کیا ہم اپنی زندگیاں جیتے ہیں؟

کیا ہم اپنی زندگیاں جیتے ہیں؟

سید مصطفیٰ احمد
رابطہ:حاجی باغ، زینہ کوٹ، سرینگر، جموں و کشمیر 

اس موضوع کو شروع کرنے سے پہلے انسان کے ذہن میں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلی چیز جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ زندگی کیا ہے۔ اس کے بعد جو سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس کے علاوہ جو سوال ذہن کو پریشان کرتا ہے وہ یہ کہ کون سا طریقہ زندگی گزارنے کا صحیح ہے اور کون سا غلط۔ اس دنیا میں اتنے نظریات ہیں کہ ایک ذی حس انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کس چیز کو مانے اور کس کو چھوڑے۔
جب یہ بات ہے، تو ایسے میں اب ہم ان چیزوں یا نظریات کی طرف آتے ہیں جو ہمارے ارد گرد پاۓ جاتے ہیں۔ ان سب کو اگر نچوڑ دیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہر مذہب اور غیر مذہب کتابوں یا فلسفوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان سب میں یہ لکھا ہے کہ زندگی کا مقصد ہے کہ اپنے آپ کو پہچان کر اپنے خالق کو پہچاننا ہے۔ دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد ہے آخرت کے لیے تیاری کرنا۔ کسی اور جگہ پر لکھا ہے کہ زندگی کا مقصد ہے لگاتار جنم لینا تاکہ انسان مکمل طور پر نجات حاصل کر سکے۔ ان سب نظریات کو ماننے والے ان سے بہت محبت کرتے ہیں اور وقت آنے پر ان کے لیے قربانی بھی دیتے تھے اور دیتے ہیں۔ مگر ان میں سے ایک نطریہ کو ماننے والوں کو اگر ہم منافق کہیں، تو غلط بھی نہ ہوگا۔ کچھ شخصیات کو چھوڑ کر، تمام مسلمان منافقانہ رول ادا کر رہے ہیں۔ ان کا ایمان اور بھروسہ کچھ اور ہے مگر وہ کر رہے کچھ اور ہیں۔ یہی میرے موضوع کا مقصد ہے۔ اگر کم و بیش دنیا کے باقی لوگ کسی نظریہ کے تحت جی رہے ہیں، ہم مسلمان کن کی زندگیاں جی رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کچھ وجوہات ضرور ہوں گی، جن کا ذکر آنے والی سطروں میں ہوگا۔
پہلا ہے دنیا کی محبت۔ مسلمانوں کو اس بات کا صحیح ادراک ہے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے۔ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہوگی، جہاں ہر اچھے اور برے کا فیصلہ ہوگا۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں پر آخرت کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی زینت بھی حرام نہیں ہے جب تک نہ اس میں غرق ہوکر اللہ کو بھلا دیا جائے۔ مگر ہم لوگ دنیا کی زینت سے اور یہاں کی رنگینیوں سے اس قدر متاثر ہوۓ کہ اب ہم ان کی طرح جینے لگے ہیں، جن لوگوں کو آخرت کی جواب دہی کا کوئی بھی تصور نہیں ہے۔ یہ ہے ہماری زندگی کا پہلا المیہ۔
دوسرا ہے اللہ پر کم بھروسہ۔ ہم بنانے والے پر بھروسہ کم مگر اس کی بنائی ہوئی نا پائدار چیزوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم مال کی موجودگی کو اصل مان لیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم لوگ بھی انہی کی طرح ہوجاتے ہیں، جو مادیت کو پوجتے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر اس شکل میں نکل کے آتا ہے کہ ہم اپنی پہچان کھو دیتے ہیں اور ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ کرنے والے ان سے راضی ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہ جو کہتے ہیں، اسے کر کے بھی دکھاتے ہیں لیکن ہم کہتے کچھ اور ہیں مگر کرتے کچھ اور ہیں۔ یہ ہے دوسری مثال اوروں کی زندگیاں جینے کی۔
تیسرا ہے شہرت۔ اس کی خاطر ہم کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ ہم سے یہ واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ گم نامی کی زندگی بہت اچھی ہے۔ اب اگر شہرت آپ کے پیچھے بھاگتی ہے، تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں آتی۔ مصیبت تب شروع ہو جاتی ہے جب انسان کو صرف یہی پریشانی لاحق ہو جائے کہ میں کیسے شہرت یافتہ بنوں۔ ہم بھی اب اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ قانونی یا غیر قانونی طریقے سے ہم شہرت کی بلندیوں کو چھونا چاہتے ہیں۔ اس طرح اپنی اصل پہچان کھو دیتے ہیں۔ ہم وہ بن جاتے ہیں، جو ہم نہیں ہوتے۔ اس سے انانیت جنم لیتی ہے اور انسان کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔
چوتھا ہے ہمارا اپنا رویہ۔ زندگی کا نام مسلسل جدوجہد۔ ایک ہزار باتیں برابر ہوتی ہیں ایک عمل کے۔ مگر ہم صرف لفظوں کے جادوگر ہیں۔ عملی طور پر ہم کہیں نہیں پاۓ جاتے۔ مانا کہ آج مسلمان ترقی کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی زندگیاں کسی اور کے حوالے کر کے خود مست خوابوں میں سو جائیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ مگر ہماری حالت غلاموں سی ہوگئی ہے۔ ذہنی غلامی سے لے کر سیاسی غلامی، ہم ہر جگہ دبے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم آسمان سے چیزوں کا نزول چاہتے ہیں۔ قوموں کی زندگیوں میں کئی مواقع زیادہ قیمت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ لمحات مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ اقبال نے بھی اپنی ایک نظم میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب پرانے زمانے کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور نیا زمانہ اپنی رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے، اس وقت ایک قوم کا امتحان لیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے پاس بہت سارے مواقع تھے کہ ہم اپنے آپ کو الگ کر کے دکھائیں مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ اور اس کا اثر ہماری اپنی خودی کا سودا کی شکل میں ہوگیا۔
پانچواں اور آخری ہے اختلافات۔ مسلمانوں میں ہر قسم کے اختلافات پاۓ جاتے ہیں جو اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ہم جن کو دشمن سمجھتے ہیں، ان کا ساتھ دینے میں کوئی دیر نہیں کریں گے، مگر اپنے مسلمان بھائی کو جو کہ امت کا ایک حصہ ہے، اس کا سہارا نہیں بنیں گے۔ اس کا نتیجہ نکلا کہ ہماری توانائیاں غیر ضروری کاموں میں صرف ہوئیں اور ہم اپنی شناخت کو سنوارنے میں بہت دیر کر گئے۔
اب وقت کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا۔ جو لوگ موجودہ حالات کے ساتھ بہنے کا گن نہیں جانتے ہوں، ان کی قسمت میں رسوائی ہے۔ ہم کو وقت کے ساتھ ساتھ چلنا ہی ہے، مگر اپنی شناخت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ ہمارے پاس کیا نہیں ہے۔ البتہ دنیا ماضی سے زیادہ حال اور آنے والے کل پر نظر رکھتی ہے۔ ہم نے ماضی میں جو بھی حاصل کیا، وہ ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اب ہم کیا کر رہے ہیں وہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ کیا ہم اپنی زندگیاں جینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہماری کوئی بھی شناخت نہیں ہے؟ سوال باقی ہے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے