پیام عید لے کر آج پھر بادصبا آئی

پیام عید لے کر آج پھر بادصبا آئی

شمشیر عالم مظاہری، دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

ہر قوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جن میں اس قوم کے لوگ اپنی اپنی حیثیت اور سطح کے مطابق اچھا لباس پہنتے اور عمدہ کھانے پکاتے کھاتے ہیں اور دوسرے طریقوں سے بھی اپنی اندرونی مسرت و خوشی کا اظہار کرتے ہیں، یہ گویا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے. اسی لئے انسانوں کا کوئی طبقہ اور فرقہ ایسا نہیں ہے جس کے ہاں تہوار اور جشن کے کچھ خاص دن نہ ہوں ۔
اسلام میں بھی ایسے دو دن رکھے گئے ہیں. ایک عید الفطر اور دوسرے عید الاضحٰی. بس یہی مسلمانوں کے اصلی مذہبی و ملی تہوار ہیں. ان کے علاوہ مسلمان جو تہوار مناتے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت اور بنیاد نہیں ہے بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے ان میں سے اکثر خرافات ہیں ۔
مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ آئے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ان دونوں تہواروں کا سلسلہ بھی اسی وقت سے شروع ہوا ہے. جیسا کہ معلوم ہے عید الفطر رمضان المبارک کے ختم ہونے پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے اور عید الاضحٰی 10 ذی الحجہ کو۔ رمضان المبارک دینی و روحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک مہینہ ہے. اسی مہینہ میں قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا، اسی پورے مہینے کے روزے امت مسلمہ پر فرض کئے گئے، اس کی راتوں میں ایک مستقل باجماعت نماز کا اضافہ کیا گیا ہے اور ہر طرح کی نیکیوں میں اضافہ کی ترغیب دی گئی. الغرض یہ پورا مہینہ خواہشات کی قربانی اور مجاہدہ کا اور ہر طرح کی طاعات و عبادات کی کثرت کا مہینہ قرار دیا گیا. ظاہر ہے کہ اس مہینہ کے خاتمہ پر جو دن آۓ، ایمانی اور روحانی برکتوں کے لحاظ سے وہی سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اس امت کے جشن و مسرت کا دن اور تہوار بنایا جائے. چناں چہ اسی دن کو عید الفطر قرار دیا گیا اور 10ذی الحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں امت مسلمہ کے موسس و مورث اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالی کا حکم واشارہ پاکر اپنے لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ان کی رضامندی سے قربانی کے لئے اللہ کے حضور میں پیش کرکے اور ان کے گلے پہ چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم و رضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے عشق و محبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندہ سلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرمالی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر (انی جاعلک للناس اماما) کا تاج رکھ دیا تھا اور ان کی اس ادا کی نقل کو قیامت تک کے لئے، رسم عاشقی، قرار دے دیا تھا .پس اگر کوئی دن کسی عظیم تاریخی واقعہ کی یادگار کی حیثیت سے تہوار قرار دیا جاسکتا ہے تو امت مسلمہ کے لئے جو ملت ابراہیمی کی وارث اور اسوۂ خلیلی کی نمائندہ ہے 10 ذی الحجہ کے دن کے مقابلے میں کوئی دوسرا دن اس کا مستحق نہیں ہو سکتا .اس لئے دوسری عید 10 ذی الحجہ کو قرار دیا گیا. جس وادئ غیر ذی زرع میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قر بانی کا یہ واقعہ پیش آیا تھا اسی وادی میں پورے عالمِ اسلام کا سالانہ اجتماع اور اس کے مناسک قربانی وغیرہ اس واقعہ کی گویا اصل اور اول درجے کی یادگار ہے اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عیدالاضحیٰ کی تقریبات، نماز اور قربانی وغیرہ بھی اسی کی گویا نقل اور دوم درجہ کی یادگار ہے . بہرحال ان دونوں ( یکم شوال اور 10ذی الحجہ) کی ان خصوصیات کی وجہ سے ان کو یوم العید اور امت مسلمہ کا تہوار قرار دیا گیا ۔
عیدین کا آغاز ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ( جن کی کافی تعداد پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکی تھی) دوتہوار منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت اور حیثیت ہے؟ (یعنی تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اور تاریخ ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم جاہلیت میں ( یعنی) اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے ( بس وہی رواج ہے جو اب تک چل رہا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر کر دیئے ہیں ( اب وہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) یومِ عید الاضحی اور یومِ عید الفطر ۔(سنن ابی داؤد)
قوموں کے تہوار دراصل ان کے عقائد و تصورات اور ان کی تاریخ و روایات کے ترجمان اور ان کے قومی مزاج کے آئینہ دار ہوتے ہیں. اس لئے ظاہر ہے کہ اسلام سے پہلے اپنی جاہلیت کے دور میں اہل مدینہ جو دو تہوار مناتے تھے وہ جاہلی مزاج تصورات اور جاہلی روایات ہی کے آئینہ دار ہوں گے. رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے بل کہ حدیث کے صریح الفاظ کے مطابق خود اللہ تعالی نے ان قدیمی تہواروں کو ختم کراکے ان کی جگہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ دو تہوار اس امت کے لئے مقرر فرمادئیے جو اس کے توحیدی مزاج اور اصول حیات کے عین مطابق اور اس کی تاریخ و روایات اور عقائد و تصورات کے پوری طرح آئینہ دار ہیں. کاش اگر مسلمان اپنے ان تہواروں ہی کو صحیح طور پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و تعلیم کے مطابق منائیں تو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کو سمجھنے سمجھانے کے لئے صرف یہ دو تہوار ہی کافی ہو سکتے ہیں ۔
عیدین کی نماز اور خطبہ وغیرہ ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ وسلم عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عید گاہ تشریف لے جاتے تھے سب سے پہلے آپ نماز پڑھاتے تھے پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کی طرف رخ کرکے خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے تھے اور لوگ بدستور صفوں میں بیٹھے رہتے تھے پھر آپ ان کو خطبہ وعظ و نصیحت فرماتے تھے اور احکام دیتے تھے اور اگر آپ کا ارادہ کوئی لشکر یا دستہ تیار کرکے کسی طرف روانہ کرنے کا ہوتا تو آپ (عیدین کی نماز و خطبہ کے بعد) اس کو بھی روانہ فرماتے تھے یا کسی خاص چیز کے بارے میں آپ کو کوئی حکم دینا ہوتا تو اسی موقع پر وہ بھی دیتے تھے پھر (ان سارے مہمات سے فارغ ہو کر) آپ عید گاہ سے واپس ہوتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا کہ عیدین کی نماز آپ مدینہ طیبہ کی آبادی سے باہر اس میدان میں پڑھتے تھے جس کو آپ نے اس کام کے لیے منتخب فرما لیا تھا اور گویا (عیدگاہ) قرار دے دیا تھا. اس وقت اس کے گرد کوئی چہاردیواری بھی نہیں تھی، بس صحرائی میدان تھا. لوگوں نے لکھا ہے کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ایک ہزار قدم کے فاصلے پر تھا. آپ نے عید کی نماز ایک مرتبہ بارش کی مجبوری سے مسجد شریف میں بھی پڑھی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کے دن نماز وخطبہ کے بعد عید گاہ ہی میں اعلاء کلمۃ الحق کے لئے مجاہدین کے لشکر اور دستے بھی منظم کئے جاتے تھے اور وہیں سے ان کو روانہ اور رخصت کیا جاتا تھا ۔
عیدین کی نماز بغیر اذان و اقامت ہی سنت ہے ۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھ عیدین کی نماز ایک یا دو دفعہ ہی نہیں بل کہ بہت دفعہ پڑھی ہے، ہمیشہ بغیر اذان اور بغیر اقامت کے ۔ (صحیح مسلم)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں عید کے دن نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھ عید گاہ حاضر ہوا تو آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی بغیر اذان اور اقامت کے پھر جب آپ نماز پڑھ چکے تو بلال پر سہارا لگا کر آپ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے، پہلے اللہ کی حمد و ثنا کی اور لوگوں کو پندونصیحت فرمائی اور اللہ کی فرماں برداری کی ترغیب دی پھر آپ خواتین کے مجمع کی طرف گئے اور بلال آپ کے ساتھ ہی تھے وہاں پہنچ کرآپ نے ان کو اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ والی زندگی گزارنے کے لئے فرمایا اور ان کو پند و نصیحت فرمائی ۔ (سنن نسائی)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں عید کے خطبہ میں مردوں کو خطاب فرمانے کے بعد عورتوں کو مستقل خطاب فرمانے کا ذکر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث جو کہ صحیح مسلم میں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ نے اس لئے کیا تھا کہ آپ کے خیال میں خواتین آپ کا خطبہ سن نہیں سکی تھیں ۔ واللہ اعلم
عیدین کی نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی نفلی نماز نہیں ہے ۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے عید الفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی اور اس سے پہلے یا بعد آپ نے کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی ۔ (صحیح بخاری و مسلم)
عیدین کی نماز کا وقت ۔
یزید بن خمیر رحبی تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے صحابی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نماز پڑھنے کے لئے لوگوں کے ساتھ عید گاہ تشریف لائے ( امام کے آنے میں دیر ہوئی) تو آپ نے امام کی اس تاخیر کو منکر بتایا ( اور اس کی مذمت کی) اور فرمایا کہ اس وقت تو ہم ( رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھ) نماز پڑھ کر فارغ ہو جایا کرتے تھے ( راوی کہتے ہیں) اور یہ نوافل کا وقت تھا ( نوافل سے مراد غالباً چاشت کے نوافل ہیں) (سنن ابی داؤد)
عیدین کی نماز میں قرأت ۔
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود تابعی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحٰی اور عید الفطر کی نماز میں کون سی سورتیں پڑھا کرتے تھے انہوں نے فرمایا ،،ق والقرآن المجید اور اقتربت الساعۃ،، ۔ (صحیح مسلم)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں ” سبح اسم ربک الاعلی،،اور ھل اتاک حدیث الغاشیۃ پڑھا کرتے تھےاور جب اتفاق سے عید اور جمعہ ایک ہی دن پڑ جاتا تو دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں پڑھتے تھے ۔ (صحیح مسلم) ابو واقد لیثی اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے ان دونوں بیانوں میں کوئی منافات نہیں ہے. عیدین کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کبھی سورہ قاف اور سورہ قمر پڑھتے تھے اور کبھی سورہ اعلیٰ و سورہ غاشیہ ۔
بارش کی وجہ سے عید کی نماز مسجد میں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن بارش ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو عید کی نماز مسجد نبوی صلی اللہ وسلم ہی میں پڑھائی ۔ (سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)
عیدین میں امت مسلمہ کا تہوار اور دینی جشن ہونے کی جو شان ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ دنیا کی قوموں کے جشنوں اور میلوں کی طرح ہمارا عیدین کی نماز والا اجتماع بھی کہیں کھلے میدان میں ہو، اور جیسا کہ معلوم ہو چکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول و دستور بھی یہی تھا اس لئے عام حالات میں یہی سنت ہے. لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بارش کی حالت ہو یا ایسا ہی کوئی اور سبب ہو تو عید کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے ۔
عیدین کے دن کھانا نماز سے پہلے یا نماز کے بعد ؟
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ عید الفطر کی نماز کے لئے کچھ کھا کے تشریف لے جاتے تھے اور عید الاضحٰی کے دن نماز پڑھنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے ۔ (جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے یہ بھی مروی ہے کہ عید الفطر کے دن نماز کو تشریف لے جانے سے پہلے آپ چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور طاق عدد میں تناول فرماتے تھے عید الاضحٰی کے دن نماز کے بعد کھانے کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ اس دن سب سے پہلے قربانی ہی کا گوشت منہ میں جائے جو ایک طرح سے اللہ تعالی کی ضیافت ہے اور عید الفطر میں علی الصبح نماز سے پہلے ہی کچھ کھا لینا غالباً اس لئے ہوتا تھا کہ جس اللہ کے حکم سے رمضان کے پورے مہینہ دن میں کھانا پینا بالکل بند رہا آج جب اس کی طرف سے دن میں کھانے پینے کا اذن ملا اور اسی میں اس کی رضا اور خوشنودی معلوم ہوئی تو طالب و محتاج بندہ کی طرح صبح ہی اس کی ان نعمتوں سے لذت اندوز ہونے لگے. بندگی کا مقام یہی ہے ۔
عید گاہ کی آمد ورفت میں راستہ کی تبدیلی :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن راستہ بدل دیتے تھے ۔ (صحیح بخاری)
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کے لئے جس راستہ سے عید گاہ تشریف لے جاتے تھے واپسی میں اس کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے تشریف لاتے تھے ۔ علماء نے اس کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس لئے کرتے تھے کہ اس طرح شعائر اسلام اور مسلمانوں کی اجتماعیت و شوکت کا زیادہ سے زیادہ اظہار و اعلان ہو نیز عید میں جشن اور تفریح کا جو پہلو ہے اس کے لئے بھی یہی زیادہ مناسب ہے کہ مختلف راستوں اور بستی کے مختلف حصوں سے گزرا جائے ۔
کھلے ہیں پھول گلشن میں مسرت کی گھٹا چھائی
پیام عید لے کر آج پھر باد صبا آئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے