والی آسی: شخصیت اور شاعری

والی آسی: شخصیت اور شاعری

ام ماریہ حق

لکھنؤ تہذیبی اور شعر و ادب کی قدروں سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ کئی نامور ادیب اور شاعروں نے یہاں کی سرزمین کو رونق بخشی اور اپنی شیریں بیانیوں سے یہاں کی فضاؤں کو معطر کیا انھی شعرا میں ایک معتبر نام والی آسی صاحب کا بھی شامل ہے۔
والی آسی ۱۹۳۹ میں مشہور ماہر لغات، کلاسیکی شاعر اور دیوان میر کے مرتب آسی لکھنوی کے گھر پیدا ہوئے. علم کی سوغات انھیں وراثت میں ملی فارسی، عربی، اردو، ہندی کے ساتھ ساتھ انھیں انگریزی کی بھی خاصی جان کاری تھی۔ قلم کو مضبوطی سے گرفت میں لینے کی طاقت اور شاعری سے دل میں اتر جانے کا ہنر انھیں ورثے میں ملا. ان کے خاندان میں شاعری کا سلسلہ ان کے پر دادا کے زمانے سے چلا آرہا تھا جو میر تقی میر کے ہم عصر تھے اور ان کے دادا حسام الدین حسام غالب کے شاگرد تھے۔ والی آسی کے خانوادے پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ "ایں خانہ ہمہ آفتاب است". والی، ان کے بھائی باقی اور ایک بہن شاہدہ کی دل چسپی شعر گوئی میں تھی اور ایک بہن عائشہ صدیقی افسانہ نگاری میں ملک گیر شہرت کی حامل ہیں۔
شعر و ادب میں دل چسپی کے ساتھ علم کو حاصل کرنا اور اسی دولت کو دوسروں تک پہنچانا ان کا ذوق تھا. یہی وجہ تھی کہ انھوں نے مختلف نوعیت کی کتابوں کی اشاعت اور کتب فروشی کو اپنا پیشہ بنا لیا اور اپنے ایک دوست ساجد صدیقی لکھنوی کے ساتھ مل کر "مکتبہ دین و ادب" کے نام سے ایک ادارہ قائم کرلیا جس کے لیے انھوں نے لاٹوس روڈ پر وقف کی ایک بلڈنگ میں ایک مکان کرائے پر حاصل کر لیا۔ جس میں کبھی”پرنس" حنیف بیگ رہا کرتے تھے۔ جو ایک مزاح نگار اور صحافت سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ عرصے بعد والی آسی اور ان کے دوست ساجد نے محسوس کیا کی یہ جگہ ان کے کاروبار کے لحاظ سے مارکیٹ سے دور ہے اسی لیے انھوں نے امین آباد کی بارونق بازار میں پٹرائن کی مسجد سے ملحق ایک دکان کو کرائے پر لے لیا اور یہیں مکتبہ دین و ادب کو منتقل کرلیا۔ ابھی ادارہ منتقل کیے ہوئے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ساجد صدیقی کو ایک بیرونی ملک میں ملازمت ملنے کے سبب جانا پڑا۔ پھر ادارے کو انھوں نے تنہا ہی سنبھالا۔ قلب شہر امین آباد میں اردو کتابوں کی سبھی دکانیں شعر و ادب اور مختلف علوم کے تعلق سے ایسی ادبی شخصیات کا آنا جانا لگا رہتا تھا جن کا ذکر کیے بغیر اردو شعر و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی. ان شخصیات میں لکھنؤ یونی ورسٹی اور مختلف کالجوں کے اساتذہ اور سینئر طلبہ شامل تھے۔
والی آسی فطری طور پر شاعرانہ ذہن لے کر پیدا ہوئے تھے۔ علمی اور ادبی مزاج انھیں ورثے میں ملا تھا، جسے انھوں نے نکھارا اور سنوارا تھا- وہ شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی بہت خوب صورت لکھتے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر والی آسی ایک شاعر کی حیثیت ہی سے نہیں ایک ایسے نثر نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے جن کو شعر و ادب کی ہر صنف پر کمال حاصل ہو۔ انھوں نے اردو کے حوالے سے مہاتما گاندھی پر ایک مضمون لکھا تھا۔ اسے مرکزی حکومت کے محکمہ اطلاعات کے ایک ذمہ دار نے لے لیا اور مضمون ملک بھر میں پڑھا گیا اور لوگوں نے انھیں خط بھی لکھے۔
انھوں نے اصناف شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ شاعری میں ان کا انداز جداگانہ رہا ہے. نعت گوئی سے ہی انھوں نے سب سے پہلے شاعری کا آغاز کیا جس کی دنیاے اسلام میں سنہری تاریخ ہے۔ والی آسی کو نعت گوئی سے ایسی غیر معمولی
شیفتگی اور والہانہ محبت تھی۔ انھوں نے انتہائی انہماک اور پوری دل چسپی سے نعت گوئی کے فن و ہیئت کے ساتھ ہیں. اس کی تاریخ کا نہ صرف غائبانہ مطالعہ کیا بلکہ تاریخ نعت گوئی پر ایک جامع کتاب "ارمغان نعت" مرتب کی۔ جسے اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کی قلیل مدت میں ہی اس کے ایک درجن سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے اور ان کی شہرت میں زبردست اضافہ ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں یہ شعر جو ان کے قلم سے نکلے ہیں، قابلِ ملاحظہ ہیں:
مجھے کیا مٹائے گی گردشیں مجھے کیا گرائے گی لغزشیں
مرا نشہ ہے تیرے عشق کا مرا جام ہے تیرے نام کا
جو دل کا سرور ہے جو ہر ایک آنکھ کا نور ہے
وہ درود ہے تیرے نام کا وہ سلام ہے تیرے نام کا
مکتبہ دین و ادب سے والی آسی نے متعدد کتابیں شائع کیں اور اپنے مجموعہاے کلام بہ عنوان "شہد" اور "موم" بھی وہیں سے شائع کیے۔ کتابیں شہد اور موم کے عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ "جب ہم مختلف علوم کا مطالعہ کرتے ہیں، علمی گلشنوں سے خوشہ چینی کے نتیجے میں جو پاتے ہیں اور پھر اس علم کی بنیاد پر شعر کہتے ہیں یا کوئی ادبی تخلیق کرتے ہیں تو گویا ہم شہد کی مکھی کی طرح رس چوس کر اسے شہد میں بدل کر چھتے میں محفوظ کر دیتے ہیں، جو موم کا ہوتا ہے۔ شہد کی شکل میں ہماری تخلیقات سے لوگ مستفید ہوتے ہیں اور جو موم بن جاتا ہے اسے کسی بھی شکل میں ڈال کر تخلیق کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں کا شعری مجموعہ شہد کی اشاعت کے بعد اپنی نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ موم کو شائع کر کے دھوم مچا دی۔ دراصل والی آسی نے سب سے پہلے شہد کے ذریعے معاشرے میں اپنی شیریں گفتاری سے سازگار اور خوشگوار تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی تو موم کی اشاعت کے ذریعے اپنی نرم دلی، نرم گوئی اور نرم روی، انسانیت نوازی اور انسانیت سازی کا دنیا کو پیغام دے کر انھوں نے ایسا لاثانی شعری کارنامہ انجام دیا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے. ان کے کچھ خوب صورت اشعار ملاحظہ فرمائیں اور ان کی جمالیاتی فضا میں کھو جائیں:
ہم نے اک شام چراغوں میں سجا رکھی ہے
شرط لوگوں نے ہواؤں سے لگا رکھی ہے
جہاں کچھ بھول کچھ رشتوں کے دامن چھوڑ آئے ہیں
بہت پیچھے وہ کچے گھر کا آنگن چھوڑ آئے ہیں
مخالفین کی تعداد کم نہ تھی والی
مگر ہمارا مقدر ہمارے ساتھ رہا
ہم جو کچھ ہیں ہم جیسے ہیں ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں
چہرے پہ بھبھوت نہیں ملتے ہم کالے بال نہیں کرتے
والی آسی نے ترقی پسند تحریک کو پھلتے پھولتے اور جوان ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ روایتوں کا پاس و لحاظ کرنے والوں کو دیکھا ہے۔ زندگی کی وسعتوں اور ادبی قدروں کا اگر ادراک ہو جائے تو فن کار روحانی نغمگی اور شاعری کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ والی آسی زندگی کی متضاد حقیقتوں کو شاعری میں نئے رنگ و آہنگ بخشنے میں ماہر نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری اپنی تمام تر مسرت و غم تلخی اور مٹھاس کے ساتھ ہماری نظروں کے سامنے آتی ہے اور ہمیں بردباری و حوصلہ بخشتی ہے۔ ان کی غزلیں جہاں ایک طرف حسرت و یاس کا ماتم مناتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف زندگی گزارنے کا بصیرت آمیز اور فکر انگیز انداز بیاں کی بھی آئینہ دار ہیں۔
کس طرح سمجھ پائے گا تو درد کسی کا
شمعوں کی طرح تو نے پگھل کر نہیں دیکھا
محبت کے پودے وفا کے درخت
میں بنجر زمینوں میں بوتا رہا
والی اپنی ایک غزل تو اور سنا ہم کو
تیرا لہجہ مدھم مدھم اچھا لگتا ہے
والی آسی لکھنویت اور لکھنؤ کی تہذیبی قدروں کے دل دادہ ہی نہیں پاسبان و ترجمان بھی تھے. انھوں نے جوانی کی دہلیز پر جن دنوں قدم رکھا ہوگا ان دنوں کا لکھنؤ بھی جوان تھا. ادبی دنیا کی قد آور شخصیتوں کے دم قدم سے لکھنو کی ادبی محفلیں اور سرگرمیاں دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ والی آسی لکھنو کی ادبی و تہذیبی قدروں کے امانت دار بھی تھے اور نوحہ گر بھی۔ انھوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اس میں عبدالحلیم شرر تک کے زمانے کا لکھنؤ بھی قصہ پارینہ بن چکا تھا لیکن اس کے شباب آور رونائی میں چار چاند لگانے والے اہل علم و ادب بہرحال اب بھی یہاں موجود تھے۔
والی آسی لکھنؤ کے ممتاز شعرا میں سے تھے. انھوں نے دنیا کے بیشتر ممالک کے مشاعروں میں شرکت کرکے لکھنؤ کی نمائندگی بھی کی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی شہرت بین الاقوامی ہوگئی ہے۔ والی آسی کا کلام اردو زبان و ادب میں قابل قدر اضافہ ہے، جس سے اہلِ اردو اپنے ذوق کے مطابق دل و دماغ کو جلا دیتے رہیں گے۔ لکھنؤ کی زبان و ارب کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی والی آسی کا نام ضرور شامل رہے گا۔

شیئر کیجیے

One thought on “والی آسی: شخصیت اور شاعری

  1. خوبصورت اور معلوماتی مضمون جس میں والی آسی کی شخصیت اور ان کی شاعری کے چند اہم گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
    مضمون نگار کو بہت داد و مبارکباد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے