دوزخ

دوزخ

ایس معشوق احمد

آج پھر کھانا پروستے ہی اعجاز کے والدین میں تو تو میں میں ہونے لگی۔روز روز کے جھگڑے سے سارا خاندان تنگ تھا لیکن اعجاز کے ذہن پر ان جھگڑوں کا زیادہ ہی اثر ہورہا تھا۔ وہ نہ صرف ان گھریلو جھگڑوں سے پریشان رہتا تھا بل کہ اب وہ بیمار بھی رہنے لگا تھا۔ ہر روز کھانے میں کبھی نمک کم ہوتا تو کبھی چاول میں کوئی خامی ہوتی۔ کبھی کبھار دونوں میں کوئی نقص ہوتا تو کہرام ہی مچ جاتا تھا۔صبر اور شکر کے ساتھ کھانا شاید اس گھر کی ریت نہ تھی۔ اعجاز کے والد نے معتدد بار اپنی تھالی کبھی دیوار پر تو کبھی اعجاز کی ماں کے چہرے پر دے ماری۔ گھر میں روز ہی مہابھارت کے سین دہرائے جاتے تھے۔

اعجاز کی عمر چودہ پندرہ سال تھی۔ وہ دن بھر تو دیگر بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف رہ کر مسکراتا رہتا تھا لیکن شام ہوتے ہی اس کی ہنسی سورج کی طرح گم ہوجاتی اور اس کا چہرہ ماتمی نظر آتا تھا ۔اس کو اب گھر سے نفرت ہو گئی تھی۔پہلے تو وہ بہت اچھی طرح اپنے والدین سے بات کرتا تھا۔ ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا تھا۔ ان کے ساتھ باتیں کرتا اور قہقہ لگاتا تھا لیکن جب سے اس کے بڑے بھائی کی شادی ہوئی تھی اور گھر میں آئے روز جھگڑے ہونے لگے تھے، اب وہ گھر میں خاموش، نقش بر دیوار، کمرے میں اکیلا اور اکثر اندھیرے میں رہتا تھا۔

جوں جوں اعجاز کی عمر بڑھ رہی تھی اس کی ذہینی پریشانیوں اور بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کی ماں اسے روز شفقت بھرے لہجے میں کہتی کہ بیٹا تم کیوں ہمارے ساتھ نہیں بیٹھتے۔ وہ جوابا کچھ نہ کہتا صرف عجیب اور غضب ناک نظروں سے ماں کی طرف دیکھتا تھا جیسے وہ اس کی ماں نہیں بل کہ کوئی جانی دشمن ہو۔ اعجاز دھیرے دھیرے گھر والوں سے دور ہو رہا تھا۔ گھر والوں کے خیالات اور باتیں اس کی باتوں اور خیالات سے بالکل میل نہیں کھاتی تھیں۔ پرندے اڑنا سیکھ لیں تو اپنے گھونسلے کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ گھریلو اختلاف سے تنگ آکر اعجاز نے دو بار گھر چھوڑا لیکن گھر والے ڈھونڈ کر اسے گھر لاتے تھے۔
جب کبھی اعجاز کی بہن اپنے میکے آتی تو بھابی کا چہرہ خشم گیں ہوتا۔ اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا کہ اس کی نند اس گھر میں آئے۔ وہ بیماری کا بہانہ کرکے اپنے کمرے میں چپکی دبکی تب تک بیٹھ جاتی جب تک اس کا شوہر کام سے واپس نہ آتا تھا۔ خاوند کے واپس آتے ہی لاش خونخوار شیرنی بن جاتی تھی۔ پہلے اپنے قسمت پر ماتم کناں ہوتی بعد میں اس گھر کے افراد اس کی بد دعاؤں کا نشانہ بنتے۔ پورے گھر کو سر پر اٹھانے کے بعد اسے تھوڑا سکون ملتا لیکن پوری طرح نہیں۔ وہ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے کچھ نہ کچھ بول ہی دیتی تھی۔ اگر کبھی ساس یا نند نے زبان کھولی اور واپس جواب دیا پھر تو ہفتہ بھر گالیوں اور طعنوں سے ان کی خاطر تواضع کرتی۔ حالاں کہ اس گھر کا فرمان روا ابھی حیات سے تھا اور وہ اپنی بیٹیوں کو عید بقر عید یا کسی بڑے تہوار کے پیش نظر دعوت پر بلاتا تھا تو کبھی ان کو کوئی تحفے دیتا تھا لیکن جب کبھی وہ اپنی بیٹیوں کو اس گھر میں آنے کی دعوت دیتا تو وہ اکثر مصروفیت کا بہانہ کرتیں کیوں کہ وہ بھی اب اس دوزخ کی طرف آتے ہوئے ہچکچاتی تھیں۔

آج اعجاز کے چہرے پر خوشی اور امید کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ تین دن قبل روبینہ میکے گئی تھی۔ تین دن سے گھر میں جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ سکون اور اطمینان اب لوٹ آیا تھا۔ روبینہ ہی گھر کے لیے کھانا پکاتی تھی اور وہ جان بوجھ کر کبھی نمک کم یا تیز رکھتی یا کوئی اور نقص کھانے میں رکھتی تھی۔ اب اعجاز کی بوڑھی ماں جس کو اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف اور نظر بھی کم ہی آتا تھا، کھانا پکا رہی تھی جو لذیذ اور ذائقہ دار ہوتا تھا۔

روبینہ واپس آ گئی تھی اور گھر میں پھر ویسا ہی گھٹن زدہ ماحول تھا۔ وہ باقی گھر والوں سے الگ رہنا چاہتی تھی جب ہی وہ جائز اور ناجائز ہتھکنڈے اپنا رہی تھی۔نہ صرف اس کی ماں اسے مشورے دیتی تھی بل کہ آس پڑوس کی عورتیں بھی کچھ نہ کچھ کانا پھوسی میں بتایا کرتی تھی جس کا وہ فورا عملی مظاہرہ کرتی تھی۔ اعجاز کے والد کو یہ پریشانی کھائے جا رہی تھی کہ اگر بڑا بیٹا الگ ہو گیا تو گھر کون چلائے گا۔ بیٹی کی شادی کیسے ہوگی اور اعجاز کی پڑھائی کا کیا ہوگا۔

اعجاز نے اب پڑھائی چھوڑ دی تھی۔وہ اب اپنے بوڑھے ماں باپ کا اکلوتا سہارا تھا۔ اب وہ کریانے کی دوکان چلا رہا تھا۔ دن بھر دوکان پر بیٹھا رہتا لیکن دھیان بوڑھے ماں باپ کی طرف ہوتا تھا۔ ہر وقت ذہن میں وسوسے اور خدشے ابھرتے رہتے تھے۔ وہیں اس کے بوڑھے ماں باپ کو بھی ایک فکر کھائے جارہی تھی کہ اعجاز کا گھر کب بس جائے گا۔ بڑے بھائی کے الگ ہونے سے گھر میں اب جھگڑے نہیں ہوتے تھے. دوزخ اب پھر سے گھر بن گیا تھا.

ایس معشوق احمد کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : ‘مصروف` اور دیگر افسانچے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے