کہ محمد حسین آزاد کی زبان اور انشا کا جلال اور زبان کے چٹخارے کی کیفیت میں الجھے بغیر کچھ سچّی تنقیدی باتیں ’آبِ حیات‘ سے اخذ کی جا سکتی ہیں۔
تیسرے دور کی تمہید دوسرے اَدوار کے مقابلے زیادہ تفصیلی ہے۔ اس تفصیل میں بلاشبہ اس عہد اور ان شعرا کی قدردانی بھی ایک بنیادی سبب ہے۔ تمہید میں وہ سب جملے آئے ہیں جو ہماری زبان کے ماہرین کو اشعار کی طرح سے یاد ہیں اور جنھیں ہم انشا پردازی کے نمونے اور کئی بار محمد حسین آزاد کے غیر تنقیدی شعار کے لیے بہ طورِ مثال استعمال کرتے ہیں۔ پہلے چند جملے ملاحظہ کیجیے:
(الف) ”اس مشاعرے میں اُن صاحب کمالوں کی آمد آمد ہے جن کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹی جاتی ہے۔“
(ب) ”زبانِ اردو ابتدا میں کچّا سونا تھی، ان بزرگوں نے اسے اکثر کدورتوں سے پاک صاف کیا۔“
(ج) ”اگرچہ بہت سے مرصّع کار، مینا نگار پیچھے آئے مگر اس فخر کا نولکھّا ہار انھی بزرگوں کے گلے میں رہا۔“
(د) ”یہ گِرد و پیش کے میدانوں میں بہت دَوڑے۔ سب پھول کام میں آئے ہوئے تھے۔ جب سامنے کچھ نہ پایا تو ناچار اپنی عمارتوں کو اونچا اٹھایا۔“
(ہ) ”تم دیکھنا، وہ بلندی کے مضمون نہ لائیں گے، آسمان سے تارے اتاریں گے۔“
(و) ”قدردانوں سے فقط داد نہ لیں گے، پرستش لیں گے۔“
(ز) ”ان کے کمال کا دامن قیامت کے دامن سے بندھا ہوا ہوگا۔“
(ح) ”یہ اپنی صنعت میں کچھ کچھ تکلّف بھی کریں گے مگر ایسا جیسے گلاب کے پھول پر شبنم یا تصویر پر آئینہ۔“
پیش کردہ جملے بلاشبہ زبردست انشا پردازانہ کیفیت کے حامل ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اس کے لکھنے والے صرف اور صرف محمد حسین آزاد ہیں۔ لیکن انھیں بہ غور دیکھتے ہوئے کیاایسا محسوس نہیں ہوتا کہ محمد حسین آزاد اپنی تاریخ نویسی کے تیسرے دور کی ابتدا کرتے ہوئے جس قدر بھی تنقیدی اور انشا پردازانہ رنگ قائم کرسکتے تھے، وہ اس پہلے پیراگراف میں موجود ہے۔ پہلے ہی جملے میں فصاحت کا آنکھیں بچھانا اور بلاغت کا قدموں میں لوٹنا آخر کیا بتاتا ہے؟ پڑھنے والوں کو انھیں یہ بتانا تھا کہ اس دور میں عام شعراکی فصل نہیں سجائی گئی ہے۔ جن کا بھی تذکرہ ہوگا، ان کے امتیازات واضح ہیں۔ اس لیے پڑھنے والے ایک خاص ادبی طبیعت کے ساتھ آگے بڑھیں کہ انھیں اپنی زبان اور اپنے عہد کے قدیم شعرا کو سمجھنے کے لیے خود کو تیّار رکھناہے۔ آزاد کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہماری زبان کے کچّے سونے کو صاف ستھرا کیا۔ اس سے ہمیں کیا یہ پتا نہیں چلتا ہے کہ زبان کی اصلاح اور کارآمد بنانے میں ان شعرا کا کوئی کام ہے؟ آزاد اسی پہ اکتفا نہیں کرتے۔ انھیں معلوم ہے کہ دوسرے ادوار میں بھی ایسے شعرا تھے جنھوں نے ہماری زبان کی اصلاح یا کثافتوں کو دور کرنے میں بڑے کام کیے لیکن تیسرے دور کے شعرا پر راے دیتے ہوئے جب آزاد نے فخر کا نولکھّا ہار انھیں ہی پیش کیا تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آزاد اپنے عظیم شعرا کی خاص خاص باتیں بتا دینا چاہتے ہیں۔ گِرد و پیش کے میدانوں میں دوڑنا اور پھر کچھ نہ پانا اور بالآخر عمارتوں کو اونچی کرنا بھی واضح طور پر ادبی صفات کی وضاحت ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ پچھلے دو ادوار میں جو شعرا آئے، ان سے تیسرے دور کے شعرا کا عمومی مرتبہ بلند تر ہے۔
اب ان شعرا کے مضامین کی بات سامنے آتی ہے۔تعریف میں آسمان سے تارے اتارنا کہہ کر کم ازکم میر اور سودا کے مرتبے کو تو وہ ظاہر کرہی دیتے ہیں۔ قدردانوں سے داد کے بجاے پرستش لینے کی بات پر جرح کیا کریں کہ یہ بات تو ثابت ہوچکی۔تمہید کے پہلے پیراگراف کے خاتمے میں تواور بھی بات واضح ہوجاتی ہے جب وہ سودا، درد اور میر کا تذکرہ کردیتے ہیں جس میں درد اور میر کے کلام کے بارے میں اثر میں ڈوبا ہونا اور سودا کے لیے مضمون کی بلندی او ر بندش کی چستی کا ذکر کرکے وہ پورے طور پر یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اس دور کے یہی تین شعرا ہیں جن کی بنیاد پر ہم نے تیسرے دور کی عمارت کھڑی کی ہے۔ تنقیدی اعتبار سے یہ ایسے امور ہیں جنھیں زبان کے اچھّے ذائقے کے ساتھ ہمیں بہر طور قبول کرنا چاہیے ورنہ کبھی یہ الزام عائد نہ ہوجائے کہ تنقید میں اچھّی زبان کے لیے گنجایش ہی نہیں رکھی گئی۔ایسا نہیں ہے کہ آزاد اس زمانے کے شعرا کی حدود سے واقف نہیں تھے۔ انھیں یہ بات یاد تھی کہ میر اور سودا کے عہد میں کون سا کام نہیں ہوسکا۔ آزاداردو شاعری کا یہ جائزہ انیسویں صدی کے اواخر میں لے رہے ہیں؛اور انھیں اپنے عہد کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے موازنہ اور مقابلہ بھی کرنا تھا۔ اس لیے انھوں نے تیسرے دور کے شعرا پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی واضح راے اس طرح پیش کی:
”اتنی بات کا افسوس ہے کہ اس ترقّی میں طبیعت کی بلند پروازی سے اوپر کی طرف رُخ کیا۔ کاش آگے قدم بڑھاتے تاکہ حسن و عشق کے محدود صحن سے نکل جاتے اور اُن میدانوں میں گھوڑے دوڑاتے کہ نہ ان کی وسعت کی انتہا ہے اور نہ عجائب و لطائف کا شمار ہے۔“
یاد رہے کہ یہ سطور اردو میں نظمِ جدید کے موسس محمد حسین آزاد کے قلم سے نکلی ہیں۔ آزاد کے ذہن میں کئی باتیں ہیں۔ میر و سودا نے ہماری زبان کی ترقّی میں جو حصّہ لیا، اسے وسعت کے نقطۂ نظر سے دیکھیں یا عمق کے اعتبار سے تَولیں؟ یہ ترقّی عمودی ہے یا افقی؟ ادب کی تاریخ کے مجموعی سرماے میں آزاد اختصاصی رویّہ اپناتے ہیں اور یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ ترقّی جس قدر بلندی کی طرف رُخ کرتی ہو لیکن اس میں وہ وسعت نہیں آپائی جسے بعد کے شعرا نے حاصل کیا۔ پہلا تو یہی کہ حسن و عشق کے ان مضامین کے دائرے سے یہ شعرا نئی دنیا کی سیر تک نہیں پہنچ پائے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آزاد کے ذہن میں انجمنِ پنجاب کی سرگرمیوں کے دوران عالمی ادب کا جو ابتدائی تصوّر تشکیل پا رہا تھا؛تیسرے دور کے عظیم شعرا کے احتساب کے مرحلے میں اس گہری تنقیدی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ اسی وجہ سے ممکن ہوا۔ ان کا معروضہ واضح ہے کہ ان عظیم شعرا کو اپنے ادب کو موضوعاتی اور ترقّی یافتہ دنیا کی طرف بھی لے جانا تھا۔ اب اس زبان کو کوئی غیر تنقیدی کہے تو اسے زیادتی سمجھنا چاہیے۔
محمد حسین آزاد کا مزاج لسانیاتی تنقید و تحقیق سے آراستہ ہے۔ ’آبِ حیات‘ ہی نہیں، اور کتابوں میں بھی وہ زبان کے آغاز اور ارتقا، لفظوں کے استعمال اور ترک، فصیح وغیر فصیح، رائج اور غیر رائج اور دیسی اور بدیسی کی بہت ساری اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اِسے اپنے زمانے میں لسانیاتی شعور کہہ سکتے ہیں۔ انھی وجوہات سے محمد حسین آزاد اپنی تحریروں میں ادبی حسن و قبح کی جانچ پرکھ میں اکثر لسانیاتی نہج سے غور و فکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تیسرے دور کی بحث میں آزاد کا وہ لسانیاتی رُخ واضح لفظوں میں سامنے آیا ہے۔ متعلّقہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
(الف) حقیقت میں ان سب کو زبانِ اردو کی اصلاح کا حق حاصل ہے لیکن اپنے استادوں اور بزرگوں سے یہی سنا کہ مرزا جانِ جاناں، سودا، میر، خواجہ میر درد چار شخص تھے کہ جنھوں نے زبانِ اردو کو خراد اتارا ہے۔“
(ب) ”طبقۂ سوم کے اشخاص جو عمارتِ اردو کے معمار ہیں، انھوں نے بہت سے الفاظ پُرانے سمجھ کر چھوڑ دیے۔“
(ج) ”بہت سی فارسی ترکیبیں جو مصری کی ڈلیوں کی طرح دودھ کے ساتھ منہ میں آتی تھیں، انھیں گھُلایا۔“
(د) ”پھر بھی بہ نسبتِ حال کی، بہت سی باتیں ان کے کلام میں ایسی تھیں کہ اب متروک ہیں۔“
(ہ) ”جو زبان دلّی کی، ان کے اوائلِ کلام میں تھی، وہی وسط میں نہ تھی۔ پھر وہی اواخر میں نہ تھی۔ یقینا تینوں زبانوں میں ظاہر اور واضح امتیاز ہوئے ہوں گے۔“
مذکورہ اقتباسات سے ان کی لسانیاتی توجّہ اور ناقدانہ اوّلیات کے بارے میں کچھ نشانات مقرّر کیے جاسکتے ہیں۔ لفظ و بیان اور محاورہ و ترکیبات کے سلسلے سے ان کی باتیں بلاشبہ نَپی تُلی ہیں۔ جب وہ مانتے ہیں کہ تیسرے دَور کے شعرا نے زبان کی ترقّی میں افقی رُخ نہیں اپنایا، اس لیے بعض کام ترقّی کے باب میں بچے رہ گئے۔ اس لیے محاسبے میں محمد حسین آزاد تنقیدی رُخ اختیار کرنے کے باوجود واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ اسی دور کے شعرا عمارتِ اردو کے معمار ہیں۔ کیا یہ واضح تنقیدی جملہ نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کا کہنا کہ بہت سارے پُرانے الفاظ یا ان کے استعمال سے انھوں نے اپنا دامن داغ دار نہیں کیا۔ طبقۂ سوم کے شعرا کی یہ صفت بھی بیان کی کہ فارسی کی ترکیبوں کو جو مصری کی ڈلیوں کی طرح دودھ کے ساتھ منہ میں آچکی تھیں، انھیں گھُلایا۔ اس جملے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس عہد کے شعرا نے تراکیبِ فارسی میں واضح تصرّف کیا اور جس نئی شکل میں اس کی پیش کش ہونی چاہیے، وہ کام کرکے انھوں نے دکھا دیا۔اس نسل کے شعرا نے نئی زبان کی تشکیل کے لیے جو اصولی کوششیں کیں، اس کا واضح خاکہ آزاد کے ان جملوں میں موجود ہے لیکن ایک انصاف پسند ناقد کی حیثیت سے اپنے سے سو سواسو برس پہلے کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے محمد حسین آزاد نے یہ بھی بتایا کہ ان کے یہاں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جنھیں اب قوم نے متروک کے دائرے میں رکھ چھوڑا ہے۔

محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور
(’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کے خصوصی حوالے سے۔ حصّہ دوم)

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

آزاد نے ادوار کی تقسیم کو اپنی کتاب کی بنیاد میں رکھا تو اس سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ادب کے عہد بہ عہد ارتقا کا اُن کے ذہن میں واضح تصوّر ہے۔ بعض تذکرہ نگار بھی اس ادوار بندی کے قائل تھے لیکن جب سودا، میر اور خواجہ میر درد کے کلام پر اجمالی گفتگوکرتے ہوئے آزاد گویا ہوتے ہیں تو اس کی ایک نئی شکل سامنے آتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ادب میں فطری طور پر فرق ہونا چاہیے۔ محمد حسین آزاد نے خود تیسرے دور میں ایک فارمولہ وضع کیا ہے: ”ہمارے زبان دانوں کا قول ہے کہ ساٹھ برس کے بعد ہر زبان میں ایک واضح فرق پیدا ہوجاتا ہے۔“ یہ تو کہیں سے سُنی سنائی بات آزاد نے لکھ ماری ہے لیکن ان کی درّاکی کا نمونہ دیکھنا ہو تو میر، سودا اور درد کی زبان پر اس اصول کے نفاذ میں دیکھنا چاہیے۔ یہاں میر، سودا اور درد کی زبان کے فرق کو الگ الگ پہلوؤں سے وہ واضح کرتے ہیں اور تفصیل کے ساتھ اپنے خصوصی مطالعے میں جگہ دیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ، ہماری زبان کا غالباً یہ پہلا نقاد ہے جس نے ایک شاعر کی زبان کے مطالعے میں ابتدا، وسط اور آخر کا پیمانہ وضع کیا۔ یعنی نقّاد یہ مان کر چل رہا ہے کہ ایک شاعر کے یہاں بھی زبان و بیان کا ایک مرحلہ وار ارتقائی نقشہ موجود ہونا چاہیے۔ اس کے اسباب بھی آزاد مثال دے کر بتاتے ہیں کہ جس شاعر کی طویل عمر ہے، اس کے یہاں کیسے یہ ممکن ہے کہ زبان ایک ہی نشانے سے پرواز کرتی رہے۔ ممکن ہے، تیسرے دور کے جائزے کو انھوں نے نگاہ میں نہ رکھا ہوتا تو شاید ہی یہ تنقیدی اصول ان کی پکڑ میں آتا۔ کیوں کہ اس عہد میں میر، سودا اور درد تینوں کی مشقِ سخن ساٹھ سال سے زیادہ کی تھی۔ میرؔ نے تو تقریباً پچھتّر برس کی مشق جاری رکھی۔ اس لیے محمد حسین آزاد کو اُن عظیم شعرا کے کلام کو بہ نظرِ احتساب دیکھتے ہوئے یہ پیمانۂ نقد قائم کرنا پڑا جسے ہمارے زمانے کا ہر نقّاد استعمال میں لاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود آزاد نے اپنی معذرت پیش کردی ہے کیوں کہ انھوں نے بتایا کہ دواوین میں اشعار کی ترتیب میں عہد کا تصوّر بہت کم ہے۔ اس وجہ سے شعرا کے ارتقائی گراف کو سمجھ کر، ان سے کوئی ادبی نتیجہ برآمد کیا جائے، یہ اس وقت ممکن نہیں تھا۔
’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور میں چھے شعرا کا ذکر ہے جسے آزاد نے اس ترتیب سے پیش کیا ہے: مرزا مظہر جانِ جاناں، عبدالحئی تاباں، مرزا محمد رفیع سودا، میر غلام حسین ضاحک، خواجہ میر درد، میر سوز اور محمد تقی میر۔ پہلے شاعر کے انتخاب میں مرزا مظہر کا نام اس وجہ سے بھی منتخب ہوا ہے کہ وہ بزرگ ہیں اور اس عہد کے بڑے شعرا کے استاد بھی ہیں۔ یہ زمانہ اردو شاعری کا عہدِ زرّیں ہے، اس لیے آزاد نے یہ دھیان رکھا کہ جو اہم شعرا ہیں، ان پر گفتگو تفصیل سے اور گہرائی کے ساتھ کی جائے۔ مرزا مظہر مع تاباں تقریباً دس صفحات میں جگہ پاتے ہیں۔ مرزا مظہر جانِ جاناں کی زندگی اور ادبی مرتبے کے سلسلے سے بہت طرح کے قصّے اور کہانیاں اس عہد میں رائج ہیں۔ آزاد تو خود کہی سُنی باتوں میں نمک مرچ کے ساتھ چٹخارہ قائم کرنے کے عادی تھے جس کے استعمال کا انھیں مرزا مظہر کے احوال میں بھی بہت موقع تھا۔ واقعات اور قصّے کہانیوں سے تذکرۂ مظہر دل چسپ بن گیا ہے لیکن ہمیں ان کے خاص تنقیدی بیانات سے غرض ہے، اس لیے ’آبِ حیات‘ کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
(الف) اگرچہ نظم کے جوش و خروش اور کثرتِ کلام کے لحاظ سے میر اور سودا کے ساتھ ان (مرزا مظہر جانِ جاناں) کا نام لیتے ہوئے تامّل ہوتا ہے۔
(ب) بزرگوں کی زبان سے بھی یہی سنا کہ زبان کی اصلاح اور اندازِ سخن اور طرز کے ایجاد میں انھیں ویسا ہی حق ہے جیسا کہ سودا اور میرکو۔“
(ج ) مرزا صاحب کی تحصیل عالمانہ نہ تھی مگر علمِ حدیث کو با اصول پڑھا تھا۔
(د) یہ مقامِ تعجّب نہیں کیوں کہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے۔ اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیال ہیں، ان کے اصل حال ہیں۔
(ہ) زبان ان کی نہایت صاف و شُستہ و شفّاف ہے۔
(و) اس وقت کے محاورے کی کیفیت کچھ ان کے اشعار سے… معلوم ہوگی۔
(ز) جو سودا اور میر کی زبان ہے، وہی ان کی زبان ہے۔
(ح) اسی لطافتِ مزاج اور نزاکتِ طبع کا نتیجہ ہے کہ زبان کی طرف توجّہ کی اور اسے تراشا کہ جو شعرا پہلے گزرے تھے، انھیں پیچھے ہی چھوڑ کر اپنے عہد کا طبقہ الگ کردیا اور اہلِ زبان کو نیا نمونہ تراش کر دیا جس سے پُرانا رستہ ایہام گوئی کا زمینِ شعر سے مٹ گیا۔
مرزا مظہر کے سلسلے سے ’آب حیات‘ کے یہ تنقیدی شذرات واضح لفظوں میں اور آج کی زبان میں جو باتیں کہتے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
(۱) ایہام گوئی کو جانِ جاناں نے اپنی تحریک سے مٹایا۔
(۲) شعری زبان صاف ستھری تھی اور میر و میرزا سے ہم سری کرتی تھی۔
(۳) عاشقانہ جوش و جذبے سے مملو اُن کی شاعری تھی۔
ان مفاہیم کے تعلّق سے ہم آج بھی کہاں اختلاف کرتے ہیں؟ غور کریں تو جانِ جاناں کے سلسلے سے جو تحقیق وتنقید ہوئی، وہ اسی اجمال کی تفصیل ہے۔ محمد حسین آزاد کو مظہر کی حدود کا بھی علم ہے، اس لیے ان کا تذکرہ شروع کرتے ہوئے پہلے جملے میں ہی یہ بتادینا ضروری سمجھا کہ میر اور سودا کے ساتھ مرزا مظہر کا نام لیتے ہوئے انھیں تامّل تھا۔ یہ جملہ تنقیدی اعتبار سے ان کی احتیاط کا مظہر ہے۔ یہ بھی بتانا انھوں نے مناسب سمجھا کہ مرزا مظہر کا (ادب کے سلسلے سے)عالمانہ رشتہ نہیں تھا۔ آزاد یہ مانتے ہیں کہ مرزا مظہر علمِ حدیث کے عالِم ہیں لیکن ان کی استادانہ حیثیت کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ادبیات کے معاملے میں ان کا علم اس معیار کا نہیں معلوم ہوتا جسے وہ ’عالمانہ‘ کہہ سکتے تھے۔ ایہام گوئی اور اصلاحِ زبان کے امور میں آزاد نے مرزا مظہر کے لیے جو توثیقی جملے نچھاور کیے ہیں، وہ اُن کے زمانے کے اعتبار سے مناسب ہیں کیوں کہ مغربی لالٹینوں کی چمک، فارسی کی بجھتی ہوئی شمع اور دکنی کے چراغ کی لَو کی رنگا رنگی میں آنے والے وقت کا ادبی مزاج کس طرح متعیّن ہو؛ اس کے مسائل بہت الجھے ہوئے تھے۔ آنے والے وقت میں ساری رونقیں مشترک ہوجائیں گی یا ان میں سے ایک کی چکاچوندھ میں دوسری ماند پڑ جائے گی، اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس لیے محمد حسین آزاد نے اصلاحِ زبان کے رہنما کی خدمات کا اعتراف کیا حالاں کہ آج کی تحقیق اور نئے تجزیہ نگاروں کی مانیں تو ایہام گوئی سے ادب میں تجربہ پسندی کا رُخ قائم ہوتا ہے اور اصلاحِ زبان تو ایک ردِّعمل کی تحریک ہے۔ محمد حسین آزاد نے تاریخ کی پیچیدگی میں الجھنا ضروری نہیں سمجھا ورنہ یہاں ایہام گوئی کے مٹنے کا سرسری ذکر نہ ہوتا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دورِ اوّل میں جب ولی اور ایہام گو شعرا کا آزاد جائزہ لیتے ہیں تو ان کی شاعری کے نفسِ مضمون پر بھی اپنی واضح راے دیتے ہیں اور انھیں محمد شاہی آداب کے متوازی ایک کیفیت قرار دیتے ہوئے ان کی دو صفات واضح کرتے ہیں،ملاحظہ ہوں:
(الف) ایجاد کے بانی اور اصلاح کے مالک تھے۔ ملک کی زبان میں جو کچھ کیا، اچھا کیا؛ جو کام باقی ہے، اچّھے نکتہ پردازوں کے لیے چھوڑ چلے گئے۔
(ب) ہر مکان جلسے کے بعد درہم برہم ہوتا ہے مگر یہ اس طرح سجا کر چلے ہیں کہ جو اِن کے بعد آئیں گے، آرایش و زیبایش کے انداز سوچ سوچ کر پیدا کریں گے۔
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ محمد حسین آزاد ایہام گوئی کی ادبی اہمیت کو سمجھتے تھے لیکن مرزا مظہر کے سلسلے سے گفتگو کرتے ہوئے انھیں اس بات کا خیال نہ رہا کہ مظہر کی خدمات میں زبان کا نیا راستہ وضع کرنے کے لیے اگر انھیں داد دی جاتی ہے تو اسی کے ساتھ ایہام گویوں کو مٹانے کے ادبی حساب کتاب پر بھی گفتگو درکار تھی۔ اس کے باوجود اگر مرزا مظہر کے بارے میں محمد حسین آزاد کے خاص خاص نکات غور کرلیں تو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ آزاد کی باتیں تنقیدی اعتبار سے بالکل صاف اور شفّاف ہیں اورمظہر جانِ جاناں کے لیے کم و بیش آج بھی درست ہیں۔
تیسرے دور میں عبدالحئی تاباں اور ضاحک کا ذکر تو ہے لیکن یہاں آزاد نے قصّے کہانیوں کی اہمیت پر زیادہ توجّہ دی اور انھیں احتساب کے لیے منتخب نہیں کیا۔ آزاد کا ذہن ”آبِ حیات“ کی تخلیق کے دوران ایک ساتھ وقوعہ نگاری اور Literary gossiping میں مشغول رہتا تھا لیکن انھیں معلوم تھا کہ ’آبِ حیات‘ کو بہر طورتاریخ نویسی اور تنقید نگاری کے ترازو میں تَولا جائے گا۔ اس لیے تاباں کے تعلّق سے ادبی پہلو بھی ذکر میں آگیا۔ تھوڑا شکوہ اور شکایت، کچھ تعریف اور پھر تضحیک؛ اپنی حکمتِ عملی کو ثابت کرنے کے لیے ذراسا سیاسی شعور کا استعمال۔ یہی حال مرزا ضاحکؔ کے بیان میں بھی موجود ہے۔ واقعات اور چھیڑ چھاڑ کو بہ صراحت درجِ گزٹ کیا لیکن ادبی نمونے کی شمولیت اوران کے ادب پر واضح راے پیش کرنا آزاد نے ضروری نہیں سمجھا۔ کیا اسے غفلت کہیں گے یا یہاں محمد حسین آزاد کی اس تنقیدی نگہ کو اہمیت دی جائے جس کے تحت انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ تاریخِ ادب اور تہذیب کی کڑی کو پورا کرنے کے لیے تاباں اور ضاحک بالترتیب مرزا مظہر اور سودا کی حیات کے بعض گوشوں کومکمل کرنے کی غرض سے لازم ہیں لیکن اردو کے منتخب شعرا کی فہرست میں انھیں شامل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی لیے تاباں اور ضاحک کے تذکرے میں ان کی شعر و شاعری کا محاسبہ ندارد ہے۔
ادبی انتخاب میں یہ توجّہ دوسرے شعرا میر سوز اور خواجہ میر درد کے سلسلے کی گفتگو میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ وہاں بھی بہت گہرا انہماک شاید اس لیے نہیں کیوں کہ آخر میر و سودا کے تذکرے میں اس دَور کو اپنے عروج پر ہونا ہے۔ اٹھارویں صدی کے اِن شعرا کو محمد حسین آزاد نے اپنے عہد کے عظیم شعرا کے پہلو بہ پہلو رکھ کر اس بات کی بھی نشان دہی کردی ہے کہ یہ اہم تو ہیں لیکن میر و سودا نہیں۔ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ میر و میرزا کے دور میں اپنا نام محفوظ کرا لینا اور تاریخِ ادب کے تذکرے میں جگہ پالینا بھی بڑا کارنامہ ہے۔ خواجہ میر درد کے بارے میں محمد حسین آزاد نے دوچار اہم واقعات بھی پیش کیے ہیں لیکن ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف تنقیدی پہلوؤں پر توجّہ کی جاتی ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
(الف) خواجہ میر درد صاحب کی غزل سات شعر، نو شعر کی ہوتی ہے مگر انتخاب ہوتی ہے۔
(ب) چھوٹی بحروں میں جو اکثر غزلیں کہتے تھے گویا تلواروں کی آب داری نشتر میں بھر دیتے تھے۔
(ج) خیالات ان کے سنجیدہ اور متین تھے، کسی کی ہجو سے زبان آلودہ نہیں ہوئی۔
(د) تصوّف جیسا انھوں نے کہا، اردو میں آج تک کسی سے نہیں ہوا۔
درد کی شاعری کے بارے میں مذکورہ جملے کم از کم یہ وضاحت لازمی طور پر کردیتے ہیں کہ خاص خاص کون سی خوبیاں درد سے متعلّق ہیں جو انھیں ممتاز کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آزاد یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ باتیں تو ہم بہت سنتے ہیں لیکن درد کا کلام پڑھ کر انھی چار باتوں کو گانٹھ میں باندھ لینا چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ اُس وقت تک خواجہ میر درد کے سلسلے سے کوئی تحقیق نہیں ہوئی تھی لیکن ’آ بِ حیات‘ کے نتائج سے آج کی خالص تنقیدی نسل بھی کچھ زیادہ اختلاف نہیں کرسکتی۔ درد کی اختصار پسندی اورمزاج کی سنجیدگی سے شعری کیفیت کے ساتھ مضامینِ تصوّف کی صاف اور سادہ زبان میں پیش کش سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ہمارے عہد کی زبان اور اصطلاحیں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن کام کی بات اسی قدر ہے جو محمد حسین آزاد کہہ گئے۔
تیسرے دور میں Minor poet کے طور پر خواجہ میر سوز کا ذکر ہواہے۔ درد کے مقابلے یہاں واقعات زیادہ ہیں۔ شخصیت شناسی کے لیے بہت سارا مسالہ جمع کردیا گیا ہے۔ خواجہ میر سوز کے بارے میں محمد حسین آزاد کے مشاہدات خاص ادبی خصوصیات کی وضاحت میں حسب ذیل ہیں:
(الف) ان کی طبعِ موزوں کے آئینے کو جس طرح فصاحت نے صفائی سے جلا کی تھی، اسی طرح ظرافت اور خوش طبعی نے اس میں جوہر پیدا کیا تھا۔
(ب) میر سوز مرحوم کی زبان عجب میٹھی زبان ہے اور حقیقت میں غزل کی جان ہے۔
(ج) ان کی انشا پردازی کا حسن، تکلّف اور صنّاعیِ مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔
(د) غزل میں دو تین شعر کے بعد ایک آدھ پُرانا لفظ ضرور کھٹک جاتا ہے۔
(ہ) ان کا کلام صفائیِ محاورہ اور لطفِ زبان کے باب میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔
(و) ان کے شعر ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے کوئی چاہنے والا اپنے چاہتیے عزیز سے بیٹھا باتیں کررہا ہے۔
(ز) میر سوز جیسے سیدھے سیدھے مضمون باندھتے تھے، ویسے ہی آسان آسان طرحیں بھی دیتے تھے بلکہ اکثر ردیف چھوڑ کر قافیے ہی پراکتفا کرتے تھے۔
(ح) ان کے شعر کا قوام فقط محاورے کی چاشنی پر ہے۔
(ط) اضافت، تشبیہ، استعارہ، فارسی ترکیبیں ان کے کلام میں بہت کم ہیں۔
میر سوز کے بارے میں ایک ادبی تاریخ نویس سے ہمیں اور کون سی اطّلاع چاہیے؟ آزاد نے اپنے مطالعے کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے بہت ساری کارآمد باتوں کو یہاں درج کردیا ہے۔ سوز نے روایت سے کیا لیا اور اس میں کون سے اضافے کیے، ان پر اپنی راے موجود ہے۔ میر سوز کا سادگیِ زبان کے سلسلے سے میر اور سودا کی زبان سے مقابلہ کرتے ہوئے محمد حسین آزاد نے جو چند جملے پیش کیے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہدِمیر و سودا کے شعراکی مخصوص زبان اورعہد کے عمومی مزاج پر اُن کی کتنی گہری نظرتھی۔ ملاحظہ کیجیے:
”وہ (میر سوز) اپنی محبّت کی باتوں کو اس طرح باندھتے تھے کہ شعر کی موزونیت کے لیے لفظوں کو آگے پیچھے کرنا بھی گوارا نہ سمجھتے تھے۔ میر تقی کہیں کہیں ان کے قریب قریب آجاتے ہیں، پھر بھی بہت فرق ہے۔ وہ بھی محاورہ خوب باندھتے تھے مگر فارسی کو بہت نباہتے تھے اور مضامین بلند لاتے تھے۔ سودا بہت دور ہیں کیوں کہ مضامین کو تشبیہ و استعارہ کے رنگ میں غوطے دے کر محاورے میں ترکیب دیتے ہیں اور اپنے زورِ شاعری سے لفظوں کو پس و پیش کرکے اس بندوبست کے ساتھ جڑتے تھے کہ لطف اس کا دیکھنے ہی سے معلوم ہوتا ہے۔“
یہاں تینوں شعرا الگ الگ رنگ میں ہمارے سامنے آتے ہیں اور سب کا اختصاص ایک نظر میں سمجھ میں آجاتا ہے۔ میر و میرزا کا رنگِ سخن تو کسی کو بھی معلوم ہوجائے گا لیکن محمد حسین آزاد نے واضح لفظوں میں میر سوز جیسے Minor Poetپر توجّہ کی اور اپنے معقول ادبی نتائج پیش کیے۔
’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کی تمہید میں شعرا کے استقبال کے لیے پہلا جملہ یوں کہا گیا ہے: ”اس مشاعرے میں ان صاحب کمالوں کی آمد آمد ہے جن کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹی جاتی ہے۔“ ظاہر ہے، یہ جملہ مرزا مظہر، تاباں، ضاحک، میر سوز اور یہاں تک کہ خواجہ میر درد کے لیے نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ بات میر اور سودا کو چھوڑ کر اُس عہد کے کسی دوسرے شاعر کے بارے میں کہی جاتی تو وہ جھوٹ اور ناقابلِ یقین ہوتی۔یہ سچّائی بھی ہے کہ کوئی زمانہ اپنے ممتاز افراد کے کارناموں سے پہچانا جاتا ہے اور اس کے معیار کی ضمانت بھی وہی چند منتخب اشخاص ہوتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے اسی لیے میر و سودا کا تذکرہ جی لگا کر اور قدرے تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اس میں محبّت، خلوص اور اپنی زبان کے سربلندوں کے سامنے انکسارانہ انداز میں آداب بجا لانے کا انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں ادبی Gossiping نہیں ہے یا اس عہد کی ادبی اور علمی سیاست کے کچھ چھینٹے یہاں نہیں پڑے ہیں۔ ان سب باتوں کے بغیر محمد حسین آزاد کی نہ طبیعت سیر ہوگی اور نہ پڑھنے والوں کا ایک بڑا طبقہ انھیں میسّر آئے گا۔ اس لیے اُس عہد کو اصلی شکل میں دکھانے کے لیے قصّے کہانیاں، ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے کے معمولات ان دونوں شعرا کی زندگی کے احوال میں بھی موجود ہیں۔ لیکن آزاد کے ذہن کی بنیادی تنقیدی صفت پر توجّہ دیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ان شعرا کے بارے میں ان کے معروضات بڑے گہرے اور تنقیدی ہیں۔ ’آبِ حیات‘ کے بعد جو نئی تنقید پیدا ہوئی، میر اور سودا کے باب میں آزاد سے سب نے استفادہ کیا۔
’آبِ حیات‘ میں اکثر و بیش تر اس بات کا التزام ہے کہ شعرا کی شخصیت پر لازماً اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ محمد حسین آزاد نے بھی شخصیت شناسی کے حصّے پر پوری توجّہ صرف کی بل کہ اس کتاب کی عوامی مقبولیت میں قدیم شخصیات کے مرقعے واقعتا بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اکثر وبیش تر یہاں آزاد کی زبان اور انشا پردازی اپنے شباب پر ہوتی ہے۔ سودا کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے مختلف لطائف اور واقعات پیش کرکے سودا کی شرافت اور صاف گوئی کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ یہاں بادشاہ، نواب، شعرا، دوست، دشمن اور عام لوگوں سے ان کے تعلّقات کی نوعیت کا بھی پتا چلتا ہے۔ سودا کی ہجو گوئی کے بارے میں آج یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی طرف سے پہل نہیں کرتے تھے لیکن حقیقت میں اس بات کی مقبول ابتدا محمد حسین آزا د سے ہوتی ہے کیوں کہ اس سلسلے میں ’آبِ حیات‘ میں واضح جملے اس طور پر لکھے ہوئے ہیں: ”یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتدا سودا کی طرف سے کم ہوتی تھی۔ ہاں کوئی چھیڑ دیتا تھا تو پھر یہ بھی حد سے پَرے پہنچا دیتے تھے۔“
سودا کی مرزا فاخر مکیں اور ضاحک سے معرکہ آرائیاں بہت مشہور ہیں۔ معرکوں کے بارے میں محمد حسین آزاد کوبڑھا چڑھا کر لکھنا پسندہے لیکن اس وقوعہ نگاری میں بھی کیمرے کی آنکھ سودا کی شخصیت کے پہلو در پہلو روشن کرنے میں ہی کام آتی ہے۔ مرزا فاخر کے اشارے پر شہر کے بدمعاشوں نے سودا کو گزند پہنچائی تھی۔ سعادت علی خاں نے سزا کا فیصلہ کیا تو سودا نے جو کہا، وہ ان کی شخصیت کو روشن کرتا ہے۔ ’آب حیات‘ کی زبانِ دل پذیر میں وہ بات ملاحظہ ہو:
”سودا کی نیک نیتی دیکھنی چاہیے۔ ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جنابِ عالی! ہم لوگوں کی لڑائی کاغذ، قلم کے میدان میں آپ ہی فیصل ہوجاتی ہے، حضور اس میں مداخلت نہ فرمائیں۔ غلام کی بدنامی ہے۔ جتنی مدد حضور کے اقبال سے پہنچی ہے، وہی کافی ہے۔“
سودا کی شخصیت سازی کے ساتھ محمد حسین آزاد کا اصل کام ان کے ادبی مقام و مرتبے کے مطابق پیش کرنے کا تھا۔ وہ جگہ جگہ ایسے جملے لکھتے چلتے ہیں جن سے سودا کا ادبی اور علمی مقام بہ آسانی متعیّن ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے سے سب سے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’آب حیات‘ کے بکھرے ہوئے جملوں کو ترتیب کے ساتھ مطالعہ کریں جس سے یہ جانچا جاسکتا ہے کہ محمد حسین آزاد نے سودا کو کس درجے کا شاعر قرار دیا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
(الف) شہرِ دہلی کو اُن کے کمال سے فخر ہے۔
(ب) تھوڑی دیر کے لیے پُرانے محاوروں سے قطعِ نظر کرکے دیکھیں تو (ان کا کلیات) سرتاپا نظم اور انشاے اردو کا دستور العمل ہے۔
(ج) زمینیں سنگلاخ ہیں اور ردیف قافیے بہت مشکل مگر جس پہلو سے انھیں جما دیا ہے، ایسے جمے ہیں کہ دوسرے پہلو سے کوئی بٹھائے تو تمھیں معلوم ہو۔
(د) مرزا کی زبان کا حال نظم میں تو سب کو معلوم ہے کہ کبھی دودھ ہے کبھی شربت مگر نثر میں بہت بڑی مشکل ہوتی ہے۔ فقط مصری کی ڈلیاں چبانی پڑتی ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ نثرِ اردو ابھی بچّہ ہے۔
(ہ) ان کا کلام کہتا ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھِلا رہتا ہے۔
(ز) کلام زورِ مضمون کی نزاکت سے۔۔۔۔ دست و گریباں ہے۔
(ح) رنگینی کے پردے میں مطلبِ اصلی گُم نہیں ہونے دیتے۔
(ط) ان کے ہم عصر استاد خود اقرار کرتے تھے کہ جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں، وہ اس شخص کے پیش پا افتادہ ہیں۔
(ی) جن اشخاص نے زبانِ اردو کو پاک صاف کیا ہے، مرزا کا اُن میں پہلا نمبر ہے۔
(ک) فارسی محاوروں کو بھاشا میں کھپاکر… ایک کیا ہے۔
(ل) مرزا اکثر ہندی کے مضمون اور الفاظ نہایت خفیف طور پر تضمین کرکے زبانِ ہند کی اصلیت کا حق ادا کرتے تھے۔
سودا کے شایانِ شان اس سے بڑھ کراور کون سا توصیفی یا تنقیدی جملہ ممکن ہے کہ ’شہرِ دہلی کو اُن کے کمال سے فخر ہے‘۔ اسے ظاہر میں تو ایک ہی جملہ کہا جائے گا لیکن یہ مضامین اور کتابوں جیسا ہے۔ محمد حسین آزاد نے سودا کے کلّیات کو اردو شاعری کا ’دستورالعمل‘ کہا۔ اب کون سی زبان میں کوئی تنقید لکھے اور بتائے کہ سودا کا لکھا ہمارے لیے آئینِ زبان ہے۔ ان کے ہم عصروں کی زبانی انھوں نے کیا خوب صورت اعتراف کرایا کہ جو باتیں دوسرے مشقّت کے ساتھ شعر میں پیوست کرتے ہیں، وہ باتیں سودا فطری طور پر کس طرح سے پیش کرتے ہوں گے کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم عصر شعرا کی ایجادیں سودا کے سامنے پیش پا افتادہ ہیں۔ اس بیان میں محمد حسین آزاد سودا کے شاعرانہ ذہن سے ان کے دیگر ہم عصروں سے موازنہ کرتے ہوئے اپنی بات پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس دور میں رنگینیِ بیان کا چسکا بہت تھا اور قدرتِ کلام میں اس صفت کا بھی سکّہ بیٹھا ہوا تھا۔ سودا جب عہد ساز شاعر ہیں تو انھیں بھی یہ کام کرنا تھا لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی شاعر کا اصلی مرتبہ کن باتوں سے طے ہوگا۔ محمد حسین آزاد اٹھارویں صدی کی محمد شاہی روشوں کے قائل نہیں تھے۔ وہ ادب کے وسیع میدان میں سفر کرنے والے نقّاد تھے۔ اس لیے سودا کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے یہ جملہ بھی پیش کیا: ’رنگینی کے پردے میں مطلبِ اصلی گُم نہیں ہونے دیتے‘۔
ایسا نہیں ہے کہ محمد حسین آزادکو سودا کی حدود کا پتا نہیں۔ جب ان کے کلیات کو ’نظم اور انشاے اردو کا دستور العمل‘ کہا تو اس پر یہ شرط بھی عاید کی کہ ’تھوڑی دیر کے لیے پُرانے محاوروں سے قطعِ نظر کرکے دیکھیں۔ یعنی دوسرے معاملوں میں تو سودا کی شاعری دستورالعمل کا درجہ رکھتی ہے لیکن جب زبانِ قدیم کا رنگ سودا پر غالب آتا ہے تو سودا ہمارے لیے قابلِ اتباع نہیں ہوتے۔ سنگلاخ ردیف و قوافی اور زمینوں کی طرف سودا کی استادانہ توجّہ پر محمد حسین آزاد نے بجا اعتراض قائم کر رکھا ہے۔ سودا کی مثنویوں کے بارے میں بڑی صفائی سے تاثّر پیش کیا اور یہ کہہ دیا کہ عاشقانہ مثنویاں ان کے مرتبے کے لائق نہیں۔ میر حسن مرحوم تو کیا، میر صاحب کے ”شعلۂ عشق“ اور ”دریاے عشق“ کے مقام کو بھی نہیں پہنچتیں۔ اسی کے ساتھ آزاد نے سودا کی نثر نگاری کو بھی لائقِ توجّہ سمجھا۔شمالی ہندستان کے اردو شعرا میں سودا اس اعتبار سے اوّلیت رکھتے ہیں کہ انھوں نے نثرِ اردو کی طرف توجّہ کی اور اپنے دیوان کے چند صفحات اس زبان میں رقم کیے لیکن محمد حسین آزاد نے صاف صاف کہا کہ سودا کی استادانہ حیثیت الگ مگر ان کی نثر پڑھنے سے پتا چل جاتا ہے کہ ’نثرِ اردو ابھی بچّہ ہے‘۔ سودا کی مرثیہ گوئی کے بارے میں بھی آزاد نے بڑی صفائی سے اپنی باتیں پیش کی ہیں۔ اس سلسلے سے جو جملے استعمال ہوئے ہیں؛ اگر آزاد کے خیالات سودا کی قصیدہ گوئی اور غزلیہ شاعری کے بارے میں کسی شخص کو نہ معلوم ہوں تو اس کی نظر میں سودا ایک نہایت ہی معمولی شاعر قراردیے جائیں گے:
”مرثیہ گوئی کی آج کی ترقّی دیکھ کر ان کا ذکر کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ شاید انھی مرثیوں کو دیکھ کر اگلے وقتوں میں مثل مشہور ہوئی تھی کہ ”بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویّا مرثیہ خواں“۔
محمد حسین آزاد اپنے مطالعے میں لسانیاتی طَور کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں۔ سودا کے احوال میں بھی اس پہلو سے انھوں نے اپنی توجّہ مبذول کی۔ فارسی محاوروں کو اپنی زبان میں کھپا کر سلیقے سے پیش کرنے کے لیے انھوں نے سودا کو داد دی ہے۔ زبان کی اصلاح کرنے یا نکھارنے میں سودا نے کیا کارنامہ انجام دیا، اس کے لیے ان کا مشہور جملہ ہے: ”جن اشخاص نے زبانِ اردو کو پاک صاف کیا ہے، مرزا کا اُن میں پہلا نمبر ہے“۔ سودا اور ان کے عہد کے دیگر بڑے شاعروں نے اس عہد میں زبان کے فروغ کے سلسلے سے جو کارہاے نمایاں انجام دیے، انھیں محمد حسین آزاد نے اپنے خاص انداز میں جائزہ لیتے ہوئے کچھ یوں کہاہے:
”بہارِ سخن کے گلچینو! وہ ایک زمانہ تھا کہ ہندی بھاشا کی زمین جہاں دوہروں کا سبزۂ خودرَو اُگا ہوا تھا، وہاں نظمِ فارسی کی تخم ریزی ہوئی تھی۔ اس وقت فارسی کی بحروں میں شعر کہنا اور ادھر کے محاورات کو ادھر لینا اور فارسی مضامین کو ہندی لباس پہنانا ہی بڑا کمال تھا۔ اس صاحبِ ایجاد نے اپنے زورِ طبع اور قوتِ زبان سے صنعتوں اور فارسی کی ترکیبوں اور اچھوتے مضمونوں کو اس میں ترتیب دیا اور وہ خوبی پیدا کی کہ ایہام اور تجنیس و غیر صنائع لفظی جو ہندی دہروں کی بنیاد تھے، انھیں لوگ بھول گئے۔ ایسے زمانے کے کلام میں رطب و یابس ہوتو تعجب کیا، ہم اس الزام کا بُرا نہیں مانتے۔“ یہ اقتباس اس بات کا غمّاز ہے کہ مصنّفِ ’آبِ حیات‘ کی نگہہ میں زبانِ اردو کے ارتقا کی مختلف کڑیاں کس ترتیب اور سلیقے سے جمع ہیں۔
اٹھارویں صدی کے شعرا کے بارے میں محمد حسین آزاد کا ذہن اتنا واضح ہے کہ انھیں ان کی قدر و قیمت پہچاننے میں کبھی کوئی خاص دشواری نہیں ہوئی۔ اوصاف کو شرح و بسط سے غور و فکر کا موضوع بنانے کا رجحان تو ’آب حیات‘ کے صفحات میں بھرا ہوا ہی ہے لیکن دَور اور اشخاص کے بارے میں تمہید میں جس طرح سے اجمالی گفتگو کا ہنر اس دور میں دیکھنے کو ملتا ہے، اسے انفرادی جائزوں میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ سودا پر تفصیل سے چھوٹی بڑی ہر بات کو سمیٹنے کی کوشش کے باوجود آزاد نے ان کے اجمالی مرتبے کی وضاحت میں جو چند جملے پیش کیے ہیں، اس کی مثال واقعتا کوئی کتاب کیا ہوگی؟ ملاحظہ کیجیے سودا کے کارناموں پر محمد حسین آزاد اپنی انشاپردازانہ تنقید سے کیا کہہ گئے ہیں:
”انھی کا زورِ طبع تھا جس کی نزاکت سے دو زبانیں ترتیب پاکر تیسری زبان پیدا ہوگئی اور اسے ایسی قبولیتِ عام حاصل ہوئی کہ آیندہ کے لیے وہی ہندستان کی زبان ٹھہری جس نے حکّام کے درباروں اور علوم کے خزانوں پر قبضہ کیا۔ اسی کی بدولت ہماری زبان فصاحت اور انشا پردازی کا تمغہ لے کر شائستہ زبانوں کے دربار میں عزّت کی کرسی پائے گی۔ اہلِ ہند کو ہمیشہ ان کی عظمت کے سامنے ادب اور ممنونی کا سر جھکانا چاہیے۔ ایسی طبیعتیں کہاں پیدا ہوتی ہیں کہ پسند عام کی نبض شناس ہوں اور وہی باتیں نکالیں جن پر قبولِ عام رجوع کرکے سالہا سال کے لیے رواج کا قبالہ لکھ دے۔“

محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور
(’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کے خصوصی حوالے سے۔ حصّہ سوم)

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کی ایک منزل اگر مرزا محمد رفیع سودا ہیں تو اس کی آخری منزل محمد تقی میرؔ ہیں۔ انھی دونوں کے تذکرے کے لیے یہ پورا نظام کھڑا کیا گیا ہے۔ دونوں ہم عصر تو تھے ہی، قصیدہ اور غزل کا نقطۂ عروج بھی نہ صرف اس زمانے میں تسلیم کیے گئے بل کہ آج بھی پوری قوم کم و بیش اس راے پر قائم ہے۔ ’آبِ حیات‘ کے بعد سے اب تک میر کے سلسلے سے اس قدر تحقیق و تنقید ہو چکی ہے کہ ہم گذشتہ صدیوں کے ناقدوں کے مقابلے زیادہ واقف ہیں اور ہمارے علمی نتائج بھی خاصا اعتبار رکھتے ہیں۔ میر کے بارے میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تحقیق سے میر کی شخصیت اب زیادہ روشن ہے اور جیسے جیسے میر کے عہد سے ہماری دوری بڑھتی جارہی ہے، ہم میر شناسی کے فرائض میں زیادہ مستعد اور سرگرم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ’آبِ حیات‘ کے صفحات میں میرؔ کے بارے میں جو باتیں درج ہوئی ہیں، وہ آج بھی اپنی تنقیدی اور انشا پردازانہ اہمیت کے اعتبار سے کار آمد ہیں۔ میر کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے آزاد نے جن مخصوص واقعات کو یہاں جمع کرکے میر کے شاعرانہ بُت کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے، اسے آج بھی از کارر فتہ تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔
محمد تقی میر کے جائزے میں شخصیت پر زور زیادہ ہے۔ میر کے مزاج کی کجی کس طرح مستحکم ہوتی چلی گئی، اس کا گوشوارہ یہاں موجود ہے۔ انھی واقعات کے بیچ میر کے شاعرانہ امتیازات اور تاریخی مقام کے سلسلے سے بھی گفتگو جاری رہتی ہے۔ میر کی شخصیت سازی میں انھوں نے ان کے دنیا زار اور بے دماغ و بد دماغ ہونے کے سلسلے سے مصدّقہ واقعات پیش کرکے میر کی ویسی ہی شخصیت اُبھاری ہے جیسے کبھی میر تھے یا ہوں گے۔ کم وبیش ابھی تک ایسے ہی میر ہمیں دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی خوب کہ ایسے ہی میر سے لاکھوں شیدائی محبّت کرتے ہیں۔ بڑی کتابوں کا یہ بھی خاصا ہے کہ ان کے مشتملات عوامی طور پر اس طرح معروف ہوجاتے ہیں اور اعتبار حاصل کر لیتے ہیں جن کا کوئی بدل ممکن نہیں۔ تذکروں سے میر کی شخصیت کے بارے میں ہم تک جو کچھ بھی پہنچا، وہ اپنی جگہ لیکن ان باتوں کو جوڑ کر آزاد نے میر کی جو مکمّل شبیہہ تیار کی، وہ نہ صرف یہ کہ دل آویز ہے بل کہ وہ اس طرح سے ہمارے اجتماعی حافظے کا حصّہ ہے جیسے ہم سب نے کبھی نہ کبھی میر کو دیکھا تھا۔
’آبِ حیات‘ میں شعرا کے مرقّعے ہر چند کہ آدھے ادھورے ہیں لیکن زبان اور واقعات کے زور سے وہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آزاد اگرانفرادی طور پر خاکہ نگاری کو موضوع بناتے یا ہر اہلِ قلم کا خاکہ لکھنا ہی طے کرتے تو یہ ممکن ہے کہ ان ادھورے مرقّعوں کی جگہ پوری تصویروں کی گنجایش نکل آتی۔ دیباچے میں آزاد نے ’آبِ حیات‘ کی تحریر کے بارے میں یہ جملہ لکھا ہے: ”جہاں تک ممکن ہو، اس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی پھرتی چلتی تصویریں سامنے آن کھڑی ہوں۔“
یہ سب کام انھیں ادبی تاریخ نویسی اور منضبط تذکرہ نگاری کے دائرۂ کار میں رہ کر کرنا تھا۔ اسی لیے تفصیل کے بجاے انھیں بعض مقامات پراشارے اور کنایے میں اپنی بات مکمّل کرنی تھی۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ میر کی ادبی شخصیت کو اُبھارنے کے لیے محمد حسین آزاد نے آخر کون سے حربے استعمال میں لائے اور کیا اِن واقعات سے میرویسے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ ’آبِ حیات‘کے مصنّف کو پیش کرنا تھا:
(۱) میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انھیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے ناز ک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارغ البالی سے محروم رکھّا اور وہ وضع داری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔“
(۲) ”نتیجہ یہ کہ فاقے کرتے تھے، دکھ بھرتے تھے اور اپنی بد دماغی کے سایے میں دنیا واہلِ دنیا سے بے زار گھر میں بیٹھے رہتے تھے۔“
(۳) ”اپنی بے نیازی اور بے پروائی کے ساتھ دنیاے فانی کی مصیبتیں جھیلیں اور جو اپنی آن تان تھی، اسے لیے دنیا سے چلے گئے۔“
اس طرح میرؔ کی وہ شخصیت اُبھرتی ہے جِس نے اُنھیں اپنے مخصوص رنگ کا انسان بنایا۔ فاقہ مستی کی یہ لَے اُردو کی ادبی تاریخ میں شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے یہاں موجود ہو۔ اِس کے لیے میرؔ کو اپنی زندگی میں جتنا چُکانا پڑا، اسے بھی آزادؔ نے اپنی صراحت میں جگہ دی ہے۔
میرؔ کے شاعرانہ مقام کے بارے میں ’آبِ حیات‘ کی تصنیف کے زمانے میں بھی کوئی کلام نہیں تھا۔ محمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘ میں جو تیسرا دور قائم کیا، وہاں بھی سودؔا اور میرؔ کا جائزہ ہی مقصود تھا۔ اس لیے آزادؔ نے میرؔ کے سلسلے سے واقعات اور تنازعات کے ساتھ اُن کے شاعرانہ مرتبے کی پیش کش کو بھی اُسی قدر اہمیت بخشی۔ میرؔ کا تعارف ابتدائی طور پر اُنھوں نے اِن لفظوں میں کرایا:
(الف) گنجفۂ سخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدردانی نے اُن کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پھولوں کی مہک بناکر اُڑایا۔ ہندستان میں یہ بات اُنھی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔
(ب) اُنھوں نے زبان اور خیالات میں جِس قدر فصاحت اور صفائی پیدا کی، اُتنا ہی بلاغت کو کم کیا ہے۔
(ج) اُن کا صاف اور سُلجھا ہوا کلام اپنی سادگی میں ایک انداز دِکھاتا ہے اور فِکر کو بجاے کاہش کے لذّت بخشتا ہے۔ اِسی واسطے خواص میں معزّز اور عوام میں ہر دِل عزیز ہیں۔
(د) دِل کے خیالات کو جو کہ سب کی طبیعتوں کے مطابق ہیں، محاورے کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کردیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔
(ہ) مصیبت اور قِسمت کا غم جو ساتھ لائے تھے، وہ دُکھڑا سناتے چلے گئے جو آج تک دِلوں میں اثر اور سینوں میں درد پیدا کرتے ہیں۔
(و) اُن کا کلام صاف کہے دیتا ہے کہ جِس دِل سے نکل کر آیا ہوں، وہ غم و درد کا پُتلا نہیں، حسرت واندوہ کا جنازہ تھا۔
(ز) جو لفظ مُنہ سے نکلتا ہے، تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔

میرؔکی شاعری کے سلسلے سے مذکورہ اقتباسات یہ واضح کرتے ہیں کہ محمد حسین آزادؔ نے اُن کے بارے میں جو راے قائم کی، اُس میں ہمارے زمانے میں کچھ اضافے تو ضرور ہوئے لیکن بنیادی نکات کم و بیش وہی ہیں۔ آزاد بے شک سُنی سُنائی باتوں اور تذکروں کی آرا کو بنیاد بناتے ہیں لیکن وہ براہِ راست شاعرانہ نمونوں سے میرؔ کی خصوصیات اخذ کرتے ہیں جس کے سبب اُن کے نتائج سرسری نہیں ہوتے بل کہ اُن کے جملوں میں میر شناسی کے اوّلین نشتر چھُپے ہوئے ہیں جن سے استفادہ کرکے ہماری تنقید آگے بڑھتی ہے۔ آزادؔ کے اکثر تنقیدی نتائج سے اب بھی ہم زیادہ اختلاف نہیں کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میر شناسی کے لیے ہم نے یہیں سے اپنے چراغ روشن کیے۔ محمد حسین آزادؔ نے میرؔ کی شاعری کی اثرانگیزی اور زبان کی سادگی کو بنیادی اہمیت عطا کی۔ شایدہی کسی دوسرے نقّاد کو آزادؔ کی اِس راے میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت پڑے۔ اِسے تنقیدی کمال ہی کہنا چاہیے کہ آزاد نے جو باتیں کہیں،انھیں سب نے تسلیم کرلیا۔
محمد حسین آزاد لسانی مباحث کو اپنی تنقید کا ایک حِصّہ سمجھتے تھے۔ میرؔ پر گفتگو کے دوران انھوں نے زبان کی باریکیوں، تصرّفات اور دیگر مسئلوں کی طرف ہمارا دھیان مبذول کیا۔ فارسی سے ترجمہ تو اُس زمانے کی خاص روِش ہے، اُس کا بھی آزادؔ نے جائزہ لیا۔ وہ لکھتے ہیں:
(الف) میرؔ صاحب نے اکثر فارسی کی ترکیبوں کو یا اُن کے ترجموں کو اُردو کی بنیاد میں ڈال کر ریختہ کیا۔…… اکثروں کو جوں کا توں رکھا۔ بہت اُن میں سے پسندِ عام کے دربار میں رجسٹری ہوئیں اور بعض نامنظور۔
(ب) قادر الکلامی کے تصرّف کرکے اپنے زورِ زبان کا جوہر دکھایا ہے۔
(ج) ایسے تصرّفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ اُنھیں اِس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورے کو اصلیت پر مقدّم سمجھتے تھے۔
(د) میرکے کلام کے لیے فقط محاورۂ اہلِ اُردو ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں۔
عہدِ میرؔ کی زبان پر گفتگو کرتے ہوئے دوسروں بالخصوص سوداؔ سے میرؔ کو الگ کرتے ہوئے محمد حسین آزادؔ نے جو نتائج اخذ کیے ہیں، وہ آج ہمارے لیے ایک آفاقی حقیقت کی طرح ہیں۔ قاضی عبدالودود کے مضامین اور ڈاکٹر عبدالرشید کی کتاب ”فرہنگِ کلامِ میرؔ“ (چراغِ ہدایت کی روشنی میں) کی اشاعت کے بعد میرؔ کی یہ صفت اور واضح ہوجاتی ہے اور تصرّفاتِ میرؔ کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ میرؔ کی یہ صفات ہم تک سب سے بہتر طریقے سے محمدحسین آزادؔ نے پہنچائی تھیں۔
میرؔ کے تصوّرِعشق پر طرح طرح کی باتیں اُس عہد کے کُتب ورسائل میں موجود ہیں۔ میرؔ کی شخصیت کو بعض مصنّفین نے صِرف اُسی حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ محمد حسین آزاد نے غرور اور بددماغی پرتو توجّہ دی لیکن میرؔ کی عشق وضعی کو طول نہ دیا۔ شعر سے جو مفاہیم برآمد کیے، وہاں بھی لُطف اور اختصار کا آمیزہ تیار ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
”اُن کا کلام کہے دیتا ہے کہ دِل کی کلی اور تیوری کی گِرہ کبھی کھُلی نہیں۔ باوجود اس کے اپنے مُلکِ خیال کے ایک بلند نظر بادشاہ تھے اور جتنی دُنیا کی سختی زیادہ ہوتی، اُسی قدر بلند نظری سے دماغ زیادہ بلند ہوتا۔“
اس تجزیے سے محمد حسین آزاد کی شخصیت شناسی کے تہذیبی پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ بقا کے سلسلے سے تنازعات کو محمد حسین آزاد نے خاص اہمیت دی۔ ہم موضوع اشعار کے لیے اردو اور فارسی شعرا کی چند مثالیں بھی پیش کیں لیکن یہ اشارہ کردیا کہ میر کے تصرّف میں کوئی نئی بات لازماً اُبھر کر سامنے آگئی ہے۔ یہاں بھی ادبی نقّاد کا انھوں نے بہترین فریضہ ادا کیا اور میرؔ کی اُس صفت کی جانب ہمیں دھیان دِلایا کہ وہ مضامین تو دوسروں کا چُن سکتے ہیں لیکن اُنھیں پیش کرنے میں وہ اپنی انفرادی لَے کو کیوں کر بھُولیں۔ میر کی اولاد کے سلسلے سے ایسے مختصر اور دِل آویز جُملے نکلے جہاں لفظوں میں روح ڈال دی گئی ہے: ”میرؔ صاحب کے بیٹے لکھنو میں مِلے تھے۔ باپ کے برابر نہ تھے مگر بد نصیبی میں فرزندِ خلف تھے۔“
میر کے جائزے کو مکمل کرتے ہوئے ’آبِ حیات‘ کے دو مختصر اقتباسات لازم ہیں کیوں کہ یہاں اجمال میں آزادؔنے میرؔ کی شخصیت، شاعری اور عہد کا ایک ایسا حقیقت پسندانہ نقشہ پیش کیا ہے جو صِرف اور صِرف میرؔ سے ہی متعلّق ہو سکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
(الف) ”جو اشخاص اُس زمانے میں قدردانی کے خزانچی تھے، اُن کے خیالات اعلا اور حوصلے بڑے تھے۔ اس لیے یہ بے دماغیاں اُن کے جوہرِ کمال پر زیورمعلوم ہوتی ہیں۔“
(ب) ”اُنھوں نے دنیا کے باب کی طرف نہ دیکھا۔ خُد انے اُن کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے، آج تک لوگ ورق اُلٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔“
احوالِ میرؔ میں محمد حسین آزادؔ نے میرؔ شناسی کے بعض بنیادی امور بہت سلیقے سے اور مخصوص انداز میں پیش کرنے میں کامیابی پائی ہے۔ ادبی موشگافیوں پر حسبِ عادت یہاں بھی زور بہت ہے۔ اس کے باوجود محمد حسین آزادؔ نے میرؔ پر گفتگو کرتے ہوئے بہت ساری کام کی باتیں پیش کردی ہیں۔ اگر وہ میرؔ کے شاعرانہ امتیازات پر مزید توجّہ دیتے تو اُنھیں کلامِ میر میں کُچھ اور جواہر پارے ضرور حاصل ہوتے کیوں کہ’آبِ حیات‘ کے بعد کی صدی میں جب میرؔ کے شعری طِلسم خانے کی سیر میں نقّاد اور محقّقین نے اپنی زندگیاں صَرف کیں تو ایک مختلف شاعر کے طور پر میرؔ کا ورودِ مسعود ہوتا ہے۔ تیسرے دور کے مطالعے سے سوداؔ کا مقام تو بہت حد تک متعیّن ہوجاتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ محمدحسین آزادؔ نے میرؔ کے باب میں قصّے، کہانیوں اور ادبی نوک جھونک پر زیادہ توجّہ کی اور میرؔ کے ضخیم ادبی سرماے میں گہرے اُتر کر کُچھ نئے گوہر ڈھونڈنے میں مشقّت کم اُٹھائی جِس کی وجہ سے ’آبِ حیات‘ کے مطالعے سے یہ پتا چلنا مشکل ہوتا ہے کہ میرؔ ہماری زبان کے ایسے عظیم غزل گو کیوں ہیں جنھیں غالبؔ نے بھی فنِ شعر کا استاد کہا اور پوری قوم رفتہ رفتہ اُنھیں اپنی زبان کا سب سے بڑا شاعر کہنے میں حق بہ جانب معلوم ہوتی ہے۔
محمد حسین آزاد نے اَدوارتو ضرور قائم کیے اور ادب کے ایک سلسلے وار مطالعے کی طرف اہتمام سے قدم بڑھائے لیکن ان کے یہاں اجتماعی اور انفرادی ادبی خصوصیات کے باب میں شعرا کے بیچ موازنہ اور مقابلہ کرنے کی ایک مخصوص خواہش دکھائی دیتی ہے۔ادوار کی خانہ بندی کے بعد کسی نقّاد سے یہ سوال ہو ہی سکتا ہے کہ ان منتخب شعرا میں کون خاص ہیں اور کس کے امتیازات سب سے بڑھ گئے؟اس کام کے لیے موازنہ اور مقابلے کی ضرورت پڑتی ہے۔محمد حسین آزاد نے ہر دور کے شعرا کے درمیان موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ تحقیق کا موضوع ہے کہ شاعروں کے جو جوڑے مشہور ہوئے،ان میں کہیں ’آبِ حیات‘ کی بنیادی فہم تو شامل نہیں۔یہاں بھی میر وسودا،میر حسن اور دیا شنکر نسیم،غالب و ذوق،انشا و مصحفی اور انیس و دبیر کی جفت قائم ہے۔کبھی یہ مقابل ہیں،کبھی معاصر،کبھی حریف اور کبھی ہم چشم۔ایک دوسرے کے مخالفانہ رویّوں اور معرکوں کو آزاد نے خاصی اہمیت بھی دی ہے۔آزادکے بیان کا کیا جادو ہے کہ شاعروں کی چیقلش،آپسی نبرد آزمائیاں اور دوسرے کو کسی حال میں برداشت نہیں کرپا نے کی صورتِ حال کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے اور پڑھنے والا زیرِ لب مسکراتے ہوئے اپنے اسلاف کی چلتی پھرتی زندگی کو بھرپور طریقے سے دیکھتے ہوئے خوش ہوتاہے۔غور کریں تو شعرا کے ذکر کا یہ انداز ہمیں اُن سے مزید محبّتوں میں بھی گرفتارکر دیتا ہے۔ہمیں یہ یاد بھی نہیں ہوتا کہ اپنے بزرگوں کی جنگ اور ان کی ذات سے وابستہ بُرائیوں کو پڑھ رہے ہیں بل کہ اس کے بر عکس ہوتا یہ ہے کہ بزرگ شعرا کے بارے میں ہمیں طرح طرح کی معلومات کا دل چسپ خزینہ ہاتھ آ جاتا ہے۔ ’آبِ حیات‘ میں مختلف شعرا کے بیچ موازنہ و مقابلہ کی توضیح کی ایک دوسری صورت بھی سامنے آتی ہے۔یہاں محمد حسین آزاد کی تنقیدی صفت زیادہ روشن معلوم ہوتی ہے۔آزاد ادبی بُت قائم کرتے ہیں اور دوسرے بُتوں سے اُسے مسمار کرکے نئے بُت بناتے ہیں۔ہر عہد میں انھوں نے پہلے کسی شخص کو قائم کیااور اس کے فضائل پیش کیے لیکن اگلے مرحلے میں ادبی زندگی بدلتی ہے اور اب نیا بُت قائم ہوجا تا ہے۔ اس ہار جیت اور قدر دانی کے منصب پر بٹھانے اور ہٹانے میں ’آبِ حیات‘ کب انجام تک پہنچ گئی،یہ پتا ہی نہیں چلتا۔آزاد دلّی والے تھے اور دلّی کی زبان کا سکّہ اٹھارویں صدی پر اس طرح سے قائم ہے کہ ادبی مسلّمات سے انحراف کرنے کے لیے طرح طرح کے جواز اور دلائل و براہین لازم ہیں۔ایک لسانیاتی رجحان بھی ہے جس کے سبب وہ دو شاعروں کے بیچ موازنہ کرتے ہوئے زبان کے ارتقائی سفر کو بنیاد بناتے ہیں۔صَرف و نحو کے بدلتے زاویوں میں کسی زبان کے تخلیقی مراحل کے فرق کو جانچنا معمولی خطرے کا کھیل نہیں ہے۔لیکن آزاد ٹھہر کر ہر دَور کا الگ الگ جائزہ لیتے ہوئے دو شاعروں کے بیچ مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔تقابل کا یہ خاص انداز نہایت دل پسند ہے اورا س سے ابتداً وہ چھوٹے چھوٹے نتائج اخذ کرتے ہیں اور پھر اجتماعی طور پر پوری اردو کی تاریخ کے بارے میں اپنا نتیجہ ظاہر کر دیتے ہیں۔

محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور
(’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کے خصوصی حوالے سے۔ حصّہ چہارم)

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

محمد حسین آزاد کے اسلوبِ نگارش پر کوئی لکھے تو کیا لکھے۔کون ہے جو اُن کی عظیم انشا پردازانہ اہمیت کا قائل یا پرستار نہیں۔بات جب ’آبِ حیات‘ کے اسلوب کے خصوصی حوالے سے ہو تو یہ ایسی ہی ہے کہ آفتاب کو روشن ہونے کی دلیل پیش کرنی پڑے۔پھر کوئی مثال دے تو کہاں سے دے۔ ہر صفحہ اور ہر پیراگراف ان کے مخصوص اندازِ بیان کی چغلی کھا رہا ہے۔’آبِ حیات‘ میں الفاظ، فقرے اور جملے مخصوص ترتیب سے ہمارے سامنے آتے ہیں جیسے ہر پڑھنے والا یہ سمجھ جائے کہ یہ تحریر اور یہ اندازخاص محمد حسین آزاد کی جاگیر ہے۔کون سی بات محمد حسین آزاد کیسے لفظوں اور تراکیب میں پیش کریں گے؛یہ ہمارے دلوں میں بَسا ہوا ہے۔لیکن ادب کے طالب علم کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس اسلوب کی تشکیل میں محمد حسین آزاد کے یہاں scheme of thingsکیا کیا ہیں۔جب تک ان کی تحریر کی چند باتوں کا جائزہ نہ لے لیا جائے، اس وقت تک آزاد کے اس طلسمی نگار خانے میں داخلے کا لطف کم کم آئے گا۔ہم خود کو تیسرے دور تک محدود رکھتے ہوئے چند مخصوص مثالوں کے حوالے سے اپنی گفتگو انجام تک پہنچائیں گے:
(الف) ۱۴ برس کی عمر میں باپ مر گئے۔ اسی مشتِ خاک کو بزرگوں کے گوشہء دامن میں باندھ دیا۔٣٠ برس کی عمر تک مدرسوں اورخانقاہوں میں جھاڑو دی اور جو دن بہارِ زندگی کے پھول ہوتے ہیں، انھیں بزرگوں کے روضوں پر چڑھا دیا۔ (مرزا مظہرجان ِجاناں)
(ب) نہایت افسوس ہے کہ وہ پھول اپنی بہار میں لہلہاتا گر پڑا۔ (تاباں)
(ج) صحراے نامیں میں ٧٩منزلیں عمر کی طے کر ٨٠ میں قدم رکھا تو دل کو آگاہی ہونے لگی کہ اب روحِ مسافر بدن کا بوجھ پھینکا چاہتا ہے۔ (مرزا مظہر)
(د) سودا بہ موجب رسمِ زمانہ کے، اوّل سلیمان قلی خاں ودادکے، پھر شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے۔ شاہ موصوف نے بھی اپنے دیوان کے دیباچے میں جو شاگردوں کی فہرست لکھی ہے، اس میں مرزا کا نام اس طرح لکھا ہے جس سے فخر کی خوشبو آتی ہے۔ (سودا)
(ہ) پیشہ توکّل تھا اوربے دماغی سے اسے رونق دیتے تھے۔ (فاخر مکیں)
(و) ان کی انشا پردازی کا حسن،تکلّف اور صنّاعیِ مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔ اس خوش نمائی کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہری بھری پر کٹورا سا دَھرا ہے اور سر سبز پتّیوں میں اپنا اصلی جوبن دکھا رہا ہے۔(میر سوز)
(ز) میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انھیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے نازک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارغ البالی سے محروم رکھا۔ اور وہ وضع داری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔(محمد تقی میر)
محمد حسین آزاد کے اسلوب کی ایک بات تو بہت مشہور ہے کہ اس میں ہر کام کی تمثیل موجود ہے۔’آبِ حیات‘ کے پہلو بہ پہلو محمد حسین آزاد نے ’نیرنگِ خیال‘ کے مضامین کی طرف توجّہ کی۔ رسائل وجرائد میں ان کے وہ مضامین نظر آنے لگے جنھیں کبھی ہم ترجمہ بھی کہتے ہیں لیکن ان کی شناخت تمثیلی شذرات کے طور پر ہے۔ان مضامین کو بعد کے زمانے میں بہ طورِ تمثیل سکۂ رائج الوقت کا درجہ حاصل ہوا۔اسے ماننے میں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے کہ تمثیل کی دنیا میں محمد حسین آزاد ’آبِ حیات‘ کے راستے سے’نیرنگِ خیال‘ تک پہنچے تھے۔’آبِ حیات‘ کے صفحات میں اشخاص اور صفات دونوں امور میں تمثیلیں قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مرئی اور غیر مرئی میں ایسا کھیل تماشا چلتا ہے کہ حقیقت اور گمان ایک دوسرے میں مدغم ہونے لگتے ہیں۔ حیات وکاینات کے اس محلول کی خوبی یہ ہے کہ اس انداز سے متن میں آزاد ایک ایسی کیفیت پیدا کردیتے ہیں جس میں پڑھنے والا اور دیکھنے والا عجیب وغریب ذائقہ محسوس کرنے پر مجبور ہو۔ حقیقت کو گمان بنا دینا اور گمان کو حقیقت میں تبدیل کر دینا تمثیل نگاروں کا جوہر ہے لیکن اس میں محمد حسین آزاد اپنی زبان کی روایت اور اس کے جادو سے دوسروں سے بہت الگ طَور اپناتے ہیں۔’سب رس‘کی عظمت کا کون انکاری ہوسکتا ہے لیکن تمثیلیں قائم کرنے کا محمد حسین آزاد نے جو ہنر پیدا کیا، اس میں عشق وعاشقی کے قصّوں کی کوئی بیساکھی نہیں ہے۔اگر اخلاق کی تبلیغ محسوس ہوتی ہے تو اس کی پشت پر دلیل،منطق اور حقائق کے تجزیے کی دانش بھی قائم ہے۔اگر یہ نہ ہوتا تو ’نیرنگِ خیال‘ کو جانسن اور ایڈیسن کی پوٹلی قرار دے دیا جاتا اور ”آبِ حیات“کی تمثیلوں کو تذکرہ نگاروں کے مرقّعوں کا اگلا قدم تسلیم کرکے خدا حافظ کہہ لیا جاتا۔
محمد حسین آزاد حقیقت میں ہمارے سب سے بڑے رومانی نثر نگار ہیں۔ شبلی سے لے کر سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری تک کون ہے جس نے آزاد سے استفادہ نہ کیا ہو ؟ ابوالکلام آزاد کی نثر پر بھی محمد حسین آزاد کی واضح پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔محمد حسین آزاد انگریزی زبان اور مغربی روشنیوں سے استفادہ کے قائل تھے۔مغرب کی رومانیت اور خاص طور پر اس کی شاعری میں پوشیدہ ماضی کی روایات اور رسومیات کو ”آبِ حیات“اور دوسری کتابوں کی نثر میں انھوں نے اس طرح سے سمویا ہے کہ اردو خواں آبادی نے زبان اور نفسِ مضمون کا ایک بالکل انوکھا ذائقہ پایا۔تاریخ کی مہتم بالشان تفصیل سے عہدِ حاضر میں تخیّل سازی کی جاسکتی ہے،اسے محمد حسین آزاد نے ’دربارِ اکبری‘ اور ’سخن دانِ فارس‘ میں بھی کچھ سیکھ لیا تھا لیکن ”آبِ حیات“ میں تخیل کو ہمارے عظیم شعرا شہ پر عطا کر دیتے ہیں۔یہ تاریخ نگاری کا ایسا طَور ہے جہاں پڑھنے والے کو ہر لمحہ قومی زیاں کا احساس ہوتا ہے۔اسی لیے وہ ایسی کتابوں کو ڈوب کرپڑھتا ہے۔ آزاد اگر رومانی دبستان کے موجدیا تربیت یافتہ نہ ہوتے تووہ آخر اس کیفیت کو کس طرح قابو میں کر لیتے کہ ان کے عہد سے لے کر آج تک ہمارے ایسے ہزاروں بڑے اصحابِ قلم ہیں جنھوں نے ”آبِ حیات“کو دس بیس اور پچاس باریا اَن گنت بار مطالعے کا حصّہ بنایا۔قدماکی کہانیاں موجود ہیں کہ کسی نے کہا کہ پچیس بار ”آبِ حیات“کا مطالعہ کرچکا ہوں تو اُس سے بڑے اہلِ قلم نے پہلے اس پر بدذوقی کی پَھبتی کَسی کیوں کہ اُن کا کہنا تھا کہ پچیس بار تو ”د ربارِ اکبری“ پڑھی ہے اور”آبِ حیات“ کتنی بار پڑھی،اس کا اندازہ ہی ممکن نہیں۔کیوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کے ساتھ ہمارے انشا پرداز وں کی صبحیں اور شامیں بسرہوتی ہیں۔بہ قولِ چراغ حسن حسرت: ’دن بھر غلط سلط اردو سنتے سنتے اور بولتے بولتے جب زبان خراب ہوجاتی ہے تو رات میں ’آبِ حیات‘ کے دو صفحے پڑھ لیتا ہوں‘۔ اگر ہمارے سابقین میں محمد حسین آزاد کی نثر کے شیدائی نہ ہوتے تو نہ جانے ہماری نثر سے حقیقت نگاری کے نام پہ کب کی شگفتگی اور محبوبانہ توجّہ رخصت ہوچکی ہوتی۔
محمد حسین آزاد میں حسِ لطیف اور حسِ مزاح کی مقدار کم نہیں تھی۔عربی اور فارسی کی تعلیم وتدریس کے باوجود مولویانہ پَن تو انھوں نے کبھی اختیار ہی نہیں کیا۔اس پر مستزاد، اس وقت انگریزی قمقے ادب اور سماج کی کیفیت تبدیل کررہے تھے۔اپنے اسلوب میں انھوں نے مزاح المومنین کا ذائقہ اس طرح شامل کیا کہ جب ایک عہد یا ایک لکھنے والے کی زندگی کی کسی ناہمواری پر راے زنی کرنی ہو تو ایسا جملہ وضع کیا جس میں ایک ساتھ مزاح، طنز اور خلوص شیر وشکر ہوکر اصل حقیقت کا بدل بن جائیں۔کبھی کبھی تو آٹھ دس لفظوں کے مختصر جملوں میں ایسی کیفیت بھر جاتی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ جملے کے آغاز میں ہم اقرار کی جس کیفیت پر تھے،درمیان تک پہنچتے پہنچتے وہ کیفیت بدل گئی اور انجام تک تو زندگی کی ایک علاحدہ جنگ شروع ہوگئی۔میر و سودا کے تراجم ملاحظہ کریں کیوں کہ یہاں زبان حیرت انگیز انداز میں ایسے لطیف پیراے میں ہمارے سامنے آتی ہے کہ اپنے سابقین کی زندگی کی رنگارنگی اور پھر پیش کش کے لیے محمد حسین آزاد کی قدرت پر محکم یقین آجاتا ہے۔’آبِ حیات‘ کی زبان میں جو مختلف لذّتیں اور استعجاب کی کیفیات بھری ہوئی ہیں،ان میں اگر آزاد کے اسلوب کا یہ رنگ اور ذائقہ نہ ہوتاتو بھلا یہ کتاب’آبِ حیات‘کیوں کر کہی جاتی؟
سوداکے بارے میں ان کے ہم عصروں کی راے کا اظہار کرتے ہوئے محمد حسین آزاد نے کہا تھا کہ ”جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں،وہ اس شخص کے پیش پا افتادہ ہیں۔“آزاد نے نہ جانے کس عالَم میں یہ جملہ نوکِ قلم سے ادا کردیا۔اردو نثر کی تاریخ پر توجّہ دیں تو ’سب رس‘،’نوطرزِ مرصع‘،’باغ وبہار‘،’فسانۂ عجائب‘ جیسی نادر کتابیں ہمارے پاس موجود تھیں جن میں زبان کا تخلیقی استعمال ایک خاص درجۂ کمال تک پہنچتا ہے۔لیکن ان سے ’آبِ حیات‘کی نثر کا موازنہ کریں تو جو بات سودا کے لیے انھوں نے کہہ رکھی ہے، وہ خود انھی پر صادق آتی ہے۔زبان اپنے آپ بڑھتی جاتی ہے،لفظ اپنے آپ آتے جاتے ہیں۔اثر آفرینی اور کیف کا دریا نہ جانے کہاں سے رواں دواں ہوتا ہے۔مطلب یہ کہ ایک بھی کوئی اسلوبیاتی تکلّف نہیں لیکن لکھنے والے کا کمال ہے کہ زبان اپنے ہنر کے عروج پر بیٹھی ہوتی ہے۔ پچھلے انشا پرداز اور صاحبانِ اسلوب سب نے مرصّع کاری اور اسلوبیاتی رمق کے لیے عربی اور فارسی تراکیب کو جمع کرنے کا منصوبہ بنایا اور کامیابی پائی۔حد تو یہ ہے کہ سادہ نثر کے شہ کار’باغ وبہار‘میں میر اّمن کے یہاں ایک لہر عربی و فارسی سے گریز کی ہے،تو اُسی کے ساتھ ان زبانوں کے تکلّفات اور کشش انگیزی کا طلسم وہاں پردے سے جھانکتے ہیں۔’سب رس‘اور ’نوطرزِمرصع‘ یا’فسانۂ عجائب‘ پر تو قوم نے یوں بھی رنگینی کا ٹھپّا لگا رکھا ہے۔ فارسی اور عربی سرمایۂ الفاظ یا نحو میں ان سے تصرّف لینا تو کوئی ملّاوجہی،عطا حسین خاں تحسین اور رجب علی بیگ سرور سے سیکھے۔محمد حسین آزاد عربی تعلیم کے پروردہ اوراسی زبان کے پروفیسر تھے لیکن اردو کے اگلے سفر کا انھیں راستا پتا تھا۔ وہ اردو کی ہندی نژادگی کے پرستار تھے؛ اسی لیے ان کے اس اسلوب میں عربی اور فارسی زبانوں کا وہ دباو نہیں جس سے قدمانے اپنے جگر میں لہو بھرا تھا۔ اسی لیے ”آب حیات“ایک نئی نثر کا آئینہ خانہ ہے۔
”آبِ حیات“صرف اردو شاعری کی تاریخ اور پانچ ادوار میں پھیلے منظر نامے کو سمیٹنے کا ایک ذریعہ نہیں۔محمد حسین آزاد ’انجمنِ پنجاب‘ کے سکریٹری اور اردو میں نظمِ جدید کے بانیان میں سے ہیں۔چاہے وہ شعرا پہ اجمالی گفتگو کررہے ہوں،یا اختصاصی؛عہد کا تعارف کرارہے ہوں یا اردو ادب کے بارے میں کوئی خاص نقطۂ نظر واضح کررہے ہوں؛ ہر جگہ ایک مستقبل پسند Futuristic رجحان قائم رہتا ہے۔زندہ قومیں مستقبل پر اپنی نظر رکھتی ہیں۔آزاد نے اپنے تنقیدی جائزے کی بنیاد اسی مستقبل پسندی پر قائم کی ہے۔ شاید ان کی تاریخ نویسی میں یہی وہ Conecting lineہے جس سے وہ ماضی اور حال کو جوڑ تے ہوئے ادب اور سماج کے آنے والے دریچوں تک پہنچتے ہیں۔سرسیّد کے یہاں بھی یہ نقطۂ نظر ہے لیکن ادبی روایت کے بارے میں وہ سُلجھا ہوا تصوّر وہاں موجود نہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ’آبِ حیات‘ کا ہر فیصلہ اور اس کے ادبی تجزیے کاہر رُخ مستقبل کے معاشرے کو سامنے رکھ کر مکمّل ہوا ہے۔ اس سے ”آبِ حیات“کی دائمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔اس ضمن میں ’آبِ حیات‘سے چند جملے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:
(الف) رنگین استعارات اور مبالغے کے خیالات گویا مثلِ تکیہ کلام کے زبانوں پر چڑھ گئے ہیں۔یہ عادت چھڑانی چاہیے۔
(ب) اس وقت زمینِ سخن میں ایک ہی آفت تو نہ تھی۔اُدھر تو مشکلاتِ مذکورہ اِدھر پُرانے لفظوں کا ایک جنگل۔جس کا کاٹنا کٹھن۔پس کچھ اشخاص آئے کہ چند کیاریاں تراش کر تخم ریزی کرگئے۔ان کے بعد والوں نے جنگل کو کاٹا، درختوں کو چھانٹا،چمن بندی کو پھیلایا۔ جو اُن کے پیچھے آئے، انھوں نے روشِ خیاباں داربست گلکاری نہال، گلبن سے باغ سجایا۔ غرض عہد بہ عہد اصلاحیں ہوتی رہیں اور آیندہ ہوتی رہیں گی۔جس زبان کو آج ہم تکمیلِ جادوانی کا ہار پہناتے خوش بیٹھے ہیں، کیا یہ ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟کبھی نہیں۔ ہم کس منہ سے اپنی زبان کا فخر کرسکتے ہیں۔کیا دورِ گذشتہ کا سماں بھول گئے؟ذرا پھر کردیکھ تو اُن بزرگانِ متقدّمین کامجمع نظر آئے گا کہ محمد شاہی دربار کی کھڑکی دار پگڑیاں باندھے ہیں۔ پچاس پچاس گز گھیرکے جامے پہنے بیٹھے ہیں۔وہاں اپنے کلام لے کر آؤ۔جس زبان کو تم نئی تراش اور ایجاد اور اختراع کا خلعت پہناتے ہو، کیا وہ اسے تسلیم کریں گے نہیں، ہرگز نہیں۔
’آبِ حیات‘میں ہر دور کی جو مختصر یا تفصیلی تمہیدیں لکھی گئی ہیں،انھیں بھی محمد حسین آزاد کے اس مستقبل پسند تاریخی شعور کا حصّہ سمجھنا چاہیے جہاں ہربات تاریخ کے کسی بہتے دریا سے چھَن کر آتی ہے اور پھر زمانۂ حال کے اوبڑ کھابڑ کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے مستقبل کے سمندر میں ہمیں پہنچا دیتی ہے۔ تاریخ نویسی کا یہ شعور ایک طرف تو خلوص، اپنائیت اور بے پناہ دل پذیری رکھتا ہے؛ دوسری طرف ادب کے سلسلے وار ارتقا کے بہت سارے بنیادی عناصر کی شمولیت سے یہ تجزیہ اعتبار حاصل کرتا ہے۔ہر شاعر کے ذکر میں اور اس کے کلام کے جائزے میں اردو کی ادبی روایت، زبان کے ارتقا کا عالمی تصوّر اور اپنی زبان کے مستقبل کی فکرمندی دکھائی دیتی ہے۔مستقبل پسندی کا یہ شعور اُن کے اختتامیہ کلمات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی کسی دور میں تو واقعی بہت مختصر خاتمہ ہے لیکن ان کے لفظوں کو غور سے دیکھیے تو وہاں بھی تاریخ کا یہی شعور موجود ہے۔ایسا لگتا ہے کہ آزادکے یہ سو سے پچاس الفاظ ہمیں قصیدہ کی گریز کے انداز سے ایک آن میں ایک دور کی کیفیت سے دوسرے دور میں پہنچا دیتے ہیں۔نہ پچھلوں پہ زیادہ الزام اور نہ اگلوں کو بے وجہ تاج وافسر سے نوازنا. کیوں کہ لکھنے والے نے یہ بنیادی اصول قائم کرلیا ہے کہ ہردور میں کوئی نہ کوئی ایسا اہلِ قلم ضرورسامنے آتا ہے جس نے اپنی بساط بھر بہترین کام کیا اور رخصت ہوگیا۔آزاد کے خاتمۂ کلام سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ’آبِ حیات‘کس طرح مختلف نسلوں کے خواب، کارکردگیوں اور محرومیوں کا سنگم ہے:
(الف) ”پہلا دور برخاست ہوتا ہے۔ ان مبارک صدر نشینوں کو شکر یے کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے کہ مبارک جانشینوں کے لیے جگہ خالی کرکے اٹھے۔ایجاد کے بانی اور اصلاح کے مالک تھے۔ ملک کی زبان میں جو کچھ کیا، اچھّا کیا؛جو کام باقی ہے، اچّھے نکتہ پر دازوں کے لیے چھوڑ چلے گئے۔ ہر مکان جلسے کے بعد درہم برہم معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس طرح سجا کر چلے ہیں کہ جو اُن کے بعد آئیں گے، آرایش وزیبایش کے انداز سوچ سوچ کر پیدا کریں گے“۔(پہلا دور)
(ب) ”اے فلک،نہ یہ جلسہ برہم ہونے کے قابل تھا، نہ آج رات کا سماں صبح ہونے کے قابل تھا۔ پھر ایسے لوگ کہاں! اور ایسے زمانے کہاں! سیّد انشا اور جرأت جیسے زندہ دل شوخ طبع باکمال کہاں سے آئیں گے؟“(چوتھا دور)
(ج) ”اے ہمارے رہنماؤ! تم کیسے مبارک قدموں سے چلے تھے اور کیسے برکت والے ہاتھوں سے رستے میں چراغ رکھتے گئے تھے کہ جہاں تک زمانہ آگے بڑھتا ہے، تمھارے چراغوں سے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ اور جہاں تک ہم آگے جاتے ہیں، تمھاری ہی روشنی میں جاتے ہیں۔ ذرا ان برکت والے قدموں کو آگے بڑھاؤ کہ میں آنکھوں سے لگاؤں۔ اپنا مبارک ہاتھ میرے سر پر رکھو اور میرے سلام کا تحفہ قبول کرو۔“(پانچواں دور)
مذکورہ اقتباسات سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ’آبِ حیات‘ کی تصنیف میں آزاد نے ادبی تاریخ نویسی کی بنیاد کچھ طَے شدہ اصولوں پر رکھی۔ جن کی روح تاریخ کے اس تصوّر میں پوشیدہ ہے کہ بہ قولِ استادِ آزاد:
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور سارے جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
اسی لیے ایک توازن اور انضباط کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ یہیں محمد حسین آزاد کی تاریخ نویسی کا ایک دوسرا اصول سامنے آتا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ادب کے منظرنامے پر جو بزرگان کارہاے نمایاں انجام دیتے ہیں، ان کی قدرو قیمت وہ کس طَور پر سمجھتے ہیں۔ انھوں نے خود چوتھے دور کے اختتامیے میں لکھا:
”میرا دل خدا جانے کس مٹّی کا بنا ہے۔ کسی کی جدائی کا نام لیا، یہ پگھل گیا۔ کسی عزیز کا ذکر کیا، اس سے خون ٹپک پڑا اور سخت جانی دیکھو کہ نہ پانی ہو کر بہہ جاتا ہے، نہ خاک ہو کر رہ جاتا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ کتنے کتنے صدمے اٹھا چکا ہے، پھر بھی ہر داغ نیا ہی صدمہ دیتا ہے۔ مگر انصاف کرو، وہ عزیز بھی تو دیکھو، کیسے تھے اور کون تھے (عالَم کے عزیز تھے) اور ہر دل کے عزیز تھے۔ اپنی باتوں سے عزیز تھے۔“
’آبِ حیات‘ کی تنقیدی اور تحقیقی خامیوں کے باوجود اس کی بے پناہ مقبولیت پر غور کرتے ہوئے اکثر ناقدین اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ آج جب کہ ہماری تنقیدی اور تحقیقی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوتی گئی ہیں اور ادبی تاریخ نویسی یا تکنیکی بنیادوں پر شعر فہمی کی مشق بھی زیادہ ہو چلی ہے؛ اس کے باوجود ’آبِ حیات‘ کو قوم کیوں دل میں بسائے پھرتی ہے۔ اس بات کا جو اصل جواب ہے، وہ مذکورہ اقتباس میں اصول کی طرح سے پیوست ہے۔ ’آبِ حیات‘ ہمارے بزرگ شعرا کا میکانکی تذکرہ نہیں ہے جہاں ایک سلسلے سے لوگ آئے اور ان کی تفصیل بتائی گئی، پھر دھیرے دھیرے وہ رخصت ہوتے گئے۔ ’آبِ حیات، ایک ایسی تاریخی کتاب ہے جس کا مصنّف ہر بزرگ شاعر کے گزرنے پہ خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک ایک کا داغ اس کے سینے پہ چسپاں ہے۔ دل کے ان داغوں سے صرف میرؔ کی غزلیں تیار نہیں ہوئیں۔ ہماری زبان کا یہ بھی مقدّر ہے کہ اس میں انھی زخموں سے ایک تاریخی اور تنقیدی کتاب لکھی جاتی ہے جسے مصنّف نے کسی غیر معمولی لمحے میں ’آبِ حیات‘ کے نام سے پکارا۔ بڑا اہل قلم اپنے عہد اور کبھی کبھی آنے والے دور کے مسلّمات کو توڑ دیتا ہے اور خود کو ایسے پیش کرتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے اسے آخری اصول کی طرح پہچانیں۔ ’آبِ حیات‘ میں شعرا کا جائزہ تحقیق، تاریخ، تنقید سے بڑھتے بڑھتے تہذیبی وقوعہ اور اپنے اسلاف کا روشن ماتم خانہ بن جاتا ہے۔ ایسی کوئی کتاب نہ ماضی میں لکھی گئی تھی اور نہ حال میں کسی کو ایسا قلم نصیب ہوا جس کی روشنائی میں اسلاف کا لہو اور اپنا خونِ جگرایک ساتھ صَرف ہوا ہو۔ اسی لیے ’آبِ حیات‘ ہماری زبان کی تاریخ میں ایک ایسا مینارۂ نور ہے جس سے ایک طرف دور تک نئے ادب کی روشنی پھیلتی چلی جاتی ہے اور دوسری طرف جو اندھیرا ہے، اس میں ہمارے اسلاف کی بہترین کاوشیں اور ان کی معمار سازی کا اعتماد ان کے گزرنے کی سسکیوں کے ساتھ ہمارے مطالعے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔ محمد حسین آزاد ان دونوں سِروں کو جوڑ کر واقعی ہمیں ’آبِ حیات‘ پیش کر دیتے ہیں۔

Safdar Imam Quadri
Department of Urdu,
College of Commerce, Arts & Science, Patna: 800020, Bihar India
Email: safdarimamquadri@gmail.com
Mob: +91 -9430466321

آپ یہ بھی ملاحظہ فرمائیں : فلائنگ سِکھ کی آخری اُڑان:ہندستا نی ایتھلے ٹکس کاسرتاج رُخصت ہوا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے