پیام صبا کا معنیاتی جہان

پیام صبا کا معنیاتی جہان

طیب فرقانی

یہ دوپہر کا وقت کا تھا جب پیام صبا موصول ہوا۔ علاقے میں سیلاب کی تباہی نے ہوا اور صبا دونوں کی آمد کو متاثر کیا تھا۔ پیام صبا کامران غنی صبا کا شعری مجموعہ ہے (نام تو سنا ہی ہوگا)۔ میں یہاں کامران غنی سے اپنے تعلق کا اظہار نہیں کروں گا۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ وہ میرے بے حد عزیز دوست ہیں۔ اور ہم دونوں نے ایک ساتھ بہت سا را وقت گزارا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوں نہ ہوں خوشیوں میں ضرور شامل رہے۔ میں ان کے اہل خانہ اور حسب و نسب پر بھی روشنی نہیں ڈالوں گا۔ میں یہ بھی نہیں لکھنا چاہتا کہ وہ نانیہال اور دادیہال دونوں طرف سے اعلا، باظرف، مذہبی اور تعلیم یافتہ خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ میں یہاں پیام صبا پر اپنے تاثرات پیش کرنا چاہتاہوں۔ آپ اسے تاثراتی تنقید کہہ کر پڑھیں یہ آپ کی صواب دید پر منحصر ہے۔
پیام صبا میں سب سے پہلے انتساب متاثر کرتا ہے۔اللہ کے نام منسوب کرنے کا چلن عام نہیں ہے۔ ہم اکثر والدین، کسی دوست یا کسی مخصوص ہستی کی طرف اپنی تخلیقات و تصنیفات کو منسوب کرتے ہیں لیکن کامران کو پہلے اللہ یاد آتا ہے۔ وہ اپنے مجموعے کے مطالعے سے قبل ہمیں بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے۔ اور شاید یہ کہنا چاہتا ہے کہ دیکھو بھائی مجموعے کا مطالعہ اللہ کو حاضر ناظر رکھ کر کرنا۔ کیوں کہ اللہ کی توفیق کے بغیر نہ تخلیق آب دار ہوتی ہے اور نہ مطالعہ۔ پیام صبا مختصر مجموعہ کلام ہے اور کامران کا اولین مجموعہ کلام ہے۔ اس کی ابتدا میں دس مضامین شامل ہیں۔ یہ سارے مضامین کامران کی ایک نظم ”مجھے آزاد ہونا ہے“ کے تجزیے اور تنقید پر مبنی ہیں۔ یہ مضامین شامل کتاب نہ ہوں تو مجموعے کا حجم آدھا رہ جائے گا۔ مضامین کی ترتیب منطقی ہے۔ یہ سوال کہ صرف ایک ہی نظم پر اتنے مضامین کیوں لکھے گئے؟ کامران کی دوسری نظمیں قابل توجہ کیوں نہ ہوئیں۔ پوچھا جانا چاہئے۔ میں نے خود سے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن میں کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ شاید دوسری نظموں تک اہل علم کی رسائی نہ ہوئی۔ یا یہ کہ اس نظم کے مرکزی خیال، پیش کش اور ڈکشن میں ایسی بات ہے کہ وہ جلدی اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ زیادہ تر لکھنے والوں نے نظم میں موت کے عناصر یا موت کو یاد کرنے اور زندگی اور موت کے حوالے سے بات کی ہے۔ موت کو یاد کرنا اور موت کی آرزو کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ موت کو یاد کرنا،اس کی حقیت پر غور کرنا اچھی بات ہے لیکن موت کی آرزو کرنا؟
شاعر کہتا ہے:
مراجی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ
کسی گمنام بستی میں چلاجاؤں
یہ گمنام بستی کون سی ہے؟ کیا موت کے بعد جہاں ہم بستے ہیں اسے گمنام بستی کہا جاسکتا ہے؟ اگر یہ اسی بستی کو کہا جاتا ہے تو یہ موت کی آرزو ہے۔ موت کی یاد نہیں۔ اور اس بستی میں ہم سبھی کو جانا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ لیکن شاعر اس بستی میں بھی کسی کی شرکت نہیں چاہتا۔ یہ بستی اگر قبرستان ہے تو دوسروں کی شرکت یقینی ہے۔ قبر کو بستی کہا نہیں جاسکتا۔ قبر کو بستی سے تشبیہہ دینا غیر متعلق ہے۔ شاعر ایک ایسی بستی میں بسنے کی آرزو کرتا ہے جس کی خصوصیت گمنامی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وہاں اس کے کسی جاننے پہچاننے والے کے پہنچنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ شاعر صرف جاننے پہچاننے والے سے بھاگنا چاہتا ہے یا سبھی سے؟ پھر وہ اسی بستی کو گوشہ عزلت بھی کہتا ہے۔ اور پاتا ل بھی۔ پاتال میں کون سی بستی ہے؟ بستی میں گوشہ عزلت کیسے ممکن ہے؟ ان سب سوالوں پہ میں غور کرتا ہوں تو الجھ جاتا ہوں۔ اور میں مجبور ہوجاتا ہوں کہ کہوں کہ شاعر موت کی آرزو نہیں کررہا ہے بلکہ وہ موت کو یاد کر رہا ہے۔ وہ جب جب زندگی کو سمجھنا چاہتا ہے موت اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ وہ دنیا کی عزت و شہرت کی طرف لپکتا ہے تو موت اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔ وہ مال و دولت کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو اسے موت کی یاد آتی ہے۔ یہی حال زندگی کے سارے شعبوں کا ہے۔ وہ زندگی کے ہر اس شعبے کا جائزہ لیتا ہے جو انسان کو عزت و شہرت کی بلندی پر لے جاتے ہیں، جس میں نام و نمود کی آمیزش ہوتی ہے۔ شہرت، چرچا، نا م و نشان، غلغلہ، سورج کا دیا یہ الفاظ اس نظم کے خاص الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ مجھ سے کہتے ہیں کہ تمہارا دوست کامران موت کی آرزو نہیں کر رہا ہے وہ خلوص کی آرزو کررہا ہے۔ خلوص ایک گمنام بستی ہے۔ اس بستی تک کسی کی رسائی ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہاتھ کو دسرے کی خبر نہیں۔ یہ بستی کہاں ہے کوئی نہیں جانتا۔ شاید پاتا ل میں ہو۔حتی کہ شاعر کو خود نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے۔ لیکن جہاں بھی ہے شاعر کی تمنا بھی یہی ہے۔ اور اس بستی تک پہنچنے سے اسے زندگی کے وہ تمام شعبے روکتے ہیں جن سے وہ متعلق ہے۔ وہ انھیں شعبوں کا ذکر تا ہے جن سے وہ براہ راست یا بالواسطہ متعلق ہے۔ اخبار، جلسہ، محفل، تحقیق، سیاست، صحافت، ادب، صوت و رنگ و چنگ اور دولت وہ خاص شعبے ہیں جن سے شاعر متعلق ہے۔ انھیں شعبوں کا وہ خاص طور سے کیوں ذکر کرتا ہے؟ زندگی کے اور بھی دوسرے شعبے ہیں جہاں شاعر کا لاشعور جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ شاعر کے لا شعور میں ان شعبوں کا ذکر اس لئے ہے کہ ان میں اکثر و بیشتر نام و نمود کی آمیزش ہوتی ہے اور شاعر کو نام و نمود سے آلودہ شعبے میں زندگی کو آگے بڑھانا کار عبث معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ان شعبوں سے چھٹکارا اتنا آسان ہے کیا؟ ان شعبوں نے اسے جکڑ رکھا ہے۔ قیدی بنا رکھا ہے؟ وہ ان شعبوں سے زیادہ ان کی نمائش سے ان کی رعنائی سے اور ان کی بے مقصد خواہش سے آزادی چاہتا ہے۔
مجھے آزاد ہونا ہے
زمانے بھر کی ہر خواہش سے
ہررعنائی سے،جھوٹی نمائش سے
مجھے آزاد ہونا ہے

یہ نظم ایک سوچتے ذہن اور پرخلوص دل کا استعارہ ہے۔
پیام صبا میں ایک حمد، چار نعتیں اور ایک منقبت شامل ہے۔ حمد آزاد نظم کی ہیئت میں اپنے گناہوں کی معافی اور خدا کی رحمتوں سے امید پر مبنی ہے۔
نعتوں میں ایک خواہش بار بار سر اٹھاتی ہے۔ شاعر مدینے سے دور ہجر کے کرب میں مبتلا ہے اور در مصطفی پر حاضری کے لئے تڑپ رہا ہے۔ وہ بار بار خود کو مدینے بلائے جانے کی آرزو کرتا ہے۔ یہ آرزو اتنی شدید ہے کہ کم سے کم خواب میں درمصطفی تو ضرور دیکھنا چاہتا ہے۔
ہجر میں دل پریشان ہے یا خدا
خواب میں روضہء مصطفی چاہئے
میں اٹھاؤں کیسے یہ بار غم ترا ہجر مجھ پہ عذاب ہے
کبھی بخت میرا بھی جاگ اٹھے،کبھی در پہ ہو مری حاضری
اب اور بار ہجر اٹھانا محال ہے
خوابوں میں ہی دکھادے مجھے روئے مصطفی
اب اور کتنا ہجر کا صدمہ اٹھاؤں میں
اک بار اپنے پاس بلالو مرے نبی
یہ چاروں نعتیں غزل کے فارم میں ہیں۔ منقبت امام حسین کی شان میں ہے۔ جس میں شاعر حسنین علیہماالسلام کو روز محشر کا وسیلہ بناتا ہے۔
پیام صبا میں غزلیں زیادہ ہیں اور نظمیں کم۔ مگر غزلوں کو بعد میں رکھا گیا ہے اور نظموں کو پہلے۔ اس ترتیب کی وجہ کامران بھائی تم ہی بتاسکتے ہو۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تمہاری نظمیں تمہاری غزلوں سے زیادہ پراثر ہیں تم بھی شاید ایسا ہی سوچتے ہو۔ میں نے اس سوال پہ غور کیا تو میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا۔ دراصل تم ہر اچھے تخلیق کار کی طرح حساس او ر درد مند انسان ہو۔ تمھارے احساسات تمھارے درون میں ایک ہلچل پیدا کرتے ہیں اور پھر اس ہلچل پر مسلسل غور کرتے ہو۔ کبھی تمھیں کوئی راستہ مل جاتا ہے اور کبھی تم کشمکش کے درمیان جھولتے رہتے ہو۔
”یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں
اور جب بھی سوچتا ہوں
تب مجھے یہ سب فقط کار عبث معلوم ہوتا ہے“
(مجھے آزاد ہونا ہے)

”مجھے بھی اک تجسس تھا
کہ دیکھوں تو!
کہ اس لمحے کے برزخ کے پرے کیا ہے
گزشتہ شب نہ جانے کب
یہی کچھ سوچتے میں نیند کی آغوش میں پہنچا“
(فنا آغوش)

سوچتے سوچتے تم کسی لمحے میں نظم لکھنے بیٹھے جاتے ہو۔ جب کہ غزل کے معاملے میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے شاید۔ بسا اوقات تم ”طرحی مصرعے“ پر غزل لکھنے بیٹھتے ہو۔ اس وقت تمھارے پاس وقت کم ہوتا ہے۔ اس لمحے میں تمھیں غور و فکر کے لئے وقت نہ مل پانے کی وجہ سے شاعر ی ہوجاتی ہے لیکن تمھارا جوہر پوری طرح نہیں کھل پاتا۔ لیکن جب بھی وہ لمحہ آتا ہے کہ غزل تم سے خود لکھواتی ہے تب تم خوب لکھتے ہو۔
میرے دوست وہ لمحہ جب تم گہرائی سے کسی فکر میں ڈوبے تھے تمھاری ایک نظم ”وہ شمع اب خموش ہے“ میں قید ہوگیا ہے۔ اس نظم کے ہر لفظ میں اس لمحے کا کرب قید ہوگیا ہے۔ جو فکری گہرائی اور فنی حسن اس نظم میں ہے شاید دوسری نظم میں نہیں۔ تمھاری یہ نظم مجھے تمھاری شاعری کا حاصل معلوم ہوتی ہے۔ تمھاری نظم ”مراوجود“ اور ”منافق“ بھی ایسے ہی لمحے کو گرفت میں لئے ہوئے ہے جب تم انسانی وجود اور انسانی رویے پر گہرائی سے سوچنے میں منہک تھے۔ ایک اور بات جو تمھاری نظموں میں مجھے نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے کسی واقعے سے متاثر ہوکر کہی گئی نظم۔ کسی واقعے سے متاثر ہوکر نظم کہنے کی روایت قدیم ہے۔ تم جدید زمانے میں مسلمانوں سے متعلق پیش آنے والے واقعات پر اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ ان واقعات کے مختلف پہلوؤں پر سوچنے لگتے ہو، اپنے درون میں کش مکش محسوس کرتے ہو اور پھر نظم کی صورت میں کوئی نئی راہ سجھانے کی کوشش کرتے ہو۔ مگر اے میرے دوست مجھے لگتا ہے کہ تمھیں اپنی تخلیق کی بھٹی میں مزید کوئلے ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کسی واقعے سے متاثر ہوکر کہی گئی نظم وقتی ہوجاتی ہے جب کہ اعلا شاعری عمومیت کا تقاضا کرتی ہے۔ تم اپنی نظموں میں جدید ہیئت کا استعمال زیادہ کرتے ہو۔ لیکن نئے استعارے اور نئے فقرے کی تخلیق کا سفر ادھورا ہے۔
تمھاری غزلیں محبت کا گیت گاتی ہیں۔تم سرِ دار بھی پیار و محبت کے نغمے گانے کے قائل ہو۔ تم بندگی کو عاشقی اور عاشقی کو بندگی کہتے ہو۔ اسی لئے نقش پا پہ جبیں رکھ کر چلتے ہو۔

سنا تھا نقش کف پا پہ چلنا پڑتا ہے
بجز جبیں کے رہ عشق میں نشاں نہ ملا
یہ ایساعشق ہے کہ اس میں خلوص کے سوا اور کچھ نہیں۔ تم بے وجہ عشق کرتے ہو۔ کسی لالچ، ہوس، طمع کی کوئی گنجائش نہیں۔
کیوں مجھ سے محبت کا سبب پوچھتے ہو
بے وجہ بھی ہوتے ہیں کئی کام مری جاں
اس عشق میں تم خالص ہو۔ منافقت سے پاک تمھاراصوفیانہ عشقیہ جذبہ تمھیں تنہائی قبول کرنے اور تعلقات کو یکسر ختم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
منافقت نہیں آتی سو رنجشوں کے بعد
تعلقات کا ہم اختتام کرتے ہیں
محفل رنگ و بو ہو مبارک تمھیں
میرا سارا جہاں میری تنہائیاں

یہی وجہ ہے کہ تمھاری غزلیں ہجر، اشک اور آئینہ کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ مجموعے میں اٹھائیس غزلیں شامل ہیں۔ تقریبا ہر غزل میں تم ہجر اور ہجر کے نتیجے میں اشک بہانے کا ذکر کرتے ہو۔ غم حیات پہ تو تم نے پوری ایک غزل لکھی ہے۔ تم کلاسیکی عاشق ہو میرے دوست۔ تمھاری غزلوں کا حاوی رنگ کلاسیکس سے متاثر ہے۔ کہیں کہیں تم نے جد ت بھی پیدا کی ہے۔ اسی لئے تم شاعرانہ تعلی بھی کرتے ہو۔
یہ شور کیسا ہے آج کی محفل میں کس کی آمد کی دھوم سی ہے
کوئی نہیں وہ صبا ہی ہوگا جدا ہے رنگ اس کی شاعری کا

شاعری سن کے صبا کی سبھی حیران سے ہیں
اس کے فن میں کوئی جادو ہے،نشہ ہے، کیا ہے؟

جدیداسلوب و آہنگ کی سب سے اچھی غزل وہ ہے جو تم نے ”مانند“ کی ردیف میں کہی ہے۔ پوری غزل تشبیہوں اور استعاروں کی نئی دنیا آباد کرتی ہے۔ اس میں تمھارا فن عروج پہ نظر آتا ہے۔ اب کچھ اشعار میری زبان سے سن لو۔
اب اس کی محبت کو صبا بھول ہی جاؤ
فرقت ہی محبت کا انجام مری جاں
درد جس میں نہ ہو اس دل کی حقیقت کیسی
ہجر کا غم ہی نہیں ہو تو محبت کیسی
ہجر کی رات تنہائیوں میں صبا
کون کرتا رہا تجھ سے سر گوشیاں
غم الفت، شب فرقت، نگاہ یاس اور حسرت
صبا تیری رفاقت میں بجز غم کیا ملا مجھ کو
کیا خبر تھی شب فراق کے بعد
زندگی خود سے روٹھ جائے گی
تمھاری یاد کا سورج غروب ہونے تک
نماز ہجر کا ہم اہتمام کرتے ہیں
رستے میں اگر ہجر کا دریا نہیں آتا
ہم ڈوبتے خشکی میں سفینہ نہیں آتا

عشق اگر شدید تر ہو تو ہجر میں اشکوں کا بہنا فطری بھی ہے اور ضروری بھی۔ تم تو رونے میں بھی اس قدر مخلص ہو کہ آنسوؤں کی آہستہ خرامی کو عیب سمجھتے ہو۔رونا تمھارے لئے دعا اور آہیں عبادت ہیں۔
ہم رونے پہ آجائیں تو طوفان اٹھادیں
”شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا“
کسی کی یاد کے جگنو ہماری آنکھوں میں
بشکل اشک مسلسل قیام کرتے ہیں
لکھنا شب فرقت کو آہوں کی عبادت تم
روتی ہوئی آنکھوں کو مصروف دعا لکھنا
ائے کہ نگاہ خندہ زن تیرے غرور کی قسم
ایک عجب سرور ہے دیدۂ اشک بار میں
میں اپنی آنکھوں کو رکھتا ہوں باوضو ہر دم
کہ تیرا ذکر مقدس کتاب کی مانند
قطرۂ اشک کو تسبیح کے دانے سمجھو
دیکھو پلکوں سے ٹپکتی ہے عبادت کیسی
میرے بھائی کامران! مبارک ہو تمھیں کہ اخلاص، کردار اور تصوف کی جو روایت تمھیں ورثے میں ملی ہے وہی تمھاری غزلیہ شاعری میں ڈھل گئی ہے۔ کہیں کہیں تم ملکی حالات، سماجی کرب اور موت کو بھی اپنا موضوع سخن بناتے ہو۔تمھاری شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ سطحیت سے پرے اظہار ذات کا ایک ایسا وسیلہ بن گئی ہے جس میں جام نو میں بادۂ کہنہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ تمھاری شاعری میں کہیں ”پہیلیاں“ بجھانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ تم سچ ہی کہتے ہو کہ تم نے بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ راستہ ابھی دور تک پھیلا ہوا ہے اور منزل ابھی دھندلکے میں ہے۔ چلتے رہو۔۔۔۔۔

طیب فرقانی:

اسسٹنٹ ٹیچر

اتر دیناج پور ، مغربی بنگال، انڈیا

رابطہ: 6294338044, ali1taiyab@gmail.com

طیب فرقانی کی دوسری نگارشات:

نام میں کیا رکھا ہے!
چچا غالب: سی اے اے کے مخالف
سرسید کا سفر لندن 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے