منڈیر پر بول رہا ہے کاگا

منڈیر پر بول رہا ہے کاگا

قمر سلیم

’کائیں کائیں، کائیں کائیں‘
’مائی دیکھو، دیکھو کاگا آیا۔ مائی یہ کیا کہہ رہا ہے۔‘
’کہہ رہا ہے میری مَندی دنیا کی سب سے پیاری بچی ہے۔‘ یہ سنتے ہی دو سال کی مَندِرا خوش ہوگئی۔ اب وہ کوّا روز آنے لگا اور مندرا اسے روز کچھ نہ کچھ دیتی رہتی تھی۔ کوّا اب منڈیر پر ہی نہیں بیٹھا رہتا تھا۔ اب وہ مندرا کے کھٹولے پر آکر بیٹھ جاتا تھا۔ اور کائیں کائیں شروع۔ کتنی بار تو مندرا اس کی کائیں کائیں سے ہی اٹھتی تھی۔
مندرا اب چھ سال کی ہو گئی تھی۔ ایک دن کی بات ہے کوّا اس کے بستر پر آکر بیٹھا۔ اپنی چونچ میں دبی ہوئی کسی چیز کو بستر پر پھینک دیا۔ مندرا نے اس چیز کو اٹھایا اور بولی، ’ارے یہ تو بالی ہے۔‘
وہ خوش ہوگئی اورچیخنے لگی، ’مائی یہ دیکھو، یہ دیکھو! میرا کاگا یہ بالی لے کر آیا ہے۔ میں پہن لوں۔‘
اس کی ماں ہنسی اور بولی، ’اری میری بنّو تیرے تو کان ہی نہیں چھدیں ہیں۔ چل آج ہی تیرے کان چھدوا تی ہوں۔‘
مندرا کے کان چھدے اور اس کی ماں نے ایک نازک سی بالی اسے پہنادی۔
’مائی میں یہ بالی بھی پہن لوں۔‘ اس نے کوّے والی بالی دکھاتے ہوئے کہا۔
’ارے پگلی یہ تو ایک ہی ہے۔‘ اس کی ماں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’اچھا، میں اسے رکھ لوں۔‘ اس نے وہ بالی اپنے تکیے کے نیچے چھپا دی۔ اب کوّا کچھ نہ کچھ لے کر آتا ہی تھا۔ کبھی کوئی بٹن، کبھی انگوٹھی، کبھی ہار، کبھی کوئی سکّہ وغیرہ وغیرہ۔
مندرا سب کچھ جمع کرتی رہی۔ وہ اس کی دی ہوئی چیزوں کو خوب سنبھال کر رکھتی۔ اکثر وہ اس کی لائی ہوئی چیزوں کو پہنتی اور اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتی اور خوب نہارتی۔ وہ کوّے سے خوب خوب باتیں کرتی، ہنستی، کھلکھلاتی اور کبھی کبھی کوّے سے روٹھ بھی جاتی لیکن اسے کوّے کے بنا چین بھی نہیں پڑتا تھا۔ صبح ہوتے ہی کوّا منڈیر پر آتا پھر اڑ کر مندرا کے بستر پر آجاتا اور مندرا اسے کچھ نہ کچھ کھلاتی۔ ایک دن کی بات ہے مندرا کوّے کی کائیں کائیں سے اٹھی۔ اٹھتے ہی اس نے دیکھا اس کے سرہانے ایک گول سی چیز تھی۔’ارے یہ تو نتھنی ہے۔‘
’ارے مائی دیکھ آج میرا کاگا کیا لے کر آیا۔‘
’ارے یہ تو نتھ ہے۔ اس کا مطلب ہے میری بنو کے بیاہ کا وقت آگیا ہے۔‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ مندرا بے پناہ حسین تھی اور اس کی خوب صورتی کے چرچے دور دور تک تھے۔ اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ کوّا روز دیکھ دیکھ کر خوب کائیں کائیں کرتا اور ناچتا۔
’او مائی! ارے دیکھو آج تو کتنے کاگے آئیں ہیں۔ وہ سارے کوّے منڈیر پر بیٹھے کائیں کائیں کرتے اور ناچتے رہے۔ مندرا ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھی لیکن اس کی نظریں اپنے کاگا پر سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ وہ تو اس پر واری ہو ہو جارہی تھی۔
وہ اب اپنے کاگا سے بہت زیادہ باتیں کرنے لگی تھی۔ کچھ بھی پہنتی تو پوچھتی، ’بولو نہ کاگا میں کیسی لگ رہی ہوں۔ بتاؤ نہ یہ میرے اوپر اچھا لگ رہا ہے۔‘ اورکوّا بھی خوب کائیں کائیں کرتا جیسے وہ سب سمجھ رہا ہو۔ اس کی اچھل کود اور اداؤں پر مندرا بہت ہنستی۔
اور پھر ایک دن مندرا کی شادی شہر کے ایک خوب رو گوری رنگت والے نوجوان سنیل سے ہوگئی۔ وہ اپنے کاگا کے لیے بہت افسردہ تھی، اس کی آواز سننے کو ترس گئی تھی۔ وہ سوچنے لگی یہاں میرا کاگا کیسے آئے گا یہاں تو منڈیر بھی نہیں ہے۔ وہ ان جالیوں سے اندر کیسے آئے گا۔ کیا اب میں اس سے نہیں مل پاؤں گی۔ اب تو وہ جب بھی اپنے مائکے جاتی تب ہی اپنے کاگا سے ملتی۔ اس کے پہنچتے ہی کاگا آتا اور اس کے ارد گرد منڈراتا رہتا۔ اس کی گود میں بیٹھتا، اس کے کندھوں پر چڑھتا، ماتھے کو چومتا تو کبھی اس کے رخساروں کو اپنے پروں سے گدگداتا اور وہ دیوانی ہو ہو جاتی۔ جب تک وہ مائکے میں رہتی وہ صبح ہی صبح اس کی منڈیر پر آجاتا اور سورج کے ڈھلنے تک رہتا۔ وہ بھی اس کا بے چینی سے انتظار کرتی تھی۔ سورج کے دستک دینے سے پہلے ہی اٹھ جاتی اور اس کی خاطر تواضح کی تیاری میں لگ جاتی۔ اپنے کاگا کی وجہ سے وہ گھر سے باہر ہی نہیں نکلتی تھی۔ نہ کسی سے ملنا نہ ہی کہیں جانے کی تمنا۔ بس اس کا یہی معمول تھا۔ دن بھر اپنے کاگا کے ساتھ بتیانا۔
وہ امید سے تھی اسی لیے ادھر بہت دنوں سے اپنے مائکے نہیں جا سکی تھی۔ اسے کاگا کی یاد بہت ستا رہی تھی. کوئی بھی کوّا بولتا دوڑ کر دیکھتی. حالانکہ وہ جانتی تھی یہ اس کا کاگا نہیں ہے پھر بھی اس کی بے چینی دغا دے ہی دیتی تھی۔ ایک دن کوّے کی کائیں کائیں سے اس کی آنکھ کھل گئی۔اس کا چہرہ خوشی سے لال ہوگیا، وہ بے ساختہ چیخ پڑی، ’میرا کاگا، میرا کاگا۔‘ سنیل اس کی چیخ سن کر گھبرا گیا۔ ’کیا بک رہی ہو۔‘
’دیکھو نا دیکھو نا میرا کاگا آگیا۔‘ اور دوڑ کر کھڑکی پر گئی۔ وہ اس کا ہی کاگا تھا۔ اس نے لوہے کی گِرِل سے ہاتھ نکال کر اسے بہت چمکارا، پیار کیا اور دیر تک اسے نہارتی رہی اور خوب باتیں کیں۔ سنیل اسے دیکھ کر مسکراتا رہا۔ اب اس کا کاگا روز آتا اور وہ روز اس کے ساتھ خوب باتیں کرتی۔ اس کے بدن پر اپنے نرم ونازک ہاتھ پھیرتی، اپنی مخروطی انگلیوں سے اس کے بالوں کو سنوارتی لیکن وہ اسے اپنے سینے سے لگانے سے قاصر تھی۔ اس سے رہا نہیں گیا اور ایک دن وہ اسے اپنے کمرے لے کر آگئی۔ اس نے اس کی خوب بلائیں لیں۔ اپنی گود میں بٹھایا۔ خوب پیار کیا۔ اور اس کے کاگے پر بھی دیوانگی طاری تھی وہ بھی اس کی پیشانی کو چومتا اور اپنے پروں سے اس کے رخساروں کو گدگدا دیتا۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا تھا۔
شروع میں تو سنیل اس کی بے وقوفی پر مسکرا دیتا تھا، پھر پاگل پن پر خوب ہنسا بھی لیکن کچھ دنوں بعد ہی اس پر غصّہ اور جنون طاری ہونے لگا۔ اس نے اسے بہت سمجھایا، ’دیکھو مندرا! یہ تم کیا کر رہی ہو، یہ بے وقوفی ہے۔ ارے کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا۔‘
’ارے اس میں کیا ہے۔ وہ مجھے اچھا لگتاہے۔ اس کا رشتہ تو مجھ سے تم سے پہلے سے ہے۔ کوئی دیکھتا ہے تو دیکھنے دو، کوئی کچھ کہتا ہے تو کہنے دو۔‘اس نے سنیل کے سینے پر سر رکھتے ہوئے کہا، ’تمھیں تو برا نہیں لگتا ہے نہ، تم تو میرے ساتھ ہو۔‘
’ہاں،مگر!‘ سنیل اتنا کہہ کر ہی خاموش ہو جاتا۔‘
سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہا اور اب اس کے بچے کی ولادت کا وقت قریب آگیا تھا۔ ادھر اس کے کاگا نے بھی آنا بند کر دیا تھا۔ وہ بہت پریشان تھی۔اس کا کاگا کیوں نہیں آرہا ہے۔ کہیں وہ بیمار تو نہیں ہے، کیا وہ یہاں سے چلا گیا، نہ جانے کیا کیا خیالات اس کے ذہن میں آ رہے تھے۔ ایک دن وہ سنیل کے ساتھ ڈاکٹر سے مل کر اپنے فلیٹ پر آرہی تھی تبھی سوسائیٹی کے چوکیدار نے کہا،’صاحب! وہ پیسے تو دے دیجیے۔‘
’کیسے پیسے؟‘
’ارے صاحب آپ نے کہا تھا نہ، یہ کوا بہت کائیں کائیں کرتا ہے۔ اسے ٹھکانے لگا دو۔‘
اتنا سننا تھا کہ مندرا کو چکر آنے لگے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا، ’تو تم نے اسے مار دیا۔‘
’ہاں میں نے اسے مار دیا۔‘
’اس نے تمھارا کیابگاڑا تھا جو تم نے اسے ماردیا۔ ارے، وہ تو بے زبان تھا۔‘
’ہاں، لیکن اس نے میرا سکون چھین لیا تھا۔‘
’تو تم اسے برداشت نہیں کر سکے۔ آخر ہو تو مرد۔ دکھا دی تم نے اپنی مردانگی۔‘
سنیل کچھ نہیں بولا۔ مندرا کاگا کے غم میں ادھ مری ہوئے جا رہی تھی۔ رو رو کر اس نے اپنا حال برا کر لیا تھا۔
اس نے روتے روتے کہا، ’وہ کاگا تو ہمارے خاندان کا ایک حصّہ تھا۔ بچپن سے ہی وہ ہمارے ساتھ رہتا تھا۔‘
 سنیل نے بڑی مشکل سے مندرا کو سمجھایا اور اسے دلاسہ دیا، ’دیکھو مندرا! اس وقت اس طرح غم کرنا تمھارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ تم ماں بننے والی ہو۔ تمھیں اپنے بچے کا خیال رکھنا چاہیے۔‘
مندرا نے جیسے ہی بچے کو دیکھا۔ اس کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھا۔ اس نے اپنے بچے کو سینے سے لگا لیا اور اس کی خوب خوب بلائیں لیں لیکن جیسے ہی سنیل نے بچے کو دیکھا، اس نے اپنا منھ دوسری طرف پھیر لیا۔
اس کا بچہ کوّے جیسا کالا بھجنگ تھا۔
***

تبصرہ و تجزیہ 
نثارانجم

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
اقبال عظیم

افسانے کا قاری فکر کی منڈیر پر خاموش بیٹھا سوچ رہا ہے، کیا یہ ایک سیدھی سادی عام سی روایتی کہانی ہے جس میں کاگا کی کائیں کائیں کی آواز مندرا کی سماعت میں محبت اور چاہت کے نغمے گھول دیتی ہے. کاگا مندرا کی چاہت میں پو پھوٹتے ہی منڈیر پر اترتا ہے اور شناسا سماعت میں ترنم ریز رس گھول دیتاہے۔ عمر کے ہر پڑاؤ پر کبھی کانوں کی بالی، کبھی نتھ اپنی چونچ میں لئے آ دھمکتا ہے۔ اور مندرا اس کی دی ہوئی نشانیوں کو جمع کرتی رہتی ہے۔
کاگا منڈیر سے اتر کر اب تومندرا کی گود میں بیٹھتاہے، اس کے کندھوں پر چڑھتا ہے، ماتھے کو چومتاہے، اس کے رخساروں کو اپنے پروں سے گدگداتا ہے اور وہ دیوانی ہوکر گنگنانے لگتی ہے:
مائی نی مائی منڈیر پہ تیرے بول رہا ہےکاگا
جوگن ہوگئی تیری دلاری من جوگی سنگ لاگا
"کاگا روز آتا اور وہ روز اس کے ساتھ خوب باتیں کرتی۔اس کے بدن پر اپنے نرم ونازک ہاتھ پھیرتی، اپنی مخروطی انگلیوں سے اس کے بالوں کو سنوارتی"
ادھر کاگے کی انسیت نے مندرا کا یہ حال کردیا:
چاند کی طرح چمک رہی تھی اس جوگی کی کایا
میرے دوار آ کے اس نے پیار کا الک جگایا
جب کاگے پر دیوانگی طاری ہوتی ہے تو قاری کی تفہیمی فکر منڈیر سے پھسل کر گوشت پوست کے حقیقی محبوب کے آنگن میں آگرتی ہے۔ جہاں چونچ نہیں کوئی ہونٹ پیشانی کو چومتا ہوا detect ہوتا ہے ۔ پروں سے اس کے رخساروں کو گدگدانا قاری کو فکر کے اس پار لے آتا ہے۔
جہاں :
"اپنے تن پہ بھسم روا کے ساری رین وہ جاگا"
کے مشاہدے میں بیخود ہوجاتی ہے۔ ادھر سنیل رقابت کی آگ میں منڈیر پر ہی لوٹنے لگتا ہے۔
کاگا کا روز آنا مندرا کا اس کے بدن پر اپنے نرم و نازک ہاتھ پھیرنا، اپنی مخروطی انگلیوں سے اس کے بالوں کو سنوارنا جیسے انکشاف نے افسانے کی کایا ہی پلٹ دی۔
پھر ایک دن وہ اسے اپنے کمرے تک لئے آئی اسے گود میں بٹھایا اور خوب پیار بھی کیا.
افسانہ اپنے مفاہیم کی ترسیل میں ذومعانی ہے۔ بیانیہ میں وہ ادبی کشش نہیں ہے کہ قاری کو اپنے فکری لمس میں دیر تک گرماہٹ دے سکے۔ کلائمکس میں فکر کو جھٹکا دینے کی بھر پور فضا سازی کی کمی ہے۔ افسانے کی تان رقیبانہ جذبے پر ٹوٹتی ہے. اختتام پر مندرا کے ردعمل پر مصنوعیت کی پرت ہے۔ کالا بھجنگ بچے کی پیدائش پر سنیل کے ردعمل میں بھی افسانوی رنگ کی کمی کھٹکتی ہے۔ سنیل کے رقابت آمیز منفی جذبے کو فطری رنگ دینے میں افسانہ نگار کی عجلت پسندی درآئی ہے۔
مجموعی طور پر اسے ایک اوسط درجے کے افسانے کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں :اِسٹیئرنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے