دوسرا ہنر

دوسرا ہنر

امان ذخیروی
ذخیرہ، جموئی، بہار ، الہند 
رابطہ: 8002260577

قربان علی کو نوکری کرتے ہوئے لگ بھگ 30 سال ہونے والے تھے. کچھ مہینوں میں وہ اپنی نوکری سے سبک دوش ہونے والے تھے. سبک دوشی کا وقت جتنا قریب آتا جاتا ان کی خوشی میں اضافہ ہوتا جاتا. مسلسل نوکری کرتے ہوئے وہ خود کو تھکا تھکا سا محسوس کرتے. طالب علمی کا زمانہ انھوں نے بڑی محنت سے گزارا تھا. پڑھائی میں ہشیار اور ہمیشہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہونے والے قربان علی جب ایک اسکول میں استاذ مقرر ہوئے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا. نیے جوش اور امنگ کے ساتھ انھوں نے نوکری شروع کی اور اپنی تمام تر صلاحیت اسی پر قربان کر دی. اسکول میں بچوں کے ساتھ محنت کرتے اور گھر آ کر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہتے. وقت گزرتا گیا بچے بڑے ہو گئے اور پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل سنوارنے کی فکر میں تھے. ادھر کچھ سالوں سے ان کے دل میں ایک خیال بار بار دستک دے رہا تھا کہ ‘میں نے سب کچھ تو کیا لیکن سماج کے لیے کچھ خاص کام نہیں کر سکا. خود کے لیے تو ہر آدمی جیتا ہے.` چنانچہ انھوں نے دل میں یہ مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ نوکری سے فارغ ہونے کے بعد سماج سیوا ہی کرنا ہے. یہی وجہ تھی کہ وہ جلد سے جلد اپنی مدت پوری کر آزاد ہونے کے متمنی تھے.
وقت پر لگا کر گزرنے لگا اور وہ دن بھی آ پہنچا. صبح جب آنکھ کھلی تو ان کا چہرا خوشی سے گلنار ہو رہا تھا. آج ان کا اپنی ڈیوٹی کا آخری دن تھا. جلدی جلدی ناشتے سے فارغ ہوکر وہ اپنے اسکول کے لیے روانہ ہو گئے. اسکول کے اساتذہ اور بچوں نے ان کی وداعی کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی تھی. سب لوگوں نے ان کی خدمت کا اعتراف کیا اور انھیں ایک فرض شناس معلم قرار دیا تھا. بچوں نے ان کی شان میں قصیدے پڑھے اور ان کے وداع ہونے پر دکھ کا اظہار کیا. سب سے آخر میں انھیں تقریر کا موقع دیا گیا. انھوں نے نہ اپنی سبک دوشی کا رونا رویا اور نہ ہی اس کا افسوس جتایا. بس بچوں سے مخاطب ہوکر اتنا کہا کہ یہ قدرت کا انتظام ہے. ہر کام کی ایک مدت ہوتی ہے, اور انسان اپنی مدت پوری کر رخصت ہوتا ہے. میری وداعی بھی اسی کا ایک حصہ ہے. بچو! میں آپ سے یہی کہوں گا کہ آپ اپنی پڑھائی پر خاص توجہ دیں، پڑھ لکھ کر ایک ذمہ دار شہری بنیں. جس شعبے میں بھی جائیں دیانت داری سے کام کریں اور ساتھ ہی ساتھ خدمت خلق کا جذبہ اپنے دلوں میں بیدار کریں. یہ کام طالب علمی کے زمانے سے ہی شروع کر دیں تاکہ عملی زندگی میں آنے پر بھی یہ سلسلہ جاری رہے. در اصل ان کے دل میں جو خدمت خلق کا جذبہ ان دنوں بیدار ہوا تھا وہ اسے بچوں کے دلوں میں منتقل کر اپنا آخری فرض پورا کرنا چاہتے تھے. تقریب کے ختم ہوتے ہوتے شام ہو گئی تھی. وہاں سے فارغ ہو کر وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے. گھر پہنچ کر انھوں نے راحت کی سانس لی اور آرام کرسی پر بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے بیوی سے اپنی سبک دوشی پر منعقد کی گئی تقریب کا حال پوری تفصیل سے بتانے لگے. اس دوران ان کے چہرے پر ذرا بھی شکن نہیں تھا جو عموماً ایسے لوگوں کے چہرے پر دیکھنے کو ملتا ہے. ادھر ادھر کی باتیں کرتے رات کافی ہو گئی تو سب لوگوں نے کھانا کھایا اور اپنا اپنا بستر سنبھال لیا. قرباں علی بھی اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے سوچے ہوئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں غور و فکر کرنے لگے. تبھی بغل کے کمرے سے بیٹے کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی جو ماں سے کہ رہا تھا، ‘ابا تو اب ریٹائر ہو گئے اب دن بھر گھر میں فارغ ہی رہیں گے. اسی لیے آدمی کو کوئی دوسرا ہنر بھی سیکھ کر رکھنا چاہیے تاکہ آمدنی کی صورت بنی رہے. ابا کوئی دوسرا ہنر جانتے تو ابھی کام آتا. قربان علی کی سماعت پر یہ بات رات بھر ہتھوڑے برساتی رہی.
***
افسانچہ نگار کا خود تعارف :
میرا پورا نام امان الله خان ہے
قلمی نام امان ذخیروی ہے
میں اپنی نانیہال پریم ڈیہا، ضلع لکھی سرائے بہار الہند میں 1975ء کو پیدا ہوا
میں نے بھاگل پور یونی ورسٹی سے اردو میں ایم اے (ٹاپ) 2000ء میں کیا اور بی ایڈ مگدھ یونی ورسیٹی بودھ گیا سے 1997ء میں کیا
ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن ذخیرہ کے پرائمری مکتب سے حاصل کی
اعلا تعلیم بھاگل پور یونی ورسٹی اور مگدھ یونی ورسیٹی سے حاصل کی
ادبی سفر کا آغاز 1990ء میں پیروڈی شاعری سے کیا
میں نظم نگار شعرا سے متاثر ہوں. میرے محبوب شاعروں میں اقبال، فیض، اور علی سردار جعفری ہیں
میں تلمیز الرحمن ہوں . میں نے کسی شاعر کا تلمذ اختیار نہیں کیا
ویسے تو شاعری کی ہر صنف مجھے پسند ہے، مگر میری زیادہ پسندیدہ صنف نظم ہے
صنف نظم پر ہی میں نے زیادہ کام کیا
اب شاعری کے 3 مجموعے شائع ہو چکے، جن میں پہلا غزلوں کا مجموعہ ہندی رسم الخط میں، بہ عنوان پرندوں کا سفر 2012ء میں
دوسرا نظموں کا مجموعہ اردو رسم الخط میں، بہ عنوان نوائے شبنم
تیسرا دوہوں اور غزلوں کا مجموعہ ہندی رسم الخط میں بہ عنوان سمے پایے تروور پھلے 2020ء میں
ہاں نثر بھی میری ادبی کاوش کا حصہ ہے. ایک افسانہ بعنوان اتفاق میں نے لکھا تھا 1992ء میں دہلی کے ایک رسالہ روپ کی شوبھا میں شائع ہوا تھا. اس کے علاوہ مضامین اور رپورتاز وغیرہ لکھتا رہتا ہوں.
میری شادی 1993ء میں اس وقت ہوئی جب میں بی اے فرسٹ ایر میں داخل ہوا تھا. میرے 6 بچے ہیں جن میں 3 لڑکے اور 3 لڑکیاں ہیں.
میرے والد کا نام محمد سعد الله خان اور والدہ کا نام مشتری خاتون ہے. والد صاحب ہائی اسکول کے ریٹائرڈ ٹیچر ہیں اور والدہ گھریلو خاتون. ہم 8 بھائی بہنوں میں میرا نمبر دوسرا ہے.
ان دنوں میں اپنی نانیہال پریم ڈیہا میں اپنے والد کے بنائے مکان نوشاد منزل میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ مقیم ہوں. گھر کے باقی لوگ آبائی وطن ذخیرہ میں مقیم ہیں.
بچپن میں میری آواز بہت سریلی تھی. لوگ میری آواز کے دیوانے تھے. گاوں کے میلاد شریف میں نعت پڑھنے کے لیے لوگ مجھے لے جاتے تھے. اس وقت میری عمر 8-10 سال سے زیادہ نہ تھی. ایک صاحب کے یہاں میلاد شریف کا پروگرام تھا. میں ان کے میلاد شریف میں نہیں جا سکا تھا اور گھر میں بے خبر سو رہا تھا. وہ صاحب میرے گھر آئے اور مجھے جگا کر اپنی گود میں اٹھا کر میلاد شریف میں نعت پڑھنے کے لیے لے گئے. اس وقت مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہوا تھا. وہ یادگار پل میں آج تک نہیں بھول سکا ہوں.
یہ واقعہ 2006 کا ہے. ان دنوں روزنامہ قومی تنظیم میں میری نظمیں تواتر سے شائع ہوتی تھیں. میری نظموں کو لوگ بہت پسند کیا کرتے تھے اور فون سے مبارکباد پیش کرتے تھے. انہی دنوں ایک خاتون میری نظموں کی بے حد پرستار ہو گئی تھیں. موبائل پر اکثر دیر تک باتیں ہوتیں. اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے. حالانکہ ان سے میری ملاقات کبھی نہ ہو سکی. ان کی محبت نے میری شاعری کو پر لگا دیے. ان دنوں میں نے دھواں دھار نظمیں کہیں. وہ تمام نظمیں میری نظموں کی کتاب نوائے شبنم میں شامل ہیں، جن میں اسی کافر جاں کا پرتو ہے. باتیں اب بھی ہوتی ہیں مگر اب وہ وارفتگی نہیں رہی. مگر کہیں نہ کہیں دل میں اب بھی اس محبت کا نور جھلملاتا ہے.
میں ادب میں پریم چند، منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر، شوکت صدیقی، اور انتظار حسین سے متاثر ہوں.
میں جس جگہ رہتا ہوں یہاں پر کوئی ادبی رسالہ دستیاب نہیں ہوتا. تاہم ڈاک سے چند رسائل منگواتا ہوں، جن میں ماہنامہ آج کل، ایوان اردو، ذریں شعائیں، زبان و ادب وغیرہ قابل ذکر ہیں.
اردو ادب سے وابستہ لوگوں کے لیے میرا پیغام یہی ہے کہ دیانت داری سے اردو ادب کی خدمت کریں اور ادبی گروپ بندی کے شکار نہ ہوں.
میری سمجھ سے ادب میں زیادہ پر اثر شاعری ہی ہے. شاعری کا تعلق روح کی گہرائیوں سے ہے. بقول شاعر…..
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے

شیئر کیجیے

2 thoughts on “دوسرا ہنر

  1. بہت ہی پراثر اور دل کو چھو جانے والی تحریر ہے۔ اجکل کے مادیت زدہ معاشرے کی بہترین عکاسی کی ہے جب انسانی رشتے مشینی بن چکے ہیں اس میں احساسات کی کمی اور مطلب زدگی آلودہ ہوگئی ہے۔ ہر بڑی عمر کے شخص کو جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہوگا یہ تحریر پڑھ کر ایک ان دیکھے خوف کا احساسِ ضرور ہوگا
    امان ذخیروی بہت اعلیٰ

  2. پیسہ ہر چیزپر غالب آ گیا ہے خواہ وہ سماجی سروکار ہو یا خاندانی رشتے ، مادیت پرستی نے بڑی خوبصورتی سے خونی رشتے کے اعتماد پر بھی ضرب کاری شروع کر دی ہے۔۔۔۔
    نئی فکر، نئی نسل کے بدلتے رجحان پر خوبصورت افسانچہ ۔۔۔ امان ذخیروی صاحب کو بہت بہت مبارکباد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے