ہے آلودگی نوع انساں کی دشمن

ہے آلودگی نوع انساں کی دشمن

احمد علی برقی اعظمی

سلو پوائزن ہے فضا میں پلوشن
ہر اک شخص پر یہ حقیقت ہے روشن
یوں ہی لوگ بے موت مرتے رہیں گے
نہ ہو گا اگر جلد اس کا سلوشن
بڑے شہر ہیں زد میں آلودگی کی
جو حساس ہیں ان کو ہے اس سے الجھن
فضا میں ہیں تحلیل مسموم گیسیں
ہے محدود ماحول میں ’’آکسیجن‘‘
جدھر دیکھئے ’’کاربن ‘‘ کے اثر سے
ہے مایل بہ پژمردگی صحن گلشن
کسی کو ’’دمہ‘‘ ہے کسی کو ’’الرجی‘‘
مکدر ہوا سے کسی کو ہے ’’ٹینشن‘‘
جوانوں کے اعصاب پر ہے نقاہت
بزرگوں کی اب زندگی ہے اجیرن
کہاں جائیں ہم بچ کے آلودگی سے
کہیں بھی نہیں چین گلشن ہو یا بن
کئی ۔۔’’یونین کاربائڈ‘‘ ہیں اب بھی
جو در پردہ ہیں نوع انساں کے دشمن
شب و روز آلودگی بڑھ رہی ہے
ہیں ندیاں سراسر کثافت کا مخزن
جہاں گرم سے گرم تر ہو رہا ہے
نہ ہو جائے نوع بشر اس کا ایندھن
ہے ’’اوزون‘‘ بھی زد میں آلودگی کی
جو ہے کرۂ ارض پر سایہ افگن
جو بھرتے ہیں دم رہ بری کا جہاں کی
وہ رہ بر نہیں درحقیقت ہیں رہ زن
’’کیوٹو‘‘ سے کرتے ہیں خود چشم پوشی
لگانے چلے دوسروں پر ہیں قدغن
بناتے ہیں خود ایٹمی اسلحے وہ
سمجھتے ہیں خود کو مگر پاک دامن
’’سنامی‘‘ ہے ان کے لیے درس عبرت
دکھانے چلے ہیں جو فطرت کو درپن
سلامت رہے جذبۂ خیر خواہی
چھڑائیں سبھی اس مصیبت سے دامن
ضروت یہ ہے وقت کی آج برقی
بہرحال اب سب پہ نافذ ہو قدغن

شاعر کا مختصر تعارف :

نام : احمد علی
قلمی نام: برقی اعظمی
تخلص: برقی ؔ
تاریخ پیدائش: یوم شنبہ، ٢٥؍دسمبر ١٩٥٤
مقام پیدائش: اعظم گڑھ
احمد علی برقی اعظمی نے اپنی تعلم ابتدائیہ سے لے کر کالج تک شبلی کالج اعظم گڑھ میں مکمل کی۔ وہاں سے اردو میں ایم اے (ماسٹرس) کرنے کے بعد سنہ ١٩٧٧میں وہ دہلی چلے آئے اور وہاں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے فارسی میں یم اے اور پی یچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. اور ١٩٨٣ میں آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے منسلک ہوئے اور ۳۱ دسمبر ۲۰۱۴ کو ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔
برقی اعظمی نے اپنے والد محترم جناب رحمت الٰہی برق اعظمی ، جو دیار شبلی کے ایک باکمال صاحب طرز استاد سخن تھے، سے کسب فیض اور شعری تربیت حاصل کی۔
برقی اعظمی کا اپنا ایک مخصوص لب و لہجہ ہے جو ان کے شعور فکر وفن کی شناخت ہے۔ برقی اعظمی نے اپنا شعری سفر موضوعاتی شاعری سے شروع کیا
اور ٢٠٠٣ سے چھ سال تک ان کی موضوعاتی نظمیں
سائنس، طب، حالات حاضرہ، آفات ارضی و سماوی جیسے گلوبل وارمنگ، سونامی اور زلزلے وغیرہ سے متعلق دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ سائنس میں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ بعد ازاں باقاعدہ اردو غزل نویسی کی طرف توجہ کی اور آج انٹرنٹ کے وسیلے سے ان کی غزلیں اور نظمیں لوگوں کی لذت کام و دہن کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ برقی اعظمی اردو کی مختلف ویب سائٹس اورادبی فورم سے کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان کا کلام اردو کی بیش تر ویب سائٹس پر دیکھا جاسکتا ہے۔
برقی اعظمی جدید اردو غزل میں ، غزل مسلسل کو فروغ دینے میں ایک نمایاں کردار ادا کررہے ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بر قی اعظمی کو غزلِ مسلسل میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ ان کو فی البدیہہ غزلیں اور منظوم تاثرات لکھنے پر بھی قدرت حاصل ہے ۔
برقی اعظمی کے لوگوں کے کلام پر منظوم تاثرات بھی ان کی بدیہہ گوئی اور زبان و بیان پر مکمل دست رس کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ان کے ان فی البدیہہ تاثرات کو یکجا کرلیا جائے تو بدیہہ گوئی سے متعلق ایک شعری مجموعہ ترتیب دیا جاسکتاہے ۔
ان کو جیسے ہی مشاہیر اردو کے یوم پیدائش یا برسی سے متعلق کوئی اطلاع ملتی ہے تو ان کا قلم خود بخود حرکت میں آجاتا ہے اور وہ یاد رفتگاں کے عنوان کےتحت اسے صفحہ قرطاس پر منتقل کردیتے ہیں اس طرح یاد رفتگاں سے متعلق بھی ایک مجموعہ ترتیب دیا جاسکتا ہے ۔ ‘روح سخن ` اور’ محشر خیال` ان کے شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں. اول الذکر پر دہلی اردو اکادمی نے انعام سے نوازا ہے. 

ماحولیات پر احمد علی برقی کی مزید نظمیں :

نظم: ہر کوئی آلودگی کا ہے شکار

آج کل ماحول ہے ناسازگار
ہر طرف ہے ایک ذہنی انتشار
ہے بڑے شہروں میں جینا اک عذاب
ہر کوئی آلودگی کا ہے شکار
آرہے ہیں لوگ شہروں کی طرف
گاؤں کا ناگفتہ بہ ہے حال زار
نت نئے امراض سے ہے سابقہ
پر خطر ہے گردش لیل و نہار
آ رہا ہے جس طرف بھی دیکھیے
ایک طوفان حوادث بار بار
بڑھتی جاتی ہے ’’گلوبل وارمنگ‘‘
لوگ ہیں جس کے اثر سے بے قرار
ہے دگرگوں آج موسم کا مزاج
گردش حالات کے ہیں سب شکار
جس کو دیکھو برسر پیکار ہے
دامن انسانیت ہے تار تار
اب ہے برقی یہ ’گلوبل وارمنگ‘
اک مسلسل کرب کی آئینہ دار


نظم: آلودگی مٹائیں

مِل جل کے آئیے ہم ایسی فضا بنائیں
آلودگی کی جملہ اقسام کو مٹائیں
عصر جدید کی یہ سب سے بڑی ہے لعنت
نوع بشر کو اس سے ہر حال میں بچائیں
ہے’ کاربن‘ بکثرت، محدود ’آکسیجن‘
’کلورین‘ کے اثر سے مسموم ہیں فضائیں
سب سے بڑی جہاں میں نعمت ہے تندرستی
ہر شخص کو توجہ اس بات پر دلائیں
ہے باعث سعادت خلق خدا کی خدمت
اب آئیے بخوبی اس فرض کو نبھائیں
ہو برقرار جس سے ماحول میں توازن
حسن عمل سے اپنے وہ کام کر دکھائیں
مد نظر ہو اپنے ہر حال میں توازن
تازہ ہوا میں گھومیں خالص غذائیں کھائیں
ہر چیز الغرض ہے آلودگی کی زد میں
ہے فرض عین اپنا اس سے نجات پائیں
اک بے حسی سی طاری ’ احمد علی‘ ہے سب پر
روداد عصر حاضر آخر کسے سنائیں

نظم: جدھر دیکھو ادھر آلودگی ہے

جِدھر دیکھو ادھر آلودگی ہے
سبھی پر آج طاری بے حسی ہے
کثافت اب شعار زندگی ہے
نمایاں ہر طرف پژمردگی ہے
فضا آلودگی سے پاک رکھیے
اگر درکار حسن زندگی ہے
نہ ہو گا کینسر لاحق کسی کو
سبھی بیماریوں کی ماں یہی ہے
سبھی کچھ منحصر ماحول پر ہے
اگر ماحول میں پاکیزگی ہے
ترو تازہ رہے گا ذہن اس سے
سکون قلب کا ضامن یہی ہے
نشاط و کیف سے سرشار ہو گا
اسی سے ذہن میں بالیدگی ہے
گلوں میں رنگ و بو قائم ہے اس سے
شگفتہ آج اسی سے ہر کلی ہے
نہیں ہے اس سے بہتر کچھ بھی برقی
یہی اپنی متاع زندگی ہے



نظم: زد میں آلودگی کی ہیں پیر و جواں

گرم سے گرم تر ہو رہا ہے جہاں
بھاگ کر کوئی جائے تو جائے کہاں
ہر طرف گاڑیاں ہیں رواں اور دواں
زد میں آلودگی کی ہیں پیر و جواں
شہر میں اس قدر ہے مکدر فضا
ہر طرف جیسے چھایا ہوا ہو دھواں
گاؤں کی زندگی تھی بہت خوش نما
اب وہاں بھی ہیں آلودگی کے نشاں
آج کل سطح ’اوزون‘ خطرے میں ہے
ہیں یہ انسان کی کارفرمائیاں
کوئی محفوظ آلودگی سے نہیں
نت نئی جس سے لاحق ہیں بیماریاں
ہے ’سنامی‘ کہیں اور کہیں زلزلہ
فتنہ پرور ہیں موسم کی تبدیلیاں
زہر آلود ہیں کھاد، پانی، ہوا
موسم گل میں چھائی ہے فصل خزاں
زندگی میں نہیں آج کوئی رمق
ہیں جوانوں کے چہرے پہ بھی جھریاں
راہ پر ہم ترقی کی ہیں گام زن
جس کا ثمرہ ہیں ذہنی پریشانیاں
کوئی آسودہ خاطر نہیں آج کل
عصرِ حاضر میں بے کیف ہیں جسم و جاں
جسم و جاں کے تحفظ سے قطع نظر
ہیں ’کلوننگ‘ میں مصروف سائنس داں
جن کی ریشہ دوانی سے نالاں ہیں سب
دوسروں پر اٹھاتے ہیں وہ انگلیاں
پہلے کر لیں وہ بہتر نظام زمیں
چاند پر پھر بسائیں گے آبادیاں
روح کو جس سے حاصل ہو آسودگی
ہم کو درکار ہیں ایسی رعنائیاں
جو ہیں حساس ان کی دعا ہے یہی
ختم آلودگی کا ہو نام و نشاں

نظم: ہے آلودگی باعث حادثات

مناتے ہیں ہم یوم ماحولیات
ملے تاکہ آلودگی سے نجات
نہیں ہے کوئی چیز اس سے مضر
خطر میں ہے اس سے نظام حیات
کوئی شہر میں ہو کہ دیہات میں
ہیں درپیش ہر شخص کو مشکلات
ہوئی ’یونین کاربائیڈ‘ سے جو
نہیں لوگ بھولیں گے وہ واردات
حوادث کا جاری ہے اک سلسلہ
ہیں تاریخ میں ثبت یہ سانحات
بہت خوب ہے صنعتی پیش رفت
ہیں آلودہ اس سے مگر شش جہات
صحت مند ماحول ہو گا جبھی
ہو آلودہ شہروں کی جلدی شناخت
اسی میں ہے ہر شخص کی بہتری
کثافت سے محفوظ ہو کائنات
فضا دن بہ دن ہو رہی ہے کثیف
پریشاں ہے ہر شخص دن ہو کہ رات
’کیوٹو‘ پہ جب تک نہ ہو گا عمل
جہاں سے نہیں ہوں گے کم حادثات
ہیں حالات حد درجہ تشویشناک
تباہی کی زد میں ہیں اب جنگلات



نظم: ہے گلوبل وارمنگ عہد رواں میں اک عذاب

ہے گلوبل وارمنگ عہد رواں میں اک عذاب
جانے کب ہو گا جہا ں سے اس بلا کا سد باب
گرین ہاؤس گیس سے محشر بپا ہے آج کل
جس کی زد میں آج ہے ’’اوزون‘‘ کا فطری حجاب
لرزہ بر اندام ہے نوع بشر اس خوف سے
اس کے مستقبل میں نقصانات ہوں گے بے حساب
ہو نہ جائے منتشر شیرازۂ ہستی کہیں
IPCC نے کر دی یہ حقیقت بے نقاب
باز آئیں گے نہ ہم ریشہ دوانی سے اگر
بر ف کے تودے پگھلنے سے بڑھے گی سطح آب
اس سے فطرت کے توازن میں خلل ہے ناگزیر
عرش سے فرش زمیں پر ہو گا نازل اک عتاب
ذہن میں محفوظ ہے اب تک سنامی کا اثر
ساحلی ملکوں میں ہے جس کی وجہ سے اضطراب
ایسا طوفان حوادث الامان و الحفیظ
نوع انساں کھا رہی ہے جس سے اب تک پیچ و تاب
ہو سکا اب تک نہ ’’پیمان کیوٹو‘‘ کا نفاذ
ہے ضرورت وقت کی اپنا کریں سب احتساب
آئیے احمد علی برقی کریں تجدید عہد
ہم کریں گے مل کے برپا ایک ذہنی انقلاب

نظم: آج سب کی دشمن جاں ہے گلوبل وارمنگ

آج سب کی دشمن جاں ہے گلوبل وارمنگ
روز و شب آتش بداماں ہے گلوبل وارمنگ
زد میں ہیں اس کی ہمیشہ آب و آتش خاک و باد
آتش سیال و سوزاں ہے گلوبل وارمنگ
لوگ قبل وقت مرگ فاجعہ کے ہیں شکار
داستان غم کا عنواں ہے گلوبل وارمنگ
آئی پی سی سی نے کر دی یہ حقیقت بے نقاب
سب کی بربادی کا ساماں ہے گلوبل وارمنگ
گرین ہاؤس گیس کا اخراج ہے سوہان روح
انقلاب نظم دوراں ہے گلوبل وارمنگ
برف کے تودے پگھلتے جا رہے ہیں مستقل
اک ہلاکت خیز طوفاں ہے گلوبل وارمنگ
ایک طوفان حوادث آ رہا ہے بار بار
شامت اعمال انساں ہے گلوبل وارمنگ
ہے پریشاں حال ہر ذی روح اس سے مستقل
دشمن انسان و حیواں ہے گلوبل وارمنگ
ہے دگرگوں آج کل ہر وقت موسم کا مزاج
ہر گھڑی اک خطرۂ جاں ہے گلوبل وارمنگ
ہے خزاں دیدہ گلستاں مضمحل ہیں برگ و گل
غارت فصل بہاراں ہے گلوبل وارمنگ
ہر کوئی جس کے اثر سے کھا رہا ہے پیچ و تاب
ایک ایسی آفت جاں ہے گلوبل وارمنگ
جس کا ’’پیمان کیوٹو‘‘ سے ہی ہو گا سد باب
اجتماعی ایسا نقصاں ہے گلوبل وارمنگ
ہے ضرورت عالمی تحریک کی اس کے لیے
سوزو ساز باد و باراں ہے گلوبل وارمنگ
ہے عناصر میں توازن باعث نظم جہاں
ساز فطرت پر غزل خواں ہے گلوبل وارمنگ
جائے تو جائے کہاں انسان برقی اعظمی
جس طرف دیکھو نمایاں ہے گلوبل وارمنگ
***
برقی اعظمی کی شاعری پر یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں :غزل کے دامن کو سائنسی رنگوں سے سجانے والا شاعر:ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

شیئر کیجیے

2 thoughts on “ہے آلودگی نوع انساں کی دشمن

  1. اشتراک ڈاٹ کام : منظوم تاثرات
    احمد علی برقی اعظمی
    ناشر اردو زباں ہے اشتراک
    مرجع دانشوراں ہے اشتراک
    ہے جو ڈیجیٹل میڈیا پر موجزن
    ایک ںحر بیکراں ہے اشتراک
    ہر کسی کی ہے یہ منظور نظر
    فکر و فن کی پاسباں ہے اشتراک
    استفادہ کررہے ہیں جس سے سب
    علم کی جوئے رواں ہے اشتراک
    لوح دل پر ہے جو سب کے مرتسم
    ایسا نقش جاوداں ہے اشتراک
    اس کے مندرجات ہیں بیحد مفید
    ایک گنج شایگاں ہے اشتراک
    تشنگان فکر وفن کے واسطے
    چشمہ راحت رساں ہے اشتراک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے