زمین دارکی دانش مندی

زمین دارکی دانش مندی

آبیناز جان علی ، ماریشش 
کسی دوردراز ملک میں ایک زمین دار رہتا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کا سب سے امیر آدمی مانا جاتا تھا۔ سب لوگ اسے جانتے تھے اور وہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔ وہ سب سے خوش اخلاقی سے پیش آتا اور ان سے اچھی اچھی باتیں کیا کرتا۔ اس کے پاس بہت ساری زمینیں تھیں۔ وہ ان زمینوں پرگنّے کی کاشت کاری کیا کرتا۔ زمین دار کے یہاں آم، لیچی، ناریل، کیلا، سیب اور سنترے کے باغات بھی تھے۔ وہ اپنی زمینوں پر قسم قسم کی سبزیاں بھی اگاتا تھا۔ وہ ان سیزیوں اور پھلوں کو گاؤں کے بازاروں میں بیچتا اور شہروں کی بڑی بڑی ہوٹلوں کو بھی بیچتا۔ اس کے علاوہ زمین دار کے یہاں بہت سارے گھوڑے، بطخیں، گائے، بکریاں اور مرغیاں تھیں۔ وہ مرغیوں کے انڈے اور گائے کے دودھ کا کاروباربھی کرتا۔ اس طرح وہ بہت سارے پیسے کماتا اوراپنے خاندان کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کرتا۔
ایک شام اس زمین دار کا نوکر اصطبل کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔ رات کو اس کا عربی گھوڑا اصطبل سے نکل کر جنگل کی طرف چلا گیا اور کسی کو کوئی خبر نہیں ہوئی۔ صبح گھوڑے کو بہت تلاش کیا گیا لیکن معلوم نہیں زمین کھا گئی یا آسمان۔ یہ خبرپورے گاؤں میں پھیل گئی۔ زمین دار نے قیمتی رقم دے کر گھوڑا خریدا تھا۔ وہ گھوڑا کالے رنگ کا تھا اور اس کی ٹانگیں سفید تھیں اور اس کا دم بھورا تھا۔ گھوڑا بہت چست تھا اوربہت تیز دوڑتا تھا۔ زمین دار کا لڑکا اکثر اس پر بیٹھ کر گاؤں کی سیر کیا کرتا تھا۔
لوگوں کو دکھ ہوا کہ زمین دار کا اتنا بڑا نقصان ہوگیا۔ وہ ہم دردی دکھاتے ہوئے زمین دار کے عالیشان مکان پر پہنچے۔
لوگوں نے مشفقانہ انداز میں زمین دار سے کہا: ”بہت برا ہوا۔ کیا بری قسمت پائی ہے۔“
کسی اور نے کہا: ”آپ نے قیمتی داموں میں گھوڑا خریدا تھا۔ آپ کا بہت نقصان ہوگیا ہے۔“
زمین دار نے بس اتنا جواب دیا ”شاید۔“
دوسرے دن زمین دار کا گھوڑا واپس آیا اور اپنے ساتھ ایک جنگلی گھوڑا بھی لایا۔ وہ جنگلی گھوڑا بالکل سفید تھا اور اس کی جلد سورج میں خوب چمک رہی تھی۔ دیکھنے والے بس دیکھتے ہی رہ جاتے۔ لوگوں نے جب یہ خبر سنی تووہ بہت خوش ہوئے۔ وہ زمین دار کو مبارک باد دینے کے لئے ان کے پاس گئے:
”مبارک ہو۔ کل آپ نے ایک گھوڑا کھویا تھا۔ آج دو دو گھوڑے مل گئے۔ کتنی خوش قسمتی کی بات ہے۔“
زمین دار نے جواباً کہا: ”شاید۔“
اگلے روز زمین دار کا نوجوان لڑکا اس جنگلی گھوڑے پر قابو پانے کی کوشش میں اس پر چڑھ گیا۔ سفیدگھوڑا بہت جنگلی تھا۔ آج تک اس پر کوئی نہیں بیٹھا تھا۔ وہ اپنی سامنے والی دو ٹانگیں ہوا میں اٹھانے لگا۔ زمین دار کا لڑکازور سے زمین پر گر گیا۔ اس کا پاؤں بری طرح زخمی ہوگیا۔ ڈاکٹر سے معائنہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اب وہ عمر بھر چل نہیں پائے گا۔ لوگوں میں جب یہ خبر گرم ہوئی تو بطور حرفِ تسلی زمین دار سے کہنے لگے۔: ”بہت افسوناک بات ہے۔ آپ کا بیٹا ابھی جوان ہے۔ اس کے ساتھ بہت برا ہوا۔“
زمین دار نے فقط اتنا جواب دیا ”شاید۔“
ایک ہفتے بعد بادشاہ کے سپہ سالار فوج میں نوجوانوں کو منتخب کرنے کی غرض سے اس گاؤں میں پہنچے۔ جب وہ زمین دار کے لڑکے کے پاس آئے تو انہوں نے اس کا انتخاب نہیں کیا کیوں کہ اسے چلنے میں تکلیف ہورہی تھی۔ فوج میں تندرست اور مضبوط نوجوانوں کی ضرورت تھی۔ زمین دار کا لڑکا ان کے کام کا نہیں تھا۔
لوگوں میں یہ خبر پھیلی تو زمین دار سے کہا گیا: ”کتنی خوش قسمتی کی بات ہے۔ یہ تو بہت اچھا ہوا۔“
زمین دار نے جواب دیا: ”شاید۔“
دوستو! زمین دارآپ کو یہ سبق سکھا گئے کہ خوشی کے وقت زیادہ خوش نہیں ہوا کرتے اور اداسی کے وقت زیادہ مایوس نہیں ہوا کرتے۔ میانہ روی ہی خوش حال زندگی کا راز ہے۔
کہانی کار کی دوسری نگارش : وزن کم کرنے کے لوازمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے