غربت، سچائی، اور خوف خدا!

غربت، سچائی، اور خوف خدا!

جھوٹ و سچ کے انعام و انجام سے باخبر ہونا ضروری
جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

لوگوں کامال ناجائز طور پر کھانے والے؛ یتیموں کا حق مارنے والے؛ زمین و جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے والے اور لوگوں کو دھوکہ دے کر مال کمانے اور اسی مال سے اپنے بچوں کاپیٹ بھرنے والے، دن میں دوستی اور رات میں دوستی کی آڑ میں عزت پر ڈاکہ ڈالنے والے، خیانت کی راہ پر لگنے والا مشورہ دینے والے، ناپ تول میں کمی کرنے والے، حساب کتاب میں خرد برد کرنے والے، مزدوروں کا خون چوسنے والے، اپنے بڑوں کا مذاق اڑانے والے، رشتہ داریوں میں دراڑ پیدا کرنے والے، بغض و حسد سے کام لینے والے، چغلی غیبت کرنے والے، تجارت میں دھوکہ دینے والے، تندرست و توانا ہوتے ہوئے بھیک مانگنے والے، ذرا اس صحابی رسول کا واقعہ پڑھیں. ان کے حالات پر غور کریں. ان کی غربت کو دیکھیں اور ان کے تقوے کو دیکھیں. ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کتنا خوف تھا اندازہ لگائیں، اہل و عیال کی عظیم الشان تربیت کا کتنا عظیم الشان جذبہ تھا، لقمہ حرام سے روکنے اور حلال کمائی کا لقمہ کھلانے کی کتنی فکر تھی اور اس کا کتنا عظیم الشان صلہ ملا کہ دنیا بھی کام یاب اور آخرت بھی کام یاب.
حضرت ابودجانہ رضى اللہ عنہ كى ہر روز كوشش ہوتى كہ وہ نماز فجر رسول اللہﷺ كی امامت میں ادا كريں، ليكن نماز كے فوراً بعد يعنی نماز ختم ہوتے ہی مسجد سے نكل جاتے، رسول اللہﷺ کی نظريں ابودجانہ پر پڑتیں ، جب ابودجانہ كا يہى معمول رہا تو ايک دن رسول اللہﷺ نے ابودجانہ كو روک كر پوچھا :
اےا بودجانہ! كيا تمہيں اللہ سے كوئى حاجت نہيں ہے؟
ابودجانہ بولے كيوں نہيں.
رسول اللہﷺ فرمانے لگے، تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے کے بعد کچھ دیر کیوں نہیں ٹھہرتے اور اللہ سے اپنى حاجات كے ليے دعا كيوں نہيں كرتے۔
ابودجانہ كہنے لگے اے اللہ كے رسول! در اصل اس كا سبب يہ ہے كہ ميرے پڑوس میں ايك يہودى رہتا ہے، جس كے كھجور كے درخت كى شاخيں ميرے گھر كے آنگن ميں لٹكتى ہيں، اور جب رات كو ہوا چلتى ہے تو اس كى كھجوريں ہمارے گھر ميں گرتى ہيں، ميں مسجد سے اس ليے جلدى نكلتا ہوں تاكہ ان گرى ہوئى كھجوروں كو اپنے خالى پيٹ بچوں كے جاگنے سے پہلے پہلے چُن كر اس يہودى كو دے دوں، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بچے بھوك كى شدت كى وجہ سے ان كھجوروں كو كھا ليں۔
پھر ابودجانہ قسم اٹھا كر كہنے لگے. اے اللہ كے رسول! ايك دن ميں نے اپنے بيٹے كو ديكھا جو اس گرى ہوئى كجھور كو چبا رہا تھا، اس سے پہلے كہ وہ اسے نگل پاتا ميں نے اپنى انگلى اس كے حلق ميں ڈال كر كھجور باہر نكال دى۔
یا رسول اللہ! جب ميرا بيٹا رونے لگا تو ميں نے كہا اے ميرے بچے مجھے حيا آتى ہے كہ كل قيامت كے دن ميں اللہ كے سامنے بطور چور كھڑا ہوں، میں تیری بھوک برداشت کرسکتا ہوں، تیری آنکھوں میں آنسو دیکھ سکتا ہوں، تیرا رونا بلکنا اور بھوک سے تڑپنا مجھے گوارا ہے لیکن کسی کی امانت میں خیانت ہرگز گوارا نہیں.
سيدنا ابوبكر صدیق رضی اللہ عنہ پاس كھڑے يہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ايمانى اور اخوت اسلامى نے جوش مارا تو سيدھے اس يہودى كے پاس گئے اور کہا کہ تو اپنے کھجوروں کی قیمت بول میں خریدوں گا اور اس سے كھجور كا پورا درخت خريد كر ابو دجانہ اور اس كے بچوں كو ہديہ كر ديا۔
پھر كيوں نہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ ان مقدس ہستيوں كے بارے يہ سند جارى كرے:
﴿رَّضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾
"اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے-"
چند دنوں بعد جب يہودى كو اس سارے ماجرے كا علم ہوا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ كو جمع كيا، اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچا اور مسلمان ہونے كا اعلان كر ديا.
ابودجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس بات سے ڈر گئے تھے کہ ان كى اولاد ايك يہودى كے درخت سے كھجور كھانے سے كہيں چور نہ بن جائے۔
اور آج ہمارا كيا حال ہے كہ آج ہم اپنے مسلمان بھائيوں كا مال ہر ناجائز طريقے سے كھائے جا رہے ہيں. آج ہمارا کاروبار جھوٹ کا مرکز بن گیا اور بے حیائی یہاں تک پہنچ گئی کہ ہم نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں، اللہ کو ایک مانتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی سرعام یہ کہتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولے کام ہی نہیں چل سکتا. غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے کا نعرہ لگانے والو! ایک بار تو سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچو کہ ڈاکوؤں کے جھرمٹ میں غوث اعظم نے جھوٹ نہیں بولا تو ان کا کام کیسے چلا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بکرا ذبح کر کے بیچنے والا شخص بکرا ذبح کرتا ہے، اچانک اسے پیشاب کی حاجت پیش آتی ہے، وہ ایک ہاتھ میں پانی کا لوٹا اور جلدی جلدی میں دوسرے ہاتھ میں چھری لئے چل دیا، کچھ دور جھاڑیوں کے قریب بیٹھ گیا، اسے کراہنے کی آواز سنائی دیتی ہے، فارغ ہونے کے بعد وہ آگے بڑھتا ہے، کیا دیکھتاہے ہے کہ ایک شخص پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے گردن کٹی ہے ، جان نکل رہی ہے. اتنے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پولیس پہنچتی ہے، کیا دیکھتی ہے کہ ہاتھ میں چھری ہے اور چھری سے خون ٹپک رہا ہے. پولیس اس شخص کو گرفتارکر لیتی ہے. وہ بار بار کہتا ہے کہ قتل میں نے نہیں کیا ہے. پولیس کہتی ہے کہ تو موقع واردات پر موجود ہے، تیرے ہاتھ میں چھری ہے، چھری سے خون ٹپک رہا ہے پھر بھی تو کہہ رہا ہے کہ قتل میں نے نہیں کیا ہے. تو جھوٹ بول رہا ہے چل تجھے امیر المومنین کی بارگاہ میں پیش کریں گے آخر اسے گرفتار کر کے پولیس نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا. حضرت علی نے پولیس سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے بتاؤ تو پولیس نے کہا کہ فلاں جگہ جنگل میں ایک قتل ہوا ہے، موقع واردات پر یہ پکڑا گیا ہے ہاتھ میں چھری تھی اور چھری سے خون بھی ٹپک رہا تھا اسی حالت میں اسے گرفتار کیا گیا ہے اب اس شخص سے حضرت علی نے سوال کیا تو اس نے کہا کہ میں پیشاب کے لئے وہاں گیا تھا، میں بکرا ذبح کرتا ہوں اور اس کا گوشت بیچتا ہوں، میں مارے جلدی کے ہاتھ میں چھری لئے چلا گیا، کراہنے کی آواز سن کر میں قریب گیا، جیسے ہی پہنچا پولیس آگئی اور گرفتار کرلیا، بیان تو اس نے صحیح دیا لیکن موقع واردات کی نزاکت کے اعتبار سے وہ مجرم ٹھہرایا گیا. امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص کی تاریخ مقرر کردی. چناں چہ وہ تاریخ بھی آگئی، اب دیکھئے سچائی کی جیت کیسے ہوتی ہے. مجمع لگا ہوا ہے، سزا سنا دی گئی ہے، قریب تھا کہ گردن اڑا دی جاتی کہ وہ شخص جس نے قتل کیا تھا وہ بھاگتے ہوئے آرہا ہے اور آتے ہی چیخ پڑا کہ اے امیر المؤمنین یہ بے قصور ہے اور قتل میں نے کیا ہے. لہذا میرے اس بھائی کو چھوڑ دیا جائے اور مجھے میرے کئے کی سزا دی جائے. قاتل کے بیان و اقبال جرم پر پہلے سے گرفتار شخص کو چھوڑ دیا گیا اور دوسرے شخص کی گردن مارنے کا حکم دے دیا گیا. تلوار چلنے ہی والی تھی کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ آدمی نہ آتا تو ایک بے قصور کی جان جاتی گویا اس نے ایک طرف قتل کیا ہے تو دوسری طرف ایک جان بچائی ہے اور قرآن کے مطابق جس نے خون ناحق سے کسی کو بچایا تو اس نے پوری انسانیت کو بچایا. یہ دلیل پیش کرتے ہوئے حضرت امام حسن نے اپنے والد مکرم سے کہا کہ جس پر الزام لگا ہے اسے تو فوراً رہا کیا جائے اور جس نے مزید ایک اور ناحق جان جانے سے بچایا اسے بھی معاف کردیا جائے. کیوں کہ قتل کر نے کی سزا ملنی چاہیے تو ایک بے قصور کی جان بچانے کا انعام بھی تو ملنا چاہیے. معلوم یہ ہوا کہ سچائی سے پریشانی تو ہوسکتی ہے مگر ناکامی نہیں اور جھوٹ کچھ دیر کے لئے سرخ رو ہوسکتا ہے مگر کام یاب نہیں ہو سکتا اور جھوٹ کے بیڑے کو ڈوبنا ہی ڈوبنا ہے- قارئین کرام راقم الحروف نے یہ دونوں واقعات کو معتمد علما کرام کو بیان کرتے سنا ہے اور بہت سے واقعات کو علما کرام بیان کرتے ہوئے حوالہ نہیں دیتے شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں واقعے میں ضعف پایا جاتا ہے، فلاں واقعہ غیر مستند ہے اگر ایسی بات ہے تو علما و خطبا کو بیان ہی نہیں کرنا چاہیے. جب کہ ان دونوں واقعات کو راقم الحروف نے صرف اس مقصد کے تحت تحریر کیا ہے کہ آج کا انسان اور آج کا مسلمان جھوٹ کے بھیانک انجام سے باخبر ہو سکے اور یہ یقین کرلے کہ سچائی کا مقام یہ ہے کہ وقتی طور پر بھلے ہی دشواری کا سامنا کرنا پڑے مگر جب دنیا کے سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد آتی ہے یعنی اللہ کی طرف سے سرخ روئی کے دروازے کھلتے ہیں کیوں کہ سچائی کا تعلق اللہ سے ہے، سچائی کا تعلق خوف خدا سے ہے. حجاج بن یوسف نے جب ربیع کے دونوں بیٹوں کو قتل کرنے کا حکم جاری کردیا تھا تو حجاج بن یوسف کی پولیس اور فوج ربیع کے دونوں بیٹوں کو تلاش کررہی تھی. حجاج بن یوسف کی پولیس تلاش کرتے کرتے تھک گئی لیکن دونوں بیٹے نہیں ملے تو حجاج بن یوسف کو غصہ آیا. کہتا ہے کہ آخر ربیع کے دونوں بیٹوں کو زمین کھا گئی یا آسمان. تو کسی نے مشورہ دیا کہ ربیع کبھی جھوٹ نہیں بولا کرتے. ان کی سچائی کا چہار جانب تذکرہ ہوتا ہے آخر انھی کو بلا کر معلوم کرلیا جائے تو خود ان کا بھی امتحان ہو جائے گا. وہ اپنے بیٹوں کی جان بچانے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں یا سچ بولتے ہیں. حجاج بن یوسف یہ سنتے ہی کہتا ہے کہ یہ بہت اچھا مشورہ یے، ان کو لایا جائے. چناں چہ ربیع کو حجاج کے دربار میں حاضر کیاگیا. اب حجاج پوچھتا ہے کہ اے ربیع میری پولیس تمہارے دونوں بیٹوں کو تلاش کررہی ہے اور وہ دونوں نہیں مل رہے ہیں. کیا تمھیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں تو ربیع نے کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے کہ وہ دونوں کہاں ہیں. حجاج کہتاہے کہ پھر تم نے بتایا کیوں نہیں. تو انھوں نے جواب دیا کہ مجھ سے پوچھا ہی نہیں گیا. حجاج بن یوسف کہتاہے کہ ہاں تو بتاؤ وہ دونوں کہاں ہیں انہوں نے جواب دیا کہ میرے گھر ہیں، کونے میں چھپے ہوئے ہیں. پولیس دونوں کو پکڑ کر لاتی ہے، حجاج بن یوسف کہتاہے کہ اے ربیع تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے بیٹوں کی سزا کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے کہ دونوں کو قتل کردیا جائے گا. حجاج کہتاہے کہ پھر کیوں بتا دیا دونوں کا پتہ، تو انھوں نے کہا کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا. حجاج کہتاہے کہ تمھیں مجھ سے نفرت ہے تو ربیع کہتے ہیں کہ ہاں مجھے تجھ سے نفرت ہے، تونے صحابہ کرام کو قتل کیا ہے اور مجھے صحابی رسول کے قاتل سے نفرت ہے اور آج تو میرے دونوں بیٹوں کو بھی قتل کردےگا. مجھے تجھ سے اور کچھ بات نہیں کرنی ہے. بس ایک کام کرنا. قتل کے بعد میرے دونوں بیٹوں کی لاشیں میرے گھر بھیجوا دینا تاکہ میں قرآن و حدیث کے مطابق ان کی تجہیز و تکفین کرسکوں. اتنا کرنا، یہ تیرا احسان ہوگا. حجاج بن یوسف چیخ کر کہتا ہے کہ آج تک میرے اوپر کسی کی باتوں کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا جو تم نے مجھ سے نفرت کا اظہار کیا اس سے بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اے ربیع تیری سچائی نے مجھے متاثر کردیا اور مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے حجاج بن یوسف نے کہا کہ اے روبیع اکیلے نہ جاؤ بل کہ اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر جاؤ میں نے تمھارے دونوں بیٹوں کو معاف کیا. اے روبیع کے بیٹوں مجھے تم پر ترس نہیں آیا بلکہ تمہارے باپ کی سچائی نے تمھیں معاف کرنے کے لئے مجھے مجبور کر دیا. جاؤ اپنے نیک باپ کے ساتھ جاؤ. یہاں بھی معلوم ہوا کہ سچائی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا. حاکم ملک کے دربار میں بھی مضبوطی کے ساتھ حق و صداقت پر قائم رہے تو اللہ کی طرف سے رہائی کا ایسا راستہ ہم وار ہوا کہ جس نے قتل کا فرمان جاری کیا تھا وہی شخص معافی و رہائی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوا. سچ زندہ باد، سچ زندہ باد، سچ ہردم زندہ باد. نہیں ہے باطل کی بنیاد-

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
رابطہ: 8299579972
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: نہ علما پر شک کی گنجائش ہے نہ دینی مدارس پر!

( نوٹ : انتہائی نیک مقصد سے بیان کی ہوئی باتوں میں بھی حوالے کا التزام ضروری ہے. ورنہ وضع حدیث و آثار لازم آئے گا. اشتراک پہ شائع ہونے والی تحریروں میں بیان کردہ واقعات کی تصدیق و تکذیب اشتراک کی ذمہ داری نہیں ہے.) 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے