وقت کا تقاضا: علم، علم اور صرف علم

وقت کا تقاضا: علم، علم اور صرف علم

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
Email: rahman20645@gmail.com

انسان وہ ہے علم کی جس میں ہو تجلی
حیواں کو کبھی علم ملا ہو تو بتا دو
(سیماب اکبر آبادی)
مذکورہ بالا شعر میں شاعر نے حیوان کی مثال پیش کر کے یہ باور کرانے کی کام یاب کوشش کی ہے کہ ’علم‘ ہی وہ خاص اعجاز (phenomenon) ہے جو انسان کو مقام و مرتبہ میں حیوان سے ممتاز کرتا ہے۔ حالاں کہ علم کا مقام ہمیشہ سے ہی بلند و بالا رہا ہے، مگر اکیسویں صدی عیسوی آتے آتے انسانی علم نے اپنی ترقی کے سارے اہداف (targets) کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گویا علمی بلندیوں کے آسمان کو چھو لیا ہے۔ اپنے تجربات، مشاہدات اور سائنسی تحقیقات (Scientific researches) سے دریافت شدہ مختلف حقائق اور علوم سے فیض حاصل کرتے ہوئے، آج انسان خلا (space) میں اپنے خلائی جہازوں (Spacecrafts) کے توسط سے اس طرح تیرتا پھر رہا (floating) ہے جیسے تالاب میں مچھلیاں۔ 21 ویں صدی عیسوی کو صحیح معنی میں علم کی صدی کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ وقت میں جس پیمانے پر علم کا انفجار (explosion of knowledge) مشاہدہ میں آرہا ہے، انسان کے ذریعے تاریخ میں اس نوعیت کا تجربہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ زیر نظر مضمون میں علم کے مختلف اور متنوع (diversified) پہلوؤں پر مختلف زاویہ نظر اور موجودہ صورت حال کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عام طور پر علم کے لغوی معنی ہوتے ہیں جاننا، آگاہی، واقفیت، پڑھائی اور تعلیم وغیرہ۔ نیک نیت اور صالح مقاصد کے لیے مختلف چیزوں کی معلومات حاصل کرنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے سے جو علم وجود پذیر ہوتاہے اس کو ’علمِ نافع‘ کا درجہ عنایت کیا جاتا ہے۔ اسلام کسی بھی میدان میں حاصل کیے گئے علمِ نافع (نفع بخش علم) کو تحسین کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ غیر نافع علم اور فضولیات انسانی وسائل کا ضیاع (wastage of resources) ہونے کی وجہ سے اسلام کو پسند نہیں۔ اس لیے، ہر باشعور فرد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس کے نتیجہ خیز ہونے کے متعلق غور و فکر ضرور کر لے۔ کام کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنا اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرنے پر امید کی جاسکتی ہے کہ انجام بخیر ہوگا۔
خالقِ کائنات کے بارے میں جاننے کے انسانی تجسس کے ساتھ ساتھ، تخلیق کائنات میں پوشیدہ ڈیزائن (design) اور معنویت (meaningfulness) کے علاوہ زمین و آسمان، سورج اور چاند، کہکشائیں (galaxies)، ستارے (stars) اور سیاروں (plannets) کے وجود کے ساتھ زمین پر انسانوں، بڑی تعداد میں مختلف حیوانات (animals) اور بے شمار جمادات (non-living things) کی موجودگی کے مطالعہ سے حاصل متفرق معلومات، فطری داعیات و رجحانات کے علاوہ، انسانی علم کو تخلیق کرنے کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ دنیا میں اپنی تخلیقی اور فطری محدودیت کے پیش نظر، انسان غیبی امور (The Unseen World) اور آخرت (The Hereafter) کے متعلق جو علم قطعی طور پر خود سے حاصل نہیں کر سکتا تھا، اس کو اس کے رب کریم نے قرآن مجید کی صورت میں فراہم کردیا ہے۔ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو علم قلیل دیا گیا ہے (الاسراء-17: 85).
علم قلیل کے پس منظر میں، انسانی دنیا میں سلسلہ نبوت اور رسالت کا جواز اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے۔ علمِ قلیل کی حقیقت کا انکشاف اللہ تعالیٰ کا نوع انسانی پر احسانِ عظیم ہے۔ صدیوں کی ناکام فلسفیانہ جدوجہد کے تناظر میں انسان نے آخر کار مادہ (matter) کے مطالعہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا، اور نتیجتاً، وہ رفتار پکڑی کہ اکیسویں صدی عیسوی کی انسانی ترقی سب کے سامنے ہے۔
موجودہ دنیا میں انسان کے علم کا بنیادی ماخذ مادہ ہے۔ نظر آنے والی، یہاں تک کہ نظروں سے اوجھل ساری کی ساری کائنات مختلف صورتوں میں مادہ کا ہی ظہور ہے۔ انسان کی وسیع جدوجہد اور مطالعہ و تحقیقات کے پس منظر میں، آج علم کا مطلب کسی ایک شے تک محدود رہنے والی معلومات کا نام نہیں ہے۔ بیسویں صدی عیسوی (1932) میں ایٹم کے ٹوٹنے (split of atom) کے بعد پیدہ شدہ صورت حال میں ایک ہی چیز کو مختلف پہلوؤں اور مختلف زاویہ نظر سے باریک بینی کے ساتھ سمجھنے اور پرکھنے کے لیے مختلف اجزا میں تقسیم کر نے کا طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ہر جز کے باقاعدہ ایک مختلف شے کے طور پر وسیع مطالعہ کے لیے کی جانے والی علمی کاوشوں کو مختلف علم کا درجہ عنایت کردیا گیا ہے، گویا چیزوں کے پورے وجود کا ایک واحد حقیقت (macro world) کے طور پر ہونے والا مطالعہ ان کے اجزا (micro world) کے الگ الگ شے کے مکمل وجود کے طور پر ہونے والے مطالعہ میں مبدل ہو گیا ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ علم کے خوردبینی (microscopic) مطالعہ نے ایک شے کو متعدد اشیا بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، مادہ اور اس کے ذرات (atoms and molecules) کے کل کے مطالعہ نے، آج ذیلی ذرات (sub atomic particles) مثلاً الیکٹران، پروٹون اور نیوٹران وغیرہ کے مطالعہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔
دنیا بھر میں موجود مختلف یونی ورسٹی اور دیگر تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے بارے میں معلومات جمع کرنے پر یہ ادراک حاصل کیا جاسکتا ہے کہ کل کے زمانے کا ایک شعبہ (department)، آج متعدد شعبوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور اس کا ہر منقسم حصہ ایک باقاعدہ نئے شعبہ کے طور پر اپنا الگ تشخص(identity) رکھتا ہے۔ آسان زبان میں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کا بڑے سے بڑے پیمانے پر مطالعہ کیا جانے لگا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، موجودہ علمی دور تخصص (specialization) کا دور ہے۔
علم کی اس نوعیت نے جہاں انسان کو کائنات کے نئے نئے پہلو دریافت کرنے میں زبردست مدد کی ہے، وہیں اس نے قوموں کی ترقی کے راستے میں بھی چیلینج (challenge) کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ روایتی (traditional) زمانے کی ترقی اور جدید (modern) زمانے کی ترقی میں بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ گو کہ وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا سبھی افراد کے لیے مشکل ثابت ہو رہا ہے، مگر مسلم معاشرے کے سامنے یہ صورت حال کچھ زیادہ ہی بڑی چنوتی نظر آتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انفرادی سطح پر کوشاں افراد کی قلیل تعداد کے علاوہ تقریباً باقی سب لوگ علمی اعتبار سے روایتی زندگی جی رہے ہیں۔ یہ پرانی طرز تعلیم نو عمر اور نوجوان مسلمانوں کو مسابقت (competition)کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ اس لیے، معاشرے کو اس پریشانی کا جلد از جلد سدباب کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اعلا تعلیم یافتہ مسلمانوں کے خوش حال حلقوں میں مذکورہ صورت حال کے تعلق سے تشویش پیدا ہونی چاہیے۔ مشکل وقت میں، عوام ہمیشہ اپنے معاشرے کے بڑے لوگوں، علما اور دانشور حضرات کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی، معاشرتی نزاکتوں کے پیش نظر، خواص کی ترقی کی بقا کے لیے عوام کا ترقی کرنا اشد ضروری ہے، گویا کہ یہ دونوں فریقوں کے درمیان شکست و فتح کا نہیں، بلکہ ’فتح-فتح‘(win-win) کا معاملہ ہے۔
آج زمانہ ’روایتی دور‘ (Traditional Period) سے نکل کر ’سائنسی دور‘( Scientific Period or Modern Age ) میں داخل ہو چکا ہے۔ حالاں کہ علم کا روایتی دور بیسویں صدی عیسوی میں ہی کمزور پڑ گیا تھا، مگر موجودہ صدی میں گویا وہ پوری طرح سے ناکارہ (useless) ہوکر رہ گیا ہے۔ مختلف الفاظ میں، علم کے روایتی اسلوب (Traditional idiom) میں پیش کیے جانے والے دلائل (arguments) آج جدید انسان (modern man) کی نظر میں اپنے دلیل (reasoning) ہونے کی حیثیت سے محروم ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وقت کی اس تبدیلی سے پیدا شدہ صورت حال نے حالات کو اتنا زیادہ متاثر کیا ہے کہ اس نے اپنے مذہب کی دعوت و صداقت کو واضح کرنے کے راستہ میں بھی، اُن علماے کرام کے سامنے ایک بڑا چیلنج پیش کر دیا ہے، جنھیں کبھی اپنے روایتی طرز تعلم (method of teaching) میں مہارت حاصل ہوا کرتی تھی۔ یقیناً، مسلم معاشرے کی زندگی میں یہ ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ بلا شبہ، ہر مسئلہ قابل حل ہوتا ہے۔ اس لیے، اس طرف بھی سنجیدہ جدوجہد کی جانی چاہیے۔
لوگوں کی فکر و نظر سے قطع نظر، روایتی ماحول میں جینے والے حضرات اپنی تحاریر و تقاریر کے اسلوب اور لب و لہجہ میں ضروری تبدیلی کے متعلق مزید تاخیر کا تحمل نہیں کر سکتے۔ پرانی روش پر بدستور گامزن رہنے کی صورت میں، وقت انھیں ’تاریخ‘ (The things of the past) بناکر چھوڑ دینے میں کوتاہی نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ یہاں اسلوب کی بات ہو رہی ہے علم کی نہیں۔ علم روایتی دور کا ہو یا جدید سائنسی دور کا، علم علم ہی ہوتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کسی بھی دور کے علم سے کسی بھی وقت استفادہ حاصل کرنا ممکن ہونا چاہیے۔ انھی ممکنات کو یقینی بنانے کے لیے عصری اسلوب ناگزیر ہے۔ آج شیکسپیئر (Shakespeare) کی روایتی انگریزی تحریروں کو جدید انگریزی شرح (Guide book) کی مدد سے پڑھایا جاتا ہے۔ جہاں تک روایتی دور کے علوم کا معاملہ ہے تو مسلمانوں کے کتب خانے اس سے لبریز ہیں اور دنیا کی رہ نمائی کے لیے کافی ہیں، مگر ہمارے وسیع علمی ذخائر دنیا ہی نہیں، بلکہ خود اپنی نئی نسلوں کے لیے بھی تب ہی نفع بخش ہوسکتے ہیں، جب ہم ان کو آج کی زبان اور اسلوب میں پیش کرسکیں۔ اسلام اور ہمارے سنہرے ماضی کے علم کو صرف عجائب خانوں (museums) کی زینت نہیں، بلکہ ہر دور کے انسانوں کی رہ نمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔
علم بلا شبہ ہر خاص و عام انسان کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر، انسان کے شایانِ شان بلند پایہ زندگی جینے کے لیے، علم بہ معنی متفرق علوم کا حاصل کیا جانا ناگزیر ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے لیے تو علم کا حصول ہر کس و ناکس (all and sundry) کے مقابلے بہت زیادہ ضروری ہے۔ علم کی ضرورت نہ صرف دنیا میں معیاری زندگی حاصل کرنے کے لیے ہے، بلکہ آخرت کی ابدی زندگی کی کام یابی کا دارومدار بھی علم کی وسعت اور پاکیزگی پر منحصر ہے۔ دین و دنیا کے دونوں محاذ پر مسلمان ماضی قریب (near past) کی ایک طویل مدتی مشکل سے دوچار ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ نسل (The present generation) اردو زبان سے تقریباً محروم ہو چکی ہے، جب کہ اسلام کی شرح و وضاحت کا بیشتر کام اردو زبان اور برصغیر ہند(Indian sub continent)میں ہی کیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں، کم از کم مسلمانوں کے درمیان اردو کا زندہ و جاوید رہنا نہایت ضروری ہے۔
خود خالقِ کائنات کا دین ہونے کے پیش نظر، اسلام کی تعلیمات میں وہ بصیرت، حکمت، رہ نمائی اور ہدایت موجود ہے جس کے توسط سے قیامت تک آنے والے ہر دور کو سمجھا جاسکتا ہے، اور پھراس کے مطابق ایک بامعنی زندگی جینے کا شرف خود حاصل کیا جا سکتا ہے اور اپنے دوسرے انسانی بھائیوں کو بھی اس کی دعوت دی جا سکتی ہے۔ یہودی بھائیوں (اسرائیل) نے تقریباً دو ہزار سال تک مردہ حالت کی شکار اپنی عبرانی زبان (Hebrew) کو نہ صرف زندہ کرلیا ہے، بلکہ ایک جدید زبان کے طور پر اس کو استعمال بھی کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، اردو زبان تو ابھی بھی ایک باقاعدہ زندہ زبان ہے۔ مسلمانوں کی پاکیزہ نیت اور مضبوط ارادوں کے تحت اردو کو بھی ان کے بچوں اور نوجوانوں کے درمیان بہ شان و شوکت فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ایک قابل عمل اور آسان تدبیر یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی بھی نو مولود بچہ (newly born baby) اردو زبان سے محروم نہ رہے۔ 4/5 سال کی عمر میں اسکول جانے سے پہلے پہلے ہی بچہ گھر میں اردو سیکھ سکتا ہے۔ خوش خبری یہ ہے کہ بچپن میں حاصل کیا گیا علم زندگی بھر ساتھ نبھاتا ہے۔
حاملِ قرآن (Custodian of the Quran) ہونے کی وجہ سے، دنیا بھر کے انسانوں کے درمیان اسلام کی دعوت (Introduction of Islam) پہنچانے کا فریضہ مسلمانوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس لیے، اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی کتاب، قرآن مجید کو ہمیں سائنسی مزاج رکھنے والے آج کے نوجوان انسانوں کی خدمت میں نہ صرف ان کی زبان میں پیش کرنا ہے، بلکہ ان کے اپنے لب و لہجہ میں قابل فہم بھی بنانا ہے۔ یہ ایک بھاری ذمے داری، بلکہ ایک بڑا چیلینج ہے۔ اس ربانی ذمے داری کو بہ خوبی ادا کرنے کے لیے، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو قرآنیات اور جدید علوم (Modern Knowledge) میں مہارت (expertise)پیدا کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہوجانے کی اشد ضرورت ہے۔ افراد کی خاطر خواہ تعداد کو اسلامیات اور جدید علوم میں مہارت پیدا کرنے کی خاطر تیار کرنے کے لیے، مسلم معاشرے میں معصوم بچوں سے لے کر نوجوانوں تک، سبھی کو اپنی اپنی حیثیت میں موجود علمی ذرائع سے وابستہ ہوجانا یا کردیا جانا چاہیے۔
ساتھ ہی، معاشرے کے خوش حال طبقہ کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ دولت کے استعمال سے مسلمانوں کی تعلیم و تحقیق (Education and Research) کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ یقینی طور پر، قرآن پاک کی دعوت کو عام کرنے کی سمت میں یہ بھی ایک بڑا دعوتی کام ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ، یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ کسی کو دولت اور مختلف مراتب کی ربانی عنایت صرف اس کے اپنے عیش و آسائش کے لیے نہیں ہوتی ہے، بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کی خاطر ایک بڑی ذمے داری کے طور پر کچھ منتخب افراد کو عطا کی جاتی ہے۔ دراصل، اپنی حال اور مستقبل قریب کی ضرورتوں کے علاوہ تمام دولت معاشرے کا حق ہوتی ہے۔ یہی ذمے داری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کا امتحان ہے۔
خود اللہ تعالیٰ نے دین کی تعلیمات میں تخصص پیدا کرنے کے متعلق مسلمانوں کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کردی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں” (التوبہ-9: 122)
دنیا میں حاصل شدہ دولت کا صحیح مصرف یہی ہے کہ اسے صحیح جگہ خرچ کر دیا جائے۔ اوپر دیے گئے اشارہ کے تسلسل میں واضح رہے کہ دنیا میں کسی کو دولت اللہ تعالیٰ کے اذن سے انعام کے طور پر نہیں، بلکہ امتحان کے ایک پرچہ (test paper) کے طور پر عطا کی جاتی ہے۔ بے شک، دنیا کے امتحان میں پاس ہونے والے حضرات کو آخرت کے بڑے بڑے انعامات سے نوازا جائے گا۔ قرآن مجید کے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ ان متقی لوگوں کو اپنی ہدایت سے نوازتا ہے جو اس کے عطا کردہ رزق(بشمول مال و دولت) میں سے (اس کی خوش نودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں( البقرہ-2: 3).
اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بندوں کی مانند، قرآنی دعوت کی نیت سے جب مسلمان اسلامیات اور دنیاوی علوم کا سنجیدہ مطالعہ کرنے کی غرض سے ضروری تگ و دو کریں گے، تب ان کی یہ جدوجہد نہ صرف آخرت میں سرخ روئی حاصل کرے گی، بلکہ دنیا میں ان کی موجودہ بگڑی ہوئی حالت کو بھی درست کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ کوئی طلسماتی بات نہیں ہے۔ قرآنیات کے ساتھ ساتھ علوم جدیدہ کا سنجیدہ مطالعہ، فطری قوانین کے تحت دنیا کے معاملات کو بھی سنہرا (golden)بنا دے گا۔ دراصل، مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی سچی کام یابی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب وہ اپنے پروردگار اور اس کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہیں۔ دنیاوی چالاکیوں اور سیاسی پینترے بازیوں سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ انگریزوں سے ملک کو آزادی حاصل ہونے کے بعد 75 سالہ طویل عرصہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہے۔
خواہ اس کا تعلق انسانوں سے ہو یا دوسری تمام جاندار مخلوقات سے، حیوانی سطح کی زندگی علم کی روشنی کے بغیر بھی جی جا سکتی ہے۔ حیوانی سطح کی زندگی کارکردگی کے اس محدود دائرے کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں ہر جاندار کو زندہ رہنے کی تگ ودو اور اپنی افزائشِ نسل(reproduction) کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ بلاشبہ، کھانے – پینے، سونے – جاگنے اور جنسی معاملات کو منظم رکھنے کے لیے بھی علم کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اِس علم کی نوعیت اُس علم سے ایک دم مختلف ہوتی ہے جسے ہم سب معروف معنی میں علم سمجھتے ہیں۔ اس مختلف علم کا نام جبلت (instinct) ہے۔
جبلت در اصل، وہ صلاحیت ہے جسے الله تعالیٰ بہ شمول انسان سبھی جانداروں کے وجود میں ان کی تخلیق کے وقت ایک خود کار (working without any external force) نظام کے طور پر شامل کردیتا ہے۔ یہ خود کار فطری نظام اپنے آپ میں کافی ہوتا ہے۔ اس لیے، اس کو بروئے کار لانے کے لیے کسی باہری علم کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بھوک لگنے پر ہر جاندار کھانے کی جستجو میں لگ جاتا ہے اور اسی طرح وہ پیاس بجھانے اور دوسری فطری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بھی حرکت میں آتا رہتا ہے۔ جانوروں کا صرف اپنی داخلی صلاحیتوں کے توسط سے اور کسی خارجہ علمی سہارے کے بغیر اپنی زندگی گزار دینا اور انسان کا اندھیرے میں بھی اپنے بہت سے کام انجام دے دینا، انھی تخلیقی جبلتوں کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ جانداروں کو خدا کی عطا کردہ مختلف جبلتوں کا مشاہدہ ہر خاص و عام صبح سے شام اور شام سے صبح تک کرتا رہتا ہے۔
الله تعالیٰ کے منصوبہ تخلیق (Creation Plan of God) کے مطابق انسان کی پیدائش اور انسان کے علاوہ تمام جاندار مخلوقات کی تخلیق میں ایک واضح فرق رکھا گیا ہے۔ انسان اور بقیہ کائنات کے درمیان واقع اس فرق کو ’خطبہ علمی‘ کے ایک مصرعے میں خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ وہ مصرع یہ ہے:
”سب جہاں تیرے لیے اور تو خدا کے واسطے“.
حقیقتاً، الله تعالیٰ نے انسانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے پڑوس میں آباد کرنے کی خاطر پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد، وسیع پیمانے پر بالقوہ صلاحیتوں(potential) سے مزین اور ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ انسان کو الگ الگ قسم کی بے شمار آسانیوں اور پریشانیوں کے درمیان، ایک مقررہ مدت کے لیے عارضی دنیا بنا کر، بسا دیا ہے۔ یہ عارضی دنیا وہی ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔ یہ واقفیت کہ اس دنیا میں کس کو کتنی مدت تک رہنا ہے، انسانی علم سے حذف کردی گئی ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور ارادہ و اختیار کی آزادی کا استعمال اپنے خالق و مالک کو پہچان کر اس کے وضع کیے گئے سیدھے راستوں میں کرتا ہے یا آزادی کی طاقت اور اختیار کے غرور کا شکار ہو کر راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ اس پس منظر میں، دنیا گویا ایک تجربہ گاہ (Laboratory) ہے جہاں مختلف حالات کی بھٹی میں تپا کر آخرت کی معیاری اور پاکیزہ دنیا کے لیے پاکیزہ اور بلند مرتبہ شخصیت کے حامل انسانوں کو تشکیل دیا جارہا ہے۔
خدا کے پڑوس میں آباد کرنے کے مقصد سے انسان کو پیدا کیے جانے کے تناظر میں انسان کی حیثیت بلا شبہ، عظیم اور بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عارضی دنیا کو بنانے میں بھی انسان کو عطا کیے گئے اس کے مقام کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ انسان کے علم و اخلاق کی پاکیزگی اور اس کی بالقوہ صلاحیتوں کے بہ موجب اس کے ارتقا (evolution) کو یقینی بنانے کی خاطر، موجودہ وسیع(vast) اور مسلسل پھیلتی ہوئی (expanding) کائنات (universe) کو ہی تخلیق نہیں کیا، بلکہ مسلسل ظاہر ہونے والے بے شمار عجائبات(miraculous events) بھی اس سے وابستہ کر دیے ہیں۔ انسان کو اس کی حیثیت کے مطابق رہائش فراہم کرنے کے لیے الله تعالیٰ نے کرہ ارض(Globe of the earth) کو بہترین طریقہ سے آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔
کرہ ارض کائنات کی وسعتوں میں پھیلی بے شمار کہکشاؤں کے درمیان ملکی وے (Milky Way) نام کی کہکشاں کے نظام شمسی (solar system) کا ایک منفرد سیارہ (planet) ہے، جہاں براعظم (continents) ہی نہیں، بحر اعظم (oceans) بھی موجود ہیں۔ پہاڑوں کی بلند چوٹیاں ہی نہیں، ریگستان، جنگلات، جھیل اور ندیوں کے درمیان زرخیز زمین کے بڑے بڑے میدانوں کا جال بچھا دیا گیا ہے، تا کہ اللہ کے بندے اپنی تہذیب و تمدن کو فروغ دے سکیں اور اپنے حسِ جمالیات سے بھی محظوظ ہو سکیں۔ بے شک، انسانوں کے لیے ان کے رب نے کیا نہیں کیا ہے!
اپنی گہرائیوں میں مختلف قسم کے بیش قیمتی مونگے اور موتیوں (الرحمٰن-55: 22) کے خزانوں کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی بڑی بڑی مچھلیوں کی پرورش کرتے ہوئے دنیا بھر کے انسانوں کی غذا کا بڑے پیمانے پر بندوبست، کرہ ارض پر پھیلے ہوئے سمندروں سے وابستہ کردیا گیا ہے۔ کھارا ہونے کی وجہ سے سمندر کا پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، مگر انسانوں کی خاطر الله رب العالمین نے سمندروں کے پانی کو بھاپ بن کر بادل بنانے کا ہنر سکھا دیا ہے، جو مصلحت خداوندی کے تحت مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں بارش بن کر برستے رہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، پانی کو گوناگوں فطری صلاحیتوں (properties) سے آراستہ کردیا گیا ہے، تاکہ انسان اپنی زندگی میں اپنی فلاح و بہبود کے لیے اس کا بہترین استعمال کر سکے۔ پانی کی انھی خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ سمندروں کے اندر بڑے بڑے اور بھاری بھرکم جہازوں کی آمد و رفت (الرحمٰن-55: 24) نہ صرف ممکن ہو گئی ہے، بلکہ ان کے توسط سے انسانی تہذیب (civilization) و ثقافت (culture) کا قافلہ بھی دن بدن نئے نئے منازل طے کر رہا ہے۔
سطح زمین پر بلند و بالا پہاڑ نصب کردیے گئے ہیں جو نہ صرف زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں، بلکہ انسان اور دوسرے جانداروں کی لائف لائن (Life line) یعنی پینے لائق (میٹھے) پانی (potable water) کے گلیشیر (glacier) کے نام سے معروف، وسیع ذخائر کو اپنے دامن میں پناہ بھی دیتے ہیں۔ انسانی دنیا کے دن اور رات کو روشن رکھنے کے لیے خالق کائنات نے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” اس نے تمھاری بھلائی کے لیے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، اور سب تارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں، اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں (النحل-16: 12).
کائنات کی جملہ چیزوں، یہاں تک کہ تمام حیوانات کو بھی انسانوں کی خدمت کے لیے اسی طرح مسخر (programmed) کردیا گیا ہے تا کہ مختلف صورتوں میں ان سے فیض حاصل کیا جاسکے۔ تمام جانوروں کی فطرت کو الله تعالیٰ نے اس طرح تخلیق کیا ہے کہ انسانی خوف ان پر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ جانوروں کی فطرت میں انسانوں سے ڈرنے کی کیفیت، ان کو ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں انسانوں کا مطیع و فرماں بردار بنائے رکھتی ہے۔ جنگل کے ریچھ (بھالو) اور شیر جیسے خونخوار جانور بھی انسانوں سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ یہی انسانی رعب انھیں سرکس (circus) میں بچوں کے لیے تفریح کا سامان فراہم کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ میں اپنے پہلے بچہ کو، جب کہ وہ ابھی دو سال کا بھی نہیں تھا، خاص طور پر سرکس دکھانے لے گیا تھا، اس خصوصی تاثر کے ساتھ کہ بچہ میں شیر اور دوسرے جانوروں کے ڈر کے بجائے ان کے مطالعہ اور کائنات کو سمجھنے کا رجحان پیدا ہو۔ مزید یہ کہ بہت سے جانوروں کی فطرت میں یہ ودیعت (infuse) کر دیا گیا ہے کہ ان کو ضرورت کے حساب سے سدھایا (trained) جاسکے۔ جہاں گائے، بیل، بھیڑ، بکری اور بھینس وغیرہ کو گھر اور کھیتی باڑی میں استعمال کرنے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے، تو وہیں ہاتھی، گھوڑے جیسے جانوروں کو مختلف جنگ اور دوسری مہم جوئی کی غرض سے الگ الگ جہتوں اور زاویوں سے سِدھا کر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے لیے خاص اعزاز ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی کائنات میں گویا خود حکومت کر رہا ہے۔
چوں کہ موجودہ دنیا میں جملہ قسم کے جانوروں کو ایک یا دوسری متعدد صورتوں میں صرف اور صرف انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اس لیے ان کے وجود کا اسی دنیا تک اور ان کے ہوش و حواس کا ان کی جبلتوں تک محدود رہنا، الله رب العالمین کے علیم و حکیم ہونے کا ثبوت اور تخلیق کائنات میں اس کی بہترین پلاننگ کی طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
حیوانات کے برعکس، انسانوں کا معاملہ صرف موجودہ دنیا تک محدود نہیں ہے۔ دراصل، انسان کو قیامت کے بعد آخرت میں دائمی (permanent) طور پر بسائی جانے والی دنیا میں آباد کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، جہاں وہ اپنے موجودہ دنیا کے امتحان میں حاصل کیے گئے گریڈ (grade) کے مطابق عنایت کی گئی حیثیت (position) میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حالاں کہ موجودہ دنیا کا مشاہدہ تو یہ ہے کہ یہاں انسان بھی مرجاتا ہے۔ دراصل، دنیا میں انسان کا مر جانا پوری بات نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کا مر جانا جانوروں کے مرنے سے مختلف ہے۔ دنیا میں انسان کی موت گویا آخرت میں حاصل ہونے والی زندگی کی شروعات ہے۔
انسان کو آخرت میں عطا کی جانے والی دائمی زندگی کے تناظر میں اس حقیقت کا ادراک آسانی سے حاصل ہو جائے گا کہ موجودہ دنیا میں اس کو صرف جبلتوں (instincts) کے سہارے کیوں نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔
انسانی تخلیق کی نوعیت کے پیش نظر، الله تعالیٰ نے زندگی جینے کے لیے ضروری فطری جبلتوں کے علاوہ انسان کی شخصیت کو اچھے برے کی تمیز، علم کا ادراک اور اس کو تخلیق کرنے والے مختلف داعیات اور گوناگوں خصوصیات سے مزین کردیا ہے۔ ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ ساتھ، اس کو عقل و شعور اور بصیرت کی روشنی سے بھی آراستہ کیا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے وجود کے اندر اور باہر پھیلی ہوئی وسیع کائنات یعنی آفاق و انفس میں پوشیدہ خالقِ کائنات کی نشانیوں کی پہچان اور حقائق کا اعتراف کرسکے اور صرف اپنے علم و شعور کے زور پر پکار اٹھے کہ یہ سب اللہ رب العالمین کی طرف سے ہے(الحج-22: 54). اور قرآن مجید کے بیانات سرتاسر برحق ہیں (فصلت-41: 53)
کائنات کی باریکیوں کو جاننے کا تجسس، کچھ بھی کر ڈالنے کا جوش اور ولولے کے جو داعیات انسان کو اس کے پروردگار نے ودیعت کردیے ہیں وہ اس کو زمین سے لے کر آسمانی خلاؤں تک اور سمندروں کی گہرائیوں سے لے کر پہاڑوں کی بلندیوں تک ہمیشہ متحرک رکھتے ہیں۔ اس سارے بندوبست کا حاصل یہ ہے کہ انسان کائنات کے متفرق اور مختلف عجائبات کے آئینہ میں خالقِ کائنات کو دریافت کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں انسان اپنے خالق و مالک کی معرفت (realization) حاصل کر سکے۔
کائنات کا مرکزی علم جس کا حصول الله تعالیٰ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہے، وہ ہے ہی اس کی معرفت۔ وہ افراد یقیناً خوش نصیب ہیں جنھیں دنیا میں اپنے رازق اور معبود کی سچی معرفت حاصل ہو جائے کیوں کہ یہی وہ مومن بندے ہیں جن کو آخرت کے ان محل و باغات میں ہمیشہ کے لیے آباد کردیا جائے گا جہاں انھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ ہی وہ کبھی غمگین ہوں گے(یونس-10: 62).
یہاں تک کی علمی تگ و دو سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کو الله تعالیٰ نے اپنے لیے، یا دوسرے الفاظ میں اپنی معرفت یعنی اپنی پہچان یا تعارف حاصل کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، جب کہ کائنات کی بقیہ ساری مخلوقات کو اس نے اپنی زیر نگرانی، انسانی تحویل میں دے دیا ہے۔ قرآن پاک میں الله تعالیٰ اپنے اس تخلیقی منصوبہ کا اظہار فرماتا ہے، جس کا مفہوم ہے: ’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات-51: 56)۔ یعنی انسان کی پیدائش کا واحد مقصد خدا کی عبادت ہے۔
عبادت کا مطلب اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کے آگے جھکا دینا اور پوری طرح اس کا پرستار بنا دینا ہے۔ علماے قرآن کی تشریح کے مطابق عبادت کا خلاصہ معرفت ہے، یعنی بن دیکھے خدا کو پہچاننا اور بہ طور دریافت (Discovery) اس کو پانا۔ انسان کی جو زندگی اس معرفت کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے، دراصل، وہی عبادت و بندگی ہے۔ معرفت کے اسی پس منظر میں، یہ بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ ”بے شک الله تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اس سے ڈرتے ہیں“ ( فاطر-35: 28)۔
علم اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں سے ہے۔ قرآن مجید میں العلیم، الخبیر، الحکیم، اللطیف، السمیع اور البصیر جیسے صفاتی نام اللہ رب العزت کے علم پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں، اللہ رب العالمین چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی علم حاصل کریں اور اس لیے انھیں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے (العلق-96: 1). قرآن پاک میں مختلف پہلوؤں سے علم کا بڑے پیمانے پر تذکرہ موجود ہے۔ قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنائے جانے کے تعلق سے فرشتوں کے اندیشوں کے ذیل میں علم کی اہمیت کو جامع طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔
سورہ العلق میں پڑھنے کی تاکید کے ساتھ، خالقِ کائنات نے دنیا میں علم کے وسیع میدان بھی تخلیق کردیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو علم حاصل کرنے کے لیے دنیا میں جو بے پایاں وسعت فراہم کی ہے اس کا اشارہ قرآن پاک کے اس اقتباس میں موجود ہے:
وَلَوْ اَنَّ مَا فِى الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِۗ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ.
یعنی (زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے)،
[سورہ لقمان-31: 27]
[24.08.2022AD≈25.01.1444 AH]
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:ہندوستان: میری جان، میری پہچان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے