کیمیا گر

کیمیا گر

تنویراحمد تماپوری

قطر ایرویز کی فرسٹ کلاس کا پرشکوہ کیبن اس وقت کم وبیش بھرا ہوا تھا۔باہرچاروں طرف روئی کے چھوٹے بڑے گا لوں کی طرح سفید بادلوں کے ٹکڑے تیرتے پھررہے تھے جیسے جہاز کی سیکیوریٹی کی ڈیوٹی پر تعینات ہوں۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا کھڑکی سے باہر پھیلے قدرت کے حسین مناظرسے لطف اندوز ہورہا تھا۔لطیف تو اندر کے مناظر بھی کم نہیں تھے۔ وہاں چاروں طرف پیسےاور پاورکا بڑا بہترین امتزاج بکھرا ہوا تھا۔ ہرطرف پیٹرو ڈالرزکا بڑا خوب صورت مظاہرہ رواں تھا۔ روشنی کا انتظام ، کرسیوں کی ترتیب ،ہرجگہ ہر چیز شو کیس میں سجی کسی گفٹ پاکٹ کی طرح نئی اور چمکتی ہوئی تھی۔ چمکتی ہوئی تو وہاں اسٹاف کی لڑکیاں بھی کم نہیں تھیں۔ پام کے پیڑ سے لمبے قد ،طرح دار سڈول بدن، رنگ گورا، چہرے پر ملین ڈالر مسکراہٹ۔ کاکٹیل کی طرح ان کی عرب نژاد انگریزی ۔ کل ملا کر قطر ایرویز کے فرسٹ کلاس کیبن میں سب کچھ فرسٹ کلاس ہی تھا۔ اور میں اس فرسٹ کلاس کا مسافراپنی کمپنی کے کسی کام سے اس وقت دوحہ کے لئے محو پرواز تھا۔
بہترین کھانا، بہترین مشروب قطر ایرویز کا خاصہ اور میری کم زوری رہا ہے ۔اس پر درجہ اولی کا پر تعیش ایرکنڈیشنڈ کیبن ،غنودگی تو بنتی تھی۔ میری آنکھ پائیلیٹ کے دوحہ پہنچنے کی اناونسمنٹ کے ساتھ ہی کھلی۔ ہدایت کے مطابق میں نے اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لی۔ پھر کھڑکی کے راستے باہر کا نظارہ کرنے لگا ۔ شام کی آمد آمد تھی۔ دور شفق سے لگی ہوئی سمندر کی پٹی پر ڈوبتے سورج کی سنہری مٹکی اپنا سارا سونا انڈیل رہی تھی۔چاروں طرف پھیلے پانیوں کے بیچ سےزمین کا ایک بڑاحصہ دھیرے دھیرے ایسے ابھر رہا تھا جیسے کسی جادوگر کی سامری طاقت کا کوئی شعبدہ چل رہا ہو ۔ شام کے نارنگی اجالے میں وہ ہلکا زعفرانی دھبہ زمانہ قدیم کےکسی دیو ہیکل پرندے کے انڈے سے مشابہ لگ رہا تھا۔ میرا جہاز اب پانی سے خشکی کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا۔ اگلے کچھ منٹ بعد شہر کر آثار نظر آنے لگے. ایک ہیولہ دھیرے دھیرے کچھ اشکال اور آکا ر میں تبدیل ہونے لگا۔ یہ دوحہ شہر کا ہوائی منظر تھا۔ جو ہر گذرتے لمحے کے ساتھ پھیلتا چلا جارہا تھا۔ شہر میں موجود ساری عمارتیں جوآپس میں گڈٖ مڈ ہوکر دور سے ماڈرن آرٹ کا تجریدی نمونہ لگ رہی تھیں اب آہستہ آہستہ چاول سے کنکر کی طرح الگ ہوکر ایک دوسرے کو گھور نے لگیں ۔
ایرپورٹ کی خوب صورتی اند ر اور باہر سے ایک سمان تھی۔ وہاں روشنیوں کے انتظام میں مہارت کے ساتھ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ کس کو کتنا اور کیسےچمکایا جائے۔ اٹالین ماربل کی خوب صورتی روشنیوں کی چکا چوند کے ساتھ مل کر طلسم ہوش ربا کا منظر بنارہی تھی۔ خوش باش چہرے، خوش لباس لوگ، خوش رنگ تتلیوں جیسی خوب صورت آتی جاتی فضائی میزبان، وہاں سب عمر خیام کو دوبارہ جی رہے تھے۔ لان اور لابیوں کی صفائی ستھرائی جگہ جگہ ایستادہ گلدستے اور اوپر جھولتے ہوے جھومر پیٹرو ڈالرز کی جئے جئے کار کررہے تھے۔ باہر نکلا تو آٹھ سیلینڈر کی جیاگواراور ایک با وردی شوفر میرے انتظار میں پہلے سے موجود تھے۔ پیسے اور پاور کےاس منفرد مظاہرے کو آگے لے جانے کا ٹھیکہ اب ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ اڑن کھٹولے جیسی آرام دہ پانچ ستارہ لگژری کارتھی۔ پانچ ستارہ کار سے نکلا تو سیدھا سات ستارہ ہوٹل میں پہنچا۔ سب کچھ مزیدار تھا ۔ وہاں کسی شہزادے کی طرح ملنے والی قدر و منزلت مزیدارتھی ۔ پر تعیش اسباب کی بہتات مزیدار تھی۔ میں اس وقت وہاں شیخ جاسم کا مہمان تھا لہذا شہزادوں والی تام جھام بنتی تھی۔ میں یہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے مندوب کی حیثیت سے شیخ جاسم کی کمپنی سے کچھ تجارتی معاملات کی دیکھ بھال اور کچھ کی تجدید نوکے لئےآیا تھا۔ کل دن بھر کی متوقع مصروفیات اور ان کی نوعیت مجھے آج کچھ دیر کی تفریح طبع کے لئے طرح ضرور دیتی تھیں۔ لہذا میں کچھ دیر سستانے کے بعد تیار ہوکر نیچے لابی میں آیا اور وہاں جگہ جگہ بکھرے پیٹرو ڈالرزکے حسین نظاروں میں کھوگیا۔
سات ستارہ ہوٹل کے عربی قہوے نے اپنے پہلے ہی گھونٹ سے کمال شروع کردیا تھا۔ اس نے تن من میں گھلی ساری تھکاوٹ کی کسل مندی کو کسی فٹ بال کے ریفری کی طرح ریڈ کارڈ دکھا کر باہر نکال دیا ۔ شیراٹون کے شمال مشرقی لانج میں مشروبات کے کاونٹر کے قریب والی میز پرمیں براجمان ہوگیا۔وہاں مغربی اور عربی موسیقی کا کوئی بہترین فیوژن میری دل جوئی میں مشغول تھا۔ آس پاس کے ماحول کا معائنہ کرتے ہوئے میں زعفران ملے لذیذ ترین قہوے کی چسکیاں لینے لگا۔ یہاں بیٹھے بیٹھے صدر دروازے سے لے کر استقبال تک، ہر چیز پر صاف نظر رکھی جاسکتی تھی۔
چیز تو وہ بھی نظر رکھنے لایق ہی تھی۔دروازے سے استقبال تک کا راستہ اس لڑکی نے ریمپ پرکیٹ واک کے انداز میں پورا کیا۔ ملائی میں سیندورملا رنگ ۔ آنکھیں پیشہ ور قاتلوں کی جوڑی۔ سائز زیرو کے ساتھ لچک کا گٹھ جوڑ ، چہرے پر ذہانت کی چمک ۔سلیقہ اور رکھ رکھاو میں مہارت کا دخل، کل ملا کروہ شامی نژادعرب لڑکی اس وقت چاروں طرف سے اٹھنے والی نگاہوں کا ایپی سینٹرتھی۔ آج سے کچھ سال پہلے تک یہاں کسی عوامی مقام پر اس طرح کسی حسین لڑکی کا بے پردہ گھومنا ناممکنات میں سے تھا۔لیکن اب زمین کے اس خطے پر حالات بدل رہے تھے۔ لہذا نظریات بھی بدل رہےتھے اور نظارے بھی۔ سامنے کا وہ خوب صورت نظارہ استقبالیہ کلرک سے کچھ معلومات اکٹھی کرنے کے بعد اپنی اونچی ہل کی ٹھک ٹھک کے دوش پر کیٹ واک کے سلسلےکومیری طرف اچھالنے لگا ۔ اس کی اکسٹھ باسٹھ والی چال میں تخیل کی جگالیوں کے لئے بہت کچھ تھا۔ مجھے قہوے میں ملے زعفران کی مقدار اچانک زیادہ لگنے لگی۔
"مسٹرخرم۔۔؟” یا حیرت وہ مجھ ہی سے مخاطب تھی۔ دھیما لہجہ، شستہ انگریزی،نرم و نازک زبان جیسےریشم کا تھان ۔
” یس۔” جواب میں متانت میری زبان سے پھسل کر مغربی موسیقی کے ساتھ مل گئی اور پوری لابی میں پھیل گئی۔ اس نے مصافحے کے لئے اپنا چھوٹا سا سبک ہاتھ میری طرف بڑھایا اور مجھے لگا نایاب نسل کا کوئی خوب صورت سا سفیدخرگوش پھدک کر میری مٹھی میں آ گیا پھرچھٹکارےکے لئے کسمسانے لگا۔
"ہیلو کیسے ہیں آپ۔۔؟”وہ ریشم کے تھان۔۔۔۔۔میں کیمبرج کے موتی ٹانکنے لگی۔
"آپ کا تعرف۔۔؟” ویسے حسین لوگ یونیورسل سٹیزن ہوتے ہیں ۔وہ تعرف کےنہیں تعریف کےمستحق ہوتے ہیں۔ سو اس وقت میری نظروں میں اس کے لئے تعریف ہی تعریف تھی اور سامنے صوفے پر بیٹھنے کی درخواست بھی۔
"میں ایمان سالم ہوں ۔۔؟” مجھے یقین تھا اسے دیکھ کر ۔۔۔۔وہاں اب کسی کا بھی ایمان سالم نہیں بچا تھا۔
"میں آپ کی معاون اور مترجم کی حیثیت سے آئی ہوں ۔ مجھے شیخ جاسم کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔۔۔”
یہ لڑکی اپنے ساتھ حیرتوں کے پہاڑ بھی لائی تھی۔ عموماً اس قبیل کی خوب صورت لڑکیوں کے دماغ میں کوہ قاف کے شہزادے کا پیاریا اندر لوک کے راج کمار کا انتظار ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو مختلف زبانیں بھری تھیں ، بغداد سوریا کی فکر دھری تھی۔ اور تو اور وہاں ٹرمپ اور اوبامہ کا موازنہ بھی تھا۔ بعد کی گفتگو نے پیا ز کے چھلکوں کی طرح پرت در پرت مجھ پراور بھی بہت سارے انکشافات کئے۔ وہ حسین لڑکی گچی ،لوریال یا ڈینم کے ساتھ ساتھ ابن سینا، ناسا اور بالی ووڈ پر بھی اتھارٹی تھی۔ ہم نے کافی دیر بات چیت کی۔ لمبی بات چیت کی ایک وجہ اگلے دن کی مصروفیات والی بلو پرنٹ کی تیاری تھی تو دوسری وجہ اس کے بو ٹیکس شدہ ہونٹ بھی تھے کیوں کہ جب بھی وہ مسکرانے کے لئے ایک خاص انداز میں انہیں سکیڑتی تو ذہن کی وال پر مونا لیزا کا حسین پورٹریٹ ڈاون لوڈ ہوجاتا۔اس بات چیت میں دوسرے دن کی ساری مصروفیات کے لئے ایک لایحہ عمل کی تیاری کے ساتھ ساتھ رات کا کھانا بھی شامل تھا۔ کھانے کے بعد ہم دونوں اپنے اپنے راستے ہولئے۔میں اپنے اسٹوڈیو سویٹ میں واپس آیا کچھ دیر اپنے کاغذات کا جایزہ لینے کے بعد شعبہ استقبال پر صبح آٹھ بجے جگانے کی ہدایت دی اور سوگیا ۔ لیکن اس سے پہلے اپنے سارے گھوڑے بیچنا ۔۔۔ نہیں بھولا تھا۔
صبح آٹھ بجے روم سروس کی گھنٹی نے میرے لئے گھڑی کا کام کیا۔ مجھے ان لوگوں کی پیشہ ورانہ مہارت دیکھ کر کافی مسرت ہوئی ۔ تیارہوکر نیچے لابی میں پہنچا تو ایمان کی شکل میں مسرت کا ڈبل ڈوزمیرا منتظر تھا۔ وہ اس وقت صبح کی شبنم جیسی دھلی دھلی اورسردیوں کی دھوپ جیسی کھلی کھلی لگ رہی تھی ۔ اس کے ساتھ جیگوار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر شہر گھومتے ہوئےاپنے آپ کو سنبھالے رکھنا ایک بڑی آزمائش ثابت ہورہی تھی۔ میری کمپنی کا مقامی آفس شہر کے قلب میں واقع ایک کاروباری مرکزمیں تھا۔ میں اس ملک اور علاقے کے لئے اجنبی تھا سو یہاں کی عمارتیں ،یہاں کا حسن ، یہاں کا سب کچھ میرے لئےنیا اور پرکشش تھا۔ لہذا میرا متعجب ہونا تعجب کی بات نہیں تھی۔ بڑی بڑی کشادہ سڑکوں کا جال تار عنکبوت کی طرح ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ وہ صاف ستھری اتنی تھیں کہ ان پر مکھن ڈال کرگھی نکال لیا جائے۔ جہاں آدھی صدی پہلے تک ریت کے ٹیلوں سے محض دھول اڑ رہی تھی ہوگی آج وہیں عمارتوں کی پوری فوج کھڑی تھی۔ کچھ سال پہلے تک اس صحرا میں اونٹوں کی دوڑ ہی سب سے بڑا کھیل اورتفریح تھی۔ اب یہاں فارمولہ ون کی ریس اور فٹ بال کے عالمی مقابلے ہونے کو تھے۔ جہاں ماضی میں انسان کو اپنی سواری کے لئے اونٹ اور خچر بڑی مشکل سے میسر آتے تھے آج انہیں اونٹ اورخچر وں کی نقل و حمل کے لئے مرسیڈیز گھروں کی دہلیز سے بندھے کھڑے تھے۔
شام ساڑھے سات بجے میں جاسم ٹاور کی بائیسویں منزل پر واقع اس کے پرشکوہ آفس میں اسی کا انتظار کررہا تھا۔ وہا ں کی چمک دمک وہاں کا رکھ رکھاو کسی بادشاہ کے محل سے کم نہیں تھا۔ سارے فلور کی ساری چیزوں پر یا تو سونے کا پانی چڑھا تھا یا چاندی کا۔اور تو اور وہاں اسٹاف کی لڑکیاں بھی دو رنگی تھیں ۔ چاندی جیسا رنگ تھا ان کاسونے جیسے بال ۔یہاں ہر چیز سے بے انتہا امارت اور حسن ٹپکتا تھا۔ اس معاملے میں شیخ جاسم بھی روایتی عرب ہی نکلا۔میں اس کے پرشکوہ آفس کا جائزہ لینے لگا۔ آفس کیا تھا ، ایک فن آرٹ کی بہترین نمائش گاہ تھی۔ وہ فور ۔۔۔جی کےنئےتاج محل جیسا تھا ۔ وہاں اٹالین ماربل ، ہاتھی دانت اور کرسٹل کابے دریغ لیکن ہنر مندی سے استعمال کیا گیا تھا۔ میرے سامنے والی دیوار کانچ کی ہوتے ہوئے بھی بلیٹ پروف تھی۔ اس کے اس پار سارا شہر روشنیوں میں جھلملارہا تھا۔ اونچائی سے شہر کے یہ چمکتے مناظر دل کو دیوالی کی طرح لگ رہے تھے۔نیچے چاروں طرف کنکریٹ کا ایک گھنا اور نہ ختم ہونے والا جنگل پھیلا ہواتھا۔ وہاں سجے ہوئے خوب صورت چھوٹے بڑے ٹاورز شطرنج کی بساط پر سجے مہروں جیسے لگ رہے تھے۔ سفید ، کالے،کرسٹل۔ ایک بیچ ٹاور تھا ، ایک پام بیچ ٹاور تھا ایک پام بیچ ٹو ٹاور تھا ۔ وہاں ٹاورز کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا ۔ ان میں سے کچھ کی چھت پر ہیلی پیاڈ بھی تھے۔ ایک پیاڈ جاسم ٹاورکی چھت پر بھی تھا۔ اوراس وقت وہاں کافی بھیڑ شیخ جاسم کےاستقبال میں جمع تھی ۔جو دوسو میل دور صحرا میں بنائی گئی اپنی عارضی جنت اور اٹھارہویں دلہن کو چھوڑ کر ہیلی کاپٹر سے نکل چکا تھا۔ آدھی صدی پہلے تک اونٹ نامی ریگستانی جہازپر سفر کرنے والے ان خانہ بدوشوں میں سے کچھ کے پاس آج خود کا اپنا ہوائی جہازتھا۔ کئی صدیوں تک کپڑےکے خیموں میں سردی گرمی جھیلنے والے یہ بدو اب بلڈنگ بلڈنگ کھیل رہے تھے۔ میں اور ایمان مبہوت سے کھڑے شہر کی ان رنگینیوں کو نظروں ہی نظروں میں سراہ رہے تھے۔ حال آں کہ اس وقت چاندنی رات تھی مگر مصنوعی روشنیوں کی ملی جلی سرکار نے وہاں پورے چاند کی چاندنی کو کم زور حزب اختلاف کی مانند پچھلی بینچوں کا اسیر بنا ڈالا تھا۔اچانک شیخ جاسم کی آمد کا غلغلہ بلند ہوا اور ہر لمحے بڑھنے لگا ۔
"کافی ترقی ہوئی اس ریگستان میں نہیں ؟ یہ ساری چہل پہل یہ چمک دمک سب پیٹرو ڈالر ز کی کیمسٹری ہے ۔۔۔۔۔ ہے نا؟” میرے سوال میں موجود ہلکے سے طنز کو شاید ایمان نے محسوس کرلیا تھا۔
"نہیں یہ شان و شوکت ،یہ فراوانی ،یہ کیمسٹری پیٹروڈالرز کی ۔۔۔ نہیں ہے "
” پھر۔۔۔۔۔ "میری سوالیہ نظریں اسی پر مرکوز تھیں۔ ہر لمحہ شیخ جاسم کی آمد کاغلغلہ بڑھ رہا تھا۔
” یہ کیمسٹری ۔۔۔۔۔۔۔اصل میں غریب اور مجبور غیر ملکی مزدوروں کے خون پسینے کی ہے”
ایسے فلسفیانہ اور انقلابی خیالات ایک صراحی دار گردن پر ٹکی چھے بائی چھے کی خوب صورت کھوپڑی بھی پیدا کرسکتی ہے۔ یہ میرے لئے بالکل نئی اطلاع تھی اوراب تک کا سب سے بڑا جھٹکا ۔ پے در پے لگنے والے یہ جھٹکے ۔۔۔کہیں میرا جھٹکا ہی نہ کردیں۔ میں سوچنے لگا۔ اسی بیچ شیخ جاسم کا غلغلہ پورےکرروفر کے ساتھ آفس کے دروازے تک پہنچ گیا۔ سارے لوگ اسی سمت متوجہ ہوگئے پھر ہم دونوں بھی اسی غلغلے کا حصہ ہوگئے۔
۔۔۔۔۔
(مطبوعه؛ ماہنامہ ایوان اردو اپریل 2019 انشا کلکتہ اپریل 2020)

تنویر احمد تما پوری کا یہ افسانہ بھی ضرور پڑھیں : بٹوارہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے