مشعل راہ: حیات حضرت خواجہ غریب نواز

مشعل راہ: حیات حضرت خواجہ غریب نواز



محمدقمرانجم فیضی

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی

تاریخوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اجمیر شریف پانچ ہزار سال پرانا شہر ہے. یہ شہر محبت دہلی سے 416/کلومیٹر دور ہے۔ اس کا سب سے قدیم نام جیدرک، جے میر، جمیر، جیانگیر اور جلو پور بھی رہا ہے _اور اب اجمیر شریف کے نام سے مشہور ومعروف ہے. یہ دور افتادہ پہاڑی شہر سادھوؤں، مہنتوں کا مسکن رہا تھا۔جو پہاڑیوں، گفاؤں اور مندروں میں صدیوں سے مقیم چلے آ رہے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز کی آمد سے اجمیر شریف کو برصغیر ہند وپاک میں مرکزی حیثیت حاصل ہوئی. آپ نے کفر و الحاد کی دبیز تاریکی میں ایمان کی شمع جلائی. آپ کی نظر پُر تاثیر میں وہ جادو تھا جو عام لوگوں کو ولی اور بادشاہ بنا دیا کرتا تھا. آپ سلسلہ چشتیہ کے روحانی تاج دار اور محور ومنبع ہیں اور اس روحانی کہکشاں کا درخشندہ جھرمٹ۔ یوں تو اس عظیم سلسلے کے بزرگان دین اولیاء کرام کی تعداد بے شمار ہے، لیکن اس سلسلے کے چار سرکردہ بزرگان دین مشہور ومعروف ہوئے ہیں جن میں حضرت خواجہ بختیار کاکی، حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر، محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور حضرت مخدوم خواجہ علاؤالدین سید علی احمد صابر کلیر شریف رضی اللہ تعالیٰ عہنم شامل ہیں. ان بزرگوں نے اس سلسلہ کو ہر عالم میں متعارف کرا دیا ہے. آپ کو ہند الولی، عطائے رسولؐ، خواجہ اجمیر،ہند کے راجہ، نائب رسول فی الہند کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے _آپ پیران پیردستگیر، غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔ آپ نے حرمین شریفین، بغداد، شام، اصفہان، ہمدان، بصرہ، تبریز، ثمرقند، بخارا، ہرات، بلخ، کرمان، ہارون، میمنہ، رے، بدخشاں، کوہ حصار، غزنی ضلع حصار اور دورافتادہ ملکوں کا سفر بھی کیا۔آپ کے حیات مبارکہ کے وہ چند نقوش جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، قارئین کے پیش نظر ہیں. اگر ہم ان نقوش پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہماری زندگی روشن وتاب ناک ہوجائے گی۔
بچپن میں عیدگاہ جاتے نابینا بچے کو اپنے کپڑے پہنائے.

آپ کے والد محترم حضرت سیدنا خواجہ غیاث الدین چشتی اور والدہ محترمہ بی بی ماہ نور المعروف بی بی ام الورع نے آپ کی تربیت اس عمدگی سے فرمائی کہ بچپن میں ہی آپ کی طبیعت میں انسانیت اور رحم دلی کوٹ کوٹ کر بھری تھی. بہت چھوٹے تھے کہ عید کے روز نئے لباس میں تیار ہو کر عیدگاہ جارہے تھے راستے میں ایک نابینا بچے کو دیکھا جس کے جسم پر پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے تھے، یہ دیکھ کر آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے اپنے زیب تن کپڑوں میں سے کچھ اتار کر اس نابینا بچے کو پہنائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے _

گلی کے ہم عمر بچوں کو گھر لا کر کھانا کھلاتے

آپ بمشکل تین سال کے تھے تو اکثر و بیشتر باہر گلی سے اپنے ہم عمر بچوں کو بلا کر گھر لے آتے اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلا کر ازحد خوش ہوتے۔ جب کوئی خاتون شیر خوار بچے کے ساتھ گھر آتی تو بچہ روتا تو آپ اپنی والدہ کو اشارہ کرتے جو فوراً سمجھ جاتیں اور اسے اپنا دودھ پلاتیں اور ایسے میں آپ کے معصوم چہرے پر خوشی رقصاں ہوتی _

پیرومرشد حضرت عثمان ہارونی سے خرقہ خلافت عطا ہوا –

حضرت سلطان الہند، خواجہ غریب نواز خواجہ جواجگان کو روحانیت میں یہ اعلی و ارفع مقام اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی نظرکیمیا نیز ان کی خدمت اور راہ سلوک پر ان کے بتائے ہوئے راستے پر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوا۔ آپ کو بیس سال تک اپنے مرشد کی خدمت کا شرف حاصل ہوا. دیگر ممالک کے سفر اور سیاحت کے دوران اپنے مرشد کا سامان اور پانی کی چھاگل ہمیشہ آپ کے سر پُرنور پر رہتی۔ آپ کو مرشد نے باون سال کی عمر میں خرقہ خلافت عطا فرمایا اور سجادہ نشین مقرر فرمایا اور آپ کو اپنا عصا، مصلی، خرقہ، لکڑی کی نعلین کھڑاؤں عطا کیا اور فرمایا کہ پیارے نبی کے یہ تبرکات پیران طریقت کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ جسے مرد کامل پاؤ اسے ہماری یہ یادگار دے دینا. سینے سے لگا کر ہدایت فرمائی اے معین الدین! خلق سے دور رہنا کسی سے طمع و خواہش نہ رکھنا _

پڑوسیوں سے حسن سلوک

والئ ہندوستان خواجہء خواجگان حضور غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری سنجری الحسنی والحسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے، ان کی خبرگیری فرماتے. اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہوجاتا تو اس کے جنازےکے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے. اس کی تدفین کے بعدجب لوگ واپس ہو جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہوکر اس کے حق میں مغفرت و نجات کی دعا فرماتے نیز اس کے اہلِ خانہ کو صبرکی تلقین کرتے اور انہیں تسلی دیاکرتے۔آپ کےحلم و بُردباری جُودو سخاوت اور دیگر اخلاقِ عالیہ سے مُتأثر ہوکر لوگ عُمدہ اخلاق کے حامل اور پاکیزہ صفات کے پیکر ہوئے اوردہلی سے اجمیر تک کے سفر کے دوران تقریباً نَوّے لاکھ افراد مُشرف بہ اسلام ہوئے۔

عفو و بردباری

آپ بہت ہی نرم دل اورمُتحمِّل مزاج سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔اگر کبھی غصہ آتا تو صرف دینی غیرت و حمیّت کی بنیاد پر آتا البتہ ذاتی طور پراگر کوئی سخت بات کہہ بھی دیتا تو آپ برہم نہ ہوتے بلکہ ا س وقت بھی حسنِ اخلاق اور خَنْدہ پیشانی کا مُظاہرہ کرتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ آپ نے اس کی نازیبا باتیں سنی ہی نہ ہوں۔

خوفِ خدا

حضرت خواجہ غریب نواز پر خوفِ خدا اس قدر غالب تھا کہ آپ ہمیشہ خشیتِ الٰہی سے کانپتے اور گریہ وزاری کرتے. خلقِ خدا کو خوفِ خدا کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے:اے لوگو! اگر تم زیرِخاک سوئے ہوئے لوگوں کا حال جان لو تو مارے خوف کے کھڑے کھڑے پگھل جاؤگے۔

پردہ پوشی

حضرت خواجہ قُطبُ الدّین بختیار کاکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیرو مُرشد حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صِفاتِ مومنانہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں کئی برس تک حضور خواجہ غریب نواز کی خدمتِ اقدس میں حاضر رہا لیکن کبھی آپ کی زبانِ اقدس سے کسی کا راز فاش ہوتے نہیں دیکھا، آپ کبھی کسی مُسلمان کا بھید نہ کھولتے ۔(معین الارواح، ص 188بتغیر)
سُلطان الہِند کی نظر کا کمال

حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللّٰه علیہ فیضانِ اولیاء و علماء سے مستفیض ہوتے ہوئے دربارِ مُرشد ” دہلی ” پہنچے اور پِیر و مُرشد کی ہدایات پر مجاہدوں اور ریاضتوں میں مصروف ہو گئے۔ایک مرتبہ سُلطان الہِند حضرت خواجہ غریب نواز معین الدّین چشتی اجمیری رحمتہ اللّٰه علیہ دہلی تشریف لائے تو والیِ ہِندوستان شمس الدّین التَمش سمیت پورا شہر زیارت و قدم بوسی کے لیے اُمڈ آیا،جب سب لوگ چلے گئے تو حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللّٰه علیہ نے حضرت خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی رحمتہ اللّٰه علیہ سے فرمایا:” تم نے اپنے مُرِید فریدُالدّین مسعود ( رحمتہ اللّٰه علیہ ) کے بارے میں بتایا تھا،وہ کہاں ہے؟ ”
حضرت خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی رحمتہ اللّٰه علیہ نے عرض کی” حضور! وہ عِبادت و ریاضت میں مشغول ہے۔ ”
اِرشاد فرمایا:” اگر وہ یہاں نہیں آیا تو ہم اس کے پاس چلتے ہیں۔ ”حضرت خواجہ قطب الدّین کاکی رحمتہ اللّٰه علیہ عرض گزار ہوئے:” حضور! اسے یہیں بلوا لیتے ہیں۔
لیکن حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
” نہیں! ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللّٰه علیہ جس کمرے میں محوِ ذِکر و عِبادت تھے اچانک وہاں محسور کُن خوشبُو پھیل گئی۔آپ رحمتہ اللّٰه علیہ نے گھبرا کر اپنی آنکھیں کھولیں تو سامنے پِیر و مُرشد حضرت خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی رحمتہ اللّٰه علیہ زیارت کا شرف بخشتے ہوئے فرما رہے تھے:” فرید! اپنی خوش بختی پر ناز کرو کہ تم سے مِلبے سُلطانُ الہِند تشریف لائے ہیں۔ ”حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللّٰه علیہ نے احتراماً کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر سخت مُجاہدے اور ریاضت سے ہونے والی کمزوری کی وجہ سے لَڑکَھڑا کر گِر پڑے،جب اُٹھنے کی سَکت نہ پائی تو بے اِختیار آنسو رواں ہو گئے۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللّٰه علیہ نے آپ کا دایاں بازو جب کہ حضرت بختیار کاکی نے بایاں بازو پکڑ کر اوپر اُٹھایا۔پِھر حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللّٰه علیہ نے دُعا کی” اِلٰہی! فرید کو قبول کر اور کامِل ترین درویشوں کے مرتبہ پر پہنچا۔ ”آواز آئی’ فرید کو قبول کِیا،فرید فریدِ عصر اور فریدِ دہر ہے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللّٰه علیہ نے حضرت بابا فرید گنج شکر کو اِسمِ اعظم سِکھایا،اپنے سینے سے لگایا تو آپ کو یوں محسوس ہُوا کہ جِسم آگ کے شعلوں میں گِھر گیا ہے۔پِھر یہی تپش آہستہ آہستہ شبنم کی طرح ٹھنڈی ہوتی چلی گئی۔آپ کی آنکھوں کے سامنے سے کئی حجابات اُٹھ گئے،طویل سیاحت اور سخت ریاضت کے بعد بھی جو دولتِ عرفان حاصل نہ ہو سکی تھی وہ حضرت خواجہ غریب نواز کی ایک نظرِکرم سے آپ کے دامن میں سما چُکی تھی۔اس وقت آپ کی عمر تیس برس تھی۔

صاحب مضمون کی گذشتہ تحریر : 26جنوری اور جمہوریت کی حقیقت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے