یونس ٹی اسٹال

یونس ٹی اسٹال

محمد مرسلین اصلاحی

یونس ٹی اسٹال سرائے میر اعظم گڑھ کا ایک ایسا قدیم چائے خانہ ہے، جہاں شام ہوتے ہی زیادہ تر شعرا، ادبا، مولوی، ڈاکٹر اور سیاست دان کی مجلسیں گرم ہوتی ہیں اور چائے کی چسکیوں میں نوع بہ نوع کے موضوعات زیر بحث ہوتے ہیں۔ مصرعے ڈھلتے ہیں، قافیے بدلتے ہیں، شعر کی شیشہ گری ہوتی ہے اور الفاظ کی بخیہ گیری۔ نقد و انتقاد کے پیمانے میں اپنے اپنے عین شین کی تراش کی جاتی ہے۔ واہ واہی اور انجمن ستائش باہمی کی ہمہ ہمی میں داد سخن بھی لوٹی جاتی ہے۔ ما اجملک و ما احسنک کی آوازیں بھی بلند ہوتی ہیں۔ کباب، پاپڑ، چائے، پاؤ، ملائی ڈبل روٹی کے لیے یہ قہوہ خانہ مشہور ہے جہاں ۔۔۔ شیفتہ کا کوفتہ بنتا ہے۔ غالب کے گریباں کی دھجیاں اڑتی ہیں، میر کی فغان نیم شب کے آئینے میں آہ مضراب ساز ہوتی ہے۔ اقوال فروش اپنی زبان کے آبلے پھوڑتے ہیں۔ نئے شعرا غالب ہوتے ہیں اور پرانے غالب پر غالب! یہیں سے طرحی مشاعروں پر شب خوں مارنے کے منصوبے بھی طے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات محفل شعر و سخن سے زیادہ بحثا بحثی اور گلپٹ پٹ ہوتی ہے ان بے ربط گفتگو میں بھی عجب مزاح کا پہلو ہوتا ہے۔ مولوی طبقہ مسائل دنیا سے زیادہ آخرت کی دھونس جماتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ سیاسی لوگ اپنے تجزیوں سے پل بھر میں حکومت کی ایسی کی تیسی کرتے نظر آتے ہیں۔ چائے کا کپ جوں ہی خالی ہوا سیاست کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔ ڈاکٹر امراض کی تشخیص، دواؤں کی افادیت پر اپنے تجربات بانٹے ہیں۔ تاجر مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پر گفتگو کا طومار باندھے نفع و ضرر کی ساری آلائش یہیں پر لا کر پٹخ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں بحث و مباحثہ کا یہ سلسلہ دیر رات تک رہتا ہے۔ جب کہ ٹی اسٹال کے ایک طرف سائن بورڈ لگا ہوا ہے کہ یہاں سیاسی اور مذہبی باتیں کرنا سخت منع ہے۔ دوسری طرف دفعہ 144 کے نمبر کی تختی بھی جھول رہی ہے۔ مگر مجال کیا کہ اثر انداز ہو۔ یونس ٹی اسٹال بہت پرانا قہوہ خانہ ہے کم از کم میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ابھی تک ہو بہو دیکھ رہا ہوں اور وہی چائے، کباب، وہی پاپڑ اور ملائی ڈبل روٹی! لاکھ بہار و خزاں کے تغیرات آئے لیکن اپنی قدامت سے ذرا بھی سر موئے انحراف نہ ہوا۔ جس بزرگ ہستی کے نام پر یہ آباد خانہ روشن ہے اس سے زندہ دلان کو ایسا جذباتی لگاؤ ہے کہ لال قلعہ اور تاج محل سے نہیں ہے۔ اس کے وارث نہیں رہے ، اس کے وارث ہیں۔ حاجی منظور صاحب اس وراثت کے امین ہیں۔ جن کے اباجان نے اس چائے خانے کا سنگ بنیاد رکھا تھا. اپنی صحت کے اعتبار سے جیسے تب تھے ویسے آج بھی ہیں. سر پر جواہر لال نہرو چھاپ ٹوپی۔ قمیص، چوڑا پائجامہ، خاموش طبع، اپنے کام سے کام، لوگوں کے آرڈر پر فی الفور اشیا کی دستیابی! نہ خود بدلے نہ قہوہ خانے کو بدلنے دیا۔ قہوہ خانہ کے عقب میں جنوبی جانب اہل تشیع کا امام باڑہ ہے جو انجمن کے ما تحت ہے، پرانی عمارت! رنگ و روغن سے مزین آج بھی ہو بہو موجود ہے۔ کہا جاتا ہے یہ امام باڑہ جو عزاخانہء ابوطالب کے نام سے موسوم ہے اہل تشیع حضرات کے دور عروج کی پرانی یادگار ہے۔ جب انھیں برٹش دور میں زمین داری کے محدودہ انتقال کے حوالہ سے اختیارات حاصل تھے تو سرائے میر کے گرد و نواح کا یہ پورا علاقہ انہی کے زیر اثر تھا۔ محرم اور تعزیہ داری کے لیے یہ عزا خانہ بھی وقف کر دیا گیا تھا۔ یکم سے دسویں محرم تک بڑی چہل پہل رہتی ہے۔ دور دراز علاقوں سے لوگ محرم دیکھنے کے لئے آتے ہیں اور کئی انجمنیں یہاں اکٹھی ہوتی ہیں۔ میر علی عاشقان کا مقبرہ بھی یہیں ہے. جن کے نام سے یہ قصبہ موسوم ہے ۔ کیوں کہ سلاطین شرقیہ کے اقبال کا آفتاب زوال پذیر ہوا تو 881 میں لودھیوں کے دور حکومت میں علم و دانش اور فضل و کمال کی جو بزم سجی تھی یک گونہ انتشار کا شکار ہوگئی۔ تیموری حکومت کے بادشاہ ہمایوں نے جون پور کو شیراز ہند کا خطاب دیا۔ 932 میں شیرشاہ سوری سے شکست کھائی تو ہرات اور مشہد کی راہ قزوین پہنچا. شاہ ایران طہاشپ صفوی کے ہاں پناہ لی ۔ حال و احوال کچھ یوں بیان کیا۔ انبوہ علما دراں دیار بر ویرانئ شہر شیراز آہ حسرت کشیدہ ۔ انہی اوائل میں میر علی عاشقان نے بھی دہلی سے پورب کا رخ کیا اور شیخ بہاء الدین چشتی جون پوری جامع شریعت و طریقت سے اکتساب فیض کیا. شیر شاہ سوری کے استاذ رہے اور بطور یادگار اپنا کوزہ عطا کیا۔ رسالہ نزہۃ الخواطر میں درج ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں رہ طریقہ ء سہروردیہ سیکھا ، خرقہ پہنا ، اس کے بعد نظام آباد اعظم گڈھ آگئے. شیخ عبد القدوس شطاری سے روحانی فیض حاصل کیا جس سے کشف و شہود کے دروازے کھلے۔ اکثر عالم صحو میں رہتے۔ سرائے میر آپ کا مدفن آخر ٹھہرا. اسی مناسبت سے اس قصبہ کا نام بھی سرائے میر پڑا ۔۔
یونس ٹی اسٹال !! ۔۔۔۔۔۔ آج بہت دنوں بعد اس ٹی اسٹال کی چائے پی تو سوچا کچھ حق اداکر دیا جائے.
صاحب تحریر کی دوسری نگارش :کیفی اعظمی کے افکار : ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے