کتب بینی کا شوق کہاں گیا؟

کتب بینی کا شوق کہاں گیا؟

سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، زینہ کوٹ، سرینگر، جموں و کشمیر
7889346763

یہ مضمون میرے ذہن میں کئی سالوں سے گردش کر رہا تھا۔ مگر مصروفیات کی وجہ سے میں اس کو لکھنے سے قاصر تھا۔ اس سے بھی زیادہ ضروری وجہ یہ تھی کہ جب بھی میں مضمون لکھوں اس کا کوئی فائدہ ہو۔ بہرحال جب عالمی وبا نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرا اور ایک انسان گھر کی چار دیواروں میں بند ہوگیا، اس موقع پر انٹرنیٹ یا کتابوں نے لوگوں کو اس دشوار وقت سے نکلنے کا سامان مہیا کیا۔ مگر انٹرنیٹ کے آنے سے جتنے فوائد سے مستفید ہونا پڑا، اتنا ہی نقصان ہمیں کتابوں سے دور ہونے کی صورت میں دیکھنا پڑا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے آپ سے غافل ہو جاتی ہے تو اس کے لیے ترقی کے راستے محدود ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہے کتب بینی سے دوری۔ دنیا کے اعلا ترین دماغوں کی باتیں کتابوں میں موجود ہیں۔ دنیا کی حقیقت، مادیت کی حقیقت، انسانوں کے اقسام، مذاہب کے فوائد اور نقصانات، آخرت کی حقیقت، وغیرہ یہ سب چیزیں ان ہی کتابوں میں سجی ہوئی ہیں۔ کسی قوم کو انقلاب کی طرف مائل کرنا یا کسی استعمال شدہ راہ سے، صحیح راہ پر لانا، ہی کتابوں کی دین ہے۔
مگر اتنے فوائد کے باوجود، ہمارے یہاں اس عادت کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس کے ظاہری اور باطنی اسباب ہیں، مگر جب ہم پوری شکل کو دیکھتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ یا تو یہاں اچھی کتابوں کی کمی ہے یا تو لوگ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اک اور چیز یہ ہوسکتی ہے کہ اب وہ کتابیں نہیں رہیں، جو قوموں کی تقدیر بناتی ہیں۔ اس کو جتنا کھینچا جاتا ہے، اتنا یہ مضمون دوسری جہتوں کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ مگر قارئین کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میں کوشش کرنا چاہتا ہوں کہ اس کو کم الفاظ میں محدود کرتے ہوئے، مقصد بیان کیا جاۓ۔ اپنی بات کی طرف واپس آتے ہوئے، اب ہم ان وجوہات کا ذکر کرتے ہیں جو ہمیں کتابوں سے دور کرتے ہیں۔
پہلا ہے کتابوں کی اہمیت سے ناواقفیت۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک اچھی کتاب کیا ہوتی ہے۔ قرآن جیسی کتاب کو غور سے پڑھ کر اور پھر مشاہدہ کر کے ایک انسان حقیقت سے ضرور آشنا ہوتا ہے۔ اس انسان کو چیزوں کو گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ پہلے وہ اپنے آپ سے اور پھر پوری کائنات سے روشناس ہوگا۔ مگر اتنے فوائد کے باوجود، بہت کم لوگ قرآن کو پڑھتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو حال ہے مذہبی کتاب کا جو ہم سمجھے اور نا سمجھے بھی پاک مان لیتے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ دوسری کتب کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہوگا۔ اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتب سے ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، تو دنیا کی کوئی دوسری کتاب ہمیں بدل بھی دے، وہ ناقص تبدیلی ہوگی۔
دوسرا ہے مادیت۔ یہاں دانا اور نادان کو ایک قسم کا کھانا، کپڑا، گھر، رشتہ دار، وغیرہ چاہیے۔ کتابیں پڑھ کر اور نہ پڑھ کر بھی کمانا، کھانا اور سونا ہے۔ تو کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ مادیت کے جتنے انبار ہوں اتنا فائدہ ہے۔ کوئی بھی چیز دنیا میں پیسہ مانگتی ہے، تو کتابوں کا اس معاملے میں کیا رول ہے۔ جس نے کتابیں نہیں پڑھی ہے، وہ کتب بینی کرنے والے سے زیادہ کماتا ہے اور خوش ہے، مگر دوسری طرف کتب بینی کا شوق رکھنے والا تذبذب کا شکار ہے۔ ہر چیز کو کھانے سے پہلے جانچتا ہے، بولنے سے پہلے سوچتا ہے، کرنے سے پہلے نتیجہ کے بارے میں سوچتا ہے، سونے سے پہلے جاگتا ہے، جاگنے سے پہلے سوتا ہے، جو خدا کو ڈھوندتا ہے، ہر کسی بات میں شک کرتا ہے، وغیرہ۔ اس نہ ختم ہونے والے بہ ظاہر پریشانی سے اچھا ہے کہ آرام سے زندگی گزاری جاۓ۔ نہ کسی کی آنکھ میں کھٹکیں گے اور نہ کوئی دشمن بنے گا۔
تیسرا ہے جاہل اور ان پڑھ سماج۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں پر بات ماضی کو سامنے رکھ کر ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے ماضی جینا سکھاتا ہے، مگر ہمیشہ ماضی کی طرف دیکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ ماضی میں اگر ہمارے آباواجداد نے کتابوں کا منہ نہ دیکھا ہو، تو ہم کو بھی یہی کرنا ہے۔ اور اگر دیکھی بھی ہوں، مگر پڑھی نہ ہوں، تو یہ بھی ہمارے لیے ایک معیار بن جاتا ہے۔ اس کو اگر دوسرے انداز میں بولا جاۓ تو یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی کے ذہن کی اختراع ہمارے لیے بنیاد نہیں بن سکتی، جب تک یہ زندگی گزارنے کے لیے ٹھیک نہ ہو۔ مگر افسوس کی بات ہے ہمارے لیے ماضی معیار بن گیا ہے اور اس کے علاوہ کسی انسان کے ذہن کی اختراع ہمارے لیے نمونہ بن گئی۔ اس کا نتیجہ نکلا کہ اب ہم سیکھنے سے قاصر ہیں اور کتب بینی سے بہت دور۔
چوتھا ہے کنجوسی۔ ہم بدعات پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں، مگر کتابیں خریدنا پسند نہیں کریں گے۔ لوگوں کو لگتا ہے یہ عمل دولت کا غلط استعمال کرنا ہے۔ ان کے مطابق فرائض کو چھوڑ کر کم درجے کے کاموں کو اہمیت دیتے ہیں۔ فرائض میں تھا علم حاصل کرنا، جو موجودہ زمانے میں کتابوں کی شکل میں موجود ہے۔ مگر اس کے بر عکس ہم نے اپنی انا کی خاطر اور لوگوں میں اپنی جھوٹی پہچان رکھنے کے لیے، ایک تو خود کو بربادی کی طرف راغب کیا ہے، اس کے علاوہ جو کتب بینی کا شوق رکھتے ہیں، ان پر اپنے برے نقوش چھوڑے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم بھی ایسے ہی زندگی گزاریں، مگر کچھ وجوہات کی بنا پر نہیں کر پاتے۔
اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم کتب بینی کی طرف لوٹ کر آئیں یا تو نئے سرے سے کتب بینی کی عادت ڈال لیں۔ آسمان سے نازل ہوئی کتب کا پہلے مطالعہ کیا جانے چاہیے۔ مگر خاص کر قرآن کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جانے چاہیے۔ اس کے علاوہ وہ کتابیں لوگوں کے درمیان پڑھنے کے لیے مخصوص کی جانی چاہئیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد کرے۔ جن کتب سے ایک انسان کے دیکھنے کا زاویہ بدلے، وہی کتابیں ہمارے یہاں ہونی چاہیے۔ مزید براں لوگوں کو بہت سارے طریقوں سے کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ اگر لالچ بھی دینی پڑے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ منبروں کو ہم اس کام کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے ہم لائبریریوں کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا فائدہ اٹھا کر آن لائن کتابیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ تحفے میں ہم کتابیں دے سکتے ہیں۔ اپنے دوستوں کے دائرے میں کتابوں کا ذکر کرسکتے ہیں۔ خود بھی ایک سال کے لیے ایک نشانہ مقرر کریں کہ مجھے اتنی کتابیں پڑھنی ہے۔ اور اس کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔ اور بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے مگر آج کے لیے اتنا کافی ہے۔ سب کچھ کہنے کے بعد اب بات آتی ہے عمل کی۔ امید کرتے ہیں کہ ہم کتابوں کو اتنی اہمیت دیں گے جتنی ہم کھانے پینے کو دیتے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کریں۔
صاحب تحریر کا مختصر تعارف :
نام:سید مصطفیٰ احمد
باپ کا نام:سید غلام محی الدین
رابطہ:حاجی باغ، زینہ کوٹ، سرینگر، جموں و کشمیر
تعلیم:گریجویشن
مشغولیات: لکھنا، کتابیں پڑھنا، سفر کرنا اور مختلف جگہوں کو دیکھنا۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:بلوغت اور جنسیاتی خواہش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے