یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

مشتاق نوری
بت چاہے خارج میں پتھر کا ہو یا ذہنی سوچ کا، دونوں برے ہی ہوتے ہیں۔ایسے سارے بتوں پر خدائی عدل و حکومت کا بلڈوزر چلا کر محض دین و شرع کی حاکمیت بحال کرنا داعی کا اولیں کام ہے۔ہمارے اندر چھپے یا چھپاۓ ان سارے بتوں کو "جاء الحق و زھق الباطل” سناتے ہوۓ کعبۂ قلب و نظر سے باہر پھینکنا ہوگا جو نہ صرف خدا کی وحدانیت کے رستے میں رخنہ ڈال رہے ہیں بل کہ حق کی اطاعت پر ہمیں عامل ہونے سے بھی مانع ہیں۔بت صرف یہ نہیں کہ آزر کی اقتدا میں سنگ تراش کر جان دار کا روپ ریکھا بنا لیا جاۓ۔برائی صرف یہ نہیں کہ ان خود تراشیدہ بتوں کی پوجا کی جاۓ۔بل کہ بت یہ بھی ہے کہ ہم اپنی خواہشوں کو خدا کی فرماں برداری سے الگ رکھیں۔اپنی ضرورتوں کو شرع کے مقاصد پر ترجیح دیں۔اپنے ارادے کو کھلا چھوڑ دیں۔بت یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر ذات پات کے جرثومے کلبلانے لگیں۔بت کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ انسان دولت کے نشے میں مد مست سانڈ بن جاۓ۔اس بت کا ایک بھیانک روپ یہ بھی ہے کہ انسان خود کو اشرف اور دوسرے کو ذلیل سمجھنے لگے۔ان مختلف رنگ و نسل کے چھوٹے بڑے بتوں کو پاش پاش کرنے کے لیے اس دور کو پھر کسی براہیمی انرجی کی ضرورت ہے۔اس کے لیے خلیل کو آنے کی ضرورت نہیں بس براہیمی پاور درکار ہے۔
یہ دور ایسا ہے کہ اس میں کسی بھی فروعی مسئلے پہ باہم دست و گریباں ہونے کی چنداں گنجائش نہیں بل کہ اصولی مسئلہ کو بھی آپ صرف علمی انداز میں رکھ سکتے ہیں کسی کو اس کا جبری پابند نہیں کر سکتے۔کسی مخالف حصے یا حلقے میں اپنی جمعیت کے بل پر داداگیری کرکے اس کا نفاذ نہیں کیا جاسکتا۔خاص کر ملک ہند کی داخلی صور ت حال ہمیں اس کی قطعی اجازت نہیں دیتی۔خانوں میں منقسم مدارس و خانقاہ کے افراد و اہل کاروں کو ایک دوسرے کی قدر سمجھنی ہوگی۔باہمی احترام بحال رکھنا ہی ہوگا۔اب مخلص علما و گہری درک والے فقہا کی پگڑیاں اچھالنے کی نامسعود روایت ختم کرنی ہوگی۔اس سوشل نیٹ ورکنگ دنیا میں قد سے بونے مولویوں پر، بے لگام درگاہیوں پر دین و شرع کی گرفت مضبوط رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ خود کو مجادلہ و مکابرہ سے دور رکھنا۔مختلف خانوں میں بنٹے مذہبی حلقوں کا بکھراؤ ہی اہل اسلام کی پس ماندگی اور اسلامی اقدار و روایات کی تنزلی کا سبب ہے۔ان مفاسد کی اصلاح فقط اخلاص سے ہی ممکن ہے۔اگر مذہبی حلقوں میں اخلاص آجاۓ تو حالات کروٹ لے سکتے ہیں۔ہمارے تئیں دنیا والوں کا نظریہ بدل سکتا ہے۔آخر یہ کتنی بڑی عجیب بات ہے کہ جس قوم کو اصلاح کائنات کا پیغمبرانہ کام سونپا گیا وہی فساد فی الارض کی محرک ہو۔
اہل فکر و نظر جانتے ہیں کہ آج ہمارے اندرونی خلفشار کے سبب دین و سنیت کی جتنی مختلف شکلیں وجود میں آئی ہیں اسننے دنیا کے ادنی و متوسط طبقہ کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔جناب حق میں اس کا جواب دہ کون ہوگا یہ سوچنا بھی ایمان کا حصہ ہے۔کاش گروہ علما و صوفیا محسوس کر پاتے کہ اسی فکری و طبقاتی کش مکش نے دین کا کتنا نقصان کیا ہے۔
یہ دور مجادلے، مکابرے یا مناظرے کا بالکل بھی نہیں ہے۔اور نہ ہی یہ دور طعن و تشنیع، لعنت و ملامت کا ہے۔یہ دور خالص اکیڈمک بحث، تحقیقی مذاکرے، سنجیدہ مکالمے کا ہے۔
صوفیا کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے حجروں سے،سجادوں سے باہر نکلیں۔جس جماعت کے کاندھے پر قوم کی روحانی نشو و نما کی ذمہ داری ہو، اسے گوشہ نشین ہونا، آرام پسند ہونا یا تن آسان ہونا زیب نہیں دیتا۔اسے قوم کی نشست و برخاست کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔قوم کے عروج و زوال پر پینی نظر رکھنی چاہیے۔اس صدی میں مادہ پرستانہ اصولوں کو بہت فروغ مل رہا ہے۔ملحدانہ نظریات اور مشرکانہ افکار کے چکا چوند ماحول میں عام سے آدمی کو یہ طے کرپانا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا یہ فقر و تنگ دستی کا زمزمہ ٹھیک ہے یا دنیا کی چمک دمک بھری سنگیت۔کئی بار آدمی دنیا کے شرک و ارتداد، الحاد و کفر کی نے رنگی سے مرعوب ہو کر دین بیزار بھی ہوجاتا ہے. 
اس صدی کا سورج علمی و تحقیقی متانت کی روشنی لیے طلوع ہوا ہے۔اب اسی کا وجود دھرتی پر خود کو بناۓ رکھنے میں کامیاب ہوگا جس کے اندر اکیڈمک بحث کا مادہ ہوگا۔تحقیقی و تعمیری تحریر و تقریر ہی زندہ رہے گی۔باقی دیگر تخریبی منہج سے کریدے گیے منفی رجحانات و میلانات سے آلودہ چیزیں ہوا ہوجائیں گی۔
دین و سنیت کا اقبال سلامت رہے اس کے لیے علما و صوفیا کو خالصا لوجہ اللہ مل کر کام کرنا پڑے گا۔اسلام کے عالم گیر "اصول جہاں بانی " کو عام کرنا ہوگا۔جہاں سازی کے دماغ سوز عمل میں اہل دنیا کا ہاتھ بٹانا ہوگا۔بل کہ ان کی نمائندگی کا بار سنبھالنا ہوگا۔”ساری دنیا مدعو ہے ہم داعی” یہ سلوگن دینا آسان ہے مگر اسے پروف کرکے دکھانا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔آج حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ ہمارے علما و صوفیا اگر اپنے سماج کو ہی اپنا مدعو سمجھ لیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔ویسے بھی شکست خوردہ یا دیوار سے لگی ہوئی قوم کی بہت اچھی بات بھی کسی طاقت ور گروہ کو متأثر نہیں کر پاتی۔قوم جب تک فارغ البال نہ ہوگی۔جب تک اس کے اقتصاد و معیشت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا نت نئی جنگوں، محاذ آرائیوں کا دور یوں ہی چلتا رہے گا۔لاچار قوم کی تباہی و بربادی تھوڑی دیر کے لیے ہم دردی تو بٹور سکتی ہے مگر پیروں پہ کھڑا کرنے کے لیے کوئی سہارا نہیں بنتا۔زمین پر جو قوم سرخ رو ہے اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ دوسرے کے لیے روڈ میپ تیار کرے۔گنگو تیلی کو یہ کب زیب دیتا ہے کہ وہ راجا بھوج کو اپنے اصولوں کا پابند کرے؟
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
(۲۴جون ۲۰۲۱ء)
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں : قران خوانی ضروری یا قرآن فہمی؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے