اب اس کے بارے میں کیا بتاؤں جو یاد ہے وہ بتا رہا ہوں

اب اس کے بارے میں کیا بتاؤں جو یاد ہے وہ بتا رہا ہوں

افضل الہ آبادی

اب اس کے بارے میں کیا بتاؤں جو یاد ہے وہ بتا رہا ہوں
یہ مجھ سے کہہ کر ہوا وہ رخصت ذرا سا ٹھہرو میں آرہا ہوں

گلاب جیسی ہے میری فطرت ہوا میں گھلتا میں جا رہا ہوں
ابھی سے رکھنے لگے خلش تم ابھی میں راہیں بنا رہا ہوں

حسد کی دوذخ میں جل رہے ہیں پڑھے لکھے یہ کتابی کیڑے
خدا کا فضل و کرم ہے مجھ پر جو فن کے جوہر دکھا رہا ہوں

دکھائی دیتی ہے رات کالی نظر نہیں آرہا ہے کچھ بھی
ذرا سا ٹھہرو میں اپنے دل کے چراغ کی لو بڑھا رہا ہوں

میں ایسے گھر میں مکیں ہوں جس میں نہ کوئی دیوار ہے نہ در ہے
چھپا کے رکھا جو راز خود سے وہ راز تجھ سے بتا رہا ہوں

میں کیا بتاؤں وجود میرا مری ہی آتش میں جل چکا ہے
سو اپنے ہاتھوں سے خاک اپنی ہوا میں خود ہی اڑا رہا ہوں

نہ چشم ساقی میں ایسی مستی نہ ایسی مستی شراب میں ہے
ہزاروں نرگس کی مستیوں سے میں اس کی آنکھیں بنا رہا ہوں

سمٹ کے رہ جائیں سب ستارے سمٹ کے رہ جائیں سب نظارے
کسی کی جس پر نظر نہ ٹھہرے میں ایسا منظر بنا رہا ہوں

عجب ہے دیوانگی کا عالم نہ جانے کیا ہوگیا ہے مجھ کو
میں اپنے ہاتھوں سے آشیانے کو خود ہی اپنے جلا رہا ہوں

ہنر یہ بخشا خدا نے مجھ کو جو رہ کے دشت سخن میں افضل
رواں ہیں جس میں غزل کی موجیں میں ایسا دریا بہا رہا ہوں

افضل الہ آبادی کی گذشتہ غزل : جو لکھنا چاہوں تو کیسے لکھوں محبتوں کا نصاب اپنا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے