ربا تجھ سے بڑا پرانا ناتا ہے 

ربا تجھ سے بڑا پرانا ناتا ہے 


عامرعبداللہ

ربا میری بھیڑوں کی رکھوالی کر
مینہ برسا ، گھاس اگا
ان کے تھنوں سے دودھ بہا
باگھوں کو رستہ بھٹکا
ربا………..!
روز پہاڑی چڑھتا ہوں میں
اونچائی سے ،نوکیلی چٹانوں سے گھبراتا ہوں
پھسلن میری دشمن ہے
دور وہاں، نیچے خونی گہرائی ہے
ربا میرا ہاتھ پکڑ لے منزل تک پہنچا
ربامیرے سوہنے ربا…!
چیلیں منڈلاتی ہیں سر پر چوزوں کے
مخمل جیسے نرم بدن ہیں
کھلی کھلی سی رنگت ہے
حیراں حیراں آنکھوں میں سرشاری ہے جی اٹھنے کی
حسرت ہے جی لینے کی
ماں کے پروں کو لا حد کر دے
ماں کی چونچ میں
چیلوں سے تو لڑ جانے کی قوت بھر دے
ربا تیری قوت کے آگے سب کم ہے .

ربا تجھ سے لاکھوں شکوے ، بڑے گلے ہیں
مانجھی جن کو طوفانوں نے نگل لیا تھا
لکھ کر چھوڑ گئے  ہیں
ٹوٹی پھوٹی کشتی کے ان تختوں پر
جو انجان جزیروں پر ہیں پڑے ہوے
ان آنکھوں میں
جن میں جانے والوں کا دکھ ٹھہر گیا ہے
ان جسموں کو
وقت نے جن کی ہریالی کو روند دیا ہے

ربا خود کو تیرا متر بتانے والا
تجھ پر اپنی ملکیت جتلانے والا
میں کب ایسا ….
میں تو بس اک عام سا شاعر
جس نے ایک اک چٹکی میں خوش بو کی تجھے محسوس کیا
چڑ یا کی چہکار میں تیرا گیت سنا
دیکھ تو اس کے سینے میں تو
سانس کی آمد و شد کی صورت رواں دواں ہے

ربا تجھ سے بڑا پرانا ناتا ہے
تیرے منبر اور محراب پہ
جمتی کائی دیکھ کے دل کٹ جاتا ہے

شاعر کا مختصر تعارف : 

عامر شہزاد ،جن کا قلمی نام عامر عبداللہ ہے حضرت سلطان باھو اور ہیر کی دھرتی جھنگ میں پیدا ہوے.وہ اردو، پنجابی اور انگریزی تینوں زبانوں میں شاعری اور نثر لکھتے ہیں. اردو شاعری میں انھوں نے نظم، غزل اور ہائیکو نظمیں لکھیں ہیں، پنجابی میں نظم اور بولیاں اور انگریزی میں نثری نظم تخلیق کرتے ہیں. نثر میں نظری تنقید ، تخلیق انشائیہ اور انشائی تنقید پر خاطر خواہ کام کیا ہے. ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن میں ” میں تنہا کھڑا ہوں"  اور "اجلی کرن کی پگڈنڈی پر" (مجموعه ہاے نظم )_اور "سینہ خاک " مجموعۂ غزل شامل ہیں. عامر عبدالله کا شعری اور نثری کام گزشتہ بیس برس سے موقر ملکی و غیر ملکی ادبی جرائد میں باقاعدگی سے شایع ہو رہا ہے. پاکستان میں یہ کام اوراق، فنون، تسطیر، ادبیات سمیت متعدد ادبی رسائل میں مسلسل شایع ہوتا آرہا ہے، ہندستان میں "شعرو حکمت " اور "استعارہ" جیسے نہایت اہم اور ہندستان کے نمائندہ ادبی جرائد میں بھی اہتمام کے ساتھ چھپتا رہا ہے .
انگریزی نظم بھی متعدد عالمی جرائد میں شایع ہو رہی ہے. حال ہی میں یو ایس اے سے "Paradise on earth” کے نام سے Stefan Bohdan کی ادارت میں شایع ہونے والی انتھولوجی میں ان کی نظمیں شامل ہوئی ہیں. اسی طرح برطانیہ کے اہم اشاعتی ادارہ Clarendon House y سے شایع ہونے والی انتھولوجی Poetica میں بھی ان کا کلام شامل ہوا ، کینیڈا، ہندوستان، عراق ، افریقہ، ارجنٹائن، اسپین اور پاکستان سے بھی متعدد ادبی میگزین میں کلام شامل ہو چکا ہے اور ہسپانوی، تر کی اور سربین زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں. عامرعبدالله کی نظم نگاری پر لاہور یونیورسٹی سرگودھا کیمپس میں ایم فل سطح کا تحقیقی کام جاری ہے، انگریزی میں عامر عبدللہ کی نظم نگاری پر ڈاکٹر رتن گھوش ، سبینا عالیہ، راجندر ٹگر ، ماویلی نے انڈیا سے جب کہ Ekatareena Volodina نے روس اور annette nasser اور Stefan Bohdan
نے یو اس اے سے تنقیدی مضامین اور تجزیے تحریر کیے ہیں .
عامرکی اردو، انگریزی اور پنجابی نظموں کے مجموعے زیر طبع ہیں .

مزید چند نظمیں اور غزلیں ملاحظہ فرمائیں : 

نظم 

حکم ہو صادر 

مفتی جی کچھ حکم ہو صادر
کوئی فتویٰ دیجیے گا
سانس کی آمد و شد پر بھی جب ٹیکس لگا ہو
ایسےمیں کیا لوگ ذخیرہ کر سکتے ہیں
بس دو سانس برابر، صاف ہوا
جب خواہش سینے میں جم کر رہ جائے
کیا دھوپ کی حدت چوری کر لینے پر
تب بھی ‘حد ‘ لگتی ہے ….؟
پانی اپنے نام پہ پیٹنٹ کروانے کی جنگ چھڑی ہے
پیاس کی مجبوری میں مارے جائیں گے جو
ان کا درجہ آپ کی نظر میں کیا ہو گا …؟
آنول سے لوتھڑا بندھا ہوا ہے
نطفہ نا معلوم ہے جس کا
کیا اس کو جینے کی سند ملے گی …؟
آپ کے ماتھے پر پڑتی سلوٹ سے کچھ
اندازہ تو کر سکتا ہوں
لیکن پھر بھی
آپ اگر دستار کے بل کچھ ڈھیلے کر دیں
گھٹی ہوئی چیخوں کو رہائی مل جائے گی

آپ سے ہرگز بحث نہیں ہے
آپ جلال میں آجائیں تو
سب کچھ تہ و بالا ہو جائے
آپ زمیں کو پلٹ کر رکھ دینے کی قوت رکھتے ہیں
فلک تو آپ کے ابرو کی
بس اک جنبش پر قائم ہے
آپ کی مسند عالی کے
نیچے ہی پڑےملتے ہیں سارے
ثابت اور سیارے

عالی جاہ ہمارا کیا ہے
ہم تو "بے اوقاتے” ہیں "،بد ذاتے” ہیں
ہم تو کھال ہی کھنچوانے کو
آپ کے در پر آتے ہیں ….،!!!

نظم 

اعتراف 

وقت نہ حالات
اور نہ حالات کی ناسازی
ہم خود ہی خود کو در پیش ہوتے ہیں
لازم نہیں کہ خود کلامی نفسیاتی عارضہ ہی ہو
خود سے کلام کا فن
بڑی مشکلوں اور جتنوں سے سیکھا جا سکتا ہے
لفظوں کی چیخ پکار میں
غٹر غوں کے باطن میں حق یا ھو کا ورد سننے کے لیے
کڑ کتے جاڑے میں برہنہ بدن چلہ کاٹنا پڑتا ہے
برف سے زندہ رہنے کی توانائی کشید کرتے ہوے
مدھم سے شعلے کی آنچ
بدن کی کسی بے انت گہرائی سے پھوٹتے ہی
سانس کے رستے میں جما کہرا چھٹنا شروع ہو جاتا ہے
تو ہم پر بدن کا دوسرا پار منکشف ہونے لگتا ہے

موسم بیتتے چلے جا رہے ہیں
روشنیوں اور رنگوں سے خلق کردہ پرندے
پروں سے تہی ہونے کو ہیں
شیرخواروں کو سینے سے چمٹاے کھڑی عورتیں
سفرپر روانہ ہو چکی ہیں
الاؤ بجھ چکا ہے
میں انکشاف کا کرب اپنے سینے میں سمیٹ نہیں پایا
بہ طور سزا مجھے
راکھ کریدنے پر ما مور کر دیا گیا ہے
آخری ‘ شو` کے جل جانے تک
جو میرا اپنا ہی ہے

( نوٹ: اس نظم پر ثمر محمد علی کا چھوٹا سا تبصرہ بھی پڑھیں : اساطیری استعاروں کا بھرپور استعمال نظم کے چاق و چوبند ہونے پر دلیل ہے۔ وقت اور موسم گزرتے ہوئے، یادیں اور منظر دھندلا دیتے ہیں۔ حالات کی ناسازی ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری ہر آرزو کا گلا گھونٹنے کو بیتاب و بے قرار ہے۔ ہم دکھ کی سلوٹوں سے الجھ کر اپنی آنکھیں نوچ لیتے ہیں مگر انکشاف کا کرب اپنے سینے میں سمیٹ نہیں پاتے۔ اپنی شناخت کی دریافت اور بے بسی کی زبان بولتی متاثر کن نظم ۔….ثمرمحمد علی) 

نظم (پنجابی) 
چیتا رکھیں یار

میں لاہندے ول ٹریا ہویا
میرا پینڈا ڈاڈھا اوکھا
تتی ریت دی واٹ
وا دے کوڑے بلے گھلے
سا ہ ہویا ہے تنگ
چھٹیاں لکھ تراٹان سینے
میں ناں چھڈی جنگ

پھلاں نوں ناں چیتے آیا
میرا ہار سنگھار
ککراں توں میں کنڈ یاں دا وے
منگیا ہار ادھار
گل میرے وچ کھبھیاں نوکاں
واہندی لہو دی دھار

میں لاہندے ول ٹریا ہویا
لوں لوں دے وچ اگ
سڑ گیے سارے جھمر جھٹے
سڑ گئی میری پگ
بل بل میرے سامنے ہو گیے
لیڑے سبھے سواہ
الف تلف میں سامنے اپنے
لکن دی نئیں جاہ

اپنا ننگ میں ہاں تے چا کے
جے ناں اپڑ یا پار
جے کر ہجر دی دھار ترکھی
وڈھ سٹیا وچ کار
میں تیرے ول ٹریا ہاموں
چیتا رکھیں یار !!!
"چیتا رکھیں یار "

نظم : اے میری لاڈلی

میری بیٹی
اےمیری لاڈلی
جدائی جو ہمارے درمیاں ہے
ایک دن اس کو لپیٹوں گا
پرانی کشتیوں کے بادبانوں کی طرح
جو لوٹ کر آئی ہوں اک لمبے سفر سے
ان گنت انجان دنیائیں
پرانےکوٹ کی جیبوں میں رکھی ہیں
تمھارےسامنے میں ڈھیر کر دوں گا
بہت مشکل سہی لیکن
بہاؤ کاٹ کر پانی کا
تم سے آ ملوں گا

اےمیری لاڈلی
میں جانتا ہوں
ہرطرف مٹی کی پیالوں میں
بھرا زہریلا پانی ہے
تمھارےجسم میں جو
خون کی مقدار سے بھی بڑھ گیا ہے
فلک کی سمت تکتا ہوں
فلک کے ہونٹ نیلے ہیں
زمیں کا رنگ تو تم جانتی ہو
سرخ تھی جب میں
تمھارے نرم رخساروں پر بوسہ ثبت کر کے
ناؤ تک پہنچا تھا
اور چپو اٹھاے تھے

مری بیٹی
نہیں اب خوف مت کھاؤ
ہمیں اندوہ میں
جس نے جدائی کے رکھا
ماتم کناں جسموں کا اک انبوہ
اس کی سمت بڑھتا آرہا ہے
دیکھ کر ڈرتا ہے وہ
گنبدکے اڑتے رنگ
دیواروں کی درزوں میں اگی کائی
اذاں دیتے موذن کی
زباں کی کپکپاہٹ نے
اسےتشویش میں ڈالا ہے
اب ترک سکونت کی ضرورت ہے اسے
وہ اپنے کل کی فکر میں ہے !!!!

 Poem

"Blow the candle out.."

Blow the candle out
Let the dark prevail
And swallow the stars
To calm down its hunger
Let the light be prey
Of the black bastards
And watch the play of
Prey and predator

Well! If you think
I am the enemy of light
Then be sure, I am not
Be sure I am the one
Eager to serve the
Kingdom of fireflies

Blow the candle out
And preserve the flame
Into your heart
To light the moon
at the celebrations of the
First blossom of the new spring
Now not too far !!!!

(شفقت اللہ شفی کےقلم سے مختصر تبصرہ) 

یکم اکتوبر جھنگ سے تعلق رکھنے والے مایا ناز ادیب، مصنف، شاعر اور مبصر جناب عامر عبدللہ Aamir Abdullah کا جنم دن ہے۔ ایک لکھاری اور نو آموز شاعر ہونے کی حیثیت سے ایسی شخصیات کے ساتھ بیٹھک جہاں میرے لئے سیکھنے کا باعث ہے وہیں مسرت و شرف کا مقام بھی رکھتی ہے۔ آپ پنجابی، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے جس قدر محنت کر رہے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نظم کی دنیا کے سورج، غزل کی دنیا کے گوہر اور مصرع کہنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو استاذ شعرا میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا! اگرچہ آپ کی سادگی اور اپنے فن کی دھن میرے تمام تعریفی کلمات سے آپ کو ممتاز کرتی ہے۔ میرے لیے اور تخلیق کاروں کے لیے آپ کی شخصیت قابل رشک ہے کہ آپ جہان ادب میں اپنا مقام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فنی مہارت کو منوا چکے ہیں، وہیں نوجوان تخلیق کاروں کے لیے مشعل راہ بھی ہیں۔ یکم اکتوبر کی ہی شام جھنگ اردو اکیڈمی اور اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنسز کے زیر اہتمام عامر عبدللہ کے ساتھ ڈاکٹر عمر ساحل کا بھی جنم دن میٹھی مسرتوں میں میٹھے کیک کے ساتھ منایا گیا۔ آپ کو جنم دن کی اور ایسی کام یابیوں کے لیے ڈھیروں مبارک باد دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آئندہ سالوں میں بغیر کسی رنج، مصیبت اور بلاؤں کے محفوظ و تندرست اسی طرح ہمارے ساتھ قائم رکھے۔ آمین۔ 

نظم

میں نے خط کو پار کیا 

اور پھر میں نے قدم اٹھایا
آخر خط کو پار کیا
خط کہ جس کی سرحد پر
اک عمر رکا میں
کتنی صبحیں اور کتنی ہی شامیں
بس یہ سوچتے گزریں
پار کروں یا لوٹ کے جاؤں
لوٹ کر اس دنیا کی جانب
جس کے اندر
ایک کسیلے سناٹے نے
گرہیں ڈال رکھی ہیں ۔۔جو خود
اپنے ہی اندر کے
خالی پن میں ٹوٹ رہی ہے
جس کی درزوں سے
تاریکی پھوٹ بہی ہے

میرے بدن کا ذرہ ذرہ بکھر رہا تھا
تاریکی کے سیل میں میں بس ڈوب چلا تھا
تو پھر میں نے قدم اٹھایا
آخر خط کو پار کیا
اور اب میں اس جانب ہوں
وقت کا ریشم کترن کترن
میری راہ میں بچھا ہوا ہے
میں نے وہ سنگیت سنا ہے
صبحِ ازل جو چڑیا کی چہکار سے پھوٹا
جس کی لے میں
ڈوب کر عالم ابھر رہا ہے
ایک ستارا دھیمے دھیمے
ملن کی کتھا سناتا ہے
کہتا ہے :
رات میری بانہوں میں تھا
اک نور کا دھارا
اور میرے ہر انگ میں تھی
وہ مستی جس میں
میں نے جھومتے دیکھا تھا
ہر کاہ کشاں کو
چھو لینے میں جو لذت ہے
کون بیاں کر سکتا ہے "

ملن کتھا نے میرے دل پر دستک دی ہے
اور سینے میں ، وہ دو آنکھیں جاگ اٹھی ہیں
وہ آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں
اک سر سبز سا جنگل جس میں
اودے ، نیلے ، سرخ ، عنابی
پھولوں کا اک فرش بچھا ہے
مورنیوں کا رقص بپا ہے
میں نے اس کو ، اس نے مجھ کو
چھو کر اک اقرار کیا ہے

اک مدت کے بعد زباں نے
اس املی کا ذائقہ چکھا
جو بچپن نے توڑی تھی
کھٹی املی کا رس میٹھی بوندیں بن کر
پورے بدن میں پھیل رہا ہے
میں نے خط کو پار کیا ہے
اور آبِ شفاف پیا ہے
اپنے دل کی گاگر سے ۔۔۔
میں نے جسم کو اوک بنا کر
روح کی پیاس بجھائی ہے !!!

(مذکورہ نظم پر :گلناز کوثر، ڈاکٹر ثاقب ندیم، نسیم سید کے رائیں ملاحظہ فرمائیں:

نظم نے دوسرے مصرعے سے ہی دل مٹھی میں جکڑ لیا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر ایسے ایسے راستوں سے گزارا جہاں جہاں شاعر کا گزر ہوا۔۔۔۔ آج کی سویر کتنی خوب صورت ہے پہلے پروین صاحبہ کی نظم اور اب آپ کی یہ نظم۔۔۔
گلناز کوثر

یہ تو اندر کے لمبے سفر پہ لے کے جاتی ہوئی نظم ہے۔ قاری کا ہاتھ پکڑ کے وہ راستے دکھا رہی ہے جن کے بارے میں سوچنے کا بھی ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہم اس ظالم کارِ دنیا میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ ایسے خالص احساسات کے نزدیک سے بھی نہیں گزر پاتے ۔ یہ اور ہی دنیا کی سیر کرواتی ہوئی خوب صورت نظم ہے بہت عمدہ حضور
ڈاکٹر ثاقب ندیم

آپ سب کی صبح ہوتی تو میرا دن لمبی تان کے سونے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے اس لیے  ہمیشہ دیر سے حاضری ہوتی ہے لیکن یہ بھی ہے کہ سورج کی نرم کرنوں جیسی کوئی نظم دن سنوار دیتی ہے ۔۔مجھ پردیسی کا بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ جیسے شاعر کو بھی پہلی بار پڑھ رہی ہوں کیا نظم ہے۔ کسی تلخ تجربہ کا صحرا اکثر اتنی ریت اڑاتا ہے کہ آنکھیں اٹ جاتی ہیں اس ریت سے اور یہ صحرا پار کرجانا ممکن نہیں ہوتا ۔۔لیکن اگر زندگی ہاتھ بڑھا کے اپنی اور پھر سے کھینچ لے تو وہ لمحہ بڑا با نصیب ہوتا ہے ۔ زندگی سر تا سر نہ رجائی ہے نہ دکھوں والی دلدل ۔۔نظم کی ہر سطر زندگی کی ایسی ہی بدلتی ہوئی راگنی ہے۔ تشبیہات و استعارات آتشِ سیال کا ابال نہیں ہیں بل کہ رجائیت کی دھیمی آنچ سے اٹھتا سر خوشی کا مدھر راگ ہیں ۔۔زندگی کو نئے سرے سے جینے کی نوید دیتی بہت خوب صورت نظم ۔
نسیم سید

نظم

رات جنگل میں بکھرتی ہے 

بھڑ کتے رنگ
خوش بو تیز تر
آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے روشنی
زر تار کرنوں سے سلے ملبوس
رنگوں کی تہوں میں پیلگوں چہرے
در و دیوار میں سوراخ کرتی سیٹیاں
اور ٹین کے خالی کنستر ایسے جسموں سے
ابھرتے قہقہوں کی گونج
چھن چھن چھن ، چھنن چھن
رقص کرتی نرتکی
اپنے بدن سے پھوٹ کر بہتی
سیہ حلقوں سے پیوستہ
بجھی آنکھوں میں اک رستہ بناتی
اور دھویں کے تیز مرغولے سی چکراتی
بدن کی سرمئی تاریکیوں میں پھیلتی ہے
(سرمئ تاریکیوں میں
ان گنت عفریت پلتے ہیں
لہو کی روشنی کو پی کے زندہ ہیں )

مسلسل رقص جاری ہے
مگر اک جست بھر کر
نرتکی گم ہو گئی ہے
اک ہیولا رہ گیا ہے
رنگ و روغن
صورت و ہییت سے عاری اک ہیولا
سب تماشائی بھی ساکت ہیں
کسےدیکھا تھا ،کس کو دیکھتے ہیں
نیند طاری ہو گئی ہے
نیند جس میں
ایک ہی لمحے کی مٹھی میں دبی ہیں
ان گنت صدیاں
کسکتی، کسمساتی…….

رقص کا آسن بدلتا ہے
ہیولا پوری قوت سے مسلسل گھومتا ہے
ہر طرف ریزے بکھرتے ہیں
سیہ چھینٹے درو دیوار پر گر کر
ادھورے زاویے تخلیق کرتے ہیں
چمکتی ، روغنی دیوار پر شکلیں بدلتی ہیں
ہیولا گرد اپنے گھومتا ہے
اور اس کے گرد سب موجود اشیا گھومتی ہیں
دائرہ در دائرہ اک بے نہایت سلسلہ ہے
دائروں میں دل ، دھڑکتے دل نہیں ہیں
بس سیہ مٹی کی قبریں ہیں
زما نوں کی سمادھی ہے
زما نوں کی سمادھی میں
سیہ چیونٹے ہمکتے ہیں
سیہ مٹی کی قبروں کے دہانوں سے
یہ باہر رینگتے ہیں
برق کی رفتار میں سب پھیل جاتے ہیں

سبھی پھولوں کے چہرے زرد ہیں
سرسبز پتوں کی رگوں میں
سنسنا ہٹ دوڑ تی ہے
رات جنگل میں بکھرتی ہے !!!

(اس نظم پر گلناز کوثر، ڈاکٹر ثاقب ندیم، ساجد علی امیر، ثمر محمّد علی کے تبصرے ملاحظہ ہوں) 

واہ واہ واہ اس نظم کا منظر نامہ نہ جانے کتنے مناظر کو توڑتے اور تعمیر کرتے رہنے سے بنا ہے ۔۔۔ ایسی نظمیں خواہ مخواہ ہی مہربان نہیں ہوتیں بڑی طویل اور کڑی ریاضت ہے۔۔۔ اور کیا کہیں ۔۔۔ You are blessed dear poet….
گلنازکوثر

آج کل خود ساختہ شعرا جو لا یعنی نظم لکھنے کے درپے ہیں اس ماحول میں آپ ان معدودے چند تخلیق کاروں میں سے ہیں جنہوں نے اصل نظم کو زندہ رکھا ہوا ہے
اس خوب صورت نظم پہ بہت داد آپ کو
ڈاکٹر ثاقب ندیم

بہت عمدہ نظم ہے
اس نظم کےکلیدی الفاظ عفریت اور ہیولا ہیں جن سے نظم کے مفہوم تک رسائی ممکن ہے. اگر ان دو لفظوں کو اٹھا لیا جائے تو پوری نظم کا وجود بکھر جائے گا. 
عفریت اساطیری حوالا ہے جس کو بڑی عمدگی سے برتا گیا ہے. 
ہیولا وقت ہے جس کی گردش کائنات میں تغیر کا سبب بنتی ہے. 
وقت کی کوئی مخصوص صورت نہیں ہوتی لیکن اس کی بے ہیتی سے مختلف صورتیں مسلسل جنم لے رہی ہیں
ساجد علی امیر

رات جنگل میں بکھرتی ہے۔۔۔ ایک شکل کی آنکھوں میں مزید شکلیں اور ان شکلوں سے پیراستہ ایک جنگل جہاں وقت سرپٹ دوڑ رہا ہے اور ہر لمحہ نیا تخلیق ہو رہا ہے۔ جب کچھ نیا ہو تو بسا اوقات ساتھ کچھ انہونی بھی ہوتی ہے۔ اس انہونی میں آنے والے وقت کا عندیہ یا وقت سے جڑے خدشات شامل ہوتے ہیں۔ پھیلتی بکھرتی، جنگل کی رگوں میں اترتی رات کا یہ منظرنامہ جہاں تخلیقیت سے بھرپور ہے وہیں گھومتے بدلتے زاویے اور ہیولے مسلسل حرکت کے معنی میں ضم ہیں۔ جنگل اور رات دونوں کا احساس عفریت زدہ ہوتا ہے، اور اس خوف کے زیرِ اثر ہماری سانس کی لَے اور رنگ بدلتا ہے۔ نظم کا ابتدائی حصہ کرافٹ کے لحاظ سے بہت دل چسپ ہے اور وہ حصہ جس میں چھوٹی لائینیں ہیں، یہ طرزِ تحریر اگر غور کیا جائے تو ایک بڑے خوف سے ہم کنار ہونے کے بعد اس خوف کے زیاں کا علامتی اظہار ہے۔ بہت اچھی نظم ہے۔
ثمرمحمّد علی

غزل 

ہم نے خود اپنے آپ میں آنے سے پیش تر
اک خواب بن لیا تھا زمانے سے پیش تر

ہر ایک خشت میں تھا ستارہ چھپا دیا
دیوارِ ہست و بود اٹھانے سے پیش تر

اے خوش نما تمام ہوئیں خوش نماییاں
شاخِ زماں پہ روپ دکھانے سے پیش تر

اے دل ہمارے پاس بجز داغ کچھ نہیں
کچھ احتیاط ، داغ دکھانے سے پیش تر

کس نے پرو دیا ہے ہمیں نوکِ خار میں
خوش بو سے رسم و راہ بڑھانے سے پیش تر

ہم نے بدن کو کھینچ لیا خود سراب میں
رہ میں کسی سراب کے آنے سے پیش تر

غزل ( غیر مردف) 

برف کے اندروں آگ تھی ،آگ میں برف کا شہر تھا
کیا کہوں ، عمر بھر میں تحیر سے باہر نہیں آ سکا

دیکھتے دیکھتے ایک نا مختتم خط کھنچا درمیاں
دیکھتے دیکھتے میں خود اپنے بدن سے جدا ہو گیا

عمرگہری ترائی میں اترے گی اک روز سچ ہے یہی
دل کا حیرت کدہ وقت کی دلدلوں میں اتر جاے گا

دیکھنا تم مجھےجب مہ و سال کی گرد چھٹ جاےگی
دیکھنا خود کو انتم سمے جب تمھارے حوالے کیا

کون تھا جو جدائی کے رستے پہ لے کر گیا دور تک
کون تھا مہرباں، ساتھ دائم نہیں جس نے رہنے دیا

 

POEM

I THINK OF YOU


Cover the distance
Inch by inch
From one breath to another
Move with each beat of your heart
If you want to touch the molten core
Within the fire of my tears

Come on………….. don’t rush
Drink the fizz , sip by sip
 Can a sparrow’s beak
? Hold the universe in it’s entirety
But grain by grain
She can shift the moons

My heart is the land of lost suns
You can cross the wild roars
Face the chaos
To come to embrace me
If you learn the art
to ride the wings of breeze
And fly into a mesmeric trance

Even, when I spin
Beyond the cosmic clock
And a black hole
Attracts my dust
To it’s endless labyrinth
I think of you
As you think of me
Sitting by the fire
!! Ignited by your roasted heart
***

An esteemed poet Annette Nasser from Boston USA reviewed Amir’s poem.It was published in ",Poetey review” a facebook literary group and an international poetry blog ATUNIS GALAXY POETRY.

Review of: “WAKE UP!” by AAMIR ABDULLAH

We have in our hearts
Meadows where sorrows grow
Can you listen to our voices
Our screeching voices
Listen to the skies
Resonating like latten
With our bursting screams
The soil is about to explode
If the said, all that is said
Not heard…
See the ash of oblivion
Approaching to gulp
All the slums and
Pleasure domes
We are at the fault line of
Existence and nonexistence,
a little push
Just a little push can throw us
Into the blind abyss

Centuries…
After centuries will dig
The inhumed skulls and skeletons
Museums will be the
Ultimate rest place for our souls

We have in our hearts
Meadows where
Sorrows grow
Sorrows want to be
Expressed
Wake up from your sleep
Before the violent knocks
Break the doors of your dome!
………………………………….
Sometimes, I think, we are beyond saving our planet from environmental destruction and contamination and the horrific acts upon earth from polluted waste, to careless acts of atrocities, poverty, greed, bad practices and even war. We can’t turn a blind eye or else, we will become extinct and our surroundings here on earth, will be completely destroyed.

The world has been breaking down, right before our eyes, with careless acts of human destruction, poverty, contamination of impurities, greed, power, money and war, yanking humankind into a cavity of anguish, despondency, with hopelessness and desperation.

Aamir Abdullah’s poem is sending a message that if we don’t make amends with Earth and the devastating acts upon it, humankind and our environment, will become nonexistent. He ascertains with certainty, that each of us, must become a leader and work together with all other people who have a voice, to stand up against others who want to destroy the world. If we don’t take responsibility for the world we live in, and be mindful for each other and our environment, we will not see change, rather, destruction before our eyes. We need to make a difference by making good choices and lead by example, at least for the children of this world. If we don’t teach children of the future, how to treat Earth with care and love, things will never change and changes will never happen. Children learn from those that surround them, we must be the inspiration to help make them be a part of earth’s rescue. Children’s minds are innocent and if we, as adults, with more determination and conviction, can come up with solutions to eradicate devastation, we can stop the injustices of others. His poem has a great message, with concrete, affirmative actions and the responsibilities of good people who want to make a change, and, who have a voice to stand up against others who want to destroy earth, can still, make a living, breathing, better, more beautiful world, before it’s too late.

In conclusion, Aamir’s voice, his wise, affirmative words of wisdom, is a great awakening and awareness poem and a lesson to us all.

Annette Nasser

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے