پھندنے : ایک تجزیاتی مطالعہ

پھندنے : ایک تجزیاتی مطالعہ

نثارانجم

جنس منٹو کا مرغوب موضوع نہیں ہے بل کہ ان کے افسانے ایسی معا شرتی زندگی کا فطری مطالعہ ہیں جو شہوت کے رس میں گردن تک ڈوبا ہوا ہے۔ جاگیردارانہ نظام حیات اور عہد نوابین میں ایک خاص معاشرت کی جنسی کجرویوں اور بے راہ روی کو منٹو نے پھندنے کے علامتی پیرایہ اظہار میں پرو دیا ہے۔ زیر مطالعہ افسانے میں منٹو نے معاشرے کی ترجمانی کرتے ہوئے ہر طبقے کے افراد کو جنس کے گٹر میں لتھڑا ہوا دکھایا ہے۔ منٹو نے پھندنے
میں جنسی سر مستی میں آلودہ معاشرے کو ابتلاۓ طلب جنس کو علامت کے دبیز پردے میں پیش کیا ہے۔ جنسی شہوت کی چاک پر رقصاں اس عہد کی ایک مخصوص زندگی کی جنسی پراگندگی فکر وعمل، اخلاقی زوال، کوافسانے کا ایندھن بنایا ہے۔
اس شہوت زدہ معاشرتی تہذیب کی گرماہٹ قارئین اپنی جلد پر محسوس کرتے ہیں۔ پھندے کے اس منظر نامے میں اس خاص کلچر کے امینوں کے تہذیبی انڈے جھاڑیوں کے پیچھے دیکھتے ہیں اور جنسی ردعمل کے بدبو دار اپلے بھی اس اکھڑتی تہذیب کی دیواروں پر صاف نظر اتے ہیں جسے منٹو نے من وعن نہ پیش کرکے علامتوں میں بیان کرکے مروت کا حق نمک ادا کیا ہے۔ ایسے کردار کہانی میں بکھرے پڑے ہیں جو منٹو کے دیکھے بھالے ہیں۔ البتہ ان کے ساتھ حقیقی نام کا tag نہیں لگایا ہے۔

پھندنے کیا ہے؟
ایک alma meter ہے. اس عہد کی مخصوص معاشرت کی جنسی کثافت کی ترجمانی کرتا ہوا ایک استعارہ ہے. بحر جذبات میں دور سے دکھائی دینے والا ایک iceberg ہے. جس نے اپنے وجود کے ایک چو تھائی حصے کو چھپا لیا ہے۔ منٹو اس تہذیبی دیواروں پر کلنڈر کی طرح چپکی ہوئی جاگتی آنکھوں کی طرح ہے، جو کمرے اور خواب گاہ کے ایک ایک منظر کا گواہ ہے۔
روزون سے جھانکتی آنکھوں کا وہ سچ ہے جو معاشرے سےچھپا ہوا ہے۔ منٹو نے اس iceberg کی نو دریافت کے لیے جنسی کج روی کے گدلے پانی میں غوطہ لگایا ہے۔ یہاں lesbianism کے گھاٹ پر ننگی خواہشیں ہیں، grafenberg spot ہیں ۔

منٹو نے افسانے کے عنوان پھندنے میں اس cilotorial truth کو استعارے میں تجریدی ٹچ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ منٹو نے اس تھیم کو دریافت کرلیا تھا کہ طبقہ اشرافیہ کی زندگی کی بھاگ دوڑ اس جنسی جبلت کی آسودگی کے لیے labia minora کے pleasure land میں ہی رقصاں ہے۔
افسانے کا عنوان پھندنے اپنے معنی سے الگ کہیں اور بھی کھینچے لے چلتا ہے۔
عنوان مجھے Laura Szumoski کی ۵۶ صفحات کی کتاب Tip of Iceberg کی طرف لے آتا ہے۔ جنس کے بحر ذخار میں آئس برگ ٹپ کی طرح نظر آنے والے یہ پھندنے اس عہد کی معاشرتی جنسی کجرویوں، ہیجان خیزی اور نا آسودہ جذبات کے کھل کھیلنے کا ایک استعارہ ہے جس کا ۱/۴ حصہ ہی ننگی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ باقی ۳/۴حصہ منٹو نے افسانے کے کینوس پر تجرید کے رنگوں میں پھیلا دیا ہے جسے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ افسانے کی تفہیم میں اس عہد کا معاشرہ، منٹو کا جنس کے تعلق سے اپنا نظریہ، منٹو کی عمر، ان کی تحلیل نفسی اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ افسانے کا متن، اسلوب، علامت اور تجریدی خیال اس کی تفہیم کے متقا ضی ہیں۔ Narrator کہانی بیان کرتے ہوۓ روشن دان سے جھانکتا بھی ہے اور دور سے ان منظروں کا مشاہدہ بھی کرتا ہے. متن میں خواب کے سے shattered بے ترتیب جملے بھی ہیں اور جنسی day dreaming کا سا انداز بھی. کتے بلی انڈے کے تذکرے، چھاتیوں کی الگ الگ ساخت اور متنوع رقص، جنس کے تعلق میں عمر کی تفریق سے افسانے کی فضابندی میں nymphomaniac جیسے جنسی جنونی جذبے گھلے ہوۓ ہیں۔ متن تحریر میں طلب اور urge کے ساتھ وہ جنسی گھٹن بھی ہے اور پراگندگی خیال بھی جو lust کو شعور پر لادے بدن کے خفیہ لذت انگیز لوکیشن کو explore کرنے اور اس سے لذت کشید کرتے ملتا ہے۔ منٹو نے اختصار کے ساتھ ان ہی منظروں پر فوکس کیا ہے، جو Memoirs of women pleasure اور Delta of venus جیسی کتابوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔پھندنے یہاں کسی حساس جگہ کی ایک مخصوص بٹن نہیں ہے بل کہ استحصالی معاشرے میں گھٹی گھٹی خواہشوں کا وہ cilotoral stimulation مرکز ہے جس کے گرد ایک خاص تہذیب کے لوگ اپنی سڑانڈ پھیلانے کے لیے ایک hidden لابیہ میرین زون تشکیل کرچکے ہیں۔ منٹو صرف ان ننگے حماموں اور محلوں میں جھانک کر چپ نہیں بیٹھتا بل کہ اسے ایک حیوانی عمل سے مثال دیتا ہے، جسے اشرافیہ نے اپنا شعار بنا رکھا ہے۔
مجھے تو پھندنے اس butterfly pea اور Asian pigeonwing کے پھولوں جیسا دکھائی دیتا ہے جو ایک holy flower کے طور پر پوجا میں استعمال ہوتا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ منٹو نے اسے ازار بند کے ریشمی پھندنے سے جوڑ دیا ہے۔
پھندنے علامتی اور استعارتی افسانے کی وہ پہلی قندیل ہے جسے منٹو نے معاشرتی اندھیرے میں سلگتی اس کڑوی حقیقت نگاری کو وا کرنے کے لیے جلائی تھی۔ تاکہ اندھیرے میں سانپ کی اس پھنکار کی شدت کو محسوس کیا جاسکے. نام نہاد معاشرے کے جسم پر رینگتے ان جنسی نا آسودگی کے سانپ کے دانت توڑے جا سکیں جن میں وہ زہر ہے جو معاشرے کو زہریلا ہل کر رہے تھے۔
منٹو کے بہت بعد علامتوں کی وہ فوج بھی چکا چوند روشنی میں استعارے کی مشعل جلاۓ نکل پڑی اور اس بند گلی میں پہنچ گئ جہاں نہ ترسیلی subways تھے اور نہ exit.۔

منٹو کا نام اتے ہی ‘منھ نوچوا` کا نام ذہن میں ذہین شرارت کے ساتھ ابھر آتا ہے۔
منٹو اور منھ نوچوا کے ساتھ یہاں منافقت اور دوغلے پن کی گندی ردا اوڑھے ننگ اشرافیہ بھی چہرے پر ابھری کھرونچ کو چھپاتے مل جاتے ہیں۔ ایسی فضا بندی میں منٹو کی فکر بھی خون آلود ناخنوں میں اٹی ہوئی معاشرتی غلاظت کے ساتھ معاشرتی کجروی کو بھنبھوڑتی مل جاتی ہے۔ جہاں گوشت کی حرمت کا سودا ہوتا ہے اور زندگی کسی گھائل عورت کی روح کی طرح کراہتی صدمے جھیلتی رہتی ہے۔ منٹو کی ننگی آنکھوں میں زندگی کی تلخ اور بے رحم سچائی خون اگلتی ملتی ہے۔ اور گرم انگاروں کی دہک سے بھی احساس جھلستا محسوس ہوتا ہے. وہ کسی معاشرتی باغی منھ نوچوا کی طرح طبقہ اشرافیہ کے امینوں اور معاشرتی دلالوں کے نقاب اتارتا رہتا ہے. ان نا آسودگی کے شکار چہرے پر نشان خفگی بناتا ملتا ہے۔
جنس نگاری کی اس گہری پرت کو کھرچ کر دیکھتے ہیں تو وہاں بھی ایک معاشرتی معنویت کے ساتھ ایک دبی ہوئی چنگاری ہے جس کے سینے میں اس نظام کو جلاکر خاکستر کرنے کا تیور ہے.
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ ہو: کچھوے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے