اشہر ہاشمی کے تین شعری مجموعوں کا مطالعہ

اشہر ہاشمی کے تین شعری مجموعوں کا مطالعہ

غصے کی تہذیب کا شاعرانہ اظہار

نثارانجم

میں اپنے غصے کی تہذیب کرتا رہتا ہوں
یہ ہاتھ ورنہ ابھی تک سن گئے ہوتے
جو زیر ہوکے بھی انکار پر رہا قائم
ان ہی حوالوں میں پورس سا بادشاہ بھی ہے
بدلتے موسم کی آہٹ کا وہ فکری رخ تب بھی اتنا ہی توانا تھا جب سر بچانے میں انا ٹوٹنے کا خدشہ تھا
جھک کے داخل ہواترے گھر میں
سر بچایا تو انا ٹوٹ گئ
اسی سلامتی کے احساس سے مزین نئ زمین پر نئے افکار کو تخلیقی کاندھے پر ڈالے اشہر ہاشمی اسلوب کی نئ جہتوں کے ساتھ ادب کےافق پر طلوع ہوتے ہیں ۔ اردو شاعری میں نئ فرہنگ اور آہنگ کے ساتھ ایک ایسی جنجھوڑ دینے والی شاعرانہ سوچ تھی جو ادبی افق پر اس روایتی نظام شمشی سے الگ تھلگ اپنے موجود ہونے کا اعلان کررہی تھی۔
چاک پہ رکھاہے تو لمس بھی دے ہاتھوں کا
میری پہچان تعطل کے اندھیروں سے اٹھا
یہ دراصل اشاریہ تھا ۔ جسم روایتی دہلیز پر تھا اور لہجہ جدید آنگن میں ،آنکھیں عصری حسیات کی افق پر اور اشعار کی رگوں میں کیکٹس کے پسے ہوۓ پتے رچے بسے تھے ۔لفظوں کی حسن کاری اور تزئین کاری , مشکل قوافی اور غنائی احسا س کے لب چومتے ہوۓ افکار رقصاں تھے۔ موضوعات جام جمشید کی شفافیت میں اترے ہوۓ آئیس برگ کے اوپری سروں کی طرح شعوراور آگہی پر تیرتے ہوئے خارج سے باطن کی طرف تخلیقی چشمے کا رخ کیے روانی کے ساتھ جاری تھے۔جن میں تفہیم کے لئے کشش بھی تھی اور ایک ادبی رعب بھی تھا جو شعر کے باطن سے پھوٹ رہا تھا۔
کبھی شاخ گل پر کبھی خاک پر
لہو ایک بے منظری میں رہا
اس پہلے پڑاؤ میں ہمیں ایک نئ معونیت،نیا ڈکشن اور شعور کو چھلاوہ دیتے ہوئے حیران ہونے والے لہجے کا گماں بھی ہوتا ہے جو روایتی پاسداری میں در آیا ہے لیکن سرمایہ شاعری میں قنوطیت کی اس دیوار کے منہدم ہونے کی دھمک انا کے تعمیری شور میں دب کر رہ گئ تھی ۔اس عہد کے اشعار میں تشکیک کی ایک پرت تھی جسے کھرچ کر دیکھنے سے یقین کے نور کا ایک جھماکا موجود ہوتا تھا جو سماجی استحکام انا کی چشمک اور استحصال کے مضبوط حصار کو چمکا دیتا تھا لیکن نور کی وہ یورش اس جبر کے خول کو توڑ کر باہر آرہی تھی جس کے شرارے بدلتے موسم کی آہٹ کے مجموعہ میں بکھرے پڑے ہیں۔
ایک شہر ضیا باریہاں بھی ہے وہاں بھی
لیکن مرا آزار یہاں بھی ہے وہاں بھی
زیاں کدے میں دوپہر
کسی پرندے کی سرشاری کے تحت پرجھٹکنے کے وہ احسا سا ت ہیں ۔مسرت کے کمہلاۓ ہوۓ پھولوں پر شادابی بھی ہے اور شناختی بحران کی کسک سے باہر نکلنے کا خمار بھی، جو اشعار پر اعتبار کی ایک موٹی پرت بن کر چڑھ گیا ہے۔
زیاں کدے کی دوپہر کے اشعار میں
سوچ کی ایک نئ جہت ہے، جس میں نور کے اس جھماکے کا خروج بھی ہے، جو فکری اور جبری حصار توڑ کر نئ توانائی کے ساتھ تخلیق میں جلوہ گر ہوا ہے۔ یہ نظموں اور غزلوں پر دوسرا مجموعہ غزلوں کی پہلی کتاب بدلتے موسم کی آہٹ کا تفہیمی ورژن ہے۔
احساس زیاں کو مسرت کی تھپکی
خارج سے باطن میں اتر کراندر کی کشاکش کو تہذیب کرنے کی کوشش۔
قفس کی تیلیاں توڑنے کا سرور
صحافت کی ان کہی کو شعری پیرہن میں ڈھال کر احساس کی شعلگی کو جاوداں کرنے کا عزم۔
اشعار کی روح کو گرم رکھنے کا ایک فطری جواز ۔
اشہر ہاشمی کی شاعری کا تیسرا فکری پڑاؤ اسلوب کے ملٹی ڈایمنشنل تنوع کے ساتھ نئے شعری تیور میں نشان میل کی صورت میں سامنے آیا۔
یہ لگاتار دو شناختی دستک کے بعد phantom listener نامی نظم کے آخری stanza کی فائنل کال ہے۔
Is there any body.
شاعری کے تمام یارڈ اسٹیک ،میزان ادب کے ٹولز کے ساتھ مقصود منزل پر claim اور اعلان کے ساتھ۔
یہاں ہمیں یہ احساس ہوتاہے کہ اظہار کی شدت ،لہجے کی شعلگی ،لفظوں کی مینا کاری اور تخیل کی آوارگی کا نام شاعری نہیں بلکہ شاعری ایک ایسے شعور کا اعلان ہے جو خیا ل کی بھٹی میں تپ کر ایک تجربہ کشید کرتاہے۔جسےعصری حسیت ، شعور کی سلاست اور لفظوں کی غنائیت  سے لیس نادر تر اکیبوں سے سجاکر کاغذ پر انڈیل دیتا ہے ۔
میں اپنے لفظ و ہنر میں گتھا ہواپیکر
کہیں مطیع بھی ان کا کہیں پہ حاوی بھی
شاعر کی یہ وفور ی کیفیت ہم اشہر ہاشمی کی شاعری میں دیکھتے ہیں جو منفرد ،ہم عصر, اور نادر ہے۔ اپنا الگ آہنگ اور ڈکشن بناتی ہوئی شاعری جو تین پڑاؤ کا نتیجہ ہے۔
دہک,دھول,پانی, پون
کسی کا کنارانہیں
کہ ممکن نہیں چھیددے
یہ دل ہے غبارہ نہیں
جہاں عشق اور رزق ہو
منافع خسارہ نہیں
فکر و احساس کی جدت و انفرادیت کی بجلی بھری، خون تھوکتی جراءت اظہار اپنی پور ی صداقت کے ساتھ سوز وگداز کے تار رباب چھیڑتا مل جاتی ہے۔ زندگی کی رنگا رنگی ،اس کی دشت نوردی اور مطالعہ کائنات کی فنی مشاقی سے تراشا ہوا پیرہن فکر دعوت فکر دیتا مل جاتا ہے۔ مشاہدے کی چاشنی میں ملبوس الفاظ شعر کے پیر ہن میں ڈھل کر اشہر کی شعری کائنات میں جلوہ گر ہیں۔
روانی ہے لہو کی اور لے ہے سانس میں جاری
یہی اجمال میں بستہ یہی تفصیل میں شامل
اس شعری کائنات کی الگ الگ فکری بساط میں قدروں کی شکست و ریخت کا المیہ بھی ہے اور تحلیل نفسی بھی. 
ایک تہذیب فصیل کے باہر لاتے ہیں
شہر بے تبدیل کے باہر لاتے ہیں
مورت اس کے اندر ہوتی ہے موجود
فاضل پتھر چھیل کے باہر لاتے ہیں
جن لفظوں کے معنی ہیں کم چمکیلے
اب ان کو ترسیل کے باہر لاتے ہیں
چھوٹی مچھلی پھینک کے واپس پانی میں
جو بچ جاۓ جھیل کے باہر لاتے ہیں
اشہر ہاشمی شاعری کی لفظیات میں ،صوتی آہنگ کو اس طرح برتتے ہیں کہ لفظ اپنے پرانے اور طے شدہ معنی سے الگ ہوجاۓ۔ اپنا خیال پیش کرنے کے لیے لفظ کے نواح سے دوسرا کم معروف لفظ استعمال کرنے کا ہنر اشہر ہاشمی کوآتا ہے۔

وہ معانی کا ایک نیا جہاں اس طرح تشکیل کرتے ہیں کہ غزل کی ایک نئ زبان کسی کولتاری سڑک کی طرح تخئیل کے پاؤں کے نیچے بچھ جاتی ہے۔ان کے یہاں تقریبا ایسی نئ زمینیں اپنے رنگا رنگ افکار اور اسلوب کے ساتھ ملتی ہیں جن پر دوسرے پاؤں رکھنے کی جسارت نہیں کرتے۔آواز کی مما ثلثوں سے مملو ،نئ زمین پر فکر اپنا تنوع , نظام جہاں پر ،احتجاج درج کرتا ہوا ، شکست و ریخت سے نڈھال مگر سسٹم کے خلاف غصے سے بھرا ملتا ہے۔
ضروری ہووے جہاں بھی ابال پر انا
ابال کھاتے ہوۓ اعتدال پر انا
دلیل رکھنا مگر جب مکالمے میں ہو ضد
تو بن کے چانٹا حجت کے گال پر انا
میں اس کا دستہ ہوں شمشیر بھی ہوں وار بھی ہوں
مگر گریز میں اس کو پڑا بھی پاتا ہوں
یہ رزم گاہ بھی ہے اور نگار خانہ بھی
مگر مجھے یہیں مصروف جنگ رہناہے
کہ اس نے جھوٹ پر ڈھانچہ کھڑا کیا ہوا ہے
وہ جس سے بچتا ہے اس داؤ کو نگاہ میں رکھ
غزلوں کی اس نئ زبان اور ڈکشن کی تشکیل میں اشہر ہاشمی کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
بہت سے کھیل کیے متن اور معنی سے
مگر کہیں کوئی پامالی لغت نہیں کی

اک عجب بھیدوں بھری دنیا ملی الفا ظ میں
عمر بھر ہم متن ومعنی کے سمندر میں رہے
ردیف و قافیہ کی لاج رکھنی تھی ,غزل کہتے
مگر کیوں رات کو کالا کیا,کچھ نہیں کھلتا
ہے اب بھی لفظ پہ جھگڑا نواح لفظ پہ بحث
کہاں کسی بھی جہت میں کوئی کمی ہوئی ہے
زبان کے اکھڑنے کے عمل میں ہم غزل کے قریب کے عہد کے روایتی شاعر شاد عظیم آبادی کے بعد شدت اور تیزی سے دیکھتے ہیں۔غزل کی پرانی روایت سے الگ ،ترقی پسند ی سے پلہ جھاڑتی،جدیدیت کی نفی کرتی اور ما بعد جدیدیت کے فکری نظام سے الگ ،بیان میں ،اظہار میں نیا پن لیے ہوۓ اشہر ہاشمی کی غزل اس پرانے چوکھٹے سے باہر اپنی پہچان کے نئے حوالوں کے ساتھ ملتی ہے۔
اشہر ہاشمی کی غزل اس نئ کو لتاری سڑک پر ننگے پاؤں غصے کو سینے میں دباۓ اس پرانی فریم سے باہر نکل کر نئ زبان کی تشکیل کرنے کی ایک شعوری کوشش میں جٹی ہوئی ملتی ہے ۔
اس کے جسم پہ میرا ہونا،صرف اضافی مٹی کی تہہ
جب بھی دھلوانا ہوتاہے خون کا غسل بلاتا ہے
ان کے اشعار میں خون میں سنی ہوئی اقلیتی شناخت کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔یہاں شنا خت ریزہ ریزہ ہے۔ایک بڑے سے سیاسی سسٹم میں ان کی بشری حقیقت براۓ نام جمہوری جسم پر مٹی کی لیپ کی سی ہے۔ہر بار مٹی کی چپ چپی لیپ موسم فساد کی خونی بارش میں دھل کر الگ ہوجاتی ہے۔
اکثریتی جسم سے سیکولر جیسی شوخ رنگوں والی اقلیتی مٹی کی پرت زعفرانی ناخنوں سے بڑی بے رحمی سے ایک خونی سنان کے بعد اتار دی جاتی ہے۔
شناختی بحران کی کیل پر ٹنگی اس قوم کی خون اگلتی زندگی کی حقیقی پیکر تراشی یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔
جلا لیتا ہوں اپنی آگ میں ہی انگلیاں اپنی
کسی کو بھی نہیں کرتا قال و قیل میں شامل
جنوں و سرکشی اشہر ابھی مطلوب زیادہ ہے
لہو کو اور ہونا ہے فرات و نیل میں شامل
ان کے یہاں ادبی میزان پر کھری اترنے والی غزلیں ہیں جو ریزہ خیالی کے وصف کے احترام کے ساتھ ساتھ ایک rhythm میں ایک اکائی کی معنویت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔
جس میں مشاہدے کی چا شنی میں تر خیالات رنگوں کی پالکی سے اترکر ایک آئڈیل متن کی تشکیل کرتے ہیں۔
سلوک سانس سخن ساکھ اور ساعت میں
مرے حوالے سے جو ہے ترا سراپا ہے
زندگی کی ہر جہت پر نظر بھی ہے اور کائنات کا مطالعہ بھی ہے ،قدروں کی شکست و ریخت کا المیہ بھی،عصری شعور بھی ہے اور عا لمی سیاست کی بساط پر گھوڑے کی ڈھائی چال کی اڑتی دھول کے دورانیۓ میں تیغ کے دستے پر گرفت اور لشکر پر نظر بھی۔
میں تیرے ہاتھ میں ہوں بن کے تیغ کا دستہ
میں تیری لے تری دھڑکن کے اعتبا ر میں ہوں
حشر سب کا ایک سا سب غیر کی اقلیم میں
خواہ مٹی میں رہے یا سنگ مر مر میں رہے
صرف اتنی ہوشیاری سے بھی ہو سکتا ہے کام
ہاتھ قبضہ میں رہے اور آنکھ لشکر میں رہے
شعر میں تلمیح بھی نادر پیرہن الفا ظ کے ساتھ اس طرح بڑے احتیا ط سے برتی گئ ہےکہ لفظ کے اصل معنی کے حسن کو مجروح کیے بغیر نواح لفظ سے لیے گئے نئے الفاظ معانی کی کئ پرتوں کے ساتھ موجود ہیں جس سے متن کی تفہیم دو آتشہ ہوجا تی ہے ۔انہیں نئے ڈکشن کو اپنی فکر سے مہمیز کرکے شعر کو صیقل کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔
مکالمے میں رہا اور ادا نہیں ہوا لفظ
وہ دوسرے نئے الفاظ ڈھونڈنے میں گیا
الگ جگہ تھی الگ جبر تھا الگ جذبہ
یہ میرا واقعہ بھی اس کے واقعے میں گیا
وہ میری آنکھ میں اترا لہو میں تیر گیا
پھر اس کے آتے ہی عکس جمال غیر گیا
جہاں پہنچنا ہو آخر وہیں پہ پہنچے گا
حرم کی سمت میں نکلا تھا سوۓ دیر گیا
نئے تلازمات اور علائم کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں فکر و احساس کی ندرت بھی ہے اور جراءت اظہار بھی، 
سوز وگداز بھی کہیں کہیں غزل کے اشعار گل قند کی طرح گھل کر اپنی شیرینیت بکھیرتے ہیں۔
ان کے یہاں حسرت کے تازہ گلاب بھی ہیں اور گدلے پانی میں امید وں کے تازہ کنول بھی، ر جائیت کی ردا اوڑھے سرشار ملتے ہیں۔۔

صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: ذاکر فیضی کا افسانہ’ ٹی او ڈی ‘ اور عصری سیاسی منظر نامہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے