نہ رادھا نہ رکمنی: امرتا پریتم کا اہم سوانحی ناول

نہ رادھا نہ رکمنی: امرتا پریتم کا اہم سوانحی ناول

✍️وزیر احمد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی

ہند و پاک کی تقسیم کا سانحہ بر صغیر کی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے۔ یقیناً سنہ ۱۹۴۷ء اور اس کے آس پاس کا زمانہ اپنے سینے میں لہو کی ہزاروں داستانیں اور جسمانی رونگٹے کھڑا کر دینے کے لیے انگنت خونی مناظر رکھتا ہے۔ بر صغیر کے اس بٹوارے میں صرف جسمانی خد و خال ہی لہو لہان نہیں ہوئے بل کہ اس کے دل خراش مناظر نے روحوں تک کو بھی چھلنی چھلنی کر دیا تھا، ہزاروں لاکھوں افراد اپنے پیاروں سے جدا ہو گیے، زمین جائیداد و گھر بار کی نیلامی اور آل و اولاد کی محرومی سے تو ان کے دل ہی پسیج کر رہ گیے، انھوں نے تا حیات دردِ فرقت کا کڑوا گھونٹ پیا اور اسی بھیڑ میں وحشی نما درندوں نے نہ جانے کتنی بہو بیٹیوں کی عصمت و ناموس کو تار تار کر دیا۔ ہاں! یہ وہی مناظر ہیں جن کی وجہ سے انسانی زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے اور ہر ناحیوں نے اپنا الگ الگ رنگ اختیار کر لیا۔ چناں چہ؛ زبان و بیان اور ادب و ثقافت کا شعبہ بھی اس حادثہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اس وقت کے ادیبوں و قلم کاروں نے ان خونی مناظر کو اپنی اپنی تحریروں میں ایک ایک کرکے اتار لیا، ناول، افسانے، غزل، نظم اور ناولٹ وغیرہ کی صورت میں انھیں خوب صورت لباس عطا کرکے اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ تقریباً ہر زبان کے فن کاروں نے اپنی اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا، ذہنی خاکوں میں رنگ آمیزی کی اور اپنے حقیقت نگار نوک قلم کی بدولت انھیں ادبی کینوس پر پھیلا دیا۔
اسی زمانے میں گوجرانوالہ کی سرزمین پہ امرتا پریتم [پیدائش: ۱۹۱۹ء] بھی سانس لے رہی تھیں، جنھوں نے تقسیم ہند کے بعد دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔ امرتا ایک حساس ادیبہ تھیں، انھوں نے اپنے ماتھے کی نگاہوں سے یہ تمام خونی مناظر کو دیکھا تھا۔ اپنوں سے بچھڑنے کی یادیں، ہجر کی تنہائی، گھر بار کی نیلامی، ملک بھر میں پھیلی انارکی، محبت و اخوت کی بے لوث قربانی اور اپنے دیار کی سوگندھ بھری مٹی سے دور ہونے کی ساعتِ فرقتِ غم خود ان پہ گزری تھی، اسی لیے انھوں نے بڑی کام یابی کے ساتھ اپنے تمام احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس پر اتار لیا اور زمانے کی برستی آنکھوں نے حسرت و یاس کی جلو میں اس کا‌ مطالعہ کیا۔ ہاں! امرتا پریتم ایک نامور شاعرہ، ادیبہ، افسانہ نگار اور ناول نگار کے ساتھ رشتوں کی کہانی نویس تھیں۔ ان تمام اصناف سخن میں ان کی تقریباً ۷۵ سے زائد کتابیں ہیں اور بہت سی ادبی تخلیقات مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
امرتا نے جو سوانحی ناول لکھے ہیں، انھی میں سے ایک زیر تبصرہ ناول ” نہ رادھا نہ رکمنی” بھی ہے۔ اس ناول کے مطالعہ کے بعد امرتا کے حوالے سے ڈاکٹر سورن چندن کا یہ حق سے مملو اقتباس بڑی کشادہ ذہنی کے ساتھ ہمیں تسلیم کر لینا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں:
” امرتا پریتم کے بیش تر ناولوں کے گہرے مطالعہ سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ انسانی رشتوں کی کہانی نویس ہے۔ ان رشتوں کی شکل سیدھی اور سہل نہیں ہے بل کہ بہت پیچیدہ بھی ہے۔ یہ رشتے روایتی رشتہ داروں سے متعلق نہیں ہیں بل کہ عورت مرد کے رشتے روایت میں درج ناموں سے، ان کے معانی سے غیر وابستہ رہ کر بھی بن بگڑ سکتے ہیں۔ امرتا پریتم روایت میں سے وہی چنتی اور اٹھاتی ہے جس کی جدید کاری ممکن ہو۔ فرسودگیوں سے آلودہ شے اس کی دنیائے افسانہ سے خارج ہوتی ہے۔ اس عمل میں تبدیلی، اس کی کہانی کے شعور کا مرکزی نقطہ بن جاتی ہے”۔ [پیش لفظ،ص:۵]
امرتا کا یہ ناول ” نہ رادھا نہ رکمنی” حالات سے زیادہ کرداروں کے مزاج، عمل و رد عمل کا ناول ہے اور اس کے کردار و روایتی رشتے تخلیق کی اہم پہچان ہیں۔ گویا یہ ان کے ایک جانے پہچانے عزیز مصور” ہر کرشن” کا زندگی نامہ ہے۔ ہاں! یہ اس ماہر مصور کی سر گزشت ہے جسے زندگی میں نہ تو کوئی رادھا نصیب ہوئی اور نہ ہی کوئی رکمنی۔ اس کا اچھا پکا دوست، ساحر اور وہ کالج کے زمانے میں دو سکھ لڑکیوں سے عشق کرنے لگتا ہے۔ ساحر کہتا ہے:
” ہر کرشن! تجھے تو زیادہ مشکل نہیں ہوگی ، سکھ اور ہندؤوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ تو ہر کرشن ہے تو تیری معشوقہ رادھا بن جائے گی یا تو ہر کرشن سنگھ بن جائے گا۔ لیکن، میرے معاملے میں بڑی مشکل ہے”۔
آخر تقسیم ہند کی آگ بھڑکنے کی وجہ سے دونوں اپنے اپنے عشق میں ناکام ہو جاتے ہیں اور وہ لاہور چلے آتے ہیں، یہاں بھی دونوں کو لاہور کی دو لڑکیوں سے محبت ہو جاتی ہے۔ ہر کرشن کی معشوقہ کا نام” ببو” ہے جو، اس کی بھابھی کی بہن ہے اور ساحر کی معشوقہ امرتا ہے۔ ببو کی ماں ایک مصور کو اپنی بیٹی صرف اس لیے نہیں دیتی ہے کہ بھلا دوسروں کا دروازہ رنگنے والا شخص میری ببو کو روٹی کہاں سے کھلا پائے گا اور ادھر ساحر بھی لوگوں کی باتوں میں آ کر کہ تم مسلمان ہو، ایک ہندو لڑکی سے کیسے عشق کر سکتے ہو۔ وغیرہ وغیرہ، وہ ہمت کرکے اپنی محبوبہ سے دل کی بات کہنے کی بجائے بس ایک نظم لکھ کر رہ جاتا ہے۔ جس کا پہلا شعر کچھ اس طرح ہے کہ:

آپ بلا وجہ پشیماں سی کیوں ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے

قارئین! ناول پڑھنے کے بعد اس حقیقت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا متحرک کردار "ہر کرشن” اپنی زندگی میں ڈھیروں ٹھوکریں کھاتا ہے۔ جب کالج میں داخلہ لیتا ہے تو باؤجی کی خواہش کے مطابق انتخاب مضمون کے مرحلہ میں زبان پہ تالے جڑ دینا پڑتا ہے، عشق ہوتا ہے تو ناکامی ہاتھ آتی ہے، شعور کی دہلیز پہ قدم رکھتا ہے تو بڑے بھائی کی چالاکی کی وجہ سے اپنے حصے کی زمین جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور جب برصغیر کی محبت بھری سرزمین پہ فسادات کی سخت لو برستی ہے تو اسے گلو چاچا اور سینی چاچی کے اس خوب صورت آنگن کی زیارت سے بالکلیہ محروم ہو جانا پڑتا ہے، جہاں وہ ایام طفلی میں مور بن کر رقص کیا کرتا تھا اور سینی چاچی لپک کر اسے پیار سے اپنی بانہوں میں بھر لیتی تھیں۔ مگر تقسیم کے وقت دونوں ہجرت کے لیے مجبور کر دیے جاتے ہیں، اسی راستے میں ان کی موت ہو جاتی ہے اور یہ ساری یادیں ہر کرشن کو رات کی تنہائی میں تاحیات بے چین کرتی رہتی ہیں۔ ہاں! درد و فرقت کی بھرپور عکاسی کرتا ہوا زیر نظر ناول کا یہ اقتباس دیکھیں کہ اس میں غم و اندوہ کی کتنی بھیانک دنیا آباد ہو گئی ہے:
"ہر کرشن کو گلو چاچا کا وہ آنگن کتنی ہی دیر تک یاد آتا رہا جو ہندوستان اور پاکستان کی سیاست کے سمندر میں ایک جزیرے کی طرح ڈوب گیا تھا۔
اور ماں باپ کے گھر والا آنگن بھی کتنی دیر تک اس کی آنکھوں میں لٹکا رہا جو ان کے بعد اس کے لیے بیگانہ ہو گیا تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔ اسے ہنسی آ گئی۔ وہ تو دنیاداری کے سمندر میں ایک جزیرے کی طرح غرقاب ہو گیا ہے۔۔۔
دنیا داروں اور سیاست دانوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔۔۔اسے یہ خیال آیا تو وہ وقت یاد آ گیا جب اپنے مکان کے علاوہ اس کے باؤجی نے ایک مکان اور خریدا تھا اور جب باؤجی نہیں رہے تھے تو اس وقت ایک دن اس کے بھائی نے کہا تھا۔ اپنا ایک گھر تو میرے لیے ہے ہی کشن! یہ دوسرا گھر تو سارے کا سارا میرے نام کر دے۔ اپنا حصہ بھی مجھے دے دے کیوں کہ میں فیملی والا ہوں تو اکیلی جان ہے۔ تجھے زیادہ جگہ کا کیا کرنا ہے؟ اور اس نے اس گھر کے اپنے حصے کو بھائی کے نام کر دیا تھا”۔ [ص: ۵۷]
یقیناً، پنجابی ناول کی ابتدا و ارتقا کی رَو میں امرتا پریتم کی شخصیت بڑی منفرد نظر آتی ہے، وہ رشتوں کی خصوصی کہانی کار ہیں، ان کے یہاں سامراجی عہد کے سماجی اور ثقافتی اثرات کی کام یاب ترجمانی ملتی ہے، جس فن کارانہ طبیعت کی رفاقت میں انھیں منصہ شہود پر لانے کا کام انجام دیا ہے، وہ امرتا کو اپنے ہم عصروں میں خصوصی امتیاز و شناخت کا روشن تمغہ فراہم کرتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے اس معاملے میں ان کا ایک خاص حصہ بہت پہلے ہی سے مقرر تھا۔ اور بالکل یہی مناظر زیر نظر ناول ” نہ رادھا نہ رکمنی” میں بھی نظر آتے ہیں۔
ہر کرشن کی اپنی دنیا میں کئی ایسے لوگ بھی آئے جنھوں نے اسے وقتی طور پہ صرف استعمال کیا۔ مگر، ہر کرشن نے ہر لمحہ بیئر کے کتنے ہی گھونٹ پی کر اپنے دل میں اٹھتی ہوئی لہروں کے ساتھ ان پریشانی و غم سے گلو خلاصی کی راہ اختیار کرنے کی ناکام کوشش کی، انھیں اس کی درست تعداد معلوم نہیں ہے۔ امرتا نے ہر کرشن کی زندگی میں آئے لاہور کے ان خوب صورت ایام کا دل ربا نقشہ بھی بڑی دھمال سے کھینچا ہے، جب وہ لاہور ریڈیو میں اپنے دوست راجندر سنگھ بیدی کے توسط بانسری بجانے کا کنٹریکٹ پایا کرتا تھا، جہاں وہ گوال منڈی کے نکڑ پر شہر کے بہتے نالے کے کنارے عرب ہوٹل میں اپنی اداس شام کو دوستوں کی پناہ میں لے جاتا، یہیں اس کی ملاقات احمد ندیم قاسمی، سعادت حسن منٹو، عبد المجید بھٹی، احسان دانش سے ہوتی اور اس کا گہرا دوست ساحر بھی اسے یہیں ملتا تھا۔ ہاں! لاہور کی ہی وہ اداس شام تھی جس کے سائے میں ہرکرشن نے پہلی مرتبہ ایسی سوز جگری کے ساتھ بانسری بجائی تھی کہ اس کے سُروں میں درد و الم کا ایک گھنگھور سماں سا بندھ گیا تھا اور جسے سن کر راہ گیر بھی اس کے ارد گرد آکر کھڑے ہو جاتے تھے۔
ہر کرشن کو اپنی زندگی میں رادھا اور رکمنی تو نہیں ملیں۔ مگر۔۔۔ہاں! وہ یادیں، جن کی خوش بو کبھی نہیں مرتی اور وہ ہر آن گوشت کے اندر ٹوٹے ہوئے کانٹوں کی طرح چبھتی رہتی ہیں، ہرکرشن سے مرتے دم تک وابستہ رہیں اور آخر کار انھوں نے فن مصوری ہی کو اپنی رادھا اور رکمنی بنا لیا۔ ہر کرشن نے مختلف ملکوں میں سینکڑوں تصویریں بنائیں اور ہر پینٹنگ کے بڑے بڑے دام لگے۔ مگر، آج زیر نظر ناول سے اپنی آنکھوں کا رشتہ مضبوط کرنے کے بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ نہیں؛ انھوں نے جیتے جی وہ ” سیلف پورٹریٹ” جو کبھی نہیں بنایا، امرتا نے اپنی بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے ۱۵۰/ صفحات پر مشتمل اس ناول میں ان سارے رنگوں کی مدد سے جنھیں ہر کرشن دوسروں کے بنانے میں استعمال کرتا تھا، ایک کامیاب پورٹریٹ بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مطالعہ کرتے وقت یوں لگتا ہے جیسے ہر کرشن کی زندگی سے جڑی تمام تصویریں قاری کے ذہنی اسکرین پہ صاف صاف چل رہی ہیں۔ یقیناً؛ دونوں ہی اپنے عہد کے کام یاب مصور تھے، فرق ہے تو بس اتنا کہ امرتا کے ہاتھوں میں برش کی جگہ قلم ہے اور کینوس کی جگہ کورا کاغذ۔
محترم قارئین! اس ناول کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ امرتا نے اپنے الفاظ اور جملوں کی تحویل میں ہر کرشن کی بہترین تصویر اتارنے کے ساتھ آخر کتاب میں تین عناوین” سات سوال، پونم کی رات” اور ” کہاں کا راجہ۔۔۔کہاں کی پرجا” کے تحت وہ باتیں بھی شامل کر دی ہیں جو گاہے بگاہے ہرکرشن سے ان کی ہوتی رہیں اور امرتا بہ خوشی ماہنامہ” ناگ منی” کی عہدۂ ادارت کے دنوں میں انھیں شائع کرتی رہیں۔ بلا شبہ؛ یہ ایک ایسا قیمتی لاحقہ ہے جس سے اس کام یاب فنکار کی زندگی و نظریے کو سمجھنے میں قاری کو بڑی حد تک مدد ملے گی اور تصویر بہتر طور پہ نکھر کر سامنے آ سکے گی۔
امرتا کا یہ شاہ کار ناول بنیادی طور پر پنجابی زبان میں ہے۔ مگر سنہ ۱۹۸۵ء/ میں یہ پہلی مرتبہ ہندی زبان میں ترجمہ ہو کر منظر عام پہ آیا تھا اور اس کا پہلا اردو ترجمہ ڈاکٹر نند کشور ورما جیسے کام یاب مترجم کی سعی جمیل کی وجہ سے سنہ ۲۰۰۳ء/ میں شائع ہوا۔ نند کشور وکرم نے ترجمہ نگاری میں بڑی پیاری اور شیریں زبان استعمال کی ہے، سطر سطر میں موجود سلاست و روانی کی چمک دل کو سرور اور عقل کو تازگی فراہم کرتی ہے۔ پڑھتے ہوئے شدت کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں اصل کی ساری خوبیاں، نقل کے قالب میں پوری طرح اس خوب صورتی کے ساتھ اتر آئیں ہیں کہ نقش اول کی ساری تفصیلات اور تمام نقش و نگار اس ترجمے میں موجود ہیں۔ راقم الحروف کے زیر نظر اس ناول کی دوسری ایڈیشن ہے۔ جسے، ڈائریکٹر نیشنل بک ٹرسٹ، نئ دہلی [انڈیا] نے شائع کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان و ادب سے دل چسپی رکھنے والے احباب کو ۷۰ روپے کی ادائیگی کے ساتھ مذکورہ پتے یا امیزون سے خرید کر ایک دفعہ ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ تا کہ انھیں زبان و بیان کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کے جاں بلب حالات اور امرتا پریتم کی ادب نواز ذات سے بھی واقف ہونے کا موقع فراہم ہو سکے۔
__________________________
wazirmisbahi87@gmail.com
وزیر احمد مصباحی کی یہ نگارش بھی پڑھیں :مکافاتِ عمل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے