اردو محاورے کی حقیقت اور اس کی ادبی و سماجی حیثیت

اردو محاورے کی حقیقت اور اس کی ادبی و سماجی حیثیت

طفیل احمد مصباحی
سابق مدیر ماہنامہ اشرفیہ ، مبارک پور

محاورے کی ادبی اور سماجی حیثیت مسلّم ہے ۔ دنیا کی کسی بھی متمدن اور ترقی یافتہ زبان میں اسے کلیدی مقام حاصل ہے ۔ محاورات اور ضرب الامثال ہمارے مشاہدات و تجر بات کو پیش کرتے ہیں ۔ ان میں تہذیب و تمدن کے رجحانات ، سماج کے عقیدے اور رسم و رواج کی تصویریں نظر آتی ہیں ۔

سید محمد محمود اکبر آبادی محاورے کی ہمہ گیر اہمیت و افادیت کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
بیان کے اسالیب میں محاورہ سب سے ہمہ گیر ، بار آور اور مفید اسلوب ہے ۔ شکل اور صورت کے اعتبار سے بھی محاورہ زبان کی ایک حسین فنی پیداوار ہے ۔

( اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو ، ص : ٤٧ ، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس ، دہلی )

زبان کا رشتہ کسی کلچر یا تہذیب سے وا بستہ ہو تا ہے ، علاقائی ، قومی یا عالمی سطح کی کوئی بھی زبان ہو اس کا اپنا روز مرہ ، محاورہ اور ضرب المثل ہی اس کی انفرادی خصوصیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ ان کے برجستہ اور بر محل استعمال سے جملے اور شعر دونوں کے حسن میں چار چاند لگ جا تے ہیں ۔ یہ تہذیب و تمدن کے رجحانات کے عکاّس اور اجتماعی زندگی کے بہترین مرقّع ہوتے ہیں اور ان میں معاشرے کی پوری ذہنیت اور شخصیت رچتی بستی نظر آتی ہے ۔ محاورے اور ضرب الامثال رنگین الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ اجتماعی تجربے کا ذریعۂ اظہار ہیں ۔ یہ دیکھنے میں جز معلوم ہوتے ہیں لیکن اس جز میں کل پنہاں ہو تا ہے اور اس میں ارتقائے تمدّن کی کہا نی پوشیدہ ہوا کرتی ہے ۔

محاورہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف : –

محاورہ عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کا لغوی معنیٰ ہے : ہم کلامی ، باہمی گفتگو ، بول چال ، بات چیت ، آپس میں سوال و جواب کرنا وغیرہ ۔ مباحثہ و مکالمہ کے وزن پر باہمی گفتگو کے معنی میں لفظ محاورہ کا صیغۂ مضارع قرآن شریف میں بھی آیا ہے ۔

” و ھو یحاورہ انا اکثر منک مالا و اعز نفرا ” ۔

برج موہن دتا تریہ کیفی کے الفاظ میں محاورے کی اصطلاحی تعریف یہ ہے :

وہ کلام جس کے لفظ اپنے معنیٔ غیر موضوع لہ میں استعمال ہوتے ہوں ، محاورہ ہے ۔
محاورہ کم سے کم دو کلموں سے مرکب ہوتا ہے ۔محاورہ ، قواعد کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتا اور یہ جو کہا گیا ہے کہ اکثر محاوروں کی بنیاد استعارے پر ہوتی ہے ، درست نہیں معلوم ہوتا ۔ استعارے کی جگہ تمثیل کہا جائے تو مضائقہ نہیں ۔

( کیفیہ ، ص : ١٣٤ ، انجمن ترقی اردو ہند ، دہلی )

پنڈت کیفی کی یہ تعریف جامع معلوم نہیں ہوتی ۔ البتہ ڈاکٹر یونس اگاسکر کی بیان کردہ تعریف میں بڑی حد تک جامعیت نظر آتی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

در حقیقت صوری اعتبار سے محاورہ الفاظ کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جس سے لغوی معنی کے بجائے ایک قرار یافتہ معنیٰ نکلتے ہیں ۔ محاورہ میں عموماً علامتِ مصدر ” نا ” لگتی ہے ۔ جیسے آب آب ہونا ، دل ٹوٹنا ، خوشی سے پھولے نہ سمانا ۔ محاورہ جب جملے میں استعمال ہوتا ہے تو علامتِ مصدر ” نا ” کی جگہ فعل کی وہ صورت آتی ہے ، جو گرامر کے اعتبار سے موزوں ہوتی ہے ۔ جیسے : دل ٹوٹ گیا ، دل ٹوٹ جاتے ہیں ، دل ٹوٹ جائے گا ، وغیرہ ۔ گویا محاورہ گرامر کی پابندی کرتا ہے ۔ اس کے برخلاف روز مرّہ اور کہاوت پابندی سے آزاد ہوتے ہیں ۔

( اردو کہاوتیں اور ان کی سماجی و لسانی پہلو ، ص : ٤٥ ، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس ، دہلی )

حالی نے اپنے ” مقدمہ ” میں لکھا ہے : اہلِ زبان کے روز مرّہ بول چال اور اسلوبِ بیان کا نام محاورہ ہے ۔ پس ضروری ہے کہ محاورہ تقریباً ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ میں پایا جائے ۔ کیوں کہ مفرد الفاظ کو روز مرہ یا بول چال یا اسلوب بیان نہیں کہا جاتا ۔ بخلاف لغت کے کہ اس کا اطلاق ہمیشہ مفرد الفاظ پر یا ایسے الفاظ جو بمنزلۂ مفرد کے ہے ، کیا جاتا ہے ۔ مثلاً : پانچ اور سات ، دو لفظ ہیں جن پر الگ الگ لغت کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔ مگر ان میں سے ہر ایک کو محاورہ نہیں کہا جائے گا ، بلکہ دونوں کو ملا کر جب ” پانچ سات ” بولیں ، تب محاورہ کہا جائے گا ۔ محاورہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ترکیب جس پر محاورہ کا اطلاق کیا جائے ، قیاسی نہ ہو ، بلکہ معلوم ہو کہ اہل زبان اس کو اسی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً : اگر ” پانچ سات یا سات آٹھ یا آٹھ سات ” پر قیاس کر کے ” چھے آٹھ ، یا آٹھ چھے ، یا سات نو ” بولا جائے گا تو اس کو محاورہ نہیں کہیں گے ۔ کیوں کہ اہلِ زبان کبھی اس طرح نہیں بولتے ۔ یا مثلاً : بلا ناغہ پر قیاس کر کے اس کی جگہ ” بے ناغہ ” ، ہر روز کی جگہ ” ہر دن ” ، روز روز کی جگہ ” دن دن ” یا آئے دن کی جگہ ” آئے روز ” بولنا ، ان میں سے کسی کو محاورہ نہیں کہا جائے گا ۔ کیوں کہ یہ الفاظ اس طرح اہل زبان کی بول چال میں کبھی نہیں آتے ۔ کبھی محاورے کا اطلاق خاص کر ان افعال پر کیا جاتا ہے جو کسی اسم کے ساتھ مل کر اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔

( مقدّمۂ شعر و شاعری ، ص : ١٧٣ – ١٧٤ ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ؛ نئی دہلی )

مذکورہ بالا تعریفات سے ظاہر ہے کہ محاورے میں الفاظ کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے ، بلکہ مجازی معنی مراد ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ” جھاڑو پھیرنا ” کا حقیقی معنیٰ ہے : کسی فرش پر جھاڑو لگانا ، مگر مجازی معنی یہ ہے کہ کسی چور نے چوری کی اور ایسی چوری کی کہ گھر کا سارا ساز و سامان لے گیا ۔ اب ایسے موقع پر کہا جائے گا کہ ” چور نے فلاں کے مکان میں جھاڑو پھیر دیا ” ۔
اسی طرح ایک محاورہ ہے : ” کان بھرنا ” ۔ اس کا حقیقی معنی ہے : کان میں کچھ ڈال کر اسے بھر دینا ، لیکن محاورہ کے طور پر اس کا مجازی معنیٰ ہے : ” کسی کو کسی کے خلاف بھڑکانا ، متنفر کرنا ، بد گمان کرنا ” ۔

شاعری کا حسن و دل کشی اس کے فصیح و بلیغ کلام میں مضمر ہے ۔ فصیح کلام بالعموم محاوارت و ضرب الامثال اور رزو مرّوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ زبان ، محاورات اور روز مرّوں سے جتنی زیادہ قریب ہوتی ہے ، اس میں فصاحت کا عنصر اتنا ہی زیادہ پایا جاتا ہے ۔ محاورات کے مناسب استعمال سے نہ صرف یہ کہ کلام کی تزئین و آرائش اور حسن و دل کشی میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے ، بلکہ ان کی مدد سے بڑے سے بڑے مفہوم کو چند لفظوں میں بآسانی ادا کر دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم اساتذۂ سخن کے دواوین و کلیات میں اردو محاوارت کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے