شبراتی

شبراتی

ڈاکٹراسلم جمشید پوری

بیلوں کو آنگن میں نیم کے نیچے باندھ کر اس نے ہل اسارے کے نیچے کھڑا کر دیا۔ سیدھا کھڑا ہو تے ہوئے کمر کو سیدھا کیا۔ ہاتھ میں پانی کا خالی گھڑا لیے وہ اندر پہنچا۔ شبراتن کو دیکھ کر بو لا۔
’’ اری شبراتن آج کچھ جادہ ہی تھک گیا ہوں۔ جوڑ جوڑ دکھ رو(رہا) ہے اوپر والو (والا) کھیت دو بار جو تو(جوتا) ہے۔ جرا (ذرا) ایک گلاس گرم گرم دودھ پلا اور ہاں دودھ میں میٹھا مت ڈالیو۔ بس گڑ کا ایک ٹکڑا لی آئیو۔ ‘‘
شبراتن نے دودھ کا گلاس بھرا، گڑ کے بھیلا سے تھوڑا گڑ پھوڑ کر شبراتی کے پاس آئی۔ ایک ہا تھ میں دودھ بھرا گلاس اور ایک میں گڑ دیتے ہوئے وہ شبراتی سے بولی۔
’’سنتے ہو! نائی آیو تھو (آیا تھا) بلاوہ دے گو ہے (بلاوہ دے گیا ہے)۔ چار بجے سانجھ کو اسکول میں پنچایت ہے۔ تمھیں بھیجنے کو کہہ گیو(گیا) ہے اور ہاں تم نے سنو( سنا) کلوا کی نئی بھینس مر گئی ہے۔ ‘‘
شبراتی ایک گھونٹ دودھ کا بھرتا اور پھر تھوڑا سا گڑ کاٹ کر کھاتا۔ پورا دودھ پینے کے بعد اس نے کہا۔
’’ہاں شبراتن۔ بے چارے کلوا کی بھینس مر گئی۔ موئے بڑو( بڑا) دکھ ہے۔ اس گریب نے ابھی جمے کی پینٹھ سے تو لی تھی‘‘
زور سے ڈکارتے ہوئے وہ اٹھا اور نل کے پاس جا کر ہاتھ پاؤں دھوئے۔ باہر بیٹھک میں رکھے حقے کی چلم اٹھائی۔ اس کی راکھ کو کوڑے پر گرایا۔ نئے تمباکو کا ایک گولا بنایا اور اسے چلم کے ٹھیک بیچوں بیچ سجا تے ہوئے رکھا اور اس کے اوپر ایک ٹوٹا ہوا کھٹا (کھپریل کا ٹکڑا) رکھا اور آگ لینے کے لیے گھر گیا۔
’’ شبراتن، آگ ہے گی۔ ؟‘‘
’’ ہاں دیکھے تو ہے۔ پر تھوڑی سی ہوئے گی۔ لاؤ میں رکھ دوں۔ ‘‘
تھوڑی دیر بعد وہ بیٹھک کے باہر نیم کے نیچے چار پائی پر لیٹ کر حقہ کی نے منھ میں دبائے لمبے لمبے کش لینے لگا۔ مو سم گرم تھا۔ لیکن باہر نیم کے نیچے اسے کچھ راحت ملی۔ حقہ پیتے پیتے وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
***
گاؤں کے اسکول میں لوگ جمع تھے۔ جمن کاکا، شری گر چاچا، کنور پال، مہابیر، مہندر ٹھا کر، پنڈت گوپال، شبراتی، مکھیا ملکھان سنگھ اور بہت سے لوگ۔ روز بروز کی بڑھتی ہوئی جانوروں کی بیماریوں سے تنگ آکر گاؤں کے مکھیا ملکھان، پنڈت گوپال اور مہندر ٹھاکر جیسے بڑے لوگوں نے ایک ہنگامی پنچایت بلوائی تھی۔
مکھیا ملکھان سنگھ نے کھڑے ہو کر کہا۔
’’ بھا ئیو۔ آپ کو تو پتوی (پتہ) ہے کہ آج گاؤں کے جانوروں میں بیماری گھسی ہوئی ہے۔ جا نور مرتے جا رہے ہیں، ہمیں اس سمسیا کو (کا) سما دھان کرنو (کرنا) ہے۔ ‘‘
’’ ہاں ملکھان چاچا ای بہت جروری ہے۔ کل بے چارے کلوا کی نئی بھینس مر گئی۔ ‘‘
ملکھان سنگھ کی بات کے بیچ ہی مہابیر بول پڑا۔
’’ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ مکھیا جی۔ ۔ ۔ ۔ ہماری گائیں بھینس تو بالکل سوکھ گئی ہیں۔ دودھ جیسے تھنوں میں سوکھ گیو (گیا) ہے۔ کچھ اپائے کرو مکھیا جی‘‘ کنور پال کی بات سب نے سنی۔
’’ ہاں،ہاں۔ ۔ ۔ ۔ کچھ ہو نو ( ہونا) چیے ( چا ہیے )‘‘
بہت سی آوازیں ایک سا تھ بلند ہوئیں۔ پنڈت گوپال نے حقے کا ایک لمبا کش لے کر دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔
’’ گاؤں میں دکھ گھس گیا ہے۔ ہمیں ہر سمبھو یاسو (اس سے) چھٹکارو چیے (چھٹکارا چا ہیے )‘‘
جمن کاکا جو بڑے دھیان سے سن رہے تھے بو لے۔
’’ہاں ! پنڈت جی، ہمیں دکھ نکلوانو( نکلوانا)ہے۔ آپ کوئی بڑھیو سو ( اچھا سا) دن رکھ دیں ‘‘
پنڈت گوپال نے اپنی پوتھی کھولی۔ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد پنڈت جی کی آواز بلند ہوئی۔
’’پردھان جی۔ آج بدھوار ہے۔ ایسا کرتے ہیں روی وار کو رکھتے ہیں۔ روی وار کی رات شبھ رہے گی۔ ‘‘
ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘
ایک ساتھ کئی آوازوں کا شور بلند ہوا۔ مکھیا جی اور ٹھاکر مہندر نے کچھ مشورہ کیا اور پھر مکھیا جی کی آواز گونجی۔ خاموشی پھر چھا گئی۔
’’ بھائیو! روی وار کی رات دکھ نکلوایا جائے گا۔ آپ سب تیار رہیو اور ہاں اس بار آگ کا کروا ( مٹی کا گھڑا نما برتن) شبراتی سنبھا لے گو ( گا) کیا شبراتی یاکو ( اس کے لیے ) تیار ہے؟‘‘
مکھیا جی کے سوال پر پوری پنچایت میں موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر ایسا محسوس ہوتا رہا گویا کسی جادو گر نے گاؤں کے سبھی لوگوں کو مٹی کا بنا دیا ہو۔ ایک کو نے میں بیٹھے شبراتی نے بیڑی کا ایک لمبا کش لیا اور بیڑی کو زمین پر رگڑ کر بجھایا، بچی ہوئی بیڑی کو کان کے اوپر لگا تے ہوئے کھڑا ہوا اور انکساری سے بولا۔
’’ مکھیا جی۔ یو میرو ( یہ میرا) سو بھاگیہ ہے جو موئے یا ( مجھے اس ) کام کو (کے لیے ) چنو گیو ( چنا گیا)۔ اللہ نے چاہو تو میں اچھی طرح اپنو کام نبھاؤں گو (گا)۔‘‘ اتنا کہہ کر شبراتی خاموش ہو گیا۔ مکھیا جی نے ایک بار پھر بہ آواز بلند پورا پرو گرام سنایا اور پھر پنچایت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
***
دھنورا، اتر پردیش کے ضلع بلند شہر کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں کسانوں اور مزدوروں کی آبادی رہا کرتی تھی۔ گاؤں میں مختلف مذاہب اور برادریوں کے لوگ صدیوں سے سا تھ ساتھ رہتے آ رہے تھے۔ گاؤں کا انحصار کھیتی پر تھا اور کھیتی کے لیے کسانوں کی امیدیں صرف آسمان کے بادلوں سے تھیں، جس سال بارش نہ ہوتی، کھانے کے لالے پڑ جاتے۔ سینچا ئی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ ادھر چند برسوں میں چھ سات ٹیوب ویل لگ گئے تھے۔ جن میں دو سرکاری تھے۔ سر کاری کیا تھے مکھیا ملکھان سنگھ، ٹھا کر مہندر اور پنڈت گوپال ہی اس کے کرتا دھرتا تھے۔ کسی کو پانی لینا ہوتا تو ہفتوں ان کے تیل لگاتا۔ بارش کے بغیر جانوروں کے چارے کی بھی قلت ہو جاتی اور کیوں نہ ہو۔ جب انسانوں کو کھانے کے لیے نہیں تو جانوروں کی تو بات ہی کیا۔ برسوں قبل قحط پڑا تھا جس میں سینکڑوں لوگ بھوکے موت کے منھ میں چلے گئے تھے۔ نئی نئی بیماریاں خود ساختہ لیڈروں کی مانند ابل پڑی تھیں۔ جانوروں میں ایک خاص قسم کی بیماری نے گھر کر لیا تھا۔ دودھ تھنوں میں سوکھ گیا تھا اور جانوروں کی شرح اموات بڑھ گئی تھی۔ گاؤں والوں نے اس بیماری کا نام دکھ رکھا تھا۔
شبراتی نے دھنورا ہی میں آنکھ کھولی تھی۔ اس نے جب ہوش سنبھالا تھا تو صرف اپنی ماں کو دیکھا تھا۔ اس کے والد ایک بیماری میں لقمہ اجل بن گئے تھے اور اپنے پیچھے دکھوں اور غموں کے بے شمار لقمے چھوڑ گئے تھے۔ انہی لقموں کو تہہ در تہہ اپنے پیٹ میں اتار کر شبراتی بڑا ہوا تھا۔ لوگوں کی زبانی اس نے سنا تھا کہ اس کے بابا نیک اور شریف آ دمی تھے، کبھی کسی سے لڑائی نہ جھگڑا۔ بس اپنے کام سے کام۔ دن بھر باہر ٹھیے پر بیٹھے کام کرتے رہتے۔ کبھی کسی کا ہل بنا رہے ہیں تو کبھی کسی کی چو کھٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمین تو تھی نہیں بس کسانوں کے رحم و کرم پر گزر بسر ہو رہی تھی۔ کبھی کوئی من بھر گیہوں دے جاتا۔ کبھی کسی کے یہاں سے گڑ آ جاتا۔ کوئی اپنے کھیت سے چارا کاٹنے کو کہہ دیتا۔
وہ اپنے والد کو یاد کر کے غم زدہ ہو جایا کرتا۔ اس نے بڑے ہو کر اپنے والد کا ہی پیشہ اختیار کر لیا۔ والد کے چھوڑے ہوئے اوزار تھے اور بندھے ہوئے کسان۔ بچپن گزرا، جوانی آئی، شادی ہوئی کہ اچانک ایک دن ماں کا انتقال ہو گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے دو بچے آ گئے۔ اکثر اسے اللہ کے نظام پر رشک آ تا کہ اس نے اس کی زندگی کو دکھ اور سکھ کے ترازو میں بڑا متوا زن رکھا تھا بلکہ دکھوں کا پلڑا ہی اکثر جھکا رہا۔ وہ بڑی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو محنت کے بیلوں کے سہارے کھینچ رہا تھا۔ گاؤں کے فیصلے کے آ گے اس نے اپنا سر خم کر دیا تھا۔ جب کہ اس کی بیوی نے دبے لفظوں، اس کی مخالفت بھی کی تھی۔
***
رات تاریک تھی۔ چاروں طرف ایک ہو کا عالم تھا۔ آسمان کالے کالے بادلوں سے بھرا تھا۔ کبھی کبھی بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج ماحول کو پر ہول بنا رہی تھی۔ ملکھان سنگھ کی بیٹھک پر گہما گہمی تھی۔ گاؤں کے نوجوان اور بوڑھے جمع تھے۔ شبراتی نے سر پر منڈاسہ (پگڑی) اور دھوتی کو لنگوٹ کی صورت پہن رکھا تھا۔ اس کے پورے جسم پر کالی سیاہی ملی ہو ئی تھی۔ چہرہ بھی کالک سے پوت دیا گیا تھا۔ دس ہٹے کٹے نوجوان بھی کچھ اسی قسم کا حلیہ بنائے ہوئے تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں لا ٹھی اور بلم تھے۔ تیاری مکمل تھی۔ بس مکھیا کی اجازت دینے کی دیر تھی۔ تھوڑی دیر بعد مکھیا کی آواز گونجی۔
’’ہے بھگوان ہم تیرو نام لے کر اپنے گاؤں میں گھسے دکھ کو نکال رہے ہیں۔ ‘‘
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ شبراتی اور اس کے گروہ سے مخاطب ہوئے۔
’’بھگوان کا نام لے کر آپ لوگ شروع کرو۔ ‘‘
اتنا سننا تھا کہ شبراتی، جس کو بالکل کالا بھوت بنا دیا گیا تھا۔ ہا تھ میں کروا لیے، جس میں دہکتی ہوئی آ گ تھی، آگے بڑھا۔ اس کے پیچھے اس گروہ کے دس نوجوان تھے سبھی’’ہو۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ کی عجیب و غریب آوازیں نکالتے جا رہے تھے۔ پورا ماحول ایک عجیب سے شور سے گونجنے لگا۔ قافلہ گاؤں کی ایک ایک گلی سے گزرنے لگا۔ گاؤں والوں نے رات ہی کو اپنے اپنے دروازوں پر ایک ایک خالی گھڑا رکھ دیا تھا۔ شبراتی کے پیچھے چلنے والے نو جوان جس گھر کے سامنے سے گزرتے وہاں رکھے گھڑے کو لا ٹھی مار کر پھوڑتے جاتے۔ شبراتی گھر گھر جا کر جانوروں کے پاس سے آگ کے کروے کو گھما تا ہوا اپنا کام بڑی ہی تندہی سے کر رہا تھا۔ ایک طرف ’’ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شو‘‘ اور گھڑوں کے پھوٹنے کی آوازیں تھیں تو دوسری طرف گاؤں کے بے شمار لوگ جا بجا جامد و ساکت کھڑے دکھ نکالتے ہوئے قا فلے کو دیکھ رہے تھے۔ شبراتی کی بیوی بھی اپنے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ جب شبراتی وہاں سے گزرا تو وہ ایک لمحے کو اپنے شوہر کو عجیب بھیس میں دیکھ کر ڈر ہی گئی تھی۔ شبراتن دل ہی دل میں شبراتی کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔
’’ اے اللہ میرے پتی کو سپھل واپس لا ئیو۔‘‘
گاؤں کی ایک ایک گلی سے دکھ نکالتا ہوا یہ قافلہ رواں دواں تھا۔ آگے آ گے شبراتی اور پیچھے سا تھی نوجوان۔ شبراتی تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔ اس کے ساتھی اس سے دس بارہ قدم پیچھے تھے۔ اب وہ لوگ گاؤں کی آ بادی سے باہر نکل آئے تھے۔ اچانک بڑے زور سے بادل گرجے اور پورا آ سمان روشنی میں نہا گیا۔ گو یا گاؤں وا لوں کے عقیدے پر آسمان زور سے ہنسا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش ہونے لگی۔ شبراتی ہاتھ میں آگ کا برتن لیے تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ بارش نے طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس قدر تیز بارش تھی کہ لگتا تھا گاؤں کو بہا لے جائے گی۔ تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف پانی بھر نے لگا۔ شبراتی بارش اور طوفان کی پرواہ کیے بغیر آ گے بڑھتا رہا۔ اس کے برتن کی آگ کچھ دیر تو بارش کے پانی سے جدو جہد کرتی رہی پھر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ طوفان کا زور بڑھتا جا رہا تھا۔ کھیتوں میں پانی دکھا ئی دینے لگا۔ کچھ دیر تک شبراتی کو اپنے پیچھے پانی میں چھپ چھپ کی آوازیں آ تی رہیں۔ اس نے پیچھے گھوم کر دیکھا۔ چاروں طرف سوائے اندھیرے کے کچھ نہ تھا۔ اب اس کے ساتھیوں کے چلنے کی آواز اس تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ شبراتی نے سوچا وہ کچھ فاصلے پر خاموش آ رہے ہوں گے۔ طوفان کی شدت لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی۔ ایک بار اس کے دل میں آ یا کہ واپس گاؤں لوٹ جائے مگر واپس جا کر گاؤں والوں سے کیا کہے گا؟ منزل تھوڑی ہی دور تو تھی اور وہ پھر پوری قوت سے آگے بڑھنے لگا۔ مٹی کے برتن کو مضبوطی سے پکڑے وہ اندازے سے آ گے بڑھتا رہا۔ چاروں طرف سیاہی ہی سیا ہی تھی۔ کھیتوں میں گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا تھا۔ راستے کے تمام نام و نشان ڈوب چکے تھے۔ شبراتی کو گاؤں کی سرحد پار مٹی کے کروے کو زمین میں گاڑ کر واپس لو ٹنا تھا۔
با رش زوروں پر تھی۔ سرد ہوائیں سائیں سائیں کر رہی تھیں۔ سردی کے مارے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ٹھنڈ کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں پھیل گئی تھی۔ اس نے اپنے اوسان جمع کیے اور گاؤں کی سرحد کی طرف بڑھنے لگا۔ اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد اس نے اندازہ لگایا گو یا یہی پنڈت گوپال کا کھیت ہے۔ گوپال کے کھیت کے پار دوسرے گاؤں کے کھیت تھے۔ وہ بجلی کی سی سرعت سے گوپال کے کھیت میں داخل ہو گیا۔ کھیت کے پار سرکاری ٹیوب ویل کی گہری پختہ نالی تھی جو جا بجا ٹوٹی ہوئی تھی۔ کئی جگہ خطر ناک حد تک گہری ہو چکی تھی۔ اس نے بڑی احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے نالی کو پار کیا۔ اب وہ دوسرے گاؤں کی سرحد میں داخل ہو چکا تھا۔ وہ ایک لمحہ کو رکا اور بلند آواز میں چیخا۔
’’جا دکھ جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے گاؤں سو جا۔ ‘‘
تین بار زور سے کہنے کے بعد اس نے اپنے قدموں کے پاس پانی کے اندر مٹی ہٹا کر گڈھا بنایا اور مٹی کے کروے کو اس میں داب دیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور وا پس ہو لیا۔ طوفان کا زور تھا مے نہیں تھم رہا تھا۔ اسے آسمان پر کالی چا در نظر آ رہی تھی اور زمین پر دور تک پانی ہی پانی۔ درخت بڑے بڑے بھوت اور جن کی مانند لگ رہے تھے گو یا اس کی واپسی کے منتظر ہوں۔
***
شبراتن کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ اس نے تقریباً ۱۱/ بجے اپنے شوہر کو وداع کیا تھا۔ اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بار بار خدا سے اپنے شوہر کی کامیابی کی دعائیں کر رہی تھی۔ اس کے دونوں بچے گہری نیند سو رہے تھے۔ رات تین بجے تک شبراتی وا پس نہیں آیا تو اس کا انتظار پریشانی میں بدل گیا۔ کبھی دروازے تک آتی اور کبھی بچوں کے پاس لیٹتی۔ نہ جانے کس پہر اس کی نیند سے بوجھل آنکھوں میں سکون کے بادل چھا گئے اور وہ نیند کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔
***
صبح آسمان بالکل صاف تھا۔ گاؤں کے تمام راستے پانی سے لبریز تھے جو رات کے طوفان کے چشم دید گواہ تھے۔ مکھیا ملکھان سنگھ کی بیٹھک پر مجمع لگا تھا۔ کئی بڑے بڑے ڈرام رکھے تھے۔ جن میں پانی بھرا ہوا تھا۔ پنڈت گو پال اشلوک پڑھتے جا رہے تھے اور ڈراموں میں گنگا جل ملا رہے تھے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں سے تھوڑا دودھ لے کر آ تے، ڈرام میں ڈالتے اور ملا کر لے جاتے۔ پنڈت گو پال لوگوں سے کہہ رہے تھے۔
’’اپنے اپنے جانوروں پر یا دودھ کی چھینٹیں مارو۔ اب کوئی چنتا نہ کریں۔ دکھ نکل گو ( گیا ہے ) اب ساری بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔ ‘‘
جمن کاکا، کنور پال، مہندر ٹھا کر، شری گر چاچا اور دوسرے گاؤں کے بڑے لوگ وہاں موجود تھے۔ اتنے میں شبراتن رو تی ہوئی آئی۔
’’مکھیا جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرو پتی ابھی تک گھر نہیں آ یو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ زور سے روئے جا رہی تھی۔ اس کی آواز پر بیٹھک پر موجود سبھی کے کان کھڑے ہو گئے۔ مکھیا کی آواز گونجی۔
’’ارے کنور پال تمھارو لڑکا بھی تو شبراتی کے سا تھ تھوَ۔ کیا وہ وا پس آ گو؟‘‘
’’ہاں وے سب تو رات ایک بجے ہی واپس آ گئے ہے۔ ‘‘
’’ ہائے میرو پتی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
کنور پال کا جملہ پورا ہو نے سے پہلے ہی شبراتن دہاڑیں مارنے لگی۔ سبھی کے چہرے مرجھا گئے تھے۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ رات شبراتی واپس نہیں آیا۔
مکھیا جی کی رہ نمائی میں سارا گاؤں پنڈت گوپال کے کھیت کی طرف چل پڑا۔ چاروں طرف پانی کی حکومت تھی۔ گو پال کا کھیت بھی پانی سے لبا لب تھا۔ شبراتی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اچانک کسی کے زور سے چلا نے کی آواز آئی۔
’’شب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شبراتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!‘‘
سب اس طرف لپکے۔ جمن کاکا سرکاری نالی پر کھڑے تھے۔ وہاں شبراتی کا بے جان جسم پڑا تھا۔ اس کا جسم پھول کر کا فی موٹا ہو چکا تھا۔ جا بجا کالک لگا اس کا جسم بہت ہی ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ نالی کے گہرے پانی سے بڑی مشکل سے اس کی لاش کو نکالا گیا۔ لوگوں کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے تھے۔
"’ہائے اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
ایک دل دوز و دل خراش چیخ کے سا تھ شبراتن شبراتی کے بے جان جسم سے لپٹ گئی۔ اس کے دونوں بچے بھی روتے ہوئے لاش پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔
گاؤں والوں کی زبانوں پر تالے پڑ گئے تھے۔ ان کے سروں پر مانو منوں بوجھ تھا کہ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں۔ ابھی کچھ دیر قبل گاؤں میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ گاؤں سے دکھ نکل گیا تھا۔
شبراتی کے دونوں بچے اپنی ماں کا دامن کھینچ رہے تھے گو یا کہہ رہے ہوں، ماں ہمارے گھر میں گھسے دکھ کو کون نکالے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ختم شد

تبصرہ و تجزیہ :
نثارانجم
اسلم جمشید پوری کے کینوس فکر پر ہمیں گاؤں کی خوش بو کے ساتھ ساتھ وہ سارے رنگ مل جاتے ہیں جسے منشی پریم چند اپنی کہانیوں کی دیہی زندگی کی منظر کشی کے لیے انتخاب کرتے تھے. زیر نظر افسانے کو منشی پریم چند کی خوشہ چینی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں حقیقت کا شوخ رنگ ملتا ہے جو کچا نہیں ہے، اس منظر کشی میں گاؤں کی مٹی کی وہ سوندھی سوندھی خوش بو بھی ہے۔ افسانہ نگار نے پریم چند کے اس دیہی فکری کنکال پر مقامی لہجے کے رس رنگ کی لیپ اور نئے موضوع سے گوندھ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں زبان کی تری اورکھردری حقیقت نگاری سے مطالعہ کا تالو چھیلتا نہیں ہے۔ یہاں زندگی کی اوک میں دھری امید ہے۔ ان کے کرداروں میں کلاسیکی کرداروں کے نین و نقوش گہرے رنگ میں ملتے ہیں. 
اسلم جمشید پوری کے کینوس فکر پر منشی پریم چند کے دیہاتی مناظر کی ایسی کلونک عکاسی ملتی ہےجس میں سانس لیتا ہوا ایک گاؤں ملتا ہے گاؤں کی مٹی کی وہ سوندھی سوندھی خوش بو بھی۔
 افسانہ نگار نے اسے مقامی لہجے کے رس رنگ میں گوندھ کر ایک نمائندہ کردار تخلیق کردیا ہے۔ کرداروں میں کلاسیکی کرداروں کے نقوش اور گہرا رنگ بھی گھول دیا ہے۔ شبراتی میں ہوری، ہلکو اور بجوکا کے مرکزی کردار کی نفسیاتی کشاکش کی ایک پرت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کر دار وہی کپڑے پہنے کہانیوں میں ملتے ہیں۔ پھونس کے اس بچھڑے کی طرح دودھ دینے والی گاۓ کو بہلا نے رجھانے جیسا ہی کردار ہے۔ یہ کردار قاری کے ذہن میں دیر تک اسے اپنے فکری حصار میں لیے رہتا ہے. 
شبراتی اندھی عقیدت کا شکار وہ کردار ہے جو تھوڑی دیر کے لیے ہمدردی تو حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن سوال تو اب بھی برقرار ہے. شبراتی کے متعلقین کی زندگی میں در آۓ اندھیرے کو دور کرنے کے لیے کالی پوت دکھ دور کرنے کون آۓ گا۔
ایک بہترین اور اپنے عصری تقاضوں کے ساتھ چلنے والی با ربط اور منطقی کہانی ہے. جس میں متاثر کرنے کے لیے کلاسیکی کرداروں کے کلون تو ہیں لیکن یہ گرم گرم سانسیں چھوڑتا ہے۔ زبان و بیان معیاری اور عمدہ کرافٹ ہے۔ ضروری مکالموں اور جزئیات نگاری نے کہانی میں حقیقی رنگ گھول دیا ہے۔ جس سے منظر کی وہ دل کشی اور نکھر آتی ہے۔
کہانی کے مطالعہ کے بعد کچھ سوالات تو ابھر کر آتے ہیں۔
۱/ اجتماعی طور پر ایسی اندھی عقیدت Superstition  کا آج وہاں تصور کیا جاسکتا ہے جہاں ہندو کے علاوہ مسلم بھی رہتے ہیں. 
۲/ بہار یوپی کا کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں کے لوگ بڑے شہروں میں کام نہ کر رہے ہوں اور ٹی وی، موبائل استعمال نہ کر رہے ہوں کیا وہاں کی پوری کی پوری آبادی ایسی اندھ وشواسی ہوسکتی ہےـ ہاں انفرادی یا جماعتی طور پر ایسا ممکن ہوسکتا ہے. 
۳/ جمن کاکا گاؤں کا کوئی اہم فرد لگتا ہے کیونکہ اسی کے مشورے پر دکھ نکالنے کا یہ عمل کیا جاتا ہےـ اسے تو کسی بڑے مولوی یا عامل کو بلانے کی تجویز دینی چاہیے کیونکہ اس پر تو ہندو بھی متفق ہوتے. 
۴/ Veternity science کے شعبے نے ترقی کرلی ہے کیا  گاؤں اب بھی منشی پریم چند کے دور میں جی رہا ہے. ہمارا گاؤں اب ساٹھ ستر سال پہلے والا گاؤں نہیں رہ گیاـ وہاں بھی جدید سہولتیں ہیں. کیا جانوروں کو ہسپتال نہیں لے جاسکتے تھےـ
یہ وہ سوال ہیں جو کہانی کے تعلق سے اٹھاۓ جاسکتے ہیں.
نثار انجم کے یہ تبصرے بھی ملاحظہ فرمائیں :منڈیر پر بول رہا ہے کاگا

اسلم جمشید پوری کے افسانہ یہ ہے دلی میری جان کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

2 thoughts on “شبراتی

  1. Name : Qayyum Khalid
    Email : aqkhalid1@msn.com
    Message : کچھ اور سوال ، کیا گاؤں میں شبراتی اکیلا مسلمان تھا ؟- کیا گاؤں میں اور بھی مسلمان تھے ؟- کیا کوئی مسجد نہیں تھی؟ – کیا مسلمان یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ تم اپنے طریقہ پر دکھ نکالو ہم اپنے طریقہ پر مسجد میں دعا کرکے دکھ نکالتے ہیں –

  2. یہ کہانی پہلی بار،1987میں لکھی گءی۔گاءوں میں کوءی مسجد نہیں ہے۔کوءی اسپتال اب تک نہیں ہے۔
    آج سے 35سال قبل گاءوں پریم چند کے گاءوں جیسا ہی تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے