19 مارچ 2350

19 مارچ 2350

نور الحسنین

خضر میاں نے بٹن دبایا اور اسکرین پر ۱۹ مارچ ۲۳۵۰ء کی تاریخ منہ چڑھانے لگی، اُنھوں نے گردن اونچی کی اور ۵۷۷۱ منزلہ عمارت کے فلیٹ نمبر ایک کی کھڑکی میں سے نیچے دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ بھی دکھائی نہیں دیا، اُنھوں نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا ،آج میری ۱۶۶ ویں سال گرہ ہے لیکن اسے منانے کے لیے اس وقت کوئی بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ ہاں مبارک بادیوں کے پیغامات خوب مل رہے ہیں۔ اُنھوں نے البم کو کلک کیا اور اُن کے سامنے اُن کی بیوی کی تصویر آگئی اور اُن کے منہ سے نکلا، ’’ کیا یہ ضروری تھا کہ تم بھی مجھے چھوڑ کر پلوٹو کے شہر زم زم زاں میں ڈاکٹری کرو ؟ اور وہ نالائق بھی میری مرضی کے خلاف مریخ کے کسی دور افتادہ بستی میں اپنی بیوی کے ساتھ آباد ہوگیا ۔ پورے پندھرا برس ہوگئے اور میں یہاں اکیلا ۔۔۔۔ ابھی اگلا جملہ اُن کے د ماغ میں آنے ہی والا تھا کہ سامنے کی دیوار میں کچھ چنگاریوں کے مانند تنکے گردش کرنے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دھندلے دھندلے عکس نمایاں ہونے لگے. اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ عکس دو خوب صورت بچوں میں تبدیل ہوگیا اور اُن کی معصوم آوازیں بلند ہوئیں ، ’’ دادا جان سال گرہ مبارک ہو ! ‘‘
’’تم۔۔۔ ؟ ‘‘ انھوں نے اپنی باہیں پھیلا دیں ، اور دونوں بچے اُن کے سینے سے لگ گئے ، ’’ تم دونوں اچانک کیسے یہاں پہنچ گئے ۔؟‘‘
’’ دادا جان ہم تو چاند پر کھیل رہے تھے کہ دادی امّاں کا Massage ملا کہ آج تمھارے دادا جان کی سال گرہ ہے ۔ ‘‘ بارہ برس کے روشن نے دادا کو چھوڑ کر پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بتایا اور آٹھ برس کی روشنی نے دادا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہنا شروع کیا ، ’’ دادی امّاں کا حکم تھا کہ تمھارے دادا اکیلے ہیں ۔ سال گرہ کے دن اکیلا رہنا اُنھیں بالکل پسند نہیں ہے ۔ جاو اور جاکر اُن کی سال گرہ سلیبریٹ کرو ۔۔۔۔ اور بس ہم آگئے ۔‘‘
’’ لیکن تم لوگ تو مریخ ۔۔۔! ‘‘
’’ دادا جان چاند پر نیا اسکول قائم ہوا ہے ۔ ہم نے وہیں پر ایڈمیشن لیا ہے ۔‘‘
’’ اوہ۔۔۔۔ ! ‘‘ خضر میاں نے حیرت سے بچوں کی جانب دیکھا ۔
’’ داداجان آپ ہمارے ساتھ مریخ پر کیوں نہیں رہتے ؟ ‘‘ روشنی نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔
’’ بھائی یہ Exit ہونے میں ہمیں بڑا ڈر لگتا ہے، خدانخواستہ ہمارے بدن کے ذرات ایک جگہ جمع نہ ہوئے تو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ دادا جان ! اِدھر سے اُدھر Exit ہو نے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی بس ایک بار اس کے پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے ۔‘‘ روشن اپنے دادا کو سمجھانے لگا ، ’’ یہ ایک بٹن آپ کی کلائی میں لگا دیا جاتا ہے ۔ یہ دیکھیے۔۔۔ ‘‘ اُس نے اپنی کلائی دادا کے سامنے کردی ، ’’ اس کے بعد ایک برقی غلاف آپ کے پورے بدن کے اطراف پھیل جاتا ہے ، جو Exit کے دوران آپ کے بدن کے ذرات کو ادھر اُدھر ہونے نہیں دیتا ۔ بس جب بھی آپ کسی مقام پر جانا چاہیں ، اُس شہر کا نام اور کوڈ نمبر کے ساتھ ہی ساتھ پتہ بھی اس بٹن میں سیٹ کردیں وہ آپ کو وہاں تک پہنچا دے گا ۔ ‘‘
دادا ، پوتے کی ان باتوں کو سُن کر فرط جذبات سے بے قابو ہوگیا اور دیوانہ وار اُسے لپٹانے لگا ۔ روشن کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’کہیے اب تو آپ چلیں گے نہ ہمارے ساتھ اوپر کی دنیا میں ؟ ‘‘
’’ نہیں بیٹے ہم تو اسی دنیا میں بھلے ۔ تم لوگوں کی محبت میں اگر یہ رِسک لے بھی لیں تو ہمارا دل اسی زمین میں لگا رہے گا ۔ ‘‘
’’ دل۔۔۔؟ ‘‘ روشنی نے حیرت سے دادا کی طرف دیکھا ، ’’ داداجان یہ دل کیا ہوتا ہے ؟ ‘‘
’’ اری بے وقوف ! تمھیں دل نہیں معلوم ؟ ‘‘ روشن سمجھانے لگا ، ’’ دل ہمارے بدن میں وہ عضو ہے جس کے چار چیمبر ہوتے ہیں ۔اوپر کے دو چیمبر Auricle (آری کل ) اور نیچے کے دونوں چیمبرز Ventricle ( وینٹری کل )کہلاتے ہیں ۔ ‘‘ پھر اُس نے اپنے دادا کی جانب دیکھا ، ’’ دادا جان دل کے پہلے چیمبر میں سارے بدن کا خون آتا ہے اور وہاں سے دل کے تیسرے چیمبر میں پھیپھڑوں کی مدد سے آکسیجن کو شامل کرتا ہے۔ پھر وہ خون دوسرے چیمبر میں آتا ہے جو اُسے چوتھے چیمبر میں بھیجتا ہے اور چوتھا چیمبر اُسے سارے بدن میں دوڑاتا ہے۔ ‘‘
’’ بیٹے میں اُس دل کی بات نہیں کر رہا تھا جو ایک لوتھڑے کی مانند ہمارے جسم میں ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ پھر ۔۔۔ اور دل کیا ہوتا ہے ؟ ‘‘ روشن بھی حیرت سے خضر میاں کی طرف دیکھنے لگا.
خضر میاں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے ، مالک ان بچوں کو کیسے سمجھاؤں کہ دل کیا ہوتا ہے. ان بچوں کا جنم تو ماں کی کوکھ میں نہیں سائنسی آلات میں ہوا ہے. یہ کیا جانیں محبت کیا ہوتی ہے ۔ اُف زمانہ کتنا بدل گیا ، ایک وقت وہ بھی تھا جب ہر عورت ماں بننے پرفخر کرتی تھی ۔ پہلے دن سے نو ماہ تک جانے کیا کیا خواب دیکھتی تھی. کیسی کیسی مصیبتیں اُٹھاتی تھی ۔ تب کہیں جا کر اولاد کی صورت نظر آتی تھی لیکن آج ۔۔۔ آج تومشین ہی کو ماں کی کوکھ بنا دیا گیا ہے ۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ماں بننے کی لذّت سے لطف اُٹھا سکے ۔
’’ دادا جان کہاں کھوگئے آپ ؟ ‘‘ روشن نے اُنھیں اپنی طرف متوجہ کیا ۔
’’ ہوں ۔۔۔! ‘‘ وہ ایک دم چونک اُٹھے.
’’ دادی اماں نے سال گرہ سلیبریٹ کرنے کو کہا ہے. ہم اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر آئے ہیں ۔ بس ذرا لگیج کا بٹن دبادیں تو ۔ ۔‘‘
’’ ارے ٹھہرو بچو ! اس بار وہ سب رہنے دو ۔ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس زمین پر بیسویں صدی میں سال گرہ کس طرح منائی جاتی تھی ۔ ‘‘
دونوں بہن بھائی حیرت سے دادا جان کی طرف دیکھنے لگے ۔
اور خضر میاں اُنھیں بتانے لگے ، ’’ بیٹا اُن دنوں جس کی بھی سال گرہ ہوتی اُسے سب سے پہلے صبح صبح گرم گرم پانی سے خوب نہلایاجاتا ۔‘‘
’’ پانی سے نہلایا جاتا تھا ؟ ‘‘ روشن نے دادا کی بات کاٹی ، ’’ وہ اسٹیم باتھ کیوں نہیں کرتا تھا دادا جان ؟ اُف کتنا زیادہ پانی ویسٹ ہوتا ہوگا ؟ ‘’
’’ اُن دنوں زمین پر بہت پانی تھا بیٹے ۔ ہر گاؤں اور شہر میں ندّیاں بہتی تھیں ۔ ‘‘
’’ پانی کی ندّیاں۔ ؟ ‘‘ روشنی نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور خضر میاں سوچنے لگے ، بیٹے تم کیا جانو ، سنتے ہیں کہ کبھی اس زمین پر تو دودھ کی ندّیاں بھی بہتی تھیں ۔
’’ اور کیا کیا ہوتا تھا دادا جان ؟ ‘‘
’’ ایک بڑا سا کیک لایا جاتا اُس پر عمر کے مطابق موم بتیاں لگائی جاتیں ۔ سارا خاندان دوست احباب جمع ہوتے تھے ۔ تالیوں کی گونج اور سال گرہ مبارک کے شور میں کیک کاٹا جاتا اور پھر سب پلیٹوں میں اُسے لے کر چمچے سے کھاتے ۔ ‘’
دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے ۔
’’ پلیٹوں میں لے کر چمچے سے کھاتے تھے؟ ‘‘
’’ ہاں اس کے بعد دسترخوان لگتا اور سب مزے مزے کے کھانے کھاتے ۔ ‘‘
’’ تو آج آپ بھی اپنی سال گرہ اِسی طرح منائیں نا دادا جان۔۔۔!‘ روشن کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں ۔
’’ اب تو یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے بیٹے ۔ ‘‘
’’ کیوں۔۔۔ ؟ ‘‘
خضر میاں نے ایک لمبی سانس لی ، ’’ اس لیے کہ اُس زمانے میں کھیتی باڑی ہوتی تھی ۔ اناج پیدا ہوتا تھا اور اسی اناج سے قسم قسم کے پکوان پکائے جاتے تھے ۔ ‘‘
’’ دادا جان آپ کتنی حیرت انگیز باتیں ہمیں بتا رہے ہیں ۔ یہ کھیتی باڑی کیا ہوتی تھی ؟ ‘‘ روشنی کی آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگیں.
’’ کھیتی ؟ ۔۔۔ بیٹے زمین کا ایک بڑا حصّہ ہوتا تھا ۔ اُس پر کسان ہل چلاتا ، میرا مطلب پوری زمین کو ایک ڈیڑھ فٹ تک کھود تا تھا پھر زمین کو برابر کرتا ۔ آسمان سے برسات ہوتی۔ کسان زمین میں بیج بوتا ۔ اُس سے پودے اُگتے ۔ پھر اُن میں بالیاں لگتیں ۔ وہ پکتیں. پھر کسان اُنھیں ایک جگہ جمع کرتا. اُن بالیوں سے اناج نکالتا ، اُسے صاف کرتا اور بوروں میں بھر بھر کر بازار لے آتا ۔ لوگ اُنھیں خریدتے ۔ گھروں میں چولہے سُلگتے. اُن پر مزے مزے کے کھانے پکتے اور پھر سب پیٹ بھر کر کھاتے تھے ۔ ‘‘
’’ تب کتنا مزا آتا ہوگا ۔۔۔ ہے نا دادا جان ؟ ‘‘
’’ میرے لال ہم نے بھی یہ سب کچھ بس کتابوں ہی میں پڑا ہے ۔ ‘‘ خضر میاں بتانے لگے ، ’’ کہتے ہیں کہ اُس وقت آدمی اس طرح فلیٹوں میں مقید نہیں ہوتا تھا ۔ ہر فرقہ اپنا ایک مذہب بھی رکھتا تھا اورہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو خوشیوں کے نام پر کچھ تہوار بھی بخشے تھے. جب بھی یہ تہوار آتے پورے ملک میں چُھٹی منائی جاتی۔ لوگ ایک دوسرے کے گھر جاتے. ایک دوسرے کو تہوار کی مبارک باد پیش کرتے اور ساتھ مل بیٹھ کر کھانے کھاتے ۔ خوشیاں مناتے تھے ۔ ‘‘
’’ دادا جان یہ مذہب کیا چیز تھا ؟ ‘‘
’’ آہ۔۔۔ مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ۔۔۔۔۔‘‘
’’ تو کیا ہماری حیات اب کسی ضابطے کی پابند نہیں ہے ؟ ‘‘
دادا جان ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے ۔ اُن کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔ گو یا وہ اُن ضابطوں کو ڈھونڈھ رہے تھے لیکن کوئی سرا اُن کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا ۔ہر سمت اُنھیں نفسا نفسی ہی نظر آرہی تھی ۔ دنیا پورے نظامِ شمسی میں پھیل چکی تھی ۔ اب نہ کسی کے پیدا ہونے کی خوشی تھی نہ مرنے کاغم تھا بس تعلقات ایک دوسرے تک پیغاموں میں محصور ہو گئے تھے ۔ اُنھیں یاد آیا ، اُن کی بیوی نے بھی پلوٹو جانے کی اجازت نہیں بلکہ اطلاع دی تھی اور جب اُنھوں نے کہا تھا کہ تم چلی جاوگی تو ہمارے جنسی تعلقات کا کیا ہوگا ؟ ہماری باہم رفاقتوں اور محبتوں کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا ؟ تو اُس نے جواب دیا تھا ، کیا یہ آپ کے لیے اور میرے لیے کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے ؟ لطف تو کہیں بھی کسی سے بھی اُٹھایا جاسکتا ہے ۔ اس سائنسی اور تکنالوجی کے دور میں دائمی رفاقتیں اپنی اہمیت کھوچکی ہیں ۔ رہی بات محبتوں کی تو ہم دونوں اِسے یہاں وہاں بیٹھ کر بھی نبھا سکتے ہیں ۔ البتہ ضروریات اہم ہیں اور وہ اپنے راستے کسی نہ کسی طرح بنا ہی لیتے ہیں۔۔۔ شاید اسی لیے اس کے بعد وہ آج تک لوٹ کر نہیں آئی ، لیکن سوچو تو کون سا کام رُکاہے ؛ کوئی بھی تو نہیں۔۔۔ اُس کی محبت اُسی طرح قائم ہے اور اُس کے محبت بھرے پیغامات آتے رہتے ہیں ۔ لڑکے نے بھی مریخ جانے کی اطلاع پہلے سے نہیں وہاں پہنچ کر ہی دیا تھا۔ بیٹی نے اپنے لیے کوئی ساتھی منتخب کر لیا تھا خدا جانے وہ کس سیارے پر زندگی گزار رہی ہے ۔ کوئی غیبی طاقت پورے عالم پر حکومت کر رہی ہے. ورنہ کوئی قانون ہے نہ کوئی گرفت، اچھائی اور بُرائی کی تمیز مٹ چکی ہے ۔ جرم اور سزا کا تصور عنقا ہو چکا ہے ۔رشتوں سے نمک اور خلوص سے مٹھاس غائب ہوچکی ہے ۔ شاید میں بھی اب وہ نہیں رہا ، مجھ میں بھی کہیں ٹوٹ پھوٹ ہوچکی ہے اور کیا پتہ۔۔۔۔
’’ دادا جان ۔۔۔! ‘‘ آواز پر اُنھوں نے آنکھیں کھولیں. دونوں کی طرف غور سے دیکھا اور پھر اُن کی ز بان سے نکلا ، ’’ بیٹا اب کوئی مشترکہ ضابطہ حیات نہیں ہے. آج ہر شخص کے نزدیک اُس کا اپنا ضابطہ حیات ہے ۔ ‘‘
روشن کے دماغ میں اچانک اُس کا اپنا گھر آگیا ، پا پا مریخ میں ، ممّی زحل میں ، ہم دونوں بہن بھائی دن بھر چاند پر ، کیا ربط ہے ہماری زندگیوں میں ۔ سوائے اس کے کہ ایک چھت کے نیچے آباد ہیں ۔ پا پا کا اپنا فرینڈ سرکل ہے ، ممّی کے اپنے دوست ہیں ، دونوں اپنے اپنے فرینڈ سرکل کے ساتھ دو دو چار چار دن گھر سے باہر رہتے ہیں ۔ زندگی بسر کرنے کے دونوں کے اپنے اپنے انداز ہیں ۔ کیا کل ہماری اپنی زندگی بھی اسی محور پر گردش کرے گی ؟ اُس کی گردن جھک گئی اور وہ پتہ نہیں خلا کے کن حصّوں کی طرف نکل گیا تھا ۔ماحول پر سکوت چھاگیا ، شاید وہاں پر موجود ہر ذی نفس اپنی سوچوں میں کہیں گُم ہوگیا تھا ۔
ٹھیک اُسی وقت مانیٹر نے دو بجنے کا اعلان کیا اور خضر میاں کو جیسے ایک دم یاد آگیا اور اُنھوں نے بچوں سے کہا، ’’ بچوں تم جب سے آئے ہو کچھ نہیں لیا ، جاؤ ۔۔۔ دوسرے کمرے میں کولڈریج رکھا ہوا ہے ۔ اُس میں مختلف کھانوں کے Tablets رکھے ہوئے ہیں ۔ تمھیں جو بھی پسند ہو ، لے لو اور کھالو ۔‘’
’’ دادا جان آج ہم نے بھی طے کیا ہے کہ بھوک مٹانے کی خاطر ہم کوئی Tablet نہیں کھائیں گے ۔‘‘ دونوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا.
’’ پھر ۔۔۔ ؟ ‘‘ خضر میاں نے حیرت کے ساتھ دونوں کی طرف دیکھا ۔
’’ آج آپ ہمیں بیسویں صدی کا کوئی کھانا پکا کر کھلائیں۔ ‘‘
خضر میاں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’ میرے بچوں یہ تو اب بہت مشکل ہے ۔ ‘‘ اُنھوں نے ۵۷۷۱ منزلہ عمارت سے نیچے کی طرف دیکھا ، ’’ ماضی بہت خوشگوار ہوتا ہے لیکن اُسے دوبارہ واپس نہیں لایا جاسکتا ۔ یہاں تمہاری سائنس اور تکنالوجی بھی فیل ہوجاتی ہے ۔ ‘‘
دونوں بھائی بہن اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑے ہوگئے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ دونوں کی آنکھیں روشن ہو نے لگیں اور روشنی نے کہنا شروع کیا ، ’’ دادا جان ہم ماضی کو واپس نہیں لاسکتے لیکن اُس کے تصور میں تو جی سکتے ہیں ۔‘‘
خضر میاں حیرت سے بچوں کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
’’ دادا جان آپ ہمیں آپ کا اسٹور روم دکھائیے تو سہی۔ ‘‘
خضر میاں کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ بچوں کے سا تھ اپنے اسٹور روم میں پہنچے اور مختلف ڈبوں اور برتنوں کو کھنگالنے لگے ۔ ایک کے بعد ایک ڈبہ کھلتا جا رہا تھا اور برسوں پرانی اشیا ماضی کے کواڑ کھول رہی تھیں۔ آخر وہ کسی طرح کچھ مُٹھی چاول ، مسور کی دال اور کچھ کھانا پکانے کے مسالوں کوڈھونڈھنے میں کا م یاب ہوگئے ۔
اور پھرکچھ ہی دیر میں کھچڑی پک گئی اور اُس کی سوندھی سوندھی خوشبو مہکنے لگی ۔ خضر میاں نے فرش پر دسترخوان بچھایا ، پلیٹوں میں کھچڑی نکالی اور تینوں اُسے کھانے لگے ۔ کھچڑی کا مزہ اُن کے چہروں سے عیاں ہورہا تھا ۔ کھاتے کھاتے روشن نے دادا سے پوچھا ، ’’ دادا جان کیا ہم دوبارہ سے اس طرح کھانے پکا کر نہیں کھاسکتے ؟ ‘‘
خضر میاں نے محبت بھری نظروں سے اپنے پوتے کی طرف دیکھا ، ’’ بیٹے کھا تو سکتے ہیں لیکن اب کھتی باڑی کون کرے گا ؟ ‘‘
’’ تو کیا اب کھیتی باڑی نہیں ہوسکتی ؟ ‘‘
’’ہو بھی سکتی ہے لیکن یہ پہاڑ کون اپنے سر لے گا ؟ ‘‘
روشن نے دادا کی طرف دیکھا اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ کہا ، ’’ دادا جان یہ کام میں کروں گا ۔ ‘‘
خضر میاں نے محبت بھری نظروں سے روشن کی طرف دیکھا ، عظیم ترین ترقی یافتہ دور کا آدمِ ثانی اُن کی نظروں کے سامنے تھا اور اُس کے پُر اعتماد لہجے میں اُنھیں ترقی کی ہزاروں منزلیں آسان سی محسوس ہونے لگیں اور وہ اُسے سمجھانے لگے ، ’’ میرے لال آج دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ساری کائنات میں پھیل گئی ہے ۔ تمہاری منزل کا راستہ مراجعت میں نہیں بل کہ اُس کہکشاں میں ہے جس کے راستے تمھیں خود ہی تلاش کرنا ہے ۔ ‘‘
روشنی نے آسمان کی طرف دیکھا تو خضر میاں کو ایک دم خیال آیا کہ بچوں کو واپس بھی جانا ہے ۔ اُنھوں نے فوراً کہا ، ’’ بیٹے اب واپسی کا قصد کرو ، تمہارے ماں باپ پریشان ہو رہے ہوں گے ؟ ‘‘
’’ دادا جان یہ پریشانی کیا ہوتی ہے ؟
’’ بیٹے یہ بھی میرے دل کی طرح کوئی چیز ہے جسے بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔‘‘
دونوں بہن بھائی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اپنی کلائی پر لگے ہوئے بٹنوں کو سیٹ کرنے لگے ، اور پھر پل بھر میں اُن کا وجود بے شمار چنگاریوں میں تبدیل ہوگیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔
۵۷۷۱ منزلہ عمارت کے فلیٹ کی کھڑکی سے لگے خضر میاں آسمان کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔
ختم شُد

تبصرہ و تجزیہ

نثارانجم

افسانے کا اصل تھیم تہذیبی شکست و ریخت کا نوحہ ہے۔ انسانی قدروں کی بے اخلاصی اور بے روحی کا تیزی سے معدوم ہونا ہے۔ یہاں تار تار ریزہ ریزہ قدروں کے ملبے پر بیٹھی نوحے کرتی اور کڑھتی تہذیب کے سینہ شوق میں لوٹ ماضی کی طرف کی مراجعتی خواہش بھی لہریں لے رہی ہے جسے افسانہ نگار نے ایک سائنس فکشن کے کھا نچے پر بڑی ندرت سے بن دیا ہے۔ پرانی قدروں کی اہمیت اور عظمت اس وقت بھی اپنی سحر انگیزی سے نئ نسل کو اطمینان اور سکون سے نہال کرتی رہے گی ۔ مراجعت اور بازیافت اقدار حیات کی یہ خواہش نئ نسل کے ان ذہنوں میں بھی پنپے گا۔ جو transportation of matter کے عمل سے گذر کر پلک جھپکتے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے والے ہوں گے ۔افسانہ نگار نے مستقبل کے ان کرداروں کو روشن اور روشنی کے ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ نئے سائنٹفک ویلو آف لائف کےکرشماتی اور ٹائم مشین کلچر کے اس دور میں بھی ماضی کی قدروں کی طرف لپکنے کی خواہش تحت الشعور میں موجود ہوگی جسے آج ہم اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ یہ value of life بھی مستقبل کے ذہن میں ایک dormant خواہش کی طرح اس کے DNA میں کہیں نہ کہیں موجود ہوگا ۔
"دادا جان ہم ماضی کو واپس نہیں لاسکتے لیکن اُس کے تصور میں تو جی سکتے ہیں۔‘‘
افسانہ پڑھتے ہوۓ نہ جانے مجھے یہ کیوں محسوس ہورہا ہے کہ خضر5771 منزلہ عمارت کے فلیٹ نمبر ایک میں نہیں ہیں بل کہ وہ اسی زمینی زندگی سے جڑے ہوۓ ہیں جسے سائنسی ترقی نے بظاہر فاصلوں کو کم کرکے ایک چھوٹے سے globle village میں بدل دیا ہے۔ برقی تاروں کے پھیلاو میں پسری زندگی آج اس ننگی تار پر تنہا بیٹھی اس اخلاقی قدروں کے مٹنے کا نوحہ کرتی ملتی ہے۔
خضر اسی زمین سے جڑا ہوا ہے اس کے پوتے یہیں کہیں أس پاس کے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ یہ اس احساسات کے فاصلے ہیں جو ہم خود کو سماجی رابطے سے دور اور نفسیاتی طور پر ۵۷۷۱ منزل پر پاتے ہیں۔
جس کی انتہا کا مشاہدہ اس زندگی کو ہوگا جو آنے والے عہد میں اپنے پوتوں کے ساتھ برتھ ڈے کی خوشی کو share کرے گا لیکن اسے رشتوں کی وہ طمانیت میسر نہ ہوگی اور وہ خود بھی فضا میں اپنے ذرات کے بکھر جانے سے خائف ہوگا۔
افسانے میں دل، مذہب، کھیت، انسانی جذبات کے معدوم ہونے کے نوحے آج کے حالات سے پردہ اٹھا تے ہیں۔
کل کیا ہوگا یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔
’’ دادا جان یہ مذہب کیا چیز تھا ؟ ‘‘ ’’ دادا جان یہ مذہب کیا چیز تھا ؟ ‘‘
’’ آہ۔۔۔ مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ۔۔۔۔۔‘‘
’’ تو کیا ہماری حیات اب کسی ضابطے کی پابند نہیں ہے ؟ ‘‘
دادا جان ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے ۔ اُن کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔ گو یا وہ اُن ضابطوں کو ڈھونڈھ رہے تھے لیکن کوئی سرا اُن کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا ۔ہر سمت اُنھیں نفسا نفسی ہی نظر آرہی تھی۔
"بیٹا اب کوئی مشترکہ ضابطہ حیات نہیں ہے آج ہر شخص کے نزدیک اُس کا اپنا ضابطہ حیات ہے ۔ ‘‘
ضابطہ شعور حیات کی شکست و ریخت کے یہ اشاریے عصری ہیں۔
اسکائی اسکراپرskyscrapers پر ٹہری ہوئی زندگی کو اس کا شدت سے احساس بھی ہوگا کہ۔۔ "دنیا پورے نظامِ شمسی میں پھیل چکی تھی ۔ اب نہ کسی کے پیدا ہونے کی خوشی تھی نہ مرنے کاغم تھا بس تعلقات ایک دوسرے تک پیغاموں میں محصور ہو گئے تھے”
اب لوٹ فطرت کی طرف کے سارے راستے مسدود ہوگئے ہیں۔ راستے بند ہیں سب۔۔۔
اب مراجعت کے متلاشی کو بھی واپسی کی ترغیب دی جارہی ہے۔
"آج دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ساری کائنات میں پھیل گئی ہے ۔ تمھاری منزل کا راستہ مراجعت میں نہیں بل کہ اُس کہکشاں میں ہے جس کے راستے تمھیں خود ہی تلاش کرنا ہے”
کرشن چندر کے ناول الٹا درخت جو آج سے پچاس سال پہلے لکھا گیا تھا کسی جھانکی کی طرح دوران مطالعہ ذہن پر اسی فنطاسیہ کی یاد دلاتا ہے جہاں آٹھ انگلیوں سے محروم ایک شخص اپنے دونوں انگوٹھوں سے بٹن دبا کر باہر کے حالات کو کنٹرول کرتا ہے۔ وہاں صرف آوازیں ہیں۔ گاڑیاں چل رہی ہیں آوازیں ارہی ہیں لیکن آس پاس کوئی فرد نہ….
*اور دل کیا ہوتا ہے ؟* ‘‘
یہ نئ نسل کے ان بچوں کا سوال ہے جو teleportation کے عمل کے ذریعہ چاند پر کسی اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔
افسانے پر تبصرہ کرتے یہ خبر کل ہی پڑھ لیا گیا ہے کہ چین نے خلا میں اپنا اسٹیشن مکمل کرلیا ہے ۔چاند پر اب زندگی کے امکانات کے در کھلنے کی تیاری ہورہی ہے. اب plot کی خرید و فروخت کے لیے راستے ہموار ہورہے ہیں۔
خضر میاں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے ، مالک ان بچوں کو کیسے سمجھاؤں کہ
دل کیا ہوتا ہے۔
ان بچوں کا جنم تو ماں کی کوکھ میں نہیں سائنسی آلات میں ہوا ہے ۔یہ کیا جانیں محبت کیا ہوتی ہے ۔ اُف زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔
آج تومشین ہی کو ماں کی کوکھ بنا دیا گیا ہے ۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ماں بننے کی لذّت سے لطف اُٹھا سکے ۔”
افسانہ نگار نے روشن اور روشنی کو چاند سے teleportation کرتے ہوۓ زمین پر اتے ہوۓ دکھایا ہے۔ یہاں ٹیلی پورٹیشن مادے یا توانائی کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر جسمانی خلا کو عبور کیے بغیر فرضی منتقلی کے سائنسی عمل کو دکھایا گیا ہے۔ سائنس فکشن ادب ، فلم ، ویڈیو گیمز اور ٹیلی ویژن میں یہ ایک عام سا موضوع ہے۔
ٹیلی پورٹیشن ابھی تک حقیقی دنیا میں نافذ نہیں ہوسکی ہے۔ ایسا کوئی معروف جسمانی طریقہ کار موجود نہیں ہے جو اس کی اجازت دے۔ ٹیلیفونٹیشن کی ایسی اصطلاح سے مزین مضامین اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں جو عام طور پر "کوانٹم ٹیلی پورٹیشن” ہی کی معلومات کی منتقلی کا طریقہ کار ہے جسے فکشن نگار داستانی تحیر خیزی کے نعم البدل کے طور پر استعمال کر تے ہیں۔ یہی تکنیک نورالحسن صاحب نے بھی اپنائی ہے۔
ٹائم ٹریول کی کہانیاں اس داستانی عہد سے تخئیل کی انگلی پکڑ کر چلتی آرہی ہیں. جب ایک ریاست سے دوسری ریاست تک سفر کر نے کے لیے مہینوں لگ جاتے تھے اس وقت بھی اڑن کھٹولہ اور مسٹر انڈیا والی وہ انگشتری کسی نہ کسی شکل میں داستاں گو کے پاس تھی۔ آج بھی سوال برقرار ہے کیا ٹائم ٹریول ممکن ہے۔
’’ٹائم ٹریول‘‘ اب بچوں کے کارٹون سیریل کی طرح ایک فینٹسی بن کر رہ گئ ہے۔
زیر مطالعہ افسانہ کہانی کی طرز پر ایک fantacy ہے۔ جسے ہم utopian بھی نہیں کہ سکتے بل کہ dystopian کانا م دیا جاسکتا ہے۔ جس میں افسانہ نگار نے اس nostalgia کو بیان کیا ہے جو زندگی کی گرفت سے نکل گئ ہے۔ دل، مذہب، احساسات اور وہ انسانی قدریں اس نئ صدی میں معدوم ہوکر رہ گئ ہیں۔
"اچھائی اور بُرائی کی تمیز مٹ چکی ہے ۔ جرم اور سزا کا تصور عنقا ہو چکا ہے” ۔رشتوں سے نمک اور خلوص سے مٹھاس غائب ہوچکی ہے "۔
زندگی سے اس کی قدروں سے شکایت اور نوحے سے آج کا انسان جو جھ رہا ہے جو ابھی برج خلیفہ سے اوپر اپنا نشیمن نہیں بنا پایا ہے۔
اس وقت کیا ہوگا جب 5771 منزل سے باہر نکلتے ہی horizontally اونچائی کے حساب سے ہمارا اگلا قدم space پر ہوگا۔ وہاں وزن اور وقت کے سارے زمینی پیمانے مطابقت نہیں کریں گے۔
افسانہ اس آنے والے عہد کی سنگینی کا ایک ممکنہ اندازے کو پیش کرتا ہے۔
"*جنسی لطف تو کہیں بھی کسی سے بھی اُٹھایا جاسکتا ہے”
” اس سائنسی اور تکنالوجی کے دور میں دائمی رفاقتیں اپنی اہمیت کھوچکی ہیں ۔ رہی بات محبتوں کی تو ہم دونوں اِسے یہاں وہاں بیٹھ کر بھی نبھا سکتے ہیں. "
یہ کل کی نہیں آج کی illicit relationship کا بیانیہ ہے جو آنے والے دنوں میں ایک عام سا واقعہ ہوگا۔
"دادا جان یہ پریشانی کیا ہوتی ہے ؟
’’ بیٹے یہ بھی میرے دل کی طرح کوئی چیز ہے جسے بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔‘‘
مجھے حیرت ہے وہ سارے حالات ہو بہو اس صدی اور دہائی میں بھی موجود ہیں۔
Surrogate women
Test tube baby
مادہ منویہ بنک، ڈونر سیمن، مذہب سے دوری، جنسی آزادی ۔۔۔۔
پھر افسانہ نگار کو 350 سو سال اگے مراجعت کر نے کی کیا ضرورت ہے۔ دراصل افسانے کے بین السطور میں یہ آج کی بلو اسٹار والی زندگی ہے۔ سائنسی ترقی اور برقی رشتوں پر بے نام سی محبت والی زندگی ہے۔ جسے افسانہ نگار نے ایک خدشے کے طور پر بیان کیا ہے۔
ٹیلی پورٹیشن Teleportation سائنس فکشن ادب ، فلم ، ویڈیو گیمز اور ٹیلی ویژن میں ایک عام موضوع ہے۔ سائنس فکشن میں transportation تکنیک کا استعمال 19 ویں صدی کے اوائل میں ہوا۔ سائنسی ٹیلی پورٹیشن کی ابتدائی جھلک ۱۸۹۷ میں فریڈ ٹی جین Fred T jain کے ناول "ٹو وینس ان فائیو سیکنڈ” To venus in five second میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جین کا مرکزی کردار ایک عجیب مشینری پر مشتمل زمین سے سیارہ وینس میں منتقل ہوتا ہے.
"مادہ ٹرانسمیٹر” پر مبنی پہلا سائنس فکشن ۱۸۷۷ میں Edward page Mitchell کے یہاں
The man without a body
میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
فلسفی ڈریک پارٹف Derek Partif نے اپنے ٹیلی ٹرانسپورٹیشن پیراڈوکس میں ٹیلی پورٹیشن کا استعمال کیا۔
جدید فزکس آئن سٹائن کی time machine اور Theory of relativity کی روشنی میں امکان کے اس سائنسی در کو وا کرنے کا اشارہ دے چکا ہے. ٹائم میں ٹریول بہرحال ممکن ہے میں ہی ایسی کہانیاں جنم لیتی رہی ہیں، بل کہ فی زمانہ ایسی کہانیاں زیادہ تیزی کے ساتھ سامنے آرہی ہیں اور آئے روز ٹائم ٹریول کے شوقین ایسی کہانیوں میں اپنے پہلے سے بنے ہوئے ذہن اور شوق کو سچ ثابت کرنے کے لیے نت نئے دلائل اخذ کرتے رہتے ہیں۔ مادے کا حقیقی ٹیلی پورٹیشن جسے جدید سائنس مادے کی مکاناتی تبدیلی کا نام دیتی ہے، تو یہ قابل عمل نہیں ہے؛ کیوں کہ کسی بھی مادے کی ایک جگہ سے دوسرے مقام پر منتقلی ان کے مابین جسمانی جگہ کو عبور کیے بغیر نیوٹن کے قوانین کشش و ثقل کے خلاف ہے۔ لیکن یہ سارے مفروضات کو ہم افسانے کی صداقت پر کس کر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں افسانے کے اس بین السطور میں پنہاں ان حقیقتوں کو دیکھنا ہے جس سے زندگی دوچار ہونے جارہی ہے۔لیکن افسانہ نگار اس سائنسی سچ کو بھی واقعات کے ساتھ باندھ کر چلتے ہیں۔جب اس تناظر میں بھی ان کے افسانے کی سائنسی صحت کی diagnosis کرتے ہیں تو کھلتا ہے کہ کوانٹم ٹیلی پورٹیشن ٹیلی پورٹیشن سے الگ ہے ، کیوں کہ اس سے مادہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوتا ہے ، بل کہ اسی طرح کے کوانٹم حالت میں (مائکروسکوپک) ٹارگٹ سسٹم تیار کرنے کے لیے ضروری معلومات منتقل کرتا ہے۔ اس اسکیم کو کوانٹم "ٹیلی پورٹیشن” کا نام دیا گیا ہے۔ جو آج کسی نہ کسی صورت میں ہم پاتے ہیں۔
کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کلاسیکی معلومات جیسے جدید فزکس آئن سٹائن کی time machine اور Theory of relativity کی روشنی میں امکان کے اس سائنسی در کو وا کرنے کا اشارہ دے چکا ہے.
کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کلاسیکی معلومات جیسے ریڈیو مواصلات کی سادہ ترسیل سے تبدیل ہوسکتی ہے۔ بیمنگ beaming اکثر ٹیلی پورٹیشن کے مترادف کے بطور استعمال ہوتا ہے ۔
"بٹرفلائی ایفکٹ‘‘ butterfly effect ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ابھی بھی عقل کی دست رس میں نہیں آسکے ہیں. انسانی عقل کی یہ نارسائی ہے کہ اسے ابھی پانچ فی صد کے بارے میں ہی معلوم ہے جسے عقل اگلے پڑاؤ پر رد کردے گی۔
زیر مطالعہ افسانہ اردو کے قاری کے لیے ایک سوال چھوڑ جاتاہے۔
جو scientific truth کی تلاش میں فن کو رد کرکے دلیل کی تلاش میں تنقید کے ڈنڈے لیے دوڑنے کے عادی ہیں۔ میں ڈاکٹر نور الامین کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ادب کو scientific hypothesis سے الگ رہ کر دیکھنے میں ادب اپنی معنویت سے کھل کر سامنے آتا ہے۔ اسے fantacy اور dystopian فکشن کہنے میں کون سی مصلحت آڑے آتی ہے۔
اردو سائنس فکشن کے مصنف مستقبل کی پیشن گوئی کیوں نہیں کرسکتے؟ 
انگریزی میں کیا یہ اختیاری حق صرف آرتھر سی کلارک، ایچ جی ویلز، ألان مارشل، ایلوین، ایڈی ٹافلر اور ایڈو لس ہیکسلے کو ہی حاصل ہے. کیا اردو کے افسانہ نگار مستقبل میں جھانکنے کی حیرت انگیز صلاحیت سے مالا مال نہیں ہیں. زیر مطالعہ افسانہ مستقبل میں جھانکنے کی ایک شعوری کوشش ہے جسے افسانہ نگار نے وقت کاپر لگا دیا ہے. ان خطرات اور خوشیوں کے منبع کی تلاش ہے جس سے زندگی روشناس نہیں ہوئی ہے. ان خطرات کا الارم جس کی دستک ہم شعور پر محسوس کرتے ہیں۔ اسلوب انداز بیان کے علاوو افسانہ نگار کا علمی استبداد اور institutions کو مستقبل کا پیکری ہیولا بنا کر پیش کرتا ہے.
ڈائسٹوپیئن افسانہ زندگی کے اقدار معاشرت کو مستقبل کے وژن میں پیش کرتا ہے۔ تباہ شدہ ملبے میں دبے معاشرت کی بازیافت کی شعوری کوشش افسانے کی روح میں کہیں چھپا رہتا ہے، کردار ماحولیاتی، اخلاقی اقدار کی معدومی پر نوحہ گر ہوتا ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کی ایک مراجعتی رجحان کا اس پر فکری غلبہ رہتا ہے۔
یہ ایک dyso utopic کا افسانوی code of conduct ہے جو اسے موجودہ معاشرتی، اخلاقی، نفسیاتی، مذہبی اور سیاسی حالات کے بارے میں مختلف انداز سے سوچے اور فینطاسیہ کے قلب میں ڈھال کر وہ حظ حاصل کرے جو willing suspension of disbelief بن کر مسرت وبصیرت کے احساس سے قاری کو تجربہ کراۓ
Dysto utopian ادب ایک fantacy پر بنا گیا ہے. سر تھامس مور نے اپنی ایک کتاب "یوٹوپیا” میں اس کی تفصیل سے وضاحت کی ہے۔
دم توڑتے ہوۓ اخلاقی اقدار ، مرجھاۓ ہوۓ دل کے رشتوں کی قلق social anxiety کی شکار زندگی کا نوحہ ہے اور ایک ideal گوشت پوست اور دھڑکتے ہوۓ دل کا مشینی اخلاق کے خلاف احتجاج ہے جو افسانے میں ڈھل گیا ہے۔ نئے معاشرے نے اس نئے مشینی خول میں خود کو adapt کرلیا ہے اور اپنی زندگی کی rewiring اسی خطوط پر کرلی ہے. پرانی نسل نے اب بھی تقدیسی دل سے ان روٹھے ہوۓ اقدار کو چمٹاۓ رکھا ہے۔ ذرات کا فضا میں تحلیل کے خوف سے اس مشینی زندگی کا حصہ نہیں بن پایا ہے اور نا ہی نئ نسل کو پرانے اقدار کی طرف مراجعت کی ترغیب دیتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں احساس سے عاری زندگی گذارنے کے جبری عمل سے گذرا ہے۔احساس کے اس ادراک کو افسانہ نگار نے افسانے کی شہ رگ میں اتار دیا ہے۔

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ ہو: سانسوں کے درمیان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے