کتاب: افسانچے کا فن

کتاب: افسانچے کا فن

مرتب: محمد علیم اسماعیل
مبصرہ: افسانہ جون پوری

صدیوں سے قصہ کہانی سننا انسان کی فطرت میں شامل رہا ہے۔ جب اسے فرصت تھی تو وہ ایسے قصے پسند کرتا تھا جو جلد ختم نہ ہوں، جسے سن کر وہ خیالوں کی دنیا میں پرواز کرتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے زمانے کا ورق پلٹا انسان مصروف ہوتا گیا۔ اس نے مافوق الفطرت عناصر سے دامن چھڑا کر اپنی اصلی اور حقیقی دنیا کی باتیں کرنی شروع کر دی اور دھیرے دھیرے جدید دور کی شروعات ہوئی، جس میں ہزاروں صفحات پر لکھی جانے والی داستان سمٹ کر بہ تدریج  ناول میں، ناولٹ میں، افسانہ میں اور منی کہانی میں تبدیل ہو گئی۔ پھر اس کے بعد ان تمام اصناف کو نچوڑ کر اس کا عرق نکالا گیا جسے ہم افسانچہ کہتے ہیں۔ افسانچہ دراصل افسانے کی ہی مختصر شکل ہے۔
’افسانچے کا فن‘ میں ایم اے حق نے افسانچے کا موجد سعادت حسن منٹو کو کہا ہے جب کہ لفظ ’افسانچہ‘ عظیم افسانچہ نگار جوگندر پال کی دین بتائی ہے۔ پہلے پہل افسانچے کو وہ مقام حاصل نہیں تھا جس مقام پر وہ آج ہے۔ قاری اس صنف سے بےگانہ تھا اور آج یہ قاری کی پسندیدہ صنف بن گئی ہے۔
اس صنف کو قاری سے روبرو کرانے میں نیچے دیے گئے معروف افسانچہ نگاروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان ہی کی بدولت افسانچہ آج کے دور کی سب سے مقبول ترین صنف بن گئی ہے۔ اس صنف کو کامیاب بنانے میں منٹو، جوگندر پال، ڈاکٹر ایم اے حق، محمد بشیر مالیر کوٹلوی، رتن سنگھ، ڈاکٹر عظیم راہی، پروفیسر اسلم جمشید پوری اور رونق جمال کا اہم کردار ہے۔ اور اب اس میں علیم اسماعیل کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔
’افسانچے کا فن‘ محمد علیم اسماعیل کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ محمد علیم اسماعیل اکیسویں صدی کے ابھرتے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’رنجش‘ اور ’الجھن‘ منظرِ عام پر آچکے ہیں جسے اردو ادب میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
’افسانچے کا فن‘ اس کتاب کا انتساب مشہور و معروف افسانچہ نگار ڈاکٹر ایم اے حق کے نام ہے۔ کتاب میں مرتب کا مقدمہ اور ڈاکٹر ایم اے حق، محمد بشیر مالیر کوٹلوی، ڈاکٹر عظیم راہی، پروفیسر اسلم جمشید پوری، سرور غزالی (جرمنی)، رونق جمال، محمد فاروق کے مضامین شامل ہیں۔ مرتب نے سبھی مضامین اس طرح چنے ہیں جیسے کوئی باغ سے رنگ برنگے پھولوں کو چن کر گل دستہ تیار کرتا ہے۔
’افسانچے کا فن اور اقتباسات‘ عنوان کے تحت جوگندر پال، ڈاکٹر رضوان احمد، عبداللہ جاوید (کینیڈا)، دیپک بدکی، ڈاکٹر کیول دھیر، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، امجد مرزا امجد (لندن)، رؤف خیر، عارف نقوی (جرمنی)، بانو ارشد (یو-کے)، ڈاکٹر امام اعظم، احمد صغیر، خورشید اقبال، مراق مرزا اور احسان سہگل (ہالینڈ) کے مضامین سے ایسے اقتباسات چنے گئے ہیں جو کہ صرف افسانچے کے فن پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ اقتباسات پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’ڈاکٹر ایم اے حق اور افسانچہ نگاری کا فن‘ سے ماخوذ ہیں۔
’افسانچے کا فن اور تاثرات‘ والے حصے میں افتخار امام صدیقی، نذیر فتح پوری، عارف خورشید، پروفیسر حمید سہروردی، ارشد عبد الحمید، محمد علی صدیقی، جاوید نہال حشمی، ریحان کوثر اور سید اسماعیل گوہر کے تاثرات شامل ہیں۔ انٹرویو والے حصے میں، افسانچے کے متعلق پرویز بلگرامی (کراچی، پاکستان) سے محمد علیم اسماعیل کی گفتگو شامل ہے، جو کہ نو وارد افسانچہ نگاروں کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوگی۔ سب سے آخر میں ہند و پاک کے 58 افسانچہ نگاروں کے 58 افسانچے بہ طور نمونہ پیش کیے گئے ہیں۔
اور سچ تو یہ ہے کہ ’افسانچے کا فن‘ اردو ادب کی پہلی ایسی کتاب ہے جس میں افسانچے کے فن اور اجزائے ترکیبی کے بارے میں تفصیلی معلومات ملتی ہے۔ اردو کے ادبی حلقوں میں اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ میری نظر میں ’افسانچے کا فن‘ نو وارد افسانچہ نگاروں کے لیے ایک نایاب تحفے سے کم نہیں، بس ضرورت ہے اس میں بتائی گئی باتوں پر عمل کرنے کی۔ محمد علیم اسماعیل اُردو ادب کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے ہیں۔ ان کی یہ ادبی کاوش اردو ادب کے لیے بیش قیمتی سرمایہ ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :افسانچے کا فن- ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

One thought on “کتاب: افسانچے کا فن

  1. ڈاکٹر پرویز شہریار
    Email : perwaizshaharyar@yahoo.com
    Message : افسانہ جونپوری کا تبصروں پڑھا بہت عمدہ تحریر ہے، وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ افسانچے کا فن کا انھوں نے بھر پور تعارف پیش کیا۔ اس کے لیے تہہ دل سے مبارک باد ۔ اشتراک بڑی انہماک سے اردو ادب کی خدمات انجام دے رہا ہے، اس کی فروغ کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے